اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 27 مئی 2025ء) جرمن دارالحکومت برلن اور فن لینڈ کے شہر تُرکُو سے منگل 27 مئی کو موصولہ رپورٹوں کے مطابق غزہ کی جنگ کے پس منظر میں وفاقی چانسلر فریڈرش میرس نے اس فلسطینی ساحلی پٹی میں اسرائیلی دفاعی افواج کی طرف سے وسیع تر زمینی اور فضائی حملوں کے باعث اسرائیل پر جو کڑی تنقید کی، وہ جرمن سربراہ حکومت کی طرف سے آج تک اختیار کیا جانے والا سخت ترین موقف تھا۔

غزہ: اسرائیلی فضائی حملوں میں پیر کے روز کم از کم 52 ہلاکتیں

چانسلر میرس نے کہا کہ اسرئیل غزہ پٹی میں جو وسیع تر فضائی حملے کر رہا ہے، وہ حماس کے خلاف جنگ کی ضرورت کے نام پر اب قابل توجیہہ بھی نہیں اور 'قابل فہم بھی نہیں رہے‘۔

خبر رساں ا دارے روئٹرز نے لکھا ہے کہ چانسلر فریڈرش میرس نے جو کچھ کہا ہے، وہ غزہ کی جنگ سے متعلق اسرائیل کے بارے میں جرمنی کے بدل چکے لہجے کا عکاس ہے۔

(جاری ہے)

فن لینڈ میں پریس کانفرنس میں دیا جانے والا بیان

جرمن چانسلر میرس نے اسرائیلی عسکری اقدامات سے متعلق اپنا یہ تنقیدی بیان فن لینڈ میں ایک پریس کانفرنس میں دیا۔ روئٹرز کے مطابق یہ بیان رائے عامہ کی سطح پر ایک بڑی تبدیلی کا مظہر بھی ہے اور اس بات کا عکاس بھی کہ جرمنی کے اعلیٰ سیاست دان سات اکتوبر 2023ء کے روز حماس کے دہشت گردانہ حملے کے بعد اسرائیل کی طرف سے اپنائی گئی عسکری پالیسی پر تنقید کرنے کے لیے اب کہیں زیادہ آمادہ نظر آتے ہیں۔

حماس کے خلاف جنگ میں غزہ پٹی میں اسرائیلی عسکری اقدامات کے بارے میں ایسا کوئی بیان اب تک صرف جرمن چانسلر فریڈرش میرس نے ہی نہیں دیا۔ ان سے قبل اسرائیل پر ایسی تنقید میرس حکومت کے وزیر خارجہ یوہان واڈے فیہول بھی کر چکے ہیں۔

غزہ میں ’مظالم‘: ملائیشیا کے وزیر خارجہ کی طرف سے ’دوہرے معیارات‘ کی مذمت

ان دونوں رہنماؤں کے علاوہ موجودہ مخلوط وفاقی حکومت میں جونیئر پارٹنر کے طور پر شامل سوشل ڈیموکریٹک پارٹی ایس پی ڈی کی طرف سے بھی یہ مطالبات سامنے آ چکے ہیں کہ جرمنی اسرائیل کو ہتھیاروں کی برآمد بند کر دے، ورنہ اسے جنگی جرئم میں ملوث ہونے کے خطرے کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

اسرائیل کے بارے میں جرمنی کی خصوصی ذمے داری اپنی جگہ برقرار

نیوز ایجنسی روئٹرز نے لکھا ہے کہ ایسا نہیں ہے کہ جرمنی کی اسرائیل کے بارے میں سوچ ماضی سے قطعی مختلف ہو گئی ہے۔ ایسے کسی تاثر کے بالکل برعکس جرمن سیاسی رہنماؤں کے تازہ بیانات ان کے لہجے میں ایک واضح تبدیلی کا پتہ دیتے ہیں۔

تاہم لہجے کی یہ تبدیلی اس وجہ سے بہت اہم ہے کہ جرمنی کی قیادت ایک مستقل پالیسی کے طور پر آج بھی یہی سمجھتی ہے کہ اسرائیل کے بارے میں جرمنی پر خصوصی ذمے داری عائد ہوتی ہے۔

اس ریاستی ذمے داری کے لیے جرمن زبان میں 'اشٹاٹس ریزوں‘ (Staatsraeson) یا 'ریاستی فریضے‘ کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔ اور اس 'فریضے‘ کا تعلق نازی دور میں یہودیوں کے اس قتل عام یا ہولوکاسٹ کی میراث سے ہے، جس میں کئی ملین یہودیوں کو ہولناک طریقے سے قتل کر دیا گیا تھا۔

غزہ کی صورت حال: یورپی یونین کی اسرائیل سے تجارتی تعلقات پر نظرثانی

یورپی یونین کی اسرائیل پالیسی کا از سر نو جائزہ

جرمنی اور امریکہ دنیا بھر میں اسرائیل کے سب سے بڑے حمایتی ممالک میں شمار ہوتے ہیں۔

لیکن جرمن چانسلر فریڈرش میرس نے اب اسرائیل کے بارے میں جو کچھ کہا ہے، وہ ایک ایسے وقت پر کہا گیا ہے، جب یورپی یونین بھی اسرائیل سے متعلق اپنی پالیسی کا از سر نو جائزہ لے رہی ہے۔

یہی نہیں بلکہ برطانیہ، فرانس اور کینیدا تک نے بھی دھمکی دے دی ہے کہ وہ غزہ کی جنگ اور وہاں پائی جانے والی عام شہریوں کی موجودہ بحرانی صورت حال کے باعث 'ٹھوس اقدامات‘ بھی کر سکتے ہیں۔

فرانس فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کے لیے پرعزم، وزیر خارجہ

فریڈرش میرس نے فن لینڈ میں جو کچھ کہا، وہ اس وجہ سے بھی خاص طور پر حیران کن ہے کہ اسی سال فروری میں جرمنی میں جو قومی انتخابات ہوئے، ان میں میرس کی پارٹی کامیاب ہوئی اور میرس نے اپنی انتخابی مہم میں وعدہ کیا تھا کہ وہ جرمن سرزمین پر اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو کی میزبانی کریں گے۔

ان کا یہ بیان اس تناظر میں تھا کہ غزہ کی جنگ کی وجہ سے ہی بین الاقوامی عدالت انصاف (آئی سی سی) نے نیتن یاہو کی گرفتاری کے وارنٹ جاری کر رکھے ہیں اور میرس اسی حقیقت کے باوجود جرمنی میں نیتن یاہو کی میزبانی کرنا چاہتے تھے۔

میرس نے فن لینڈ میں کہا کیا؟

جرمن چانسلر میرس نے فن لینڈ کے شہر تُرکُو میں کہا، ''غزہ پٹی میں اسرائیل کے شدید اور وسیع تر فضائی حملوں کی مجھ پر تو کوئی منطق ظاہر نہیں ہو سکی۔

یہ دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کا مقصد کس طرح پورا کرتے ہیں۔ اس حوالے سے، میں انہیں بہت زیادہ تنقیدی نظروں سے دیکھتا ہوں۔‘‘

ساتھ ہی چانسلر میرس نے مزید کہا، ''میں ان لوگوں میں سے ایک بھی نہیں ہوں، جنہوں نے یہ بات پہلی مرتبہ کی۔ لیکن مجھے ایسا لگا اور اب بھی ایسا لگتا ہے کہ اب وقت آ گیا ہے کہ میں عوامی سطح پر بھی لازمی طور پر کہوں کہ اس وقت جو کچھ (غزہ میں) ہو رہا ہے، وہ قابل فہم نہیں رہا۔

‘‘

غزہ کے بچوں کے سامنے ہر طرف سے فقط موت، یونیسیف

یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ چانسلر میرس کے دفتر میں اسرائیل کے ذیکیم ساحل کی ایک تصویر بھی لٹکی ہوئی ہے، جہاں سات اکتوبر 2023ء کے دہشت گردانہ حملے کے لیے حماس کے عسکریت پسند کشتیوں کے ذریعے پہنچے تھے اور پھر وہاں سے اسرائیل میں داخل ہو کر انہوں نے تقریباﹰ 1,200 افراد کو قتل کیا تھا۔

جرمنی میں اسرائیلی سفیر کا ردعمل

جرمن چانسلر کے آج کے بیانات کے بعد جرمنی میں تعینات اسرائیلی سفیر رون پروسور نے کوئی تبصرہ کیے بغیر کہا کہ وہ جرمنی کے خدشات اور تشویش کو تسلیم کرتے ہیں۔

رون پروسور نے جرمن نشریاتی ادارے زیڈ ڈی ایف کے ساتھ بات کرتے ہوئے کہا، ''جب فریڈرش میرس اسرائیل پر اس طرح کی تنقیدی آوز بلند کرتے ہیں، تو ہم بڑی توجہ سے سنتے ہیں کیونکہ وہ ہمارے دوست ہیں۔

‘‘

ٹرمپ کے خلیجی ممالک کے دورے کے موقع پر غزہ میں اسرائیلی بمباری میں اضافہ

دیگر خبر رساں اداروں کے مطابق فریڈرش میرس نے جو کچھ کہا ہے، اس کی وجہ جرمنی میں اسرائیلی اقدامات کی وسیع تر عوامی مخالفت بھی ہے اور اس وجہ سے سیاسی دباؤ بھی۔

جرمن اخبار 'ٹاگیس اشپیگل‘ کی طرف سے اسی ہفتے کرائے گئے ایک عوامی جائزے کے مطابق 51 فیصد جرمن رائے دہندگان نے اسرائیل کو جرمن ہتھیاروں کی برآمد کی مخالفت کی۔

