پاکستان کی گہرے پانی کی بندرگاہ پر ملکی تاریخ کا سب سے بڑا کنٹینر بردار بحری جہاز لنگر انداز
اشاعت کی تاریخ: 12th, October 2025 GMT
ہچیسن پورٹس پاکستان نے جہاز کی برتھنگ کیلئے عالمی معیار کی سہولیات فراہم کیں، ایم ایس سی مِکول دنیا کے جدید ترین اور بڑے کنٹینر جہازوں میں شمار ہوتا ہے۔ اسلام ٹائمز۔ پاکستان کی گہرے پانی کی بندرگاہ پر ملکی تاریخ کا سب سے بڑا کنٹینر بردار بحری جہاز لنگر انداز ہوگیا۔ ترجمان ساؤتھ ایشیا پاکستان ٹرمینل کی جانب سے جاری بیان کے مطابق 400 میٹر لمبا اور 24,070 ٹی ای یوز گنجائش والا ایم ایس سی مِکول کراچی پہنچ گیا، ایم ایس سی مِکول جہاز ساؤتھ ایشیا پاکستان ٹرمینل پر کامیابی سے لنگر انداز ہوا۔ ہچیسن پورٹس پاکستان نے جہاز کی برتھنگ کیلئے عالمی معیار کی سہولیات فراہم کیں، ایم ایس سی مِکول دنیا کے جدید ترین اور بڑے کنٹینر جہازوں میں شمار ہوتا ہے۔
بڑے جہاز کی آمد پاکستان کی بحری تاریخ میں نیا سنگِ میل ہے، ساؤتھ ایشیا پاکستان ٹرمینل ملک کا واحد گہرے پانی کا کنٹینر ٹرمینل ہے۔ دنیا کے بڑے بحری جہازوں کی آمد عالمی شپنگ لائنز کے پاکستان کی بحری صلاحیت پر بڑھتے ہوئے اعتماد کا ثبوت ہے، بڑے جہازوں کی برتھنگ سے تجارتی کارکردگی میں نیا اضافہ متوقع ہے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: ایم ایس سی م کول پاکستان کی
پڑھیں:
پاکستان کا مستقبل اور تاریخ کے عالمی اسباق
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251125-03-3
دنیا کے بدلتے ہوئے سیاسی اور معاشی منظرنامے میں پاکستان ایک ایسے موڑ پر کھڑا ہے جہاں ماضی کے تجربات اور مستقبل کے تقاضے ایک دوسرے سے گتھم گتھا نظر آتے ہیں۔ تاریخ ہمیشہ انسان کو رہنمائی دیتی ہے، مگر صرف اْن اقوام کے لیے جو اس سے سبق حاصل کریں۔ پاکستان کی موجودہ سیاسی، معاشی اور سماجی کیفیت کو دیکھتے ہوئے یہ سوال ناگزیر ہے کہ کیا ہم نے اپنے ماضی سے کچھ سیکھا؟ اور کیا ہم تاریخ کے عالمی اسباق کی روشنی میں اپنے مستقبل کی سمت درست کر سکتے ہیں؟ قیامِ پاکستان سے آج تک ہمارا قومی سفر نشیب و فراز، قربانیوں، اور داخلی و خارجی چیلنجز سے عبارت رہا ہے۔ ابتدا میں قیادت نے جغرافیائی پیچیدگیوں، وسائل کی کمی اور سیاسی عدم استحکام کے باوجود قوم کو متحد رکھنے کی کوشش کی۔ مگر وقت کے ساتھ ساتھ سیاسی مفادات نے قومی وحدت کو متاثر کیا۔
آج 2025ء میں پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ معاشی کمزوری اور پالیسیوں کا تسلسل نہ ہونا ہے۔ شرحِ نمو غیر یقینی، زرمبادلہ کے ذخائر دباؤ میں، اور برآمدی استعداد کمزور ہو چکی ہے۔ عالمی مالیاتی اداروں پر انحصار نے ہماری خودمختاری کو محدود کر دیا ہے۔ مگر یہی وہ مقام ہے جہاں تاریخ ہمیں یاد دلاتی ہے کہ زوال اْس وقت آتا ہے جب قوم اپنی سمت کھو دیتی ہے، اور عروج اْس وقت جب وہ داخلی اصلاحات کے ذریعے اپنے نظام کو از سرِ نو تشکیل دیتی ہے۔ دنیا آج یک قطبی نہیں بلکہ کثیرالقطبی (Multipolar) ہو چکی ہے۔ امریکا، چین، روس، یورپ اور مشرقِ وسطیٰ کے نئے اتحادوں نے طاقت کے محور بدل دیے ہیں۔ اس پس منظر میں پاکستان کے لیے ’’غیر جانب داری‘‘ یا ’’توازن پر مبنی سفارت کاری‘‘ وقت کی اہم ضرورت ہے۔ چین ہمارا قریبی شراکت دار ہے، مگر اس کی سست ہوتی معیشت اور عالمی تجارتی دباؤ ’’سی پیک‘‘ منصوبے کے لیے چیلنج بنے ہوئے ہیں۔ دوسری جانب امریکا اور بھارت کا بڑھتا اتحاد خطے میں اسٹرٹیجک توازن کو بدل رہا ہے۔ ایسے میں پاکستان کو محض ردِعمل کے بجائے فعال اور متوازن حکمت ِ عملی اپنانا ہوگی جہاں قومی مفاد، اقتصادی خودمختاری اور علاقائی استحکام تینوں کو ساتھ لے کر چلنا ضروری ہے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ قومیں اسی وقت مضبوط ہوتی ہیں جب وہ اپنی معیشت کو پائیدار بنیادوں پر استوار کریں۔ ہمیں قرض پر انحصار کے بجائے پیداواری معیشت، برآمدی توسیع، زرعی جدیدیت، اور ٹیکنالوجی پر مبنی صنعتوں کو ترجیح دینا ہوگی۔
