Daily Mumtaz:
2025-05-27@21:14:52 GMT

امریکا جانے والے سیاحوں کی تعداد میں نمایاں کمی

اشاعت کی تاریخ: 27th, May 2025 GMT

امریکا جانے والے سیاحوں کی تعداد میں نمایاں کمی

اس سال چھٹیوں میں امریکا کا رُخ کرنے والے جاپان، کینیڈا، میکسیکو اور جرمنی کے سیاحوں کی امریکا میں ہوٹل بکنگ میں نمایاں کمی دیکھنے میں آرہی ہے۔

غیر ملکی میڈیا کے مطابق ہالیڈے میکرز نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے لگائے جانے والے ٹیرف کے اعلان کے بعد امریکا آنے کا پروگرام تبدیل کردیا ہے۔

اس حوالے سے آن لائن ہوٹل بکنگ میں واضح کمی دیکھنے میں آرہی ہے، عالمی معاشی حالات کے پیشِ نظر امریکا اور برطانیہ کا سیاح اس وقت سیاحت کے لیے اندرونِ ملک ڈیسٹی نیشنز کا انتخاب کر رہے ہیں۔

اس طرح جاپان، کینیڈا اور میکسیکو کے سیاحوں کے امریکا میں ہوٹل بکنگ میں ڈبل ڈجٹ کا فرق آیا ہے، بالخصوص کینیڈا اور میکسیکو پر 25 فیصد ٹیرف لگنے کے اعلان کے بعد یہاں سے آنے والے مسافروں میں واضح کمی دیکھنے میں آرہی ہے۔

دوسری جانب کینیڈا میں امریکی صدر ٹرمپ کے کینیڈا کو 51ویں اسٹیٹ کے طور پر ضم ہونے والے بیان پر ناراضگی پائی جاتی ہے۔

گزشتہ مہینے حکومت اور ٹور ازم آفس کی جانب سے جاری ہونے والے اعداد و شمار میں بتایا گیا ہے کہ پچھلے سال کے مقابلے میں اس سال مارچ میں 11 اشاریہ 6 فیصد کی کمی غیر ملکیوں کی آمد میں کمی کی صورت میں ہوئی ہے۔

Post Views: 4.

ذریعہ: Daily Mumtaz

پڑھیں:

پاکستان کی فی تارکین وطن ترسیلات خطے کے ہم مرتبہ ممالک کے مقابلے نمایاں طور پر کم

رواں مالی سال میں پاکستان کے لیے 38 ارب ڈالر کی متوقع ترسیلات زر کی آمد کے باوجود، پاکستان کی فی تارکین وطن ترسیلات خطے کے ہم مرتبہ ممالک کے مقابلے میں نمایاں طور پر کم ہے۔

نجی اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق پالیسی ریسرچ اینڈ ایڈوائزری کونسل (پی آر اے سی) کی جانب سے پیر کے روز جاری کی گئی رپورٹ میں بتایا گیا کہ 2013 سے 2023 کے درمیان ترسیلات زر میں سالانہ اوسط 6.1 فیصد کی کمپاؤنڈ شرح سے اضافہ ریکارڈ کیا گیا، مگر فی فرد ترسیلات کا حجم اب بھی دیگر ممالک سے کم ہے۔

2023 میں پاکستان کی فی تارکین وطن ترسیلات زر 2 ہزار 529 ڈالر رہیں، جو کہ فلپائن (16 ہزار 780 ڈالر)، تھائی لینڈ (9 ہزار 709 ڈالر)، میکسیکو (5 ہزار 914 ڈالر)، چین (4 ہزار 626 ڈالر) اور بھارت (3 ہزار 906 ڈالر) کے مقابلے میں خاصی کم ہیں۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ملک کے زرمبادلہ کے ذخائر میں بھی شدید اتار چڑھاؤ دیکھنے میں آیا ہے، جس کی بڑی وجوہات میں عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں عدم استحکام، سیاسی غیر یقینی صورتحال اور ملکی معیشت کے اندرونی ساختی مسائل شامل ہیں۔

مثال کے طور پر، 2016 میں پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر 23 ارب 5 کروڑ ڈالر تھے، جو کم ہو کر 2023 میں 11 ارب 3 کروڑ ڈالر تک آگئے، جو بمشکل تین ہفتوں کی درآمدات کو پورا کرنے کے لیے کافی تھے۔

پی آر اے سی نے اس اتار چڑھاؤ کو ساختی چیلنجز سے منسلک کیا جن میں ٹیکسٹائل سیکٹر پر حد سے زیادہ انحصار، محدود برآمدی تنوع، بڑھتی ہوئی درآمدات، روپے کی قدر میں تیزی سے کمی اور معمولی ترسیلات زر شامل ہیں۔

رپورٹ میں روشن ڈیجیٹل اکاؤنٹس (آر ڈی اے) اور نیا پاکستان سرٹیفکیٹس جیسے حالیہ اقدامات کے اثرات کا بھی جائزہ لیا گیا ہے۔ اگرچہ ان اقدامات نے ترسیلات زر اور غیر ملکی سرمایہ کاری کو جزوی طور پر بڑھایا ہے، مگر ان کے فوائد زیادہ تر رئیل اسٹیٹ جیسے غیر پیداواری شعبوں تک محدود رہے ہیں، جس سے صنعتی یا زرعی پیداوار میں کوئی خاص اضافہ نہیں ہوا۔

