پاکستان شوبز انڈسٹری کی سابق اداکارہ زرنش خان نے حال ہی میں انسٹاگرام پر ایک اسٹوری کے ذریعے معروف میزبان نادیہ خان کے ایک بیان پر تنقیدی ردعمل دیا ہے۔

حال ہی میں نادیہ خان کا ہانیہ عامر اور بھارتی اداکارہ دلجیت دوسانجھ کے حوالے سے ایک وضاحتی بیان سوشل میڈیا پر وائرل ہوا تھا، جس میں انہوں نے کہا کہ ان کی رائے میں تبدیلی ہانیہ نہیں بلکہ دلجیت کے مؤقف کی بنیاد پر ہوئی ہے۔ نادیہ نے مزید کہا کہ وقت کے ساتھ مؤقف میں تبدیلی یوٹرن نہیں بلکہ دانشمندی ہے۔

زرنش خان نے نادیہ کے بیان پر سخت ردعمل دیتے ہوئے ان کا ویڈیو بیان اپنی انسٹا اسٹوری پر پوسٹ کیا اور لکھا کہ جب دوسروں کے بارے میں منفی بات کی جاتی ہے تو انہیں کیسا محسوس ہوتا ہے، یہ اب شاید نادیہ کو اندازہ ہو گیا ہوگا۔ زرنش نے سوال اٹھایا کہ نادیہ کو کس حق سے کسی کی شخصیت پر تبصرے کرنے، مذاق اُڑانے یا تنقید کرنے کی اجازت ہے؟

A post common by Daily Jiddat Karachi (@dailyjiddat)

زرنش نے نادیہ کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے کہا کہ عزت دیں گی تو عزت ملے گی، آپ اپنا وربل ڈائریا کنٹرول کریں تاکہ کسی کو موقع بھی نہ ملے۔

انہوں نے مزید کہا کہ جب خود پر بات آئے تو برداشت کرنا آسان نہیں ہوتا لیکن دوسروں کیلئے کچھ بھی کہہ دینا آسان ہوتا ہے۔ زرنش نے عوام کو بھی پیغام دیا کہ ہر فرد کو اپنے کام سے کام رکھنا چاہیے اور دوسروں کی زندگیوں میں مداخلت سے گریز کرنا چاہیے۔

TagsShowbiz News Urdu.

ذریعہ: Al Qamar Online

کلیدی لفظ: کہا کہ

پڑھیں:

ایک اور عاشورگزرگیا

ابھی دو دن پہلے عاشور گزرا ہے، شاید جب آپ یہ سطور پڑھ رہے ہوں تو کربلا کی خاک پر بہا ہوا وہ لہو آپ کے دل پر دستک دے رہا ہو، وہ لہو جس نے تاریخ کے ضمیر کو جھنجھوڑا اور ہمیں یہ بتا دیا کہ سرکٹ سکتا ہے جھکا یا نہیں جاسکتا۔ دو دن پہلے گزرا عاشور آج بھی ہمارے اندر موجود ہے، ہمارے سوال، ہماری خاموشی، ہماری بزدلی اورکبھی کبھار ہماری جرات میں۔

عاشور صرف ایک مذہبی واقعہ نہیں، یہ وقت کے ہر یزید کے خلاف حسین کا پیغام ہے۔ حسینؑ نے اس وقت کے طاقتور، جابر اور فاسد حکمران کو یہ کہہ کر للکارا تھا کہ ’’ مجھ جیسا اس جیسے کی بیعت نہیں کرتا ‘‘ یہ ایک سیاسی اعلان تھا، ایک انقلابی منشور جس کا مقصد ظالم کو بے نقاب کرنا تھا، چاہے اس کے بدلے میں گھر اجڑ جائے، بچے پیاسے مرجائیں یا سر نیزے پر چڑھ جائے۔

 یہ داستان صرف ساتویں صدی کی نہیں ہے۔ آج بھی دنیا کے ہرکونے میں یزیدیت زندہ ہے۔ کہیںیہ یزیدیت ریاستی جبرکی صورت میں ہے، کہیں سامراجی لشکروں کے حملے میں ،کہیں عورت کی آزادی کو روندنے والے فتوؤں میں اور کہیں قلم اور زبان پر لگی پابندیوں میں۔ حسینؑ کے ماننے والے اگر صرف ماتم کریں مگر ظلم کے خلاف کمر نہ کسیں تو یہ ماتم ادھورا ہے۔ہم جس دنیا میں رہ رہے ہیں وہاں جبر، استحصال، ناانصافی اور لالچ نے انسان کی زندگی کو بے وقعت کردیا ہے۔