2025ء میں ڈیجیٹل معیشت، مصنوعی ذہانت، اور گرین انرجی جیسے شعبے دنیا کی ترقی کا نیا محور ہیں۔ پاکستان اگر نوجوان افرادی قوت، فری لانسنگ، آئی ٹی ایکسپورٹ اور زرعی ٹیکنالوجی کے ذریعے عالمی منڈیوں میں داخل ہوتا ہے، تو نہ صرف زرمبادلہ میں اضافہ ممکن ہے بلکہ روزگار کے مواقع بھی وسیع ہوں گے۔ تاریخ ہمیں جاپان، جنوبی کوریا اور سنگاپور کی مثالیں دیتی ہے، جنہوں نے محدود وسائل کے باوجود علم، نظم و ضبط اور قومی یکجہتی سے ترقی کے نئے باب رقم کیے۔ پاکستان کے پاس وسائل کی کمی نہیں کمی صرف وژن، شفافیت اور تسلسل کی ہے۔ کسی بھی ریاست کا پائیدار استحکام صرف خارجہ پالیسی سے ممکن نہیں۔ اندرونی یکجہتی، اداروں کے درمیان اعتماد، اور عوامی شرکت اْس کی بنیاد ہوتی ہے۔ پاکستان میں سیاسی محاذ آرائی، ادارہ جاتی کشمکش اور بداعتمادی نے فیصلہ سازی کو سست کر دیا ہے۔ تاریخ کے سبق کے مطابق، ریاستیں تب مضبوط ہوتی ہیں جب عوامی فلاح کو مرکزی حیثیت دی جائے، تعلیم، صحت، انصاف اور روزگار کے مواقع مساوی بنیادوں پر فراہم کیے جائیں۔ ہمیں یہ حقیقت تسلیم کرنی ہوگی کہ قومی سلامتی صرف سرحدوں کے دفاع میں نہیں بلکہ معیشت کی مضبوطی، نوجوانوں کی تعلیم، اور شہری مساوات میں مضمر ہے۔
دنیا کے 60 فی صد سے زیادہ ممالک نے اپنی ترقی کی بنیاد ٹیکنالوجی اور تعلیم پر رکھی۔ پاکستان کے نوجوان آج سب سے بڑی قوت ہیں اگر اْنہیں ہنر، جدید تعلیم، تحقیق اور عالمی رسائی فراہم کی جائے تو یہی نسل ملک کو نئی بلندیوں پر پہنچا سکتی ہے۔ تعلیم کا بجٹ بڑھانا، جامعات کو تحقیق سے جوڑنا، اور نجی و سرکاری سطح پر انوویشن کو فروغ دینا وہ قدم ہیں جو ہمیں مستقبل کی دوڑ میں شامل کر سکتے ہیں۔ جنوبی ایشیا میں امن، تجارت اور توانائی کے راستے کھولنا پاکستان کے مفاد میں ہے۔ افغانستان میں استحکام، ایران کے ساتھ تجارتی راہداری، اور وسطی ایشیا تک اقتصادی رابطہ ہمارے مستقبل کا کلیدی جزو ہو سکتے ہیں۔ تاریخ بتاتی ہے کہ علٰیحدگی اور مخاصمت سے کوئی ملک ترقی نہیں کرتا۔ برعکس، علاقائی شراکت داری، باہمی تجارت اور اعتماد کی فضا ہی حقیقی طاقت کی بنیاد ہے۔ پاکستان کو اپنی سفارت کاری میں یہ پہلو نمایاں رکھنا ہوگا۔
پالیسی سفارشات و سمت ِ عمل: 1۔ معاشی اصلاحات: برآمدات میں اضافہ، ٹیکس نیٹ کی توسیع، اور سرمایہ کار دوست ماحول پیدا کرنا۔ 2۔ تعلیم و ہنرمندی: جدید سائنسی و ٹیکنیکل تعلیم کو ترجیح دینا تاکہ نوجوان طبقہ عالمی مارکیٹ کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہو۔ 3۔ توانائی و وسائل: قابل ِ تجدید توانائی (شمسی و ہوائی) کے منصوبوں پر سرمایہ کاری۔ 4۔ سفارتی توازن: چین، امریکا، خلیجی ممالک اور وسطی ایشیا کے ساتھ متوازن تعلقات رکھنا۔ 5۔ شفاف طرزِ حکمرانی: بدعنوانی کے خاتمے اور ادارہ جاتی اصلاحات کے لیے غیر سیاسی مگر مستحکم اقدامات۔ 6۔ میڈیا و فکری استحکام: قومی بیانیہ تحقیق، حقیقت اور مثبت سوچ پر مبنی ہونا چاہیے سنسنی پر نہیں۔
تاریخ نے ہمیں بارہا بتایا کہ زوال اْن قوموں کا مقدر بنتا ہے جو وقت کے اشارے کو نظرانداز کر دیں۔ پاکستان کے لیے اب وقت آ گیا ہے کہ وہ ماضی کی غلطیوں کو دہرانے کے بجائے اْن سے سیکھے، اپنی پالیسیوں میں تسلسل، شفافیت اور عوامی اعتماد پیدا کرے۔ دنیا تیزی سے آگے بڑھ رہی ہے اور اب یہ فیصلہ ہمیں خود کرنا ہے کہ ہم تاریخ کے تماشائی رہیں گے یا مستقبل کے معمار۔