علامہ سید نیاز حسین بخاری، ایک عہد ساز شخصیت
اشاعت کی تاریخ: 1st, June 2025 GMT
اسلام ٹائمز: علامہ بخاری کی شخصیت میں ایسی سادگی ہے، جو دل کو چھو لیتی ہے، ایسا خلوص ہے، جو اعتماد پیدا کرتا ہے اور ایسی مسلسل قربانی ہے، جو انسان کو جھکا دیتی ہے۔ وہ نہ کسی حکومتی عہدے کے خواہاں ہیں، نہ کسی ادارے کے مفاد کے اسیر، بلکہ انکی زبان و قلم فقط خدا، رسولؐ اور آلِ محمدؑ کی خوشنودی کیلئے سرگرم ہیں۔ ایسی شخصیات تاریخ کے اوراق پر صرف نام نہیں، ایک باب کی حیثیت رکھتی ہیں۔ انکی موجودگی نسلوں کیلئے سرمایہ ہے۔ انکا سلوک، انکا حلم، انکا وقار۔۔۔ ان سب میں اک ایسی خوشبو ہے، جو انکے جانے کے بعد بھی قلوب میں باقی رہتی ہے۔ ایسے افراد وقت کی مجبوری سے نہیں، تقدیر کی ضرورت سے پیدا ہوتے ہیں۔ انکا ہونا قوم و ملت کیلئے رحمت اور انکی صحبت ہر سالکِ راہِ خدا کیلئے نعمتِ عظمیٰ ہے۔ تحریر: مولانا احمد فاطمی
کبھی کبھی تاریخ ایسے افراد کو جنم دیتی ہے، جو محض شخصیات نہیں بلکہ زمانوں کا شعور، صدیوں کی فکر اور نسلوں کا وقار بن جاتے ہیں۔ ایسے نفوس قدسیہ، اپنے وجود سے زمان و مکان کو معنی دیتے ہیں، ان کی خاموشی بھی گویائی کی تاثیر رکھتی ہے اور ان کی مسکراہٹ بھی رشد و ہدایت کا دروازہ کھولتی ہے۔ انہی میں سے ایک تابناک اور پُرمعنویت شخصیت حضرت علامہ سید نیاز حسین بخاری دامت برکاتہم العالیہ کی ہے، جنہوں نے نہ صرف دینِ مبین کی راہوں کو منور کیا بلکہ ہزاروں نفوس کو فکری، اخلاقی اور روحانی اعتبار سے سنوارا۔ علامہ سید نیاز حسین بخاری دامت برکاتہم العالیہ صرف ایک عالم دین نہیں، بلکہ ایک عہد، ایک روحانی روایت، ایک فکری تحریک اور ایک تربیتی مکتب کا عنوان ہیں۔ ان کی زندگی، علم، تقویٰ، اخلاص، متانت اور بصیرت کا حسین امتزاج ہے، جس نے کئی نسلوں کو شعور بخشا، کئی قلوب کو مطمئن کیا اور کئی افکار کو سمت عطا کی۔
علامہ سید نیاز بخاری ضلع اٹک کے ایک ایسے خانوادۂ سادات سے تعلق رکھتے ہیں، جہاں روحانیت اور علم دونوں نسل در نسل منتقل ہوتے رہے ہیں۔ بچپن ہی سے سنجیدگی، متانت اور دینی رجحان نے آپ کی شخصیت میں نکھار پیدا کیا۔ ابتدائی تعلیم سے لے کر اعلیٰ علمی مدارج تک، آپ نے اپنے علم و کردار سے ثابت کیا کہ آپ نہ صرف دینی علوم کے طالب تھے بلکہ حقیقی معارف کے سالک بھی۔ آپ کی علمی نشستیں، آپ کی درسی مجالس اور خطابات، سننے والوں پر ایسا اثر چھوڑتے ہیں، جو صرف الفاظ نہیں بلکہ افکار و احساسات کی دنیا بدل دیتا ہے۔ آپ نے تعلیم کو صرف کتابوں تک محدود نہیں رکھا، بلکہ دلوں کو روشن کرنے، کردار سنوارنے اور ارواح کو جِلا بخشنے کا ذریعہ بنایا۔
