مغربی ممالک میں سیٹل ہونا، پاکستان کے بہت سے نوجوانوں کا خواب ہے۔ پاکستان کا بنیادی معاشی مسئلہ وسائل اور دولت کی ناہموار تقسیم ہے۔ اس وجہ سے غریب غریب تر اور امیر امیر ترین ہیں۔ ہمارے ہاں یہ غربا اور متوسط طبقہ کے لوگ اپنی سفید پوشی کا بھرم رکھنے کے لئے ترقی یافتہ ممالک کا رخ کرتے ہیں۔ مزے کی بات ہے کہ وہاں رہنے کا خواب بہت سے امیر لوگ بھی دیکھتے ہیں۔ اس کے پیچھے مغربی آزادی اور وہاں ایک محفوظ ٹھکانہ بنانا ہے۔ اگر پاکستان دہشت گردی سے پاک ہو اور خاطر خواہ امن و سلامتی قائم ہو جائے تو یقین مانیں پاکستان میں جنت نظیر زندگی گزاری جا سکتی ہے۔ لیکن ابھی اس منزل تک پہنچنے میں وقت لگے گا۔
بھارت کے خلاف جنگ نے پاکستان کو فتح کے بدلے میں یہ موقع فراہم کیا کہ اب ہر میدان میں پاکستان تیز رفتاری سے ترقی کر سکتا ہے۔اگر ان امیر ممالک کا سفر بھی کیا جائے تو وہاں سیٹل ہونے میں بھی دو نسلوں کی قربانی دینا پڑتی ہے۔ برطانیہ میں مقیم اس حوالے سے برٹش پاکستانیوں کی حالت زار کو اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔ سچی بات ہے کہ ہجرت صرف سرحد عبور کرنے کا نام نہیں، بلکہ یہ دل خراش منازل سے گزرنے کا عمل ہے۔ بہت سی خوشحال پاکستانی فیملیوں کو صرف اس وجہ سے بے حال دیکھا کہ ان کے پاس سب کچھ ہونے کے باوجود وہ اپنی اولادوں سے تنگ اور نالاں نظر آئے۔ ماں کی آغوش، باپ کی شفقت، بہن بھائیوں کی محبت اور آبائی گھر کو خیرباد کہنا آسان نہیں ہوتا۔نوجوان طلبا اور روزگار کی تلاش میں ہم مادر وطن کو دل پر بھاری پتھر رکھ کر چھوڑ تو دیتے ہیں اور گھر میں خوشحالی بھی آ جاتی ہے مگر اسی دوران کچھ ایسے مسائل کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے جو ہماری بقیہ زندگی پر دکھ اور غم و الم کے گہرے نشانات چھوڑ دیتے ہیں۔ کچھ خواب دیارِ غیر میں دفن ہو جاتے ہیں، اور کچھ نسلوں کے کندھوں پر ادھورے خوابوں کا بوجھ لاد دیتے ہیں۔
پاکستان سے ہجرت کرنے والے لوگ امریکہ، یورپ، کنیڈا اور آسٹریلیا وغیرہ میں بھی مقیم ہیں۔ لیکن برطانیہ میں پاکستانی کمیونٹی کی داستان ایک ایسی گمشدہ نظم کی مانند ہے، جس کے پہلے مصرعے میں محنت کی آہٹ ہے اور دوسرے میں قرب کی دھڑکن ہے۔ 9 سال تک لندن میں رہنے اور وہاں ایک سیکورٹی کمپنی میں جاب اور دیگر شہروں کے وزٹ کے دوران مقامی پاکستانی کمیونٹی سے ملاقاتوں کے بعد اندازہ ہوا کہ برطانوی پاکستانیوں کے بارے میں جو عمومی تصور پایا جاتا ہے، وہ مکمل سچ نہیں ہے۔ ہر فرد کے الگ خواب، تجربات اور تشریحات ہیں۔ ہر کوئی خوش حال ہے نہ خوش ہے، ان میں سے کوئی سمجھتا ہے کہ ہجرت اس کے لئے نشانِ منزل تھی، کسی کو اس پر پچھتاوا ہے، اور ایک طبقہ ایسا بھی ہے جو ’’کنفیوژن‘‘ کا شکار ہے، جس کو واپسی کا راستہ صاف دکھائی دیتا ہے اور نہ ہی مستقبل کی منزل دکھائی دیتی ہے۔سچ تو یہ ہے کہ پاکستانی کمیونٹی کی کہانی صرف ہجرت، محنت اور قربانی کی داستان ہی نہیں، بلکہ یہ دو تہذیبوں کے بیچ پسے ہوئے لوگوں کا ایک المیہ ہے جو آئندہ نسلوں کے لئے ایک’’انتباہ‘‘ کی حیثیت رکھتا ہے۔
