Express News:
2025-10-06@19:04:27 GMT

تاریخ کی روشنی میں کراچی کے قدیم ناموں کا سفر

اشاعت کی تاریخ: 6th, October 2025 GMT

گُذری ان گنت صدیوں میں مختلف خطوں پر عروج پانے والی کئی تہذیبوں نے انسانی تمدن پر گہرے نقوش ثبت کیے ہیں۔

آج ان قدیم تہذیبوں کے حامل خطوں کی اقوام اپنی ثقافتی روایات کے سنگ سنگ دور جدید سے بھی ہم آہنگ ہیں۔

اس نقطے پر کچھ سمے کے لیے رک کر کیا کبھی ہم نے سوچا کہ آغاز تمدن کے حامل ان خطوں پر بسے دیش، ان کے شہروں، دریاؤں، صحراؤں اور پربتوں کے نام آخر کیسے وجود میں آئے۔

یہاں ایک اور سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ انسان کو مقامات کے نام رکھنے کی حاجت کب اور کیوں پیش آئی۔

اس آگہی کے لیے جب ہم نے تاریخ کے پنوں کو پلٹا تو یہ جانکاری ملی، کہ مقامات کے نام رکھنے کی تاریخ انسانی تہذیب جتنی ہی قدیم ہے۔

جیسے ہی انسان نے گپھاؤں سے کچے مکانوں، شکار سے کھیتی اور قبائل سے تہذیب کی طرف قدم بڑھایا، تو اسے اپنی زمین، اس کے دریا، ندیوں اور بستیوں کو شناخت دینے کی ضرورت محسوس ہوئی۔

اور یہ تھی پہچان یا نام رکھنے کی شروعات۔

نام دینے کے لیے وہاں موجود کسی فطری خوب صورتی کو علامت کے طور پر برتا گیا، کہیں کسی دیومالائی شخصیت سے کوئی مقام منسوب ہوا تو کہیں کوئی یادگار واقعہ، دیوی دیوتاؤں کے ناموں اور اِس طرح کے دیگر محرکات ناموں کا کارن بنتے گے۔

وقت کے دھارے پر بہتے ان ناموں نے کئی روپ بدلے۔ ان ہی خطوں پر بولی جانے والی بولیاں صدیوں کے معاشرتی عمل سے گزرتے ہوئے ناموں میں کچھ بدلاؤ کا باعث بنتی گئیں۔ نیز قرب و جوار سے آنے والوں کے صوتی ماخذ بھی اس تبدل میں حصہ ڈالتے رہے۔

ان کے ساتھ بڑا کھلواڑ فاتحین نے کیا، کہ فتح کی صورت میں مفتوحہ خطے کو اپنے ہی نام سے منسوب کرتے رہے۔

ناموں کے اس بنتے بگڑتے تناظر میں اب ہم شہر کراچی کو ماضی کے آئینے میں رکھ کر کھوج لگائیں گے کہ وہ کب سے اور کیوں ناموں کے گرداب کا سامنا کرتا رہا۔

آج ہم نے جس شہر کو عروس البلاد کے خطاب سے نوازا ہے، وہ صرف ایک شہر نہیں بلکہ ایک تاریخ اور ایک مسلسل ارتقاء کی علامت ہے۔

بندرگاہ سے ملحق بستی نے شہر کے مقام تک پہنچنے کے لیے کئی دہائیوں کا سفر طے کیا ہے۔

اس مہانگر نے سمے کے بہاؤ میں کئی روپ بدلے، ہر روپ کے ساتھ اس نے اپنا نام بھی بدلا، ان ناموں کے بیچ تاریخ کی پرتیں کھولنے والی کتھائیں بھی سنگ سنگ ہیں۔

اس کا ہر اسم پارینہ ہمیں ماضی کی ایک جھلک دکھاتا ہے۔ یہ بتاتا ہے کہ کسی طرح ایک چھوٹی سی بندرگاہ تاریخ کے بہاؤ میں بہتی بہتی ایک عالمی بندر گاہ کی صورت اختیار کرگئی۔

ناموں میں چھپی د استان بتاتی ہے کہ یہ قدیم نام صرف زبانوں اور لہجوں کا فرق نہیں، بلکہ یہ اس کی تہذیبی، ثقافتی اور مقامی شناخت کی نمائندگی کرتی ہیں۔

ماضی کی یہ پر چھائیاں ہمیں بتاتی ہیں، کہ کوئی نگر، کوئی استھان صرف ایک نقشہ نہیں ہوتا بلکہ وہ تاریخ کا بتدریج تسلسل ہوتا ہے۔

اب ماضی کی ان پرچھائیوں کے سنگ کراچی کے ناموں کی تاریخ کے تسلسل کی طرف بڑھتے ہیں۔

دریائے سندھ، کشمیر سے چلتا، پنجاب سے گزرتا، گھارو سے ہوتا ہوا ابراہیم حیدری کے قریب سمندر میں گرنے تک ایک فعال آبی گذرگاہ تھی۔

سمندر اور دریا کی اس قربت کے سبب ابراہیم حیدری کے قرب و جوار میں در آمدوبرآمد کی جانے والی اجناس کی نقل و حرکت کے لیے گذِری، واگو در، ریڑھی اور رتو کوٹ جیسی سرگرم بندر گاہیں موجود تھیں۔

پھر صدیوں بعد دریائے سندھ کے پیچھے ہٹ جانے سے قریب ہی موجود سمندر ان علاقوں میں چڑھ دوڑا، جس کے نتیجے میں یہ تمام بندرگا ہیں سمندر میں ڈوب گئیں۔

مگر کیماڑی کی بندرگاہ اپنے محل وقوع اور گہرائی کے سبب صدیوں سے قائم رہی۔ تجارتی اور فوجی نقطہ نظر سے اسے وسطی ایشیاء کا دروازہ تصور کیا جاتا ہے۔

کیماڑی سے ملحق اس بستی کو شناخت کے حوالے سے وہاں کے مقامی افراد، تاجروں اور بندرگاہ پر درآمدی و برآمدی تجارت کی موجودگی کے سبب روزگار کے وافر ذرائع سے مستفید ہونے کے لیے آس پاس اور دور دراز سے آنے والوں کی صوتی ادائیگی یا کبھی بزور قوت قبضہ کرنے والوں نے اپنے اپنے ناموں سے پکارا۔

غیر ملکی تاریخ دانوں، سیاحوں اور جغرافیہ دانوں نے صدیوں قبل اسے مختلف ناموں سے قلم بند کیا ہے۔

قرین قیاس یہ بھی ہے کہ موجودہ کیماڑی سے بھنبھور تک کے طویل ساحل پر ایک سے زائد چھوٹی بڑی بندرگاہیں اور مچھلی بندر موجود تھے، جو مختلف ناموں سے اپنی الگ الگ پہچان رکھتے ہوں۔

تاریخ میں محفوظ رہ جانے والے کچھ نام اِس طرح ہیں۔

کرو کو لا، بار بیریکون، راس الکرازی، سکندری جنت، مورن ٹو بارا، کرنجی، قلاچی، وا گودر، دھاریجہ، دربو، کرانچر، دیبل، کراشی کو راچی، کراچے ٹاؤن، کراچی۔

تاریخ دان ایچ ٹی لیمبرک (H.

T. LAMBREK) اپنی تصنیف ’’Sind: A general introduction‘‘میں رقم طراز ہے کہ 326 قبل مسیح، سکندراعظم کا جرنیل ’نیارکس‘ اپنے وطن واپسی پر جب کراچی کے ساحل کے قریب سے گزرا تھا، اس وقت یہاں قریب ہی ایک بندرگاہ موجود تھی، اور نیارکس نے اپنے سفر نامے میں اِس بندرگاہ کو ’مورن ٹوبارا‘ لکھا ہے۔ یہ یونانی زبان کا لفظ ہے، جس کے معنی ہیں ’عورت کی بندرگاہ۔‘ ان دنوں اس بندرگاہ اور اس کے قریب کے علاقے پر کسی عورت کی حکم رانی تھی۔ اسے اِستری بندر بھی کہا گیا۔ (اِستری، ہندی زبان میں عورت کو کہا جاتا ہے)۔

جنرل نیارکس نے اس ساحل کے قدرتی حسن سے متاثر ہوکر اس مقام کو اپنے بادشاہ سکندر اعظم کی نسبت سے ’’سکندری جنت‘‘ کے نام سے بھی پکارا ہے۔

پہلی صدی عیسوی کے قدیم رومن تجارتی نقشوں اور تحریروں میں اس بندرگاہ کو ’بار بیریکون‘ اور ’کرو کولا‘

کا نام دیا گیا۔

712 عیسوی میں عربوں نے سندھ کا رخ کیا۔ عرب جس راستے سے سندھ میں داخل ہوئے، اُسے انہوں نے ’درب السندھ‘ کا نام دیا۔ درب عربی زبان میں راستے کو کہتے ہیں۔ کثرت استعمال سے یہ درب سے ’دربو‘ بن گیا۔

اسے ’واگو در‘ بھی کہا گیا۔ (واگو، سندھی زبان میں مگرمچھ کو کہا جاتا ہے۔) قدیم زمانے میں سندھ میں واگو (مگرمچھ) کی پوجا ہوتی تھی۔

ایک لوک داستاں کے مطابق یہاں مقیم ایک بہادر خاتون کی بہادری کے اعتراف میں اس مقام کو ’مائی کلاچی‘ کا نام دیا گیا۔

پرتگالی، فرانسیسی اور دوسرے مغربی تاجر 16 ویں اور 17 ویں صدی عیسوی میں اس بندرگاہ کو اپنے تلفظ کے مطابق اسے ’کروچ‘ (CROCHE) یا ’کراچ‘ (CURACHE) لکھتے رہے۔

1557ء میں کیپٹن سعید علی نامی ترک جہازراں نے بر صغیر و خلیج فارس سمیت کئی بندر گاہوں کا مطالعاتی دورہ کیا۔ اس پورے مطالعے کو اس نے ’محیط‘ کے نام سے ایک کتاب کی صورت میں مرتب کیا۔ بیرن جوزف ہومر نے اس کتاب کا انگریزی میں ترجمہ کیا۔

کیپٹن سعید علی ’محیط‘ میں رقم طراز ہیں:

’’بحیرۂ عرب میں جب تمہیں یہ محسوس ہونے لگے کہ تمہارا جہاز ’جاسک‘ (ایک ایرانی بندرگاہ) کی طرف سمندری گرداب کی جانب جا رہا ہے تو تم اسے اس گرداب فنا سے بچانے کی کوشش کرو اور اپنے جہاز کو ساحل مکران سے یا تو گوادر بندر کی طرف لے جاؤ یا پھر بندرگاہ ’کراتشی‘ (کراچی) میں پناہ لو تاکہ تم جاسک میں غرق ہونے سے بچ سکو اور سمندری گرداب سے نجات حاصل کرو۔‘‘

1697ء میں کلہوڑا حکم رانوں نے خوں بہا کے عوض کراچی کو والئی قلات کے سپرد کیا تو اس عرصے کے دوران اسے ’قلاتی بندر‘ کہا جانے لگا۔

اٹھارویں صدی عیسوی میں شاہ عبداللطیف بھٹائی نے اپنے کلام کے سُر ’گھاتو‘ میں اس مقام کو ’کلاچی‘ کے نام سے پکارا ہے۔

کلہوڑہ حکم راں میاں غلام شاہ کلہوڑہ نے ایسٹ انڈیا کمپنی کے اہل کار، ناتھن کرو سے ستمبر 1758ء میں ہونے والے معاہدے میں کراچی کا نام ’گرانچیری دھاراجہ‘ (DHARAJAH GRANCHERI ) تحریر کیا ہے، اور تین سال بعد 1761ء میں اسے ’گرانچرد ھاراجہ‘ لکھا ہے۔

تالپور دور میں 18 اگست 1799ء میں کیے گئے ایک معاہدے میں میر فتح علی خان تالپور کی مہر لگی ایک دستاویز میں‘KURRACHI’تحریر کیا گیا ہے۔

کراچی کو ’کراشیر‘ کے نام سے بھی پکارا گیا ہے۔ برطانوی عہد کے کاغذات میں اسے ’کراشیر‘ تحریر کیا جاتا رہا ہے۔

انیسویں صدی میں مختلف کمپنیوں کے دفاتر کے ساتھ ساتھ بینک بھی کھلنے لگے۔ شہر کا کوئی ایک نام مقرر نہ ہونے کی بنا پر یہاں کے ادارے اس کے مختلف نام تحریر کرتے رہے۔ جیسے ’کراچے ٹاؤن‘ کوراچے اور کریچی- ان دنوں ریلوے اور ڈاک کے محکمے اسے کوراچی لکھتے تھے۔

ایک ہی شہر کے یہ مختلف نام الجھنیں پیدا کرنے لگے۔

1860ء میں جب شہر میں چیمبر آف کامرس کا قیام عمل میں آیا، اور اس نے حکومت سے اِسے ’کراچی‘ کے نام سے پکارے جانے کی سفارش کی، تو بلا جھجھک اس نام کی منظوری دے دی گئی۔

یوں وقت کے دھارے پر بہتے، ناموں کے بھنور میں ڈوبتے ابھرتے کئی ناموں سے پکارا جانے والا یہ شہر 1860ء سے آج تک ’کراچی‘ کے نام سے معروف ہے۔

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: س بندرگاہ مختلف نام کے نام سے ناموں کے کے لیے کی طرف کا نام

پڑھیں:

پسنی بندرگاہ کمرشل ہوگی، سکیورٹی کسی کے حوالے نہیں کی جائے گی، سکیورٹی ذرائع

اسلام آباد ( اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 05 اکتوبر2025ء ) عالمی جریدے فنانشل ٹائمز کی پاکستان کی طرف سے امریکہ کو پسنی بندرگاہ کی تعمیر کی پیشکش کی خبر پر سکیورٹی ذرائع نے وضاحت جاری کردی۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق سکیورٹی ذرائع کا کہنا ہے کہ پسنی بندرگاہ کے آپریشنز کمرشل بنیادوں پر چلائے جانے کی تجاویز ہیں اس حوالے سے حتمی فیصلہ ہونا ابھی باقی ہے، یہ بندرگاہ پاکستانی معدنیات کو شراکت دار ممالک تک پہنچانے میں اہم کردار ادا کرے گی مگر اس بندرگاہ کی سکیورٹی کسی بھی صورت کسی دوسرے ملک کے حوالے نہیں کی جائے گی، پاکستان کی سکیورٹی کی ذمہ داری صرف پاکستان کی ہے۔

سکیورٹی ذرائع نے کہا کہ پاکستان کام سب کے ساتھ کرے گا مگر سکیورٹی کی گارنٹی ہم نے خود کرنی ہے، پاکستان میں چین گوادر پورٹس سمیت مختلف بڑے منصوبوں میں کام کر رہا ہے مگر ان تمام کی سکیورٹی کی ذمہ داری صرف پاکستانی فورسز کے پاس ہے، اسی طرح معدنیات کی شراکت داری کے معاملے میں بھی سکیورٹی کے امور صرف پاکستان ہی دیکھے گا، پاکستان کسی کے کندھے پر رکھ کر سکیورٹی حاصل نہیں کرے گا، یہ پاکستان کے ڈی این اے میں ہی نہیں کہ ملک کے کسی حصے کی سکیورٹی کیلئے کسی دوسرے ملک کی خدمات لی جائیں۔

(جاری ہے)

سکیورٹی حکام کہتے ہیں کہ صرف ایک یا دو پورٹس کو ڈویلپ کرنے سے مسائل کا حل نہیں نکلے گا، پاکستان ایک اہم ترین سمندری راستے کا حصہ ہے اسے اپنی مزید پورٹس ڈویلپ کرنا ہوں گی تاکہ ملک اپنی صلاحیت سے بھرپور فائدہ اٹھا سکے، پسنی بندرگاہ کے آپریشنز کمرشل بنیادوں پر چلانے کی تجاویز تیار کی گئی ہیں، آنے والے دنوں میں معدنیات اور سیاحت سے متعلق شعبوں میں سرمایہ کاری کیلئے مزید تجاویز بھی سامنے آئیں گی۔

ذرائع نے کہا کہ جیسا کہ گزشتہ صدی آئل اینڈ گیس کی صدی تھی موجودہ صدی منرلز اینڈ مائننگ کی صدی ہے، یہی وقت ہے کہ پاکستان منرلز اینڈ مائننگ کے پوٹینشل سے فائدہ اٹھائے لیکن ہم اکیلے وسائل سے فائدہ نہیں اٹھا سکتے، دوسرے ممالک کے ساتھ مل کر ہی چلنا ہے اور پاکستان نے صرف اپنا مفاد دیکھنا ہے، پسنی ہو، ریکوڈک یا کچھ اور اس میں صرف دیکھا یہ جائے گا کہ پاکستانی عوام کا کیا فائدہ ہے، ہر ملک کے اپنے مفادات ہوتے ہیں پاکستان نے صرف اپنے مفادات دیکھنے ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • ایم ڈبلیو ایم کراچی کے تحت شہید حسن نصراللہ کی برسی پر دعوت ناموں کی تقسیم
  • پی ٹی آئی کا پارلیمانی اجلاس: اپوزیشن لیڈرز کے ناموں کی منظوری
  • عمران خان کی ہدایت کے بعد پی ٹی آئی نے سینیٹ اور قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر کے عہدے کے لیے ناموں پر اتفاق کر لیا
  • سینیٹ اور قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر کے عہدے کے لیے ناموں پر پی ٹی آئی میں اتفاق
  • کچھ شارکس روشنیاں خارج کیوں کرتی ہیں؟
  • سعودی عرب میں 46 کروڑ سال پرانا قدرتی شاہکار ’دلہن چٹان‘
  • پسنی بندرگاہ کمرشل ہوگی، سکیورٹی کسی کے حوالے نہیں کی جائے گی، سکیورٹی ذرائع
  • عابد حسین، درجنوں افراد کی پی ایچ ڈی اور دریافتوں میں مددگار
  • 16 کروڑ سال پرانی مخلوق: اسکاٹ لینڈ میں سانپ اور چھپکلی کے ملاپ جیسا قدیم جانور دریافت