آپ کی شخصیت کا سب سے نمایاں پہلو آپ کی مربیانہ حیثیت ہے۔ آپ صرف ایک معلم نہیں، ایک رہبر، ایک پدرِ روحانی اور ایک مربیِ کامل ہیں۔ ہزاروں شاگردوں نے آپ سے صرف علم ہی نہیں لیا، بلکہ تربیت، تواضع، حلم، بردباری اور اخلاص کا درس بھی پایا۔ آپ کی تربیت کردہ نسل آج ملک و ملت کے مختلف میدانوں میں چراغاں کر رہی ہے۔۔ بندۂ حقیر کو بھی یہ سعادت نصیب ہوئی کہ کم و بیش سترہ برس قبل آپ کی شاگردی میں داخل ہوا۔ اُس وقت جب مکتبِ قرآن و اہلبیت علیہم السلام کے ابتدائی حروف سیکھ رہا تھا، تو آپ ہی وہ پہلی شخصیت تھے، جنہوں نے علم کا چراغ میرے ہاتھوں میں تھمایا۔ آپ ہی کی اقتداء میں نماز کا پہلا سجدہ ادا کیا اور آپ ہی کے زیرسایہ بندگیِ ذاتِ احدیت کا پہلا سبق سیکھا۔
علامہ بخاری کی شخصیت میں علم کی روشنی، حلم کا سکون، وقار کی شان اور محبت کی گرمی بیک وقت موجود ہیں۔ وہ جب بولتے ہیں تو ان کے الفاظ دل میں اتر جاتے ہیں اور جب خاموش ہوتے ہیں تو ان کی خاموشی بھی سکوتِ عرفان بن جاتی ہے۔ ان کی گفتگو میں ایسی کشش ہے کہ سننے والا نہ صرف معلومات حاصل کرتا ہے بلکہ اپنی ذات کے اندر تبدیلی محسوس کرتا ہے۔ ان کا رویہ اپنے شاگردوں کے ساتھ صرف ایک استاد کا نہیں بلکہ والدانہ شفقت کا مظہر ہے۔ انہوں نے ہمیشہ مجھے فقط ایک طالب علم کی نظر سے نہیں دیکھا، بلکہ ایک فرزند کی مانند پرورش کی، میری فکری تربیت کی اور قدم قدم پر رہنمائی فرمائی۔
آج اگر لوگ مجھے "احمد فاطمی" کے نام سے جانتے ہیں، اگر میرے افکار میں کوئی پختگی، میری گفتگو میں کوئی تاثیر اور میری تحریر میں کوئی شعور پایا جاتا ہے، تو یہ سب اسی عظیم شخصیت کی اولین کاوشوں اور دعاؤں کا نتیجہ ہے۔ میں جو کچھ بھی ہوں، انہی کی کاشت کردہ بیج کا ثمر ہوں، جو اللہ کے فضل، اہل بیت علیہم السلام کے لطف اور علامہ صاحب کی رہنمائی سے نشوونما پایا۔ علامہ سید نیاز بخاری کی شخصیت کا مقام صرف منبر، محراب یا درسگاہ تک محدود نہیں۔ وہ اُن افراد میں سے ہیں، جو دلوں پر حکومت کرتے ہیں۔ جن کی موجودگی خود ایک روحانی کیفیت ہوتی ہے، جن کی دعائیں نجات کا وسیلہ اور جن کی خاموشی بھی درسِ معرفت ہے۔
یہ کوئی معمولی دعویٰ نہیں کہ کوئی عالم دین فقط منبر و محراب کا امین ہی نہ ہو، بلکہ اپنے دور کی فکری و انقلابی نبض پر بھی دستِ رسائی رکھتا ہو۔ علامہ بخاری اُن معدودے چند افراد میں سے ہیں، جنہوں نے امام خمینیؒ کے پیغام کو فقط ایرانی انقلاب کا عنوان نہ سمجھا، بلکہ اُسے قرآنی تفسیر، علوی حکمت اور فاطمی غیرت کا زندہ تسلسل جانا۔ وہ جانتے تھے کہ امام خمینی صرف ایک سیاسی قائد نہیں بلکہ زمانے کے وجدان کی تعبیر ہیں، جنہوں نے دین کو محراب کی تنہائی سے نکال کر قصرِ ظلم پر ضربِ کاری بننے کا شعور دیا۔ علامہ بخاری نے اس شعور کو اپنی درسی مجالس، تبلیغی محفلوں اور شاگردوں کی تربیت میں ایک مستقل مزاجی سے پروان چڑھایا۔