پی آر اے سی نے ان چیلنجز سے نمٹنے کے لیے ہدفی اصلاحات تجویز کی ہیں، جن میں نیا پاکستان سرٹیفکیٹس پر پیداوار کو گھریلو مالیاتی پالیسی سے ہم آہنگ کرنا، ترسیلات زر کی منتقلی پر اخراجات میں کمی، آر ڈی اے فنڈز کی خصوصی اقتصادی زونز اور ایگرو پروسیسنگ شعبوں میں ترسیل اور کارپوریٹ فارن کرنسی اکاؤنٹس پر ضابطوں کو آسان بنانا شامل ہیں۔

مزید برآں، رپورٹ میں زرمبادلہ کے ذخائر کے بہتر انتظام کے لیے ایک منظم فلوٹ یا ’پیگ اینڈ ریویلیو‘ نظام کی سفارش کی گئی ہے، جو کرنسی کو حقیقی مؤثر شرح مبادلہ سے منسلک کرتا ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ فکسڈ اور فلوٹنگ ایکسچینج ریٹ نظام کے درمیان بار بار کی تبدیلیوں نے روپے کی قدر کو متاثر کیا، جس کے باعث تجارتی خسارہ بڑھا، درآمدات مہنگی ہوئیں اور اقتصادی استحکام کو دھچکا پہنچا۔

نتیجتاً، رپورٹ اس بات پر زور دیتی ہے کہ پاکستان کو اپنے زرمبادلہ کے ذخائر کے انتظام کے لیے ایک زیادہ مستحکم اور حکمت عملی پر مبنی فریم ورک اپنانا ہوگا، تاکہ کرنسی کے اتار چڑھاؤ سے بچا جاسکے، اقتصادی لچک پیدا کی جاسکے، اور برآمدات کی بنیاد پر پائیدار ترقی حاصل کی جاسکے۔

اگرچہ ترسیلات زر نے خود کو ایک حد تک لچکدار ذریعہ ثابت کیا ہے، تاہم رپورٹ کے مطابق یہ پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر کے لیے واحد بفر کے طور پر کافی نہیں ہیں۔

روشن ڈیجیٹل اکاؤنٹس اور نیا پاکستان سرٹیفکیٹس جیسے اقدامات نے بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کی ترسیلات اور غیر ملکی سرمایہ کاری کو بڑھانے میں مدد ضرور دی ہے، مگر ان کے فوائد زیادہ تر رئیل اسٹیٹ جیسے غیر پیداواری شعبوں تک محدود رہے ہیں، اور صنعتی و زرعی ترقی پر ان کا اثر انتہائی معمولی رہا ہے۔

ڈائیسپورا کیپیٹل یعنی سمندر پار پاکستانیوں کے سرمایے سے بہتر استفادے کے لیے، رپورٹ میں متعدد اقدامات کی سفارش کی گئی ہے، جن میں نیا پاکستان سرٹیفکیٹس پر دی جانے والی پیداوار کو ملکی مالیاتی پالیسی سے ہم آہنگ کیا جائے، ترسیلات زر کی منتقلی کے اخراجات میں کمی کی جائے، آر ڈی اے میں جمع ہونے والے فنڈز کو خصوصی اقتصادی زونز اور ایگرو پروسیسنگ انڈسٹریز جیسے زیادہ مؤثر اور پیداواری شعبوں کی طرف منتقل کیا جائے۔

رپورٹ میں یہ بھی نشاندہی کی گئی ہے کہ پاکستان کی پالیسیوں میں فکسڈ اور فلوٹنگ ایکسچینج ریٹ کے درمیان بار بار کی تبدیلیوں نے حالیہ برسوں میں روپے کی قدر میں کمی کو ہوا دی۔ اس مسلسل گراوٹ کے نتیجے میں تجارتی خسارے میں اضافہ ہوا، درآمدی اشیا کی لاگت میں نمایاں اضافہ دیکھنے میں آیا اور معاشی استحکام بری طرح متاثر ہوا ہے۔

ان چیلنجز سے نمٹنے کے لیے رپورٹ میں زرمبادلہ کے ذخائر کے انتظام کے لیے ایک زیادہ حکمت عملی پر مبنی، مستحکم اور منظم فریم ورک اپنانے کی ضرورت پر زور دیا گیا ہے تاکہ کرنسی کی قدر میں غیر ضروری اتار چڑھاؤ سے بچا جاسکے اور معیشت کو پائیدار بنیادوں پر استوار کیا جاسکے۔

Post Views: 4

متعلقہ مضامین

  • سیاحوں کے لیے خوشخبری
  • پاکستان کی فی تارکین وطن ترسیلات خطے کے ہم مرتبہ ممالک کے مقابلے نمایاں طور پر کم
  • یکم جون کو پولنگ، پی پی 52 میں سیاسی گہما گہمی بڑھنے لگی
  • 67 ہزار رہ جانے والے عازمین حج کو اگلے سال ترجیحا کامیاب قرار دینے کا فیصلہ
  • بھارت اور کینیڈا میں اعلیٰ سطحی رابطہ، تعلقات میں بہتری کی امید
  • دیواریں تعمیر کرنے والے عظمت کے حقدار نہیں ہوتے، چینی میڈیا
  • میر علی احتجاج: مظاہرین کا مطالبات نہ مانے جانے پر اسلام آباد مارچ کا اعلان
  • بند آنکھوں اور اندھیرے میں دیکھنے کی صلاحیت دینے والے لینس تیار
  • (گلگت بلتستان) 7 دن سے لاپتہ 4 سیاحوں کی گاڑی،لاشیں مل گئیں