فلسطین سے لے کر کشمیر تک کابل سے لے کر افریقی براعظم کے قحط زدہ علاقوں تک خون ہی خون ہے، پیاس ہی پیاس ہے اور حیرت اس پر نہیں کہ یہ سب ہو رہا ہے۔ حیرت اس پر ہے کہ ہم خاموش ہیں۔ وہ خامشی جو کربلا کے میدان میں کہیں نظر نہیں آتی۔ وہاں تو حسین ؑ اکیلے کھڑے ہوگئے تھے، صرف اس لیے کہ سچ کا، حق کا پرچم نہ جھکے۔

یاد رکھیے یزید صرف وہ نہیں تھا جس کا نام تاریخ کی کتابوں میں آیا۔ ہر وہ شخص، ہر وہ نظام، ہر وہ طاقت جو انسان کے ضمیر کو خریدنے کی کوشش کرے، جو حریتِ فکر پر پہرہ بٹھائے، جو اختلاف کو جرم بنا دے، وہ یزید ہے اور ہر وہ شخص جو ظلم کے خلاف کمرکس لے ،جو طاقت کے سامنے سچ کہنے کی ہمت رکھے، جو اپنی جان کی پروا کیے بغیر مظلوم کے ساتھ کھڑا ہو جائے وہ حسینؑیت کا علمبردار ہے۔

کربلا ہمیں یہ بھی سکھاتی ہے کہ تعداد اہم نہیں موقف اور مقصد اہم ہے۔ حسینؑ کے ساتھ بہترسرفروش تھے مگر ان کا موقف اور مقصد تاریخ کا رخ بدل گیا۔ آج ہم بھی اگر یہ سمجھ لیں کہ ہماری آواز اکیلی سہی لیکن اگر وہ آواز سچ کی ہے تو دیر سویر گونجے گی ضرور۔ اس گونج کی پہلی صورت ضمیرکی بیداری ہے۔اس عاشور پر ایک عجیب کیفیت طاری رہی۔ شہر میں جلوس نکلے، نوحے پڑھے گئے، ماتم ہوا ، نذر نیاز تقسیم ہوئی مگرکیا ہم نے خود سے پوچھا کہ ہم کس طرف کھڑے ہیں؟ کیا ہم ظلم کے خلاف حسینیت کے ساتھ ہیں یا خاموشی کے پردے میں یزیدیت کا ساتھ دے رہے ہیں؟

میں نے ایک اہل سنت گھرانے میں آنکھ کھولی اور بچپن سے اپنے بڑوں کو ایام محرم کا احترام کرتے دیکھا۔ ہمارے ہاں کوئی نیا کپڑا ان دنوں نہیں پہنا جاتا اور ہلکے رنگ کے کپڑے پہنے جاتے، میں تو کالے ہی کپڑے پہنتی، نذر نیاز کا اہتمام ہوتا، کڑاھائی بارہ دن چولہے پہ نہ چڑھتی، قینچی استعمال نہیں کی جاتی، بال نہیں کٹوائے جاتے اور نہ کوئی شادی ان دنوں میں ہوتی نہ ہم کسی کے بلانے پہ جاتے۔ میں تو مجالس میں ماتم بھی کرتی تھی، امی بھی مجالس میں جایا کرتی تھیں۔

میرے بچپن میں شیعہ سنی دونوں ایک دوسرے کے ساتھ بڑی ہم آہنگی کے ساتھ رہتے تھے اور ایک دوسرے کا احترام کرتے تھے۔اس وقت سوال یہ ہے کہ جب فلسطین میں بچوں کے لاشے اٹھائے جا رہے ہیں، جب شام کے شہرکھنڈر بن چکے ہیں، جب یمن کے لوگ بھوک سے بلک رہے ہیں اور ہم صرف تعزیت کے پوسٹر لگانے پر اکتفا کرتے ہیں تو کیا ہم واقعاً حسینی ہیں؟ یا صرف رسمِ عاشور نبھا رہے ہیں؟

