فرانسیسی وزیراعظم کی نئی حکومت مشکل میں، عدم اعتماد کی تحریک جمع
اشاعت کی تاریخ: 13th, October 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
پیرس: فرانس میں سیاسی کشیدگی اس وقت بڑھ گئی جب انتہائی دائیں بازو کی جماعت نیشنل ریلی (RN) اور بائیں بازو کی جماعت لا فرانس انسومیس (LFI) نے وزیراعظم سباستین لیکورنیو کی نئی حکومت کے خلاف مشترکہ طور پر عدم اعتماد کی قرارداد جمع کرادی۔
عالمی میڈیا رپورٹس کےمطابق نیشنل ریلی نے کہا کہ وزیراعظم لیکورنیو کی حکومت ملک کو درپیش سنگین سیاسی و معاشی بحرانوں سے نمٹنے کی صلاحیت نہیں رکھتی بعد ازاں بی ایف ایم ٹی وی نے پارٹی ذرائع کے حوالے سے تصدیق کی کہ قرارداد باضابطہ طور پر جمع کرادی گئی ہے۔
دوسری جانب LFI کی پارلیمانی رہنما میتھلڈ پانو نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر بتایا کہ ان کی جماعت نے بھی حکومت کے خاتمے کے لیے قرارداد پیش کردی ہے، ملک کے پاس وقت ضائع کرنے کا موقع نہیں، لیکورنیو کو جانا ہوگا اور اس کے بعد میکرون کی باری ہے۔
صدر ایمانوئل میکرون نے اس سیاسی پیش رفت پر ردعمل دیتے ہوئے تمام جماعتوں کو استحکام کا پیغام دیتے ہوئے کہا کہ عدم استحکام پر شرط نہ لگائیں ۔
خیال رہےکہ وزیراعظم سباستین لیکورنیو نے اتوار کی شب اپنی نئی کابینہ کا اعلان کیا تھا جس میں 34 وزراء شامل ہیں، نئی کابینہ میں میکرون کے سینٹرلسٹ کیمپ، قدامت پسند اتحادیوں اور غیر سیاسی شخصیات کا امتزاج شامل ہے۔
اہم وزارتوں میں ژاں نوئل بیرو (خارجہ)، جیرالڈ درمانین (انصاف)، راشدہ داتی (ثقافت) اپنے عہدوں پر برقرار ہیں، جب کہ لوران نونیز کو وزیر داخلہ، کیتھرین وٹرین کو وزیر دفاع اور رولان لیسکیور کو وزیر معیشت مقرر کیا گیا ہے۔
یاد رہے کہ میکرون نے گزشتہ جمعے کو لیکورنیو کو دوبارہ وزیراعظم مقرر کیا تھا۔ وہ اس سے قبل فرانسوا بیرو کی حکومت کے بعد اس عہدے پر فائز ہوئے تھے، جنہیں 8 ستمبر کو قومی اسمبلی میں اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے میں ناکامی ہوئی تھی۔
واضح رہےکہ فرانس کی معیشت اس وقت شدید دباؤ میں ہے ، قومی قرضہ جی ڈی پی کے 115 فیصد تک پہنچ چکا ہے جبکہ بجٹ خسارہ 5.
