Daily Ausaf:
2025-07-03@02:18:06 GMT

نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم

اشاعت کی تاریخ: 2nd, July 2025 GMT

مغربی ممالک میں سیٹل ہونا، پاکستان کے بہت سے نوجوانوں کا خواب ہے۔ پاکستان کا بنیادی معاشی مسئلہ وسائل اور دولت کی ناہموار تقسیم ہے۔ اس وجہ سے غریب غریب تر اور امیر امیر ترین ہیں۔ ہمارے ہاں یہ غربا اور متوسط طبقہ کے لوگ اپنی سفید پوشی کا بھرم رکھنے کے لئے ترقی یافتہ ممالک کا رخ کرتے ہیں۔ مزے کی بات ہے کہ وہاں رہنے کا خواب بہت سے امیر لوگ بھی دیکھتے ہیں۔ اس کے پیچھے مغربی آزادی اور وہاں ایک محفوظ ٹھکانہ بنانا ہے۔ اگر پاکستان دہشت گردی سے پاک ہو اور خاطر خواہ امن و سلامتی قائم ہو جائے تو یقین مانیں پاکستان میں جنت نظیر زندگی گزاری جا سکتی ہے۔ لیکن ابھی اس منزل تک پہنچنے میں وقت لگے گا۔
بھارت کے خلاف جنگ نے پاکستان کو فتح کے بدلے میں یہ موقع فراہم کیا کہ اب ہر میدان میں پاکستان تیز رفتاری سے ترقی کر سکتا ہے۔اگر ان امیر ممالک کا سفر بھی کیا جائے تو وہاں سیٹل ہونے میں بھی دو نسلوں کی قربانی دینا پڑتی ہے۔ برطانیہ میں مقیم اس حوالے سے برٹش پاکستانیوں کی حالت زار کو اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔ سچی بات ہے کہ ہجرت صرف سرحد عبور کرنے کا نام نہیں، بلکہ یہ دل خراش منازل سے گزرنے کا عمل ہے۔ بہت سی خوشحال پاکستانی فیملیوں کو صرف اس وجہ سے بے حال دیکھا کہ ان کے پاس سب کچھ ہونے کے باوجود وہ اپنی اولادوں سے تنگ اور نالاں نظر آئے۔ ماں کی آغوش، باپ کی شفقت، بہن بھائیوں کی محبت اور آبائی گھر کو خیرباد کہنا آسان نہیں ہوتا۔نوجوان طلبا اور روزگار کی تلاش میں ہم مادر وطن کو دل پر بھاری پتھر رکھ کر چھوڑ تو دیتے ہیں اور گھر میں خوشحالی بھی آ جاتی ہے مگر اسی دوران کچھ ایسے مسائل کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے جو ہماری بقیہ زندگی پر دکھ اور غم و الم کے گہرے نشانات چھوڑ دیتے ہیں۔ کچھ خواب دیارِ غیر میں دفن ہو جاتے ہیں، اور کچھ نسلوں کے کندھوں پر ادھورے خوابوں کا بوجھ لاد دیتے ہیں۔
پاکستان سے ہجرت کرنے والے لوگ امریکہ، یورپ، کنیڈا اور آسٹریلیا وغیرہ میں بھی مقیم ہیں۔ لیکن برطانیہ میں پاکستانی کمیونٹی کی داستان ایک ایسی گمشدہ نظم کی مانند ہے، جس کے پہلے مصرعے میں محنت کی آہٹ ہے اور دوسرے میں قرب کی دھڑکن ہے۔ 9 سال تک لندن میں رہنے اور وہاں ایک سیکورٹی کمپنی میں جاب اور دیگر شہروں کے وزٹ کے دوران مقامی پاکستانی کمیونٹی سے ملاقاتوں کے بعد اندازہ ہوا کہ برطانوی پاکستانیوں کے بارے میں جو عمومی تصور پایا جاتا ہے، وہ مکمل سچ نہیں ہے۔ ہر فرد کے الگ خواب، تجربات اور تشریحات ہیں۔ ہر کوئی خوش حال ہے نہ خوش ہے، ان میں سے کوئی سمجھتا ہے کہ ہجرت اس کے لئے نشانِ منزل تھی، کسی کو اس پر پچھتاوا ہے، اور ایک طبقہ ایسا بھی ہے جو ’’کنفیوژن‘‘ کا شکار ہے، جس کو واپسی کا راستہ صاف دکھائی دیتا ہے اور نہ ہی مستقبل کی منزل دکھائی دیتی ہے۔سچ تو یہ ہے کہ پاکستانی کمیونٹی کی کہانی صرف ہجرت، محنت اور قربانی کی داستان ہی نہیں، بلکہ یہ دو تہذیبوں کے بیچ پسے ہوئے لوگوں کا ایک المیہ ہے جو آئندہ نسلوں کے لئے ایک’’انتباہ‘‘ کی حیثیت رکھتا ہے۔
پہلی نسل، وہ مہاجر مزدور ہیں جنہوں نے 1960 اور 70 کی دہائی میں برطانیہ کا رخ کیا۔ ان کی زندگیاں فیکٹریوں، برفیلے ریلوے اسٹیشنوں اور بسوں میں گزر گئیں۔ ان کا واحد خواب یہی تھا کہ آنے والی نسل کو ایک بہتر مستقبل نصیب ہو۔ کچھ لوگوں کے خواب پورے بھی ہوئے۔ لندن کے میئر صادق خان کا والد بس ڈرائیور تھا، سعیدہ وارثی کے والد کارخانے میں مزدور تھے۔ برطانیہ میں ’’بیسٹ ویز کیش اینڈ کیریز‘‘ کے مالک سر انور پرویز ابتدا میں بس ڈرائیور تھے۔ ’’یعقوب اینڈ سنز‘‘ نے بھی ترقی کا سفر نیچے سے اوپر کی طرف کیا۔ جبکہ سابقہ ممبر برٹش پارلیمنٹ اور ’’یونائٹڈ کیش اینڈ کیریز‘‘کے مالک چوہدری محمد سرور ایک فیکٹری ورکر تھے، جو بعد میں دو بار پنجاب کے گورنر بھی رہے۔ اسی طرح لارڈ نذیر بھی عام ورکر تھے جنہوں نے ترقی کرتے کرتے لارڈ شپ کی منزل کو پایا۔ لیکن ’’ہر پھول کی قسمت میں کہاں ناز عروساںخوو، ٹھہر سکتا ہے۔
(جاری ہے)