آج جب دنیا جدید ٹیکنالوجی مصنوعی ذہانت اور خلائی سفرکے خواب دیکھ رہی ہے، ہم اب بھی انسان کی بنیادی حرمت کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ ایک طرف سرمایہ دار نظام ہے جو چند افراد کے مفاد میں کروڑوں انسانوں کا استحصال کرتا ہے، دوسری طرف ملوکیت ہے جو دین کے نام پر غلامی کو جائز قرار دیتی ہے۔ ان دونوں کے بیچ حسین ؑ کی صدا گونجتی ہے، انسان کو آزاد پیدا کیا گیا ہے، وہ غلام نہیں۔

امام حسین ؑ کا موقف کسی خاص فقہ، قوم یا علاقے تک محدود نہیں۔ وہ تمام انسانیت کے لیے ایک مشعل راہ ہے، وہ تمام مظلوموں کے لیے ایک امید ہے اور تمام ظالموں کے لیے ایک انتباہ۔ وہ ہمیں سکھاتے ہیں کہ اصول پر سمجھوتہ نہیں کیا جا سکتا اور زندگی کی سب سے بڑی جیت یہ ہے کہ انسان اپنے ضمیر کے ساتھ کھڑا ہو۔

تاریخ کی ستم ظریفی یہ ہے کہ ہم مظلوم کو روتے ہیں مگر ظالم کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں، ہمیں مزاحمت کے جذبے کی طرف بڑھنا ہوگا۔ ہمیں حسین ؑ کو صرف روضے کی زیارت اور ذاکر کی تقریر تک محدود نہیں رکھنا، ہمیں اسے اپنے عمل میں زندہ کرنا ہوگا۔ جب ایک عورت کسی ظلم کے خلاف آواز اٹھاتی ہے ،جب کوئی طالب علم سوال کرنے کی جرأت کرتا ہے، جب کوئی صحافی سچ لکھنے پر پابندی کے خلاف کھڑا ہو جاتا ہے تو سمجھ لیجیے کہ کربلا کا پیغام آج بھی زندہ ہے اور حسین ؑ آج بھی سرفراز ہیں۔

اس عاشور پر ایک لمحہ رُک کر سوچیے کہ ہم کہاں کھڑے ہیں؟ کیا ہم نے کبھی اس یزیدیت کو پہچانا ہے جو ہمارے سماج میں طاقتورکی صورت فرقہ واریت کے ہتھیار اور غربت کے شکنجے میں چھپی بیٹھی ہے؟ کیا ہم نے کبھی اپنے اردگرد کے مظلوموں کی آہ سنی ہے؟ کیا ہم نے کبھی اپنی خامشی پر سوال اٹھایا ہے؟کاش! ہم صرف آنسو نہ بہائیں، چراغ بھی جلائیں، وہ چراغ جو سچائی حریت اور بغاوت کے لیے جلتے ہیں۔ تبھی ہم کہہ سکیں گے کہ ہم نے عاشورکو صرف یاد نہیں کیا، اس پر عمل بھی کیا۔

متعلقہ مضامین

  • ایک اور عاشورگزرگیا
  • کوہلی کا ومبلڈن ٹینس اور پاک بھارت کرکٹ میچ کے درمیان دلچسپ موازنہ
  • نادیہ جمیل نے ’بیوی کو شوہر کی ماں بننے سے‘ متعلق بیان پر وضاحت دے دی
  • ہنزہ میں یوم عاشور کا مرکزی جلوس
  • یہ بات ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ پیپلز پارٹی نہ بنتی ہے اگر کشمیر کا ایشو نہ ہوتا، سعید غنی
  • اسمارٹ فونز کے زیادہ استعمال سے بچوں کی سیکھنے کی صلاحیت متاثر ہوتی ہے، تحقیق
  • ہر نئے کاروباری ہفتے کے آغاز پر جسم پر مرتب ہونیوالے حیرت انگیز اثر کا انکشاف
  • اے سی میں ڈرائی موڈ کیا کام کرتا ہے اور یہ کیسے بجلی کا بِل کم کرسکتا ہے؟
  • بجٹ پیش نہ کرنے کا پراپیگنڈا اپنوں کا تھا، ہماری حکومت چلی جاتی: گنڈاپور