پاکستانی طلبا و طالبات بیرون ملک تعلیم کے لیے اسکالرشپس کیسے حاصل کریں؟
اشاعت کی تاریخ: 25th, May 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 25 مئی 2025ء) پاکستان کے ممتاز ماہر تعلیم اور لاہور کی گورنمنٹ کالج یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر ڈاکٹر محمد اصغر زیدی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ بیرون ملک تعلیم کی خاطر اسکالرشپ حاصل کرنے کے لیے سب سے ضروری کام ریسرچ ہے۔ ان کے بقول اس سلسلے میں ایک سال پہلے ہی کام شروع کر دینا چاہیے، ''کون سے ملک میں، کون سی یونیورسٹی میں، کس کس طرح کے اسکالرشپس دستیاب ہیں؟ ان کے لیے شرائط و ضوابط کیا ہیں۔
اپنا ذاتی بیان بہت سوچ سمجھ کر لکھنا چاہیے، جس سے آپ کی تعلیمی کامیابیاں، غیر نصابی سرگرمیاں اور آپ کی قائدانہ صلاحیتیں بھی ظاہر ہوں، اور یہ بھی کہ آپ کی اپنے معاشرے کے لیے فلاحی خدمات کیا ہیں؟ سب سے بڑھ کر یہ کہ آپ کے یوں تعلیم مکمل کرنے سے آپ کے ملک کو کیا فائدہ ہوگا؟ ان سب کا ذکر ہونا چاہیے۔(جاری ہے)
اس کے علاوہ اچھے ریفرنس لیٹرز بھی فارن اسکالرشپس کے حصول کے لیے ضروری ہوتے ہیں۔
‘‘امریکی اسکالرشپس بند، متاثرہ پاکستانی طلبا کیا سوچتے ہیں؟
شارٹ لسٹنگ اور اصول و ضوابطملکی طلبا و طالبات کی بیرونی ممالک میں حصول تعلیم کے حوالے سے رہنمائی کرنے والے پاکستان کے ایک بڑے نجی ادارے کے کنٹری ہیڈ نفیس اقبال نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اسکالرشپس کےحوالے سے مفصل معلومات مہیا کرنے والی بہت سی ویب سائٹس موجود ہیں۔
نفیس اقبال نے بتایا، ''غیر ملکی تعلیم کے خواہش مند نوجوانوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے پورٹ فولیو کے مطابق اچھی یونیورسٹیوں کو شارٹ لسٹ کریں۔ اسی طرح پی ایچ ڈی کرنے کے خواہش مند طلبہ کو اپنی تحقیق کے لیے متعلقہ شعبے کے بہتر سپروائزر کو تلاش کرنا ہوتا ہے۔ سبھی ادارے طلبہ کے بہتر تعلیمی معیار کے خواہش مند ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ ہر یونیورسٹی کے اپنے اصول و ضوابط ہوتے ہیں، جن پر عمل کرنا لازمی ہوتا ہے۔
‘‘کاروباری اداروں میں تبدیل ہو چکی پاکستانی یونیورسٹیاں
انہوں نے کہا، ''صرف یہی کچھ نہیں۔ متعلقہ ملک میں مہنگائی کی صورتحال کیا ہے، آپ کے پاس اسکالرشپ کی کتنی رقم موجود ہے، آپ قانونی طور پر وہاں کتنے گھنٹے کام کر سکتے ہیں، معاشی مشکلات کی صورت میں آپ کے پاس متبادل انتظامات کیا ہیں؟ بیرون ملک جانے سے پہلے یہ سب کچھ سوچنا بھی انتہائی ضروری ہوتا ہے۔
‘‘اقبال نفیس کے بقول اصل میں غیر ملکی تعلیم کے لیے ضابطے دن بدن مشکل ہو رہے ہیں۔ جو نوجوان اسٹڈی ویزوں کی آڑ میں بیرونی ممالک میں جا کر وہاں غائب ہو جاتے رہے ہیں، یا جو وہاں پناہ لینے کی کوشش کرتے رہے ہیں، ان کی وجہ سے دیگر ممالک میں جانے والے نئے طالب علموں کی نگرانی اب کافی سخت ہو چکی ہے۔