پہلی نسل، وہ مہاجر مزدور ہیں جنہوں نے 1960 اور 70 کی دہائی میں برطانیہ کا رخ کیا۔ ان کی زندگیاں فیکٹریوں، برفیلے ریلوے اسٹیشنوں اور بسوں میں گزر گئیں۔ ان کا واحد خواب یہی تھا کہ آنے والی نسل کو ایک بہتر مستقبل نصیب ہو۔ کچھ لوگوں کے خواب پورے بھی ہوئے۔ لندن کے میئر صادق خان کا والد بس ڈرائیور تھا، سعیدہ وارثی کے والد کارخانے میں مزدور تھے۔ برطانیہ میں ’’بیسٹ ویز کیش اینڈ کیریز‘‘ کے مالک سر انور پرویز ابتدا میں بس ڈرائیور تھے۔ ’’یعقوب اینڈ سنز‘‘ نے بھی ترقی کا سفر نیچے سے اوپر کی طرف کیا۔ جبکہ سابقہ ممبر برٹش پارلیمنٹ اور ’’یونائٹڈ کیش اینڈ کیریز‘‘کے مالک چوہدری محمد سرور ایک فیکٹری ورکر تھے، جو بعد میں دو بار پنجاب کے گورنر بھی رہے۔ اسی طرح لارڈ نذیر بھی عام ورکر تھے جنہوں نے ترقی کرتے کرتے لارڈ شپ کی منزل کو پایا۔ لیکن ’’ہر پھول کی قسمت میں کہاں ناز عروساںخوو، ٹھہر سکتا ہے۔
(جاری ہے)
ذریعہ: Daily Ausaf
پڑھیں:
برج خلیفہ سبز ہلالی پرچم سے جگمگا اٹھا؛ پاک وطن کا یوم آزادی عالمی سطح پر بھی
پاکستان کے 78 ویں یومِ آزادی کے موقع پر متحدہ عرب امارات میں دنیا کی بلند ترین عمارت پر سبز ہلالی پرچم کے رنگین روشنیوں سے جگمگا اُٹھا۔
پاکستان کی جشنِ آزادی کی خوشیاں سرحدوں سے نکل کر آسمان کی بلندیوں کو چھونے لگیں جب دنیا کی بلند ترین عمارت ’برج خلیفہ‘ بھی سبز و سفید رنگوں میں چمکنے لگی۔
اس یادگار موقع پر ہزاروں کی تعداد میں پاکستانی اور دیگر مسلمان بھائی بڑی تعداد میں اس دلکش نظارے کو دیکھنے کے لیے موجود تھے۔
جیسے ہی برج خلیفہ نے پاکستانی پرچم اوڑھا دبئی کی فضا ’پاکستان زندہ باد‘ کے نعروں سے گونج اُٹھی۔ قومی ترانوں کی دُھن نے ایک سماں باندھ دیا اور دل جھوم اُٹھا۔
متحدہ عرب امارات میں مقیم پاکستانی اپنے اہل خانہ کے ہمراہ شریک تھے۔ بچوں نے قومی پرچم کی مناسبت سے کپڑے پہنے ہوئے تھے۔
خواتین نے بھی سبز اور سفید چوڑیاں پہنیں اور مردوں نے قومی پرچم لہرائے۔ آتش بازی کا مظاہرہ بھی ہوا۔
تقریب کا شرکا کا کہنا تھا کہ آزادی ایک نعمت ہے جس کا احساس ہم پردیس میں رہنے والوں کو سب سے زیادہ ہوتا ہے۔
برج خلیفہ پر پاکستانیوں کا اتحاد، اتفاق، محبت اور نظم ونسق اس بات کا ثبوت ہے کہ پاکستان صرف ایک جغرافیائی ملک نہیں بلکہ ایک جذبہ، ایک شناخت، ایک روشنی ہے جو دنیا کے ہر کونے میں بسنے والے پاکستانی کے دل میں چمکتی ہے۔