یہ کہنا ہرگز مبالغہ نہ ہوگا کہ علامہ بخاری نے اپنے فکری اور انقلابی رجحان کی راہ میں نامساعد حالات، معاشی مشکلات، معاشرتی رکاوٹوں، ادارہ جاتی سرد مہری اور بعض مذہبی طبقات کی مخالفت کو بھی خندہ پیشانی سے برداشت کیا۔ انہوں نے کبھی بھی مصلحت کو فکر پر غالب نہ آنے دیا اور نہ ہی سیاسی فوائد کو نظریاتی سچائی پر قربان کیا۔ ان کی مجالس میں ولایت فقیہ کے تذکرے ہوں یا انقلاب اسلامی کے اصول، سامراج کی مخالفت ہو یا مظلومینِ جہاں سے ہمدردی، ہر پہلو میں امام خمینی کی روحانی خوشبو اور فکری وضاحت جھلکتی ہے۔ وہ عصر حاضر کے اُن بے مثال علماء میں سے ہیں، جنہوں نے نہ صرف خود حق کو پہچانا، بلکہ دوسروں کو اس کی طرف رہنمائی بھی کی اور وہ بھی بغیر خوف، بغیر جھجک، بغیر مصلحت۔
انہوں نے شاگردوں کی ایسی نسل تیار کی، جو صرف مقلد نہیں بلکہ محقق، مجاہد اور مصلح بھی بن سکے۔ ان کے حلقۂ تربیت میں ولایت فقیہ ایک خشک نظریہ نہیں، بلکہ عشق کا عنوان ہے۔ جب بھی ضلع اٹک کے دینی و فکری افق پر نگاہ ڈالی جائے، ایک نام ایسا ہے، جو روشنی کا استعارہ بن کر ہر دل پر نقش ہوتا ہے۔۔۔۔ علامہ سید نیاز حسین بخاری دامت برکاتہم۔ وہ فقط ایک عالم دین یا خطیب نہیں، بلکہ اس خطے کے لیے ایک روحانی سائبان، فکری رہنماء اور مخلص مربی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اُن کی پوری حیات کا لبِ لباب، ان کی ہر کاوش کا مرکز و محور اور ان کی ہر بات کا مقصد تبلیغِ ولایت ہے۔
علامہ بخاری نے علم فقط درس و تدریس کی سطح پر محدود نہیں رکھا، بلکہ اسے تربیت، تزکیہ اور بصیرت سے جوڑ کر حقیقی معنیٰ میں مربی کا کردار ادا کیا۔ انہوں نے نوجوان نسل کو نہ صرف قرآن و عترت کے علوم سے آشنا کیا، بلکہ ان کے دلوں میں محبتِ علیؑ، معرفتِ ولایت اور شعورِ عصر کو بھی جاگزیں کیا۔ ضلع اٹک میں ان کی موجودگی ایسی ہے، جیسے بنجر زمین پر شبنم کی بارش۔۔۔۔ خاموش، مگر زندگی بخش۔ علامہ بخاری کی شخصیت میں ایسی سادگی ہے، جو دل کو چھو لیتی ہے، ایسا خلوص ہے، جو اعتماد پیدا کرتا ہے اور ایسی مسلسل قربانی ہے، جو انسان کو جھکا دیتی ہے۔
وہ نہ کسی حکومتی عہدے کے خواہاں ہیں، نہ کسی ادارے کے مفاد کے اسیر، بلکہ ان کی زبان و قلم فقط خدا، رسولؐ اور آلِ محمدؑ کی خوشنودی کے لیے سرگرم ہیں۔ ایسی شخصیات تاریخ کے اوراق پر صرف نام نہیں، ایک باب کی حیثیت رکھتی ہیں۔ ان کی موجودگی نسلوں کے لیے سرمایہ ہے۔ ان کا سلوک، ان کا حلم، ان کا وقار۔۔۔ ان سب میں اک ایسی خوشبو ہے، جو ان کے جانے کے بعد بھی قلوب میں باقی رہتی ہے۔ ایسے افراد وقت کی مجبوری سے نہیں، تقدیر کی ضرورت سے پیدا ہوتے ہیں۔ ان کا ہونا قوم و ملت کے لیے رحمت اور ان کی صحبت ہر سالکِ راہِ خدا کے لیے نعمتِ عظمیٰ ہے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: علامہ سید نیاز حسین بخاری بخاری کی شخصیت کی شخصیت میں علامہ بخاری کی موجودگی نہیں بلکہ جنہوں نے انہوں نے کرتا ہے صرف ایک کے لیے بلکہ ا اور ان
پڑھیں:
مودی کے بیانات، خطے میں آگ یا راکھ؟
دنیاکے سیاسی افق پرکچھ خطے ایسے ہوتے ہیں جوتاریخ کے ہرموڑپرآزمائش کی بھٹی میں تپتے ہیں۔ جنوبی ایشیاء انہی سرزمینوں میں سے ایک ہے، جہاں سرحدیں فقط جغرافیے کی لکیرنہیں بلکہ نظریات، عقائد اوراحساسات کی خونچکاں تاریخ کااستعارہ بن چکی ہیں۔ایسے میں جب ایک ریاست کامتعصب اور شدت پسندسربراہ،جس کے ہاتھ میں ایٹمی بٹن بھی ہے اور اقتدار کا زعم بھی،اپنے سیاسی جلسے میں کروڑوں پاکستانیوں کے ’’گولی سے اڑادینے‘‘کی کھلی دھمکی دے، توسوال صرف اخلاقیات یاسفارت کانہیں رہتا بلکہ یہ انسانی تہذیب کے اجتماعی شعور،بین الاقوامی قوانین اورعالمی اداروں کی بقاکاسوال بن جاتاہے۔
مودی کایہ حالیہ بیان،جوگجرات کی زمین پرگونجا،محض ایک انتخابی نعرہ نہیں بلکہ ایک نظریاتی جنون کااظہارہے ایک ایسا جنون جواپنی ہی تاریخ کے آئینے میں شرمندہ نظرآتاہے، مگر اپنے آس پاس کے دشمنوں پرللکارکے ذریعے خودکوزندہ رکھنے کی کوشش کرتاہے مگریہ للکاراب ہنسی میں نہیں اڑائی جاسکتی،کیونکہ یہ اس خطے میں بسنے والے دوایٹمی طاقتوں کے کروڑوں انسانوں کے مستقبل کوجھونکنے کی ایک شعوری کوشش ہے۔
مودی کی دھمکی نے نہ صرف بین الاقوامی سفارتی آداب کی کھلم کھلاخلاف ورزی کی ہے بلکہ ایک ایسے ذہنی پس منظرکوآشکارکیاہے جوخطے میں امن کے امکانات کوزائل کرنے میں مصروف ہے۔یہ دھمکی، جواخلاقیات اورانسانی حقوق کے اصولوں کے برعکس ہے، نہ صرف ایک جنگی جنون کی علامت ہے بلکہ اس سے بھارت کی داخلی سیاسی صورتِ حال کابھی پتہ چلتاہے جس میں جارحیت کوسیاسی سرمایہ بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔یہ بیان،جوانسانی اقدارکے منافی ہے،ایک ایسے ذہن کی ترجمانی کرتاہے جوجارحیت اورتفرقہ اندازی میں یقین رکھتا ہے، اورجوخطے کی سلامتی واستحکام کے لئے شدید خطرہ ہے۔
