data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251007-03-5
سید اقبال ہاشمی
آٹھ اسلامی ممالک کو ملوث کرنے کے بعد ٹرمپ کا مسئلہ اسرائیل کے حل کے لیے جو بیس نکات پر مبنی ایجنڈا سامنے آیا ہے اس پر سارے مسلمان ان نکات سمیت مسلمان حکمرانوں پر بھی تھو تھو کر رہے ہیں جو اس سازش میں پابہ رکاب رہے۔ اس حل میں کوئی ایک نکتہ بھی ایسا نہیں ہے جو کہ فلسطینیوں کے حق میں ہو یا اسرائیل کے خلاف ہو۔ اور اس کے باوجود نیتن یاہو ہرزہ سرائی کر رہا ہے کہ اسرائیل کے لوگوں کو یہ منصوبہ قبول نہیں ہے۔اس وقت فلسطینی ہر روز شہید ہو رہے ہیں۔ عمارات ملبے کا ڈھیر بن رہے ہیں اور اس سے زیادہ سنگین مسئلہ یہ ہے کہ ان کا بدترین محاصرہ جاری ہے جس میں بد قسمتی سے اسلامی ممالک بھی شامل ہیں۔ حالات ایسے سنگین ہیں کہ مغرب جو اس ساری صورتحال کا ذمے دار ہے وہاں پر بھی لوگ چیخ پڑے ہیں اور احتجاج کے لیے سڑکوں پر نکل آئے ہیں۔ وہاں حکومت اور عوام میں اس معاملے میں واضع خلیج نظر آ رہی ہے کیونکہ سوشل میڈیا نے مظلوم اور ظالم کا فرق واضح کر دیا ہے۔ اسرائیل کے مظالم نے ہٹلر اور چنگیز خان کو بھی مات دے دی ہے۔ اس ناجائز قابض کی چیرہ دستیاں اس قدر بڑھ گئی ہیں کہ غیر مسلح فلوٹیلا جو کہ محض غذائی اجناس اور ادویات لے کر فلسطین کی طرف رواں دواں تھا اسے بین الاقوامی پانیوں میں روکا گیا، ان پر حملہ کیا گیا اور ان سب کو جرم بے گناہی میں گرفتار کرکے نظر بند کر دیا گیا ہے۔ پاکستان سے بھی چھے افراد بشمول سینیٹر مشتاق احمد خان ان لوگوں میں شامل ہیں۔
ٹرمپ کے بیس نکات پڑھنے سے ہی اندازہ ہو جاتا ہے کہ یہ تل ابیب میں لکھے گئے ہیں اور یہ ٹرمپ پلان نہیں بلکہ نیتن پلان ہے۔ ٹرمپ جب شروع شروع میں تحائف سے لدے پھندے عرب ممالک کے کامیاب دورے سے واپس آئے تھے تو مشکور ہو کر انہوں نے دبے دبے الفاظ میں فلسطین کی بات کرنے کی کوشش کی تھی لیکن ان کے ملک کا ڈیپ اسٹیٹ فوراً متحرک ہوگیا۔ مقدمات کھلنا شروع ہوگئے۔ Epstein File کی باتیں ہونے لگیں اور نتیجتاً انہوں نے اپنے بیانات پر فوراً یو ٹرن لے لیا۔ غلامی کی یہ دستاویز دشمنوں نے تیار کی تو یہ کوئی اچھنبے کی بات نہیں ہے۔ حیرت تو اس پر بھی نہیں ہے کہ اسلامی ممالک بھی اس میں شامل ہیں کیونکہ ہمارے یہ سارے لیڈر ان کے تلوے چاٹنے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔ افسوس تو اس بات پر ہے کہ ہم ایٹمی قوت ہیں۔ دنیا کی دس بہترین افواج میں ہمارا شمار ہوتا ہے۔ حال ہی میں ہم نے ہندوستان کو جو سبق سکھایا ہے وہ ہندوستان اور تاریخ دان دونوں یاد رکھیں گے۔ لیکن ان سب کا کیا فائدہ اگر ہمارے لیڈر فلسطین کے قصاب کو نوبیل انعام کے لیے نامزد کرنے میں فخر محسوس کریں اور معاہدے کے متعلق بڑھکیں ماریں۔
فلسطین میں مزاحمت کی جو کوشش کی گئی اس کے نتیجے میں غلامی کی زنجیریں تھوڑی ڈھیلی ہو رہی تھیں تو اس کا احساس کرتے ہوئے اب ٹرمپ نے جو پلان دیا ہے اس سے فلسطینیوں کے گرد شکنجے اور کس دیے جائیں گے۔ ٹرمپ کے امن نکات میں سے ایک نکتہ بھی ایسا نہیں ہے جو کہ فلسطینیوں کی حمایت میں ہو جن کی یہ سر زمین ہے، اور ایک نکتہ بھی ایسا نہیں ہے جو اسرائیل کے خلاف ہو جس نے عربوں کی زمین پر جبری قبضہ کر رکھا ہے۔ اس وقت اسرائیل کو سب سے زیادہ تکلیف اپنے یرغمال فوجیوں اور شہریوں کی رہائی کے لیے ہے۔ اس لیے پہلے دو نکات جنگ بندی اور یرغمالیوں کی رہائی سے متعلق ہے۔ یہ جنگ تو اسرائیل نے یک طرفہ طور پر جاری رکھی ہوئی ہے۔ وہ جب چاہے جنگ بند کر سکتا ہے۔ رہ گئی بات یرغمالیوں کی رہائی کی تو اسے مستقل جنگ بندی اور فلسطین کو ریاست ماننے سے مشروط ہونا چاہیے کیونکہ فساد کی جڑ تو یہی ہے کہ فلسطین میں الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے والا معاملہ ہے۔ اسرائیل اپنے تمام قیدیوں کی رہائی چاہتا ہے لیکن شق نمبر تین کے مطابق اپنے جیلوں میں قید تمام فلسطینیوں کو رہا کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ جب اسرائیل کی تمام باتیں بلا چوں و چرا تسلیم کر لی جائیں گی تو اسرائیل غذا و ادویات کی محدود فراہمی کی اجازت دے گا۔
سب سے زیادہ شرمناک شرط غیر مشروط طور پر ہتھیار ڈالنے سے متعلق ہے۔ حماس نہ صرف یہ کہ غزہ کو مکمل طور پر اسلحہ سے پاک کرے بلکہ وہ خود بھی غزہ سے نکل جائے۔ واضح رہے کہ حماس فلسطین میں سیاسی طور پر بھی مقبول ہے اور پچھلا الیکشن وہ جیت گئے تھے اور ان کی حکومت زبردستی ختم کی گئی تھی۔ حماس کو فلسطین سے نکالنے کا مطلب ہے فلسطینیوں کو غزہ سے نکالنا۔ اور نیت کی بے ایمانی تو بنیادی طور پر یہی ہے کہ وہ غزہ کو خالی کروا کر اپنے رئیل اسٹیٹ کا کاروبار چمکانا چاہتے ہیں۔ اس کے لیے اگر غزہ کے تیس لاکھ مکینوں کو جہنم میں جھونکنا پڑے تو وہ یہ بھی کر لیں گے بلکہ کر رہے ہیں۔ غزہ میں جو عبوری حکومت قائم ہوگی اس کے سربراہ ٹرمپ ہوں گے اور کرتا دھرتا ٹونی بلیئر۔ بلی کو گوشت کی رکھوالی دینے کا پلان ہے لیکن یہ اتنے ڈرپوک ہیں کہ ایسا کرنے سے پہلے غزہ کو فوج سے پاک علاقہ بنانا چاہتے ہیں۔ عام معافی سے فائدہ اٹھانے والے غزہ کے مکینوں کو غزہ میں رہنے کا موقع دیا جائے گا یعنی کہ علاقہ بھی ان کا اور احسان بھی ان کی گردن پر۔ غزہ کی تعمیر نو کی جائے گی اور اقتصادی زون قائم کیے جائیں گے جہاں اسرائیل کی کمپنیاں آئیں گی اور غزہ کے سستے مزدوروں کو استعمال کر کے پوری دنیا کو مال برآمد کریں گی یعنی کہ استعماری نظام ان کو اپنے جال میں پھنسا جکڑ لینا چاہتا ہے۔ اگر غزہ کے لوگوں نے سر تسلیم خم کیا تو ایک طویل مدت کے بعد انہیں اقتدار میں شراکت کے متعلق سوچا جا سکتا ہے۔
بنیادی طور پر یہ ایک غلامی کی دستاویز ہے جس میں مسلمان ممالک نے بھی شرکت کا جرم کیا ہے۔ پاکستان میں اس پر عوام کے سخت ردعمل کے نتیجے میں حکومت اب بونگیاں مار رہی ہے۔ دستخط کرنے کے بعد اب ان کو پتا چل رہا ہے کہ دستاویز میں تبدیلی کر دی گئی ہے۔ یہ اوّل درجے کے منافق اور امت میں دراڑ ڈالنے والے لوگ ہیں۔ نہ انہیں قوم معاف کرے گی اور نہ تاریخ۔ قوم نے یہ معاہدہ ان کے منہ پر مار دیا ہے۔ بہتر ہے کہ یہ بھی معاہدہ امریکا کے منہ پر مار دیں ورنہ جو احتجاج ہوگا اسے یہ نہیں سنبھال پائیں گے اور عوام کا احتجاجی سیلاب انہیں بہا کر لے جائے گا۔ تاریخ میں یہ میر جعفر اور میر صادق کی صف میں کھڑے ہوں گے۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: اسرائیل کے کی رہائی رہے ہیں نہیں ہے کے لیے پر بھی غزہ کے
پڑھیں:
ظہران ممدانی نے ملاقات کی درخواست کی ہے، ٹرمپ
امریکی صدر ٹرمپ نے کہا ہے کہ نیو یارک کے نئے میئر ظہران ممدانی نے ملاقات کی درخواست کی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے اس بات پر اتفاق کیا ہے کہ یہ میٹنگ جمعہ 21 نومبر کو اوول آفس میں ہوگی۔
علاوہ ازیں واشنگٹن میں امریکا سعودی بزنس فورم سے خطاب میں ٹرمپ کا کہنا تھا کہ پاک بھارت جنگ ساڑھے تین سو فی صد ٹیرف عائد کرنے کی دھمکی سے روکی۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان اور بھارت ایٹمی جنگ کے قریب تھے ۔ میں نے کہا جنگ نہیں روکیں گے تو میں ٹیرف لگاؤں گا۔ امریکا کے ساتھ تجارت نہیں کر سکیں گے۔ میں نے کہا میں ایٹمی ہتھیار چلانے نہیں دوں گا جس سے لاکھوں لوگ مارے جائیں۔
ٹرمپ کا کہنا تھا کہ بھارتی وزیر اعظم نے فون کر کے کہا کہ وہ جنگ میں نہیں جارہے۔ پاکستان کے وزیر اعظم نے کال کر کے میرا شکریہ ادا کیا۔