.

ذریعہ: Daily Ausaf

پڑھیں:

عمان کے بائیکرز کلب کا پاکستان کا سیاحتی دورہ، پاکستانی ثقافت اور مہمان نوازی کی تعریف

پاکستان کی خوبصورت، قدرتی مناظر اور ثقافت سے متاثر ہو کر سیاح پاکستان کا رخ کرنے لگے، عمان کے بائیکرز کلب نے پاکستان کا سیاحتی دورہ کرتے ہوئے پاکستانی ثقافت اور مہمان نوازی کی تعریف کی۔

بوشر بائیکرز کلب کی پاکستان آمد اس بات کی عکاسی ہے کہ پاکستان سیاحت کے لیے محفوظ ملک ہے۔ عمانی بائیکرز نے پاکستانی تہذیب و روایات اور قدرتی خوبصورتی کا قریب سے مشاہدہ کیا۔

عمانی بائیکرز کا کہنا تھا کہ ’’ہم نے بائیکس پر پاکستان سیاحتی دورہ کرنے کا فیصلہ کیا۔‘‘

ماجد عبداللہ الراوحی کا کہنا تھا کہ پاکستان بہت خوبصورت اور محفوظ ملک ہے، پاکستان کے لوگ بہت دوستانہ اور وہ آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں، غیر ملکی سیاح آسانی سے پاکستان آسکتے ہیں اور ان کے لیے ہر قسم کے سیاحتی مقامات موجود ہیں۔

محمد جمعہ صالح الراوحي نے کہا کہ پاکستان آنا میرے لیے خوشگوار تجربہ ہے، پاکستان کے بارے میں جو منفی تاثر پھیلا گیا یہ ملک اس سے بہت مختلف ہے، میں دل کی گہرائیوں سے یہ کہنا چاہوں گا کہ غیر ملکی سیاح پاکستان کا دورہ ضرور کریں۔

ماجد عبداللہ حاجی الرواہی نے کہا کہ پاکستانی عوام اور حکومت دونوں نے  ہماری بے حد مہمان نوازی کی اور انتہائی گرم جوشی سے ہمارا استقبال کیا۔

محمد حسن عیسیٰ المانی نے کہا کہ ہمارا پاکستان کا دورہ بہت شاندار رہا ہے اورہمارا یہ سفر ہر قسم کے موسموں کا حسین امتزاج تھا، بائیکنگ اور سیاحت کے شوقین حضرات کے لیے پاکستان ایک بہترین ملک ہے۔ پاکستان میں کمیپنگ اور مہم جوئی کے بہت زیادہ مقامات موجود ہیں۔

عمانی بائیکر کامل نصیر علی نے پیغام دیا کہ اگر نئے سیاحتی مقامات دریافت کرنا چاہتے ہیں تو پاکستان کا سفر ضرور کریں۔

اوور سیز پاکستانی محمد کاشف نے کہا کہ شمالی پاکستان کا سفر ایک ناقابلِ فراموش تجربہ تھا۔

عاطف علی نامی ایک اوورسیز پاکستانی کا کہنا تھا کہ اسلام آباد سے خنجراب پاس کا شاندار سفر، شمالی علاقوں کی بے مثال مہمان نوازی نے بہت متاثر کیا۔

متعلقہ مضامین

  • ویمنز ایشین کپ کوالیفائر، پاکستان نے انڈونیشیا کو ہرادیا
  • انضمام سے ہجرت تک: تارکین وطن آخر کیوں جرمنی چھوڑتے ہیں؟
  • پاکستانی حملے سے قبل امریکی نائب صدر نے بھارت کو کیا پیغام دیا؟
  • عمان کے بائیکرز کلب کا پاکستان کا سیاحتی دورہ، پاکستانی ثقافت اور مہمان نوازی کی تعریف
  • ڈراؤنے خواب عمر گھٹا سکتے ہیں، بچنا ممکن مگر کیسے؟
  • سونا خریدنا خواب بن گیا؛ قیمت میں عالمی اور مقامی سطح پر ایک بار پھر بڑا اضافہ
  • پاکستانی طلبہ نے دنیا کو مصنوعی ذہانت میں پیچھے چھوڑ دیا 
  • پاکستانی مزدوروں کی ملک سے ہجرت کا المیہ
  • بیگج اسکیم کیا ہے؟ اوورسیز پاکستانی اس کے تحت کون سی گاڑیاں ملک میں لاسکتے ہیں؟