ذریعہ: Jasarat News
پڑھیں:
خیبرپختونخوا میں سیاسی و غیر سیاسی قوتیں متحرک، کیا پی ٹی آئی صوبائی حکومت سے محروم ہو سکتی ہے؟
وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور کے استعفے کی منظوری سے قبل ہی خیبر پختونخوا اسمبلی میں وزیراعلیٰ کے انتخاب کا شیڈول جاری کر دیا گیا ہے، جبکہ پی ٹی آئی کے نامزد امیدوار سہیل آفریدی سمیت 4 اراکین نے کاغذاتِ نامزدگی جمع کرا دیے، جو منظور بھی کرلیے گئے ہیں۔ بلا مقابلہ انتخاب کے لیے پی ٹی آئی سیاسی مخالفین سے بھی ملاقاتیں جاری رکھے ہوئے ہے۔
اتوار کے روز خیبرپختونخوا اسمبلی میں سیاسی گہما گہمی عروج پر رہی۔ وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا کے لیے عمران خان کی جانب سے نامزد کردہ امیدوار سہیل آفریدی نے کاغذات جمع کرانے کے بعد واضح پیغام دیا کہ انتخاب آئین کے مطابق ہو رہا ہے اور اس میں بیرونی مداخلت نہیں ہونی چاہیے۔
یہ بھی پڑھیں: خیبرپختونخوا: نئے وزیراعلیٰ کے لیے 4 امیدوار میدان میں آگئے، علی امین کا استعفیٰ منظور نہ ہونا بھی معمہ
کاغذاتِ نامزدگی اور انتخاب
خیبر پختونخوا کے وزیراعلیٰ کے لیے اتوار کے روز 4 امیدواروں نے کاغذاتِ نامزدگی جمع کرائے، جن میں پی ٹی آئی کے سہیل آفریدی، پیپلز پارٹی کے ارباب زرک، جے یو آئی کے مولانا لطف الرحمان اور ن لیگ کے سردار شاہجہان یوسف شامل ہیں۔ کاغذات کی جانچ پڑتال کے بعد تمام امیدواروں کے کاغذات درست قرار دیے گئے۔
اسپیکر خیبر پختونخوا اسمبلی کے مطابق وزیراعلیٰ کا انتخاب پیر کے روز ہوگا، جسے باقاعدہ اسمبلی ایجنڈے کا حصہ بنایا گیا ہے۔ تاہم اپوزیشن جماعتوں نے اس پر اعتراض اٹھایا ہے کہ گورنر نے ابھی تک استعفیٰ منظور نہیں کیا، جبکہ واپسی کے امکانات بھی موجود ہیں۔
پی ٹی آئی کی بلا مقابلہ انتخاب کی کوشش، سیاسی مخالفین سے ملاقاتیں
شدید اندرونی اختلافات کے باوجود پی ٹی آئی سہیل آفریدی کو وزیراعلیٰ بنانے کے لیے متحد نظر آ رہی ہے، تمام مرکزی قائدین گزشتہ کئی دنوں سے پشاور میں موجود ہیں، اور سیاسی جماعتوں سے ملاقاتیں بھی جاری ہیں۔
پی ٹی آئی کے وفد نے گزشتہ روز جے یو آئی کے مرکز کا دورہ کیا جہاں وزیراعلیٰ کے انتخاب کو بلا مقابلہ کرانے کی درخواست کی گئی۔
پی ٹی آئی کا وفد عوامی نیشنل پارٹی کے دفتر باچا خان مرکز بھی گیا، جبکہ ایک ملاقات ن لیگ کے صوبائی صدر اور وفاقی وزیر امیر مقام سے بھی ہوئی۔ پی ٹی آئی کے مطابق ان کی کوشش ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں بلا مقابلہ انتخاب میں ساتھ دیں۔
’وزیراعلیٰ کے انتخاب میں سیاسی و غیر سیاسی قوتیں متحرک‘
پی ٹی آئی کے وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور کو ہٹانے کے بعد اپوزیشن جماعتیں صوبے میں حکومت سازی کے لیے سرگرم ہو گئی ہیں اور متفقہ امیدوار لانے پر غور کیا جا رہا ہے۔ کچھ اشارے ایسے بھی مل رہے ہیں کہ غیر سیاسی قوتیں سہیل آفریدی کے خلاف متحرک ہیں، جس سے پی ٹی آئی کو دوبارہ حکومت سازی میں مشکلات پیش آنے کا خدشہ ہے۔
وفاقی وزرا نے سہیل آفریدی کو دہشتگردوں کا سہولت کار قرار دے دیا ہے، جبکہ ڈی جی آئی ایس پی آر نے واضح کیا تھا کہ ریاست مخالف حکومت کسی صورت قبول نہیں کی جائے گی۔
تجزیہ کاروں کے مطابق پی ٹی آئی اس وقت پریشان ہے، اور 145 اراکین پر مشتمل اسمبلی میں 92 نشستوں کی واضح اکثریت کے باوجود حکومت کے ہاتھ سے نکل جانے کا خدشہ موجود ہے۔
عارف حیات جو صحافی و تجزیہ کار ہیں، کے مطابق ڈی جی آئی ایس پی آر کی پریس کانفرنس کے بعد پی ٹی آئی کو پریشانی لاحق ہو گئی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ایسے اشارے مل رہے ہیں کہ پی ٹی آئی حکومت ختم ہو سکتی ہے اور مولانا فضل الرحمان کی جماعت کی مخلوط حکومت بن سکتی ہے۔
عارف حیات کے مطابق اس وقت پی ٹی آئی متحد ہے، اراکین سے رابطہ کرکے انہیں وزیراعلیٰ ہاؤس میں رہنے کی ہدایت بھی دی گئی ہے، جبکہ ایسے اراکین جن پر شبہ ہے کہ وہ منحرف ہو سکتے ہیں، ان پر کڑی نظر رکھی جا رہی ہے۔
انہوں نے کہاکہ سہیل آفریدی پر دہشتگردوں کا سہولت کار ہونے کے بے بنیاد الزامات لگائے جا رہے ہیں۔ ’پی ٹی آئی اور سہیل آفریدی جانتے ہیں کہ اکثریت کے باوجود انتخاب آسان نہیں۔ غیر سیاسی قوتیں مخالف ہیں، بہرحال ان کی اپنی منصوبہ بندی ہے۔‘
اس سوال پر کہ کیا پی ٹی آئی کی صوبائی حکومت ختم ہو سکتی ہے؟ عارف حیات نے کہاکہ پارٹی پوزیشن کو دیکھا جائے تو جواب نفی میں ہے، لیکن اگر پاکستانی سیاست کو مدنظر رکھا جائے تو کچھ بھی ممکن ہے۔
’22 سے زیادہ پی ٹی آئی کے ایسے اراکین ہیں جن کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ وہ لکھ کر دے آئے ہیں، اور کسی بھی وقت وفاداری تبدیل کر سکتے ہیں۔ پی ٹی آئی کو اسی بات کا ڈر ہے، جیسا عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کے وقت ہوا تھا۔‘
انہوں نے کہاکہ اس وقت پی ٹی آئی مشکل میں ہے اور مرکزی رہنماؤں کو اندازہ ہے کہ اگر معاملے کو سنجیدگی سے نہ لیا گیا تو حکومت جا سکتی ہے۔
’پی ٹی آئی جو ماضی میں مولانا کو ’ڈیزل‘، اے این پی کو ’ایزی لوڈ‘ اور ن لیگ کو ’چور‘ کہتی آئی ہے، آج انہی جماعتوں سے تعاون کی اپیل کر رہی ہے، جو ظاہر کرتا ہے کہ اکثریت کے باوجود پی ٹی آئی کو حکومت سازی میں مشکلات ہیں۔
پی ٹی آئی کے مرکزی ترجمان وقاص اکرم شیخ نے بھی اس خدشے کا کھل کر اظہار کیا۔ ان کے مطابق صوبے میں حکومت گرانے یا گورنر راج کی تیاری ہو رہی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ وفاقی وزرا بیانیہ بنا رہے ہیں تاکہ اپنی حکومت قائم کر سکیں۔
تاہم نوجوان صحافی شہاب الرحمان کا خیال ہے کہ سہیل آفریدی کے وزیراعلیٰ بننے کے امکانات سب سے زیادہ ہیں۔ ان کے مطابق اس وقت پی ٹی آئی گروپ بندی کا شکار ہے، جس کی وجہ سے ہی علی امین کی حکومت ختم ہوئی، جبکہ سہیل آفریدی سب کو قابلِ قبول ہیں، “پی ٹی آئی کے تمام گروپس نامزد وزیراعلیٰ کے ساتھ ہیں۔
شہاب الرحمان نے کہاکہ جو بھی سہیل آفریدی کے خلاف جائے گا، اسے معلوم ہے کہ صوبے میں پی ٹی آئی کارکنان اس کے لیے مشکلات پیدا کریں گے۔
یہ بھی پڑھیں: وزیراعلیٰ کے انتخاب میں باہر سے کسی کو مداخلت نہیں کرنی چاہیے، نامزد اُمیدوار سہیل آفریدی
انہوں نے مزید کہاکہ اس میں کوئی شک نہیں کہ سہیل آفریدی کے انتخاب میں مشکلات پیدا کی جا رہی ہیں، اور گورنر کی جانب سے علی امین گنڈاپور کا استعفیٰ منظور نہ کرنا بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ ’گورنر نے استعفیٰ منظور نہیں کیا، اور ووٹنگ کی تیاریاں مکمل ہیں۔ اگر استعفیٰ سے پہلے ووٹنگ ہوئی تو اس کے خلاف عدالت سے بھی رجوع کیا جا سکتا ہے۔‘
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
wenews اسٹیبلشمنٹ پی ٹی آئی دہشتگرد ڈی جی آئی ایس پی آر سہیل آفریدی سیاسی قوتیں علی امین گنڈاپور ن لیگ وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا وی نیوز