حکومت بلوچستان کا منشیات بحالی مرکز کس طرح مریضوں کو صحت اور روزگار کی طرف لا رہا ہے؟
اشاعت کی تاریخ: 27th, June 2025 GMT
عبداللہ (فرضی نام) کبھی منشیات کی لعنت میں مبتلا تھے۔ نشے کی عادت نے نہ صرف ان کی ذہنی صحت کو نقصان پہنچایا بلکہ وہ اکثر گھریلو جھگڑوں کا باعث بھی بنتی تھی مگر اب ان کی زندگی نے ایک نیا اور خوشگوار موڑ لے لیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: ژوب کے شہری کا قائم کردہ ادارہ منشیات کے عادی افراد کے لیے نئی زندگی کی نوید
وہ کراٹے کا بھی شوق رکھتے ہیں اور فی الوقت منشیات بحالی مرکز میں زیر علاج ہیں۔ انہوں نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’اب میری طبیعت بہتر ہے، نشے سے دل ٹوٹ چکا تھا۔ لیکن اب میں بجلی کا کام سیکھ رہا ہوں اور بحالی مرکز سے فراغت کے بعد حصول روزگار کے ساتھ ساتھ کراٹے کی پریکٹس بھی دوبارہ شروع کروں گا‘۔
یہ بحالی مرکز بلوچستان حکومت کے سوشل ویلفیئر ڈیپارٹمنٹ کے زیر انتظام چل رہا ہے جہاں منشیات کے عادی افراد کا نہ صرف علاج کیا جاتا ہے بلکہ انہیں ہنر مند بھی بنایا جاتا ہے۔
مزید پڑھیے: کراچی میں انوکھا واقعہ، منشیات کے عادی 125 افراد کو عام شہریوں نے فرار کروا دیا
سینٹر کے سپروائزر تابش احد کے مطابق پہلے مریضوں کو 15 دن ڈی ٹوکسیفیکیشن کے عمل سے گزارا جاتا ہے اور پھر انہیں بنیادی تعلیم دینے کے علاوہ الیکٹریشن، درزی اور بلوچستان کا ثقافتی چپل سازی کا کام سکھایا جاتا ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
بلوچستان سوشل ویلفیئر ڈیپارٹمنٹ حکومت بلوچستان منشیات بحالی مرکز منشیات کے عادی افراد کا علاج.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: حکومت بلوچستان منشیات بحالی مرکز منشیات کے عادی افراد کا علاج منشیات کے عادی بحالی مرکز جاتا ہے
پڑھیں:
سیزیرین کے بعد طبعی زچگی اور مصنوعی دردِ زہ
جب بھی مریضہ یہ خواہش کرے کہ اسے زچگی کے طبعی عمل سے گزرنا ہے اور پچھلی زچگی سیزیرین کے ذریعے تھی، ڈاکٹر کے ذہن میں ایک لال بتی جلنے بجھنے لگتی ہے۔
سب سے پہلے تو گائناکالوجسٹ کو یہ جانچنا ہے کہ ایسا کرنے کی اجازت دی جا سکتی ہے یا نہیں؟ سب کچھ جانچ پڑتال کے بعد ویجائنل ڈلیوری کی اجازت دے دی جائے تب اگلا مرحلہ دردِ زہ شروع ہونے کا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: زچگی کے عمل کا دوسرا فریق
سیزیرین کے بعد والی زچگی میں اگر دردِ زہ قدرتی طریقے سے شروع ہوجائیں تو ڈاکٹر کے لیے یہ اطمینان کی بات ہوتی ہے کہ کم از کم اس ڈراؤنے خواب سے وہ بچ گئی جہاں مصنوعی دردِ زہ کے آغاز کا فیصلہ کرنا پڑتا ہے۔
کیسے شروع کریں مصنوعی دردِ زہ؟اس سوال کا جواب ڈھونڈنے کے لیے ہمیں ماضی میں جھانکنا پڑے گا۔
قدیم مصر میں مصنوعی دردِ زہ کے لیے 2 طریقے مستعمل تھے، جڑی بوٹیوں کا استعمال اور بچہ دانی کے منہ یعنی سروکس کو کھولنے کی کوشش۔ دونوں طریقوں میں کامیابی کا عنصر مشکوک تھا اور زچہ کو کس تکلیف سے گزرنا پڑتا تھا، شاید اس کا اندازہ کوئی بھی نہیں لگا سکتا۔
16ویں، 17ویں صدی میں کچھ ایسی چیزوں کا ذکر ملتا ہے جن سے سروکس کو کھولنے کی کوشش کی جاتی تھی۔ 20ویں صدی میں لیمینیریا ٹینٹ نامی لکڑی کا ٹکڑا سروکس میں رکھ دیا جاتا تھا جو آہستہ آہستہ پھول کر سروکس کو کھولنے کی کوشش کرتا۔
بیسویں صدی کو عورت پر رحم آیا اور 1935 میں پروسٹاگلینڈن (prostaglandin) نامی ہارمون کی شناخت ہوئی جو دردِ زہ میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ لیکن اس ہارمون کو مزید 40 برس کا سفر طے کرنا پڑا، اور مسلسل تحقیق کے بعد پہلی دوا جس میں یہ ہارمون تھا، امریکا میں ایف ڈی اے نے 1977 میں منظور کی۔ لیکن تیسری دنیا تک اسے پہنچنے میں مزید کچھ برس انتظار کرنا پڑا۔
یہ بھی پڑھیں: غزہ: قبل از وقت زچگی، ماؤں کی اموات میں اضافہ