غیر روایتی تعلیمی شعبوں میں وظائفانہوں نے بتایا کہ پہلے پہل لوگ صرف چند ایک روایتی مضامین پڑھنے ہی باہر جایا کرتے تھے، لیکن اب نوجوان جن مضامین کی تعلیم کے لیےپاکستان سے باہر جاتے ہیں، ان میں مصنوعی ذہانت، کمپیوٹر سائنس، ڈیٹا سائنسز اور بزنس اسٹڈیز جیسے شعبے بھی شامل ہوتے ہیں۔
ان کے خیال میں یہ درست نہیں کہ صرف سائنسی مضامین کے طالب علموں کو ہی اسکالرشپس ملتے ہیں، بلکہ لبرل آرٹس اور نیچرل سائنسز سمیت بہت سے دیگر شعبوں میں بھی ایسے وظائف کی پیشکشیں آتی رہتی ہیں۔
پاکستان میں لڑکیوں کی تعلیم، بنیادی رکاوٹیں کیا ہیں؟
انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ اب طلبا و طالبات امریکہ، جرمنی اور برطانیہ کے علاوہ جنوبی کوریا ، کینیڈا، جاپان، آسٹریلیا، ترکی، روس اور فن لینڈ جیسے ممالک کا رخ بھی کر رہے ہیں، ''آج کل ریجنل اسکالرشپس بھی کافی آ رہے ہیں۔
مختلف علاقائی تنظیمیں اور ادارے بھی اپنے اپنے خطوں میں نوجوانوں کو تعلیم کے لیے فنڈز مہیا کر رہے ہیں۔‘‘ بیرون ملک جانے والے پاکستانی طلبہ کی تعداد میں واضح اضافہایک دوسرے نجی ادارے کے لیے کام کرنے والی سحر قاسم نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ پچھلے کچھ سالوں سے حصول تعلیم کے لیے پاکستان سے بیرون ملک جانے والوں کی تعداد میں تیز رفتار اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔
بلوچستان: سکیورٹی خدشات کے باعث تین یونیورسٹیاں بند
پاکستان میں ہائر ایجوکیشن کمیشن کے مرکزی اور صوبائی ادارے بھی ملکی نوجوانوں کے لیے اسکالرشپس کا اہتمام کرتے ہیں۔ پچھلے کچھ عرصے سے طلبہ کی ایک بڑی تعداد اعلیٰ تعلیم کے لیے جرمنی کا رخ بھی کر رہی ہے۔ ایک نوجوان عمار زیدی کے مطابق جرمنی میں تعلیم بہت سستی ہے اور جرمنی کو کچھ شعبوں میں تربیت یافتہ افراد کی ضرورت بھی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ یہ بھی اہم وجوہات ہیں کہ جرمنی کو طلبا و طالبات اپنے لیے ایک اچھی منزل سمجھتے ہیں۔ تعلیمی تبادلے کی جرمن سروس کے اسکالرشپسجرمنی کی تعلیمی تبادلے کی سروس ڈاڈ (DAAD) کے اسلام آباد آفس کی پروگرام افسر قرة العین نقوی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اسکالرشپس کے حصول کے لیے سب سے اہم چیز 'ویژن اسٹیٹمنٹ‘ ہوتی ہے، جس میں متعلقہ طالب علم یا طالبہ کو اپنے مضمون اور اپنے حالات کے بارے میں بتانا ہوتا ہے۔
اس کے علاوہ اگر کوئی طالب علم ابلاغی مہارت رکھتا ہو، تو وہ انٹرویو میں اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کر کے اسکالرشپ کے لیے اپنے امکانات کو بہتر بھی بنا سکتا ہے۔سفری پابندیاں: کیا پاکستانی بچوں پر امریکی تعلیم کے دروازے بند ہونے جا رہے ہیں؟