دراصل مودی کاحالیہ بیان ،شکست خوردہ ضمیراس مکاری کے سفرکی طرف لے گیاجہاں وہ ووٹوں کے لئے بڑھکیں مارکردجل وفریب سے کام لے رہاتھا کیونکہ ایک عالم جان چکاہے کہ دردیارِہند،جہاں غرورِ قوم پرستی کاشعلہ ایوانوں میں بلندہوتاہے اوردہلی کے ایوانِ اقتدارمیں تکبر،جاہ ومنصب کالباس پہنے بیٹھاہے، وہاں رافیل نامی وہ پرندے،جن پرخزان ملت کے خزف وگوہرلٹائے گئے،طیارہ تقدیرکے دوش پرپاکستان کے جواں ہمت صاعقہ برداروں کے سامنے خاک وخون میں گِر گئے۔جب رافیل کی شکست پرفرانس کی کمپنی نے تین پرندوں کی ہلاکت کااقرارکیا،تودہلی کی فصیلِ غرورپرایساسناٹاطاری ہوا، گویا آگرہ کے قلعہ لال پرسیاہ پرچم لہرانہیں بلکہ آنسوبہارہاہو۔وہی ایئرمارشل اے کے بھارتی، جن کے بیانات سے پیشتربادل گرجتے تھے، اب کہنے لگے کہ’’جنگ میں نقصان معمول ہے‘‘گویا شکست کوسبکی میں ملفوف کرکے پیش کیاجائے، اورخون کے رسنے کولفظوں کے رومال سے چھپایاجائے مگرتاریخ کی نگاہ تیزہے،وہ زخم دیکھ لیتی ہے،وہ چیخ سن لیتی ہے۔
پاکستانی شاہین،جن کی پروازپاک سرزمین کے افق تک محدودرہی،مگرجن کے فولادی تیردشمن کی فضاں کوکاٹتے ہوئے عبرت کانشان بنے،محض عسکری چابک دستی نہ تھے،بلکہ پاک وچین کے باہمی تدبرکا مجسمہ بنے۔اس معرکہ کی جیت،پاکستان کی ہمت سے زیادہ،چین کی تجارتی حکمت اورعسکری فن کاغیراعلانیہ اعلان تھی۔
دراصل مودی کے شعلہ اگلتے ہوئے بیان کی ایک وجہ یہ بھی ہے جب سیزفائرکی راکھ میں چینی حکمت نے ایک چنگاری رکھی جب بھارت کی توجہ مغرب میں پاکستان پرتھی،بیجنگ نے مشرق میں اروناچل پردیش کے مقامات کے نام،چینی وتبتی زبان میں بدل کریہ پیغام دیاکہ ’’نقشے فقط کاغذپرنہیں بنتے،وہ ذہنوں،دعووں اورقوتِ ارادہ میں نقش ہوتے ہیں‘‘۔یہ تبدیلی فقط زبان کی تکرارنہ تھی،بلکہ زمین کی ملکیت کاادبی اعلان تھااورجب بھارت نے مشرق کی جانب نظرکی،تووہاں پہاڑوں کے نام بدلے جا چکے تھے،وادیاں بیگانہ ہوچکی تھیں،اورنقشہ،اس کااپنانہ رہاتھا۔
بھارت کی تینوں سمتوں پرتین دیواریں چین، پاکستان،نیپال تناؤکی تین چٹانیں،جن میں ہندوستان ایک فریب زدہ خواب کی مانند محصورہوچکا ہے۔ نیپال، چھوٹاسہی،مگراس کی خودداری نے بھارتی غرورکے قلعے میں دراڑیں ڈال دیں۔پاکستان،جواب صرف فوجی نہیں بلکہ فکری قوت بھی ہے اورچین،جس کی طاقت صرف عسکری نہیں بلکہ تمدنی بھی ہے۔یہ ایسے ہے،جیسے ایک کمزورپروانہ تین شیروں کی کمین گاہوں میں جاگرے اور سمجھے کہ یہ رات کابادل ہے،جس سے سلامت گزرجائے گا۔بس یہی شکست خوردہ مودی کی حالت ہوچکی ہے۔مودی کے اس بیان کاپس منظرایک نہایت پیچیدہ اورکشیدہ خطے میں ہے،جہاں بھارت اورپاکستان کے مابین فضائی جھڑپیں، سرحدی کشیدگی، اورنفسیاتی جنگ جاری ہے۔گزشتہ دنوں بھارتی فضائیہ کے فرانسیسی ساختہ رافیل طیاروں کی تباہی،پاکستان کی عسکری حکمت عملی اورپاک چین تعاون کی بدولت، بھارت کی عسکری اورسیاسی حالت کوایک نئے سنگ میل پرلے گئی ہے۔
مودی کی دھمکی اسی تناظرمیں سامنے آئی ہے،جہاں ایک طرف بھارت نے سرتاج کی طرح اپنی عسکری طاقت کامظاہرہ کرنے کی ناکام کوشش میں بری طرح منہ کی کھائی ہے اور جہاں عالمی طورپرشرمندگی کا سامناکرناپڑاہے وہاں دوسری طرف،بھارت کی داخلی اورخارجی پالیسیوں میں شدیدالجھن اورعدم استحکام کی جھلک بھی نظرآتی ہے۔مودی کے اس جارحانہ بیان کاپس منظرایک ایسے خطے میں ہے جہاں کشیدگی عروج پرہے اورحالیہ دنوں میں بھارت اورپاکستان کے مابین فضائی جھڑپیں اورمیزائلوں کی بازگشت سنی گئی ہے۔ بھارت نے اس دوران عام طورپرایک خاموشی کامظاہرہ اس لئے کیاگیاکہ مودی کوپاکستان کی طرف سے ایسے جواب کاقطعی اندازہ ہی نہیں تھامگرمودی کی اس تازہ تقریرنے اس خاموشی کی نقاب کشائی کردی ہے اوربے لاگ جارحانہ بیانیہ سامنے لادیاہے۔یہ تضاد،خاموشی اوردھمکی کے درمیان،بین الاقوامی سیاست میں ایک پراناالمیہ ہے۔کیاخاموشی واقعی فتح کی علامت ہے یایہ شکست کاپردہ ہے؟
عالمی سیاست میں خاموشی کواکثرحکمت اور صبرکی علامت سمجھاجاتاہے،لیکن تاریخ اس بات کابھی درس دیتی ہے کہ حکمت صرف اسی وقت کامیاب ہوتی ہے جب وہ بروقت ہو، مناسب ہواورمثبت نتائج دے۔اگردشمن تمہاری حدودمیں گھس آئے اورتم زبان سے بھی جواب نہ دے سکوتویہ خاموشی حکمت نہیں،بزدلی کے سواکچھ نہیں۔مودی کے بیان سے قبل،بھارت نے چینی فوج کی سرحدی پیش قدمیوں کے سامنے توہمیشہ خاموشی اختیارکی،جوحکمتِ عملی کی بجائے خوف اور غیریقینی کی علامت تھی۔اس کے برعکس،پاکستان نے اپنی عسکری کارروائیوں اورسفارتی حکمت عملیوں سے خطے میں اپنامقام مستحکم کیاجبکہ چین نے اپنے جغرافیائی دعوؤں کوعملی جامہ پہناکرخطے کی سیاست میں نئی جہتیں پیداکیں۔
تاریخ نے ہمیں بارہاسکھایاہے کہ حکمت صرف تب ہوتی ہے جب وقت کی نزاکت کوسمجھ کرجواب دیا جائے اوروہ جواب فتح کی جانب لے جائے۔ سفارتی خاموشی کواکثرطاقت کی علامت تصورکیاجاتا ہے، لیکن جب یہ خاموشی دشمن کے سامنے گھبراہٹ اور نااہلی کی شکل اختیارکرلے توپھریہ بہادری کے بجائے بزدلی کے سواکچھ نہیں۔بھارت کی جانب سے چین کی سرحدی پیش قدمیوں اورسرحدپارداخلوں پرجوردعمل نظرآیا،وہ اس بات کاثبوت ہے کہ اس خاموشی کے پیچھے کمزوری اور حکمت کی کمی ہے۔جبکہ پاکستان کے خلاف ہر وقت جارحانہ بیانات دینے والے بھارتی میڈیااورعسکری حلقے چین کے خلاف مکمل طورپر خاموش ہیں،جوان کے فکری الجھن اورحکمت کی کمی کوظاہرکرتاہے۔
(جاری ہے)