ادارت: افسر اعوان، کشور مصطفیٰ

.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے چانسلر فریڈرش میرس نے اسرائیل کے بارے میں چانسلر میرس نے میں اسرائیلی میں اسرائیل جرمن چانسلر فن لینڈ میں غزہ کی جنگ جو کچھ کہا کی طرف سے کہ جرمنی کے مطابق پٹی میں حماس کے کے لیے

پڑھیں:

مولانا خانزیب کا قتل پورے ملک کے لیے ناقابلِ تلافی سانحہ ہے، علامہ جہانزیب جعفری

ایم ڈبلیو ایم رہنماء کا کہنا تھا کہ شہید نے ہر اس مقام پر اپنی موجودگی سے امن کی شمع روشن کرنے کی سعی کی، جہاں خون و آتش کا بازار گرم تھا ان کی کوششیں ہمیشہ صلح، بھائی چارے اور باہمی احترام کے گرد گھومتی رہیں۔ اسلام ٹائمز۔ مجلس وحدت مسلمین پاکستان خیبر پختونخوا کے صوبائی صدر علامہ جہانزیب علی جعفری نے اے این پی کے مرکزی رہنماء مولانا خانزیب کی المناک شہادت پر گہرے رنج و غم کا اظہار کرتے ہوئے اسے نہ صرف صوبے بلکہ پورے ملک کے لیے ایک بہت بڑا نقصان قرار دیا ہے۔ علامہ جہانزیب جعفری کا کہنا تھا کہ مولانا خان زیب اس سرزمین کے امن کے حقیقی سفیر تھے۔ انہوں نے ہر اس مقام پر اپنی موجودگی سے امن کی شمع روشن کرنے کی سعی کی، جہاں خون و آتش کا بازار گرم تھا ان کی کوششیں ہمیشہ صلح، بھائی چارے اور باہمی احترام کے گرد گھومتی رہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ خان زیب کی شہادت نے ہمارے دلوں کو غم سے بوجھل کر دیا ہے، یہ سانحہ خیبرپختونخواہ سمیت پورے پاکستان کے لیے ایک گہرا صدمہ ہے جس کے اثرات مدتوں محسوس کیے جائیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ مجلس وحدت مسلمین اس بزدلانہ اور سفاکانہ قتل کی شدید ترین الفاظ میں مذمت کرتی ہے اور مطالبہ کرتی ہے کہ قاتلوں کو فوری گرفتار کر کے انہیں قانون کے مطابق سخت ترین سزا دی جائے تاکہ انصاف کے تقاضے پورے ہوں اور معاشرے میں امن قائم ہو سکے۔ انہوں نے مولانا خانزیب کے اہلخانہ سے دلی تعزیت اور صبر جمیل کی دعا کرتے ہوئے کہا کہ ہم اس دکھ کی گھڑی میں لواحقین کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں۔ انہوں نے اے این پی کی قیادت، بالخصوص ایمل ولی خان اور افتخار حسین شاہ سے بھی تعزیت کرتے ہوئے مرحوم کی مغفرت اور بلندی درجات کے لیے دعا کی۔ آخر میں علامہ جہانزیب جعفری نے کہا کہ خداوند متعال سے دعا ہے کہ وہ مولانا خان زیب کو اپنے جوارِ رحمت میں جگہ عطا فرمائے اور ان کے اہل خانہ کو صبر و استقامت کی توفیق دے۔

متعلقہ مضامین

  • جرمنی کا امریکا سے 15 ایف 35 لڑاکا طیارے خریدنے کا فیصلہ
  • مولانا خانزیب کا قتل پورے ملک کے لیے ناقابلِ تلافی سانحہ ہے، علامہ جہانزیب جعفری
  • اعلیٰ ججوں کی تقرریوں کا معاملہ جرمن مخلوط حکومت میں تنازعہ
  • جرمنی اور آسٹریا کا اسرائیل سے غزہ میں انسانی امداد بڑھانے کا مطالبہ
  • مفت تعلیم،پاکستانی طلبہ کے لیے سنہری موقع
  • غزہ پٹی میں تازہ اسرائیلی حملوں میں مزید 23 فلسطینی ہلاک
  • صدرِ مملکت کی تبدیلی یا انکی صحت سے متعلق صرف افواہیں ہیں، یوسف رضا گیلانی
  • یمنی حملے کے بعد اسرائیل جانے والا بحری جہاز ڈوب گیا
  • جرمنی کی ٹاپ یونیورسٹیز، جہاں کسی طالبعلم کیلئے کوئی فیس نہیں
  • حوثیو ں جنگجووں کا ا بحیرہ احمر میں اسرائیل جانیوالے جہاز پر حملے کی ذمہ داری قبول کرنے کااعلان