جرمن ادارہ ڈاڈ ماسٹرز اور ڈاکٹریٹ کے علاوہ مختلف پروگراموں کے تحت پاکستانی طلبہ اور اساتذہ کو جرمنی میں دیگر تعلیمی اسکالرشپس بھی دیتا ہے۔
اس کے علاوہ پبلک پالیسی اور گڈ گورنینس کے پروگرام کے تحت بھی پاکستانی طلبہ کو سات مختلف جرمن یونیورسٹیوں میں بھیجا جاتا ہے۔برطانیہ میں تعلیم حاصل کرنے والی ایک طالبہ عناب شاہد نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ سب سے پہلے تو پاکستانی طلبہ کو یہ بات یاد رکھنا چاہیے کہ بیرون ملک حصول تعلیم کوئی آسان کام نہیں۔ اس کے لیے ہر کسی کو ذہنی طور پر تیار ہو کر آنا چاہیے۔
میزبان معاشرے کی زبان کی اہمیتعناب شاہد کے مطابق اب 100 فیصد اسکالرشپس کا حصول بہت مشکل ہو گیا ہے۔ شرح تبادلہ کے حوالے سے پاکستانی روپے کی قدر میں کمی سے بھی مشکلات بڑھ رہی ہیں۔ کئی ممالک میں یونیورسٹی میں داخلہ ملنے کے بعد ہی وظیفہ ملتا ہے۔ اس کے علاوہ کئی نوجوانوں کو تعلیم کے ساتھ ساتھ ٹیچر اسسٹنٹ یا اسٹوڈنٹ وولنٹیئر کے طور پر بھی کام کرنا پڑتا ہے۔
ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے لاہور میں پنجاب یونیورسٹی کے انسٹیٹیوٹ آف لینگوئجز کے استاد اشوک کمار کھتری نے کہا کہ بیرون ملک جا کر تعلیم حاصل کرنے والے نوجوان اگر متعلقہ ملک کی زبان سے بھی قبل از وقت کچھ نہ کچھ شناسائی حاصل کر لیں، تو اس سے بھی نہ صرف یونیورسٹی میں داخلے اور اسکالرشپ کے حصول میں مدد مل سکتی ہے بلکہ یوں مہمان طلبہ کی میزبان معاشرے میں دوران تعلیم عمومی زندگی بھی بہت آسان ہو جاتی ہے۔
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے پاکستانی طلبہ طلبا و طالبات بیرون ملک جا تعلیم کے لیے کی تعلیم کے اس کے علاوہ ممالک میں انہوں نے ہوتے ہیں کیا ہیں ہوتا ہے رہے ہیں
پڑھیں:
وزیراعظم کا نائلہ کیانی کو کنچن جنگا سر کرنے پر خراجِ تحسین
اسلام آباد(نیوز ڈیسک) وزیراعظم محمد شہباز شریف نے معروف پاکستانی کوہ پیما نائلہ کیانی کو دنیا کی تیسری بلند ترین چوٹی “کنچن جنگا” سر کرنے پر زبردست خراجِ تحسین پیش کیا ہے۔ نائلہ کیانی یہ اعزاز حاصل کرنے والی پہلی پاکستانی خاتون بن گئی ہیں۔
وزیراعظم نے اپنے پیغام میں نائلہ کیانی کی کامیابی پر مبارکباد دیتے ہوئے کہا کہ “پاکستانی کھیلوں کے ہر شعبے میں اپنے ملک کا نام روشن کررہے ہیں۔ نائلہ کیانی کی کامیابی نہ صرف قوم کے لیے باعثِ فخر ہے بلکہ پاکستانی خواتین کے حوصلے اور صلاحیتوں کا بھی مظہر ہے۔”
وزیراعظم کا مزید کہنا تھا کہ کوہ پیمائی جیسے کٹھن اور جان جوکھم والے کھیل میں خواتین کا بین الاقوامی سطح پر ریکارڈ قائم کرنا قومی حوصلہ افزائی کا باعث ہے۔
کنچن جنگا، جو نیپال اور بھارت کی سرحد پر واقع ہے، 8,586 میٹر بلند ہے اور دنیا کی تیسری بلند ترین چوٹی شمار ہوتی ہے۔ نائلہ کیانی کی یہ کامیابی پاکستانی کوہ پیمائی کی تاریخ میں ایک نمایاں سنگ میل ہے۔
Post Views: 3