ہمیں خوب یاد ہے کہ 1990 میں جب ہم ہاؤس جاب کررہے تھے، پروسٹن بنانے والی کمپنیاں فری سیمپل دیتیں اور ہم انہیں مریضوں میں استعمال کرتے۔ بخدا ہم اس وقت اپنے آپ کو خوش قسمت سمجھتے کہ ہمیں زندگی جینے کا موقع سائنس کی ترقی کے دور میں ملا ہے۔ لیکن ان سب عورتوں کا سوچ کر دل بیٹھ جاتا جو گئے زمانوں میں زچگی کے سفر میں زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھیں۔
پروسٹن (prostin) نامی دوا نے دردِ زہ کو آسان کردیا مگر ابھی بھی بہت کچھ تھا جہاں پروسٹن کے پر جلتے تھے اور آج بھی جل رہے ہیں۔
وہ مشکل مقام ہے اگر ایک پچھلی زچگی سیزیرین ہو اور اب مصنوعی دردِ زہ کے آغاز کا مرحلہ درپیش ہو۔
اگر بچہ دانی پر ایک سیزیرین ہوچکا ہو تو کٹی ہوئی جگہ کمزور پڑجاتی ہے اور اس کے بعد والی زچگی میں اگر مناسب نگہداشت نہ ہو تو بچہ دانی کے اس جگہ سے پھٹنے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ اس کے ساتھ یہ بات بھی یاد رکھیے کہ بچہ دانی پھٹنے کا خطرہ مصنوعی دردِ زہ میں زیادہ ہوتا ہے اور خاص طور پر اگر پروسٹن سے دردِ زہ کا آغاز کیا گیا ہو۔
اس لیے پروسٹن کو مصنوعی دردِ زہ میں استعمال کی اجازت صرف سینئر ڈاکٹرز کو دی جاتی ہے اور تب بھی ان کی مرضی پر منحصر ہوتا ہے کہ وہ اسے استعمال کریں یا نہیں۔ بہت سے سینیئر ڈاکٹرز بھی اسے استعمال کرتے ہوئے ہچکچاتے ہیں کہ پیٹ کے اندر موجود بچہ دانی کیا کرے گی، کوئی نہیں جانتا۔
پھر کیا کیا جائے؟سروکس کو کھولنے کے لیے لیمینیریا ٹینٹ جیسی ایک نالی ایجاد کی گئی ہے جو پیشاب نکالنے والی نالی جیسی ہے۔ اس نالی کو کُک بیلون (Cook Balloon) کا نام دیا گیا ہے۔ اس نالی کو سروکس میں ڈال کر اس کے ساتھ لگے غبارے کو پھلا دیا جاتا ہے۔ اس عمل کے نتیجے میں دردِ زہ کا آغاز ہونے کا احتمال ہوتا ہے۔
تیسری دنیا میں کُک بیلون کی قیمت اور اس کی افورڈیبیلٹی ایک مسئلہ بن جاتی ہے اس لیے کُک بیلون کی جگہ ایک ایسی نالی استعمال کی جاتی ہے جو مصنوعی دردِ زہ کے لیے نہیں بنی بلکہ مثانے سے پیشاب نکالنے کے لیے بنائی گئی ہے اور اسے فولی کیتھیٹر (Foley’s Catheter) کہا جاتا ہے۔
چونکہ فولی کیتھیٹر کی قیمت بہت کم ہے سو یہ کُک بیلون کا نعم البدل بن گیا ہے اور دلچسپ بات یہ ہے کہ کامیاب بھی ہے۔ پیشاب کی نالی کو سروکس میں داخل کیا جاتا ہے، اس کے ساتھ لگے غبارے کو پھلا کر 24 گھنٹے انتظار کیا جاتا ہے۔ اس غبارے کے پریشر سے سروکس نرم پڑ کر کھلنا شروع ہوجاتا ہے اور یوں زچگی کے عمل کا آغاز ہوتا ہے لیکن کچھ کیسز میں یہ ناکام بھی ہوجاتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: سیزیرین کے بعد ویجائنل ڈلیوری!
ایک سیزیرین کے بعد ہونے والی زچگی ایک مشکل اور خطرناک مرحلہ ہے۔ ضروری ہے کہ اسے کروانے والا ڈاکٹر تجربہ کار ہو اور انتہائی اہم بات یہ کہ زچگی کے پورے عمل میں سی ٹی جی مشین سے دردِ زہ ریکارڈ کیے جائیں۔
یاد رکھیے کہ ہر پیچیدگی اپنے ہونے سے پہلے خطرے کا سائرن بجاتی ہے اور اس سائرن کو بھانپتے ہوئے جان لیوا پیچیدگیوں سے بچا جاسکتا ہے۔ بچہ دانی بھی پھٹنے سے پہلے زور زور سے سائرن بجاتی ہے اور لال بتی بار بار جلتی بجھتی ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے جہاز کریش ہونے سے پہلے اشارہ دیتا ہے۔
کوئی بھی ایسی زچگی جس میں بچہ دانی پھٹنے کا خطرہ ہو وہ سی ٹی جی مشین کی مسلسل ریکارڈنگ کے بغیر نہیں کروانی چاہیے۔ سی ٹی جی پر ایسے نشان آجاتے ہیں جن سے پتا چل جاتا ہے کہ بچہ دانی خطرے میں ہے۔ لیکن سی ٹی جی پر وہ اشارہ صرف قابل ڈاکٹر ہی سمجھ سکتا ہے۔
ہم 2 چیزوں کی بات اس لیے کرتے ہیں کہ ہر زچہ اپنی ہر زچگی میں قابل ڈاکٹر اور اچھے اسپتال کا خرچہ نہیں اُٹھا سکتی۔ سو ان 2 کے بغیر زچگی کے عمل سے گزرنا موت کو دعوت دینا ہے۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں