پاکستان کا مفصل تصاویر لینے کا حامل جدید سیٹلائٹ خلا میں
اشاعت کی تاریخ: 20th, October 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 20 اکتوبر 2025ء) پاکستان نے چین کے تعاون سے اپنا پہلا ہائپر اسپیکٹرل سیٹلائٹ خلا میں روانہ کر دیا۔ سرکاری دعوؤں کے مطابق یہ سیٹلائٹ مختلف محکموں میں فیصلہ سازی کے عمل کو جدید بنانے کے ساتھ ساتھ قدرتی آفات کی پیش گوئی اور تدارک میں بھی مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔
ادارے کے عہدیداروں کے مطابق، اس سیٹلائٹ سے حاصل ہونے والا ڈیٹا فصلوں کے پیٹرن ، مٹی کی صحت، اور آبی وسائل کی نگرانی کو مزید بہتر بنائے گا، جس سے پاکستان کی نہ صرف زرعی پیداوار اور موسمیاتی تبدیلیوں اور قدرتی آفات سے نمٹنے کی صلاحیت میں اضافہ ہو گا بلکہ اور بھی بہت سے شعبوں میں مدد ملے گی۔
سپارکو کی جنرل منیجر سیٹلائٹ پلاننگ عائشہ ربیعہ احسن کے مطابق نیاسیٹلائٹ پاکستان کے پچھلے امیجنگ سسٹمز کے مقابلے میں ایک نمایاں تکنیکی پیشرفت ہے۔
(جاری ہے)
اُنہوں نے کہا، "یہ پاکستان کے لیے اپنی نوعیت کا پہلا سیٹلائٹ ہے، جو ایک عام امیجنگ سیٹلائٹ سے کہیں زیادہ جدید ہے اور یہ مفصل تصاویر لینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
سیٹلائٹ کا ڈیٹا کون حاصل کرے گا؟عام تاثر یہ بھی ہے کہ پاکستان شاید براہ راست سیٹلائٹ سے ڈیٹا نہیں لے سکتا اور اس کے لیے اسے چین کی مدد کی ضرورت پڑتی ہے جیسا کہ محکمہ موسمیات چین سے مدد لیتا ہے۔
عائشہ ربیعہ کا لیکن کہنا ہے کہ ایسا نہیں ہے اور پاکستان براہ راست سیٹلائٹ سے ڈیٹا حاصل کر سکتا ہے۔انہوں نے بتایا کہ نہ صرف یہ بلکہ حال ہی میں لانچ کیے گئے دو سیٹلائٹس بھی مکمل طور پر پاکستان کی ملکیت ہیں، اور ان س
سے حاصل ہونے والا ڈیٹا سپارکو میں ہی وصول ہوتا ہے، جبکہ ادارے کے پاس اس ڈیٹا کے تجزیے کی مکمل صلاحیت بھی موجود ہے۔
اُنہوں نے کہا، "ڈیٹا کا براہِ راست سپارکو میں آنا اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ وقت ضائع نہ ہو اور جہاں ضرورت ہو وہاں بر وقت تجزیہ اور فیصلہ سازی ممکن ہو، خاص طور پر زراعت اور آفات سے نمٹنے کے معاملات میں۔عائشہ ربیعہ نے یہ بھی بتایا کہ یہ سیٹلائٹ پاکستانی اور چینی انجینئروں کے باہمی تعاون سے تیار کیا گیا ہے۔ ہائپر اسپیکٹرل امیجنگ ٹیکنالوجی تصاویر کے ذریعے پودوں اور مٹی کی حالت میں معمولی فرق کو بھی محسوس کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے، جس کے ذریعے حکام فصلوں کی صحت کی نگرانی، پانی کی دستیابی کا اندازہ، اور فصلوں میں بیماری کے پھیلاؤ کی ابتدائی نشاندہی بھی کر سکیں گے۔
اگرچہ سپارکو کا دعویٰ ہے کہ زرعی شعبہ اس نئے سیٹلائٹ کے اجرا سے سب سے زیادہ فائدہ اٹھانے والوں میں شامل ہوگا، تاہم زرعی ماہرین نے اس پیش رفت کا محتاط خیرمقدم کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ بلاشبہ ایک "گیم چینجر" ثابت ہوگا سکتا ہے — لیکن صرف اس صورت میں جب اس کے حاصل کردہ اعداد و شمار کو سرکاری دائرہ کار سے باہر عام رسائی دی جائے۔
زرعی تجزیہ کار عامر حیات بندھارا کا ماننا ہے کہ اگرچہ یہ سیٹلائٹ واقعی زرعی شعبے میں انقلاب لا سکتا ہے، لیکن صرف ٹیکنالوجی کے ذریعے پاکستان کے گہرے ساختی مسائل پر قابو نہیں پایا جا سکتا۔
انہوں نے کہا، "یہ سیٹلائٹ ایک بہت بڑا قدم ہے، لیکن زراعت کو درپیش مسائل صرف ڈیٹا کی کمی تک محدود نہیں — بلکہ ناقص پالیسی عملدرآمد، پرانے آبپاشی نظام، کسانوں کی محدود تعلیم اور منڈیوں تک کم رسائی جیسے چیلنجز بھی شامل ہیں۔
اگر سیٹلائٹ سے حاصل ہونے والا ڈیٹا صرف سرکاری دفاتر تک محدود رہا اور کسانوں تک بروقت اور قابلِ فہم انداز میں نہ پہنچا، تو اس کا اثر بہت محدود رہے گا۔"ماہرین اس بات پر زور دیتے ہیں کہ سیٹلائٹ کے وعدے کو حقیقت میں بدلنے کے لیے پاکستان کو ایسے مؤثر نظام بنانے ہوں گے جو پیچیدہ سیٹلائٹ ڈیٹا کو سادہ اور قابلِ عمل معلومات میں تبدیل کریں جنہیں کسان آسانی سے استعمال کر سکیں — مثلاً موبائل ڈیش بورڈز یا مشاورتی خدمات کے ذریعے۔
اگر مؤثر آگاہی اور رسائی کا نظام نہ بنایا گیا، تو ایچ ون سیٹلائٹ بھی پاکستان کے سائنسی سفر میں ایک اور کم استعمال ہونے والا وسیلہ بن کر رہ جائے گا۔بندھارا کا کہنا تھا کہ اگرچہ یہ لانچ ملک کے خلائی اور ٹیکنالوجی کے شعبوں کے لیے ایک قابلِ فخر کامیابی ہے، لیکن اصل کامیابی تب ہوگی جب اس کے ثمرات زمین تک پہنچیں — اور ان کسانوں تک جو اسے کاشت کرتے ہیں۔
تاہم ڈیٹا کی دستیابی کے حوالے سے سپارکو کی طرف سے عائشہ ربیعہ کا کہنا تھا کہ یہ ضرورت کے مطابق فراہم کیا جائے گا، بنیادی طور پر ان سرکاری اداروں کو جو پہلے ہی سپارکو کے ساتھ قریبی تعاون میں کام کر رہے ہیں، جیسے وزارتِ خوراک و تحفظ اور نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی۔ تاہم، ان کا کہنا تھا کہ نجی کمپنیاں بھی باہمی شرائط کے تحت اس ڈیٹا تک رسائی حاصل کر سکیں گی، اور ان شرائط کی تفصیلات وقت کے ساتھ واضح ہوتی جائیں گی۔
ادارت: کشور مصطفیٰ
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے یہ سیٹلائٹ سیٹلائٹ سے پاکستان کے ہونے والا کے مطابق کے ذریعے سکتا ہے کا کہنا کے لیے
پڑھیں:
پاکستان کا پہلاہایپر سپیکٹرل سیٹلایٹ چین سے خلامیں پہنچ گیا : دونوں ملکوں کا تعاون مثالی وزیراعظم
اسلام آباد (خبرنگار خصوصی+ خبرنگار+ آئی این پی+ نوائے وقت رپورٹ) پاکستان نے چین کے تعاون سے نیا باب رقم کرتے ہوئے پہلا ہائپر سپیکٹرل سیٹلائٹ کامیابی سے خلاء میں پہنچا دیا۔ پاکستان ہائپر سپیکٹرل سیٹلائٹ ٹیکنالوجی کے حامل 10 سے 15 ملکوں میں شامل ہو گیا ہے۔ ہائپر سپیکٹرل سیٹلائٹ ایچ ایس ون چین سے خلا میں روانہ کیا گیا۔ سپارکو کے دفتر میں سیٹلائٹ کی روانگی کے مناظر دکھائے گئے۔ سیٹلائٹ 28 منٹ میں مدار میں پہنچا۔ ترجمان سپارکو نے بتایا کہ پاکستان کا یہ مشن قومی خلائی پالیسی اور وژن 2047 ء کا ایک اہم سنگ میل ہے اور ایچ ایس ون انفراسٹرکچر میپنگ اور شہری منصوبہ بندی کیلئے نئی راہیں کھولے گا جبکہ ایچ ایس ون سیٹلائٹ سے زرعی منصوبہ بندی اور ماحولیاتی نگرانی میں انقلاب کی توقع ہے۔ چیئرمین سپارکو محمد یوسف خان نے حکومت کی مضبوط معاونت پر شکریہ ادا کیا۔ HS-1 کے کامیاب لانچ کا اعلان کرتے ہوئے بتایا کہ پاکستان خلائی ٹیکنالوجی کے نئے دور میں داخل ہو گیا ہے۔ ہائپر سپیکٹرل سیٹلائٹ زمین، سبزے، پانی، شہری علاقوں کا تفصیلی تجزیہ کرے گا۔ جدید سیٹلائٹ سینکڑوں نوری بینڈز میں درست تصاویر حاصل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ حکومت پاکستان کی حمایت سے قومی منصوبہ حقیقت بن سکا۔ اعلامیہ میں کہا گیا کہ سپارکو ملک کی سماجی و اقتصادی ترقی میں اپنا کردار مزید مستحکم کر رہا ہے۔ ہائپر سپیکٹرل سیٹلائٹ پاکستان کے خلائی پروگرام میں بڑی پیش رفت ہے جو ملک کو پائیدار ترقی کیلئے ابھرتے ہوئے خلائی رہنمائوں میں شامل کرے گا۔ پاکستان کی جانب سے اس سال یہ خلا میں بھیجا جانے والا تیسرا سیٹلائٹ ہے۔ سٹیلایٹ کی اپنے مدار میں ٹیسٹنگ کو دو ماہ لگ سکتے ہیں جس کے بعد سیٹلائٹ مکمل فعال ہو جائے گا۔ نائب وزیراعظم و وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے پاکستانی سائنسدانوں اور ٹیکنیکل ٹیم کو خلائی سنگ میل عبور کرنے پر مبارکباد دی ہے۔ علاوہ ازیں چیئرمین سینٹ سید یوسف رضا گیلانی نے پاکستان کے پہلے ہائپر سپیکٹرل سیٹلائٹ ’’ایچ ایس ون‘‘ کی خلا میں کامیاب روانگی پر قوم کو دلی مبارکباد دیتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان جدید سائنسی تحقیق اور خلائی ٹیکنالوجی کے نئے دور میں داخل ہو چکا ہے۔ دریں اثناء پاکستان نے ایک روبوٹ چاند پر بھیجنے پر کام شروع کر دیا۔ سپارکو کے جنرل مینجر ڈاکٹر عدنان اسلم نے بتایا کہ پاکستان اپنا ایک روبوٹ روور چاند پر بھیجنے کے مشن پر کام کر رہا ہے۔2028 ء سے پہلے اس مشن کو مکمل کرنے پر کام کیا جارہا ہے۔ پاکستانی خلا باز کو چاند پر اتارنے کے مشن پر بھی کام کیا جارہا ہے۔ فروری 2025 ء میں سپارکو نے اعلان کیا تھا کہ پاکستان کا چاند پر بھیجے جانے والا پہلا روور مشن 2028 ء میں روانہ کیا جائے گا۔ اس موقع پر روور کا نام رکھنے کے لیے سپارکو کی جانب سے ایک ملک گیر مقابلے کا بھی اعلان کیا گیا۔2028 ء میں چین کے چینگ ای 8 مشن کے ساتھ چاند پر پاکستان کا پہلا روور بھیجا جائے گا۔ اس روور کا وزن لگ بھگ 35 کلوگرام ہوگا اور چینی مشن کے ساتھ یہ چاند کے قطب جنوبی پر لینڈ کرے گا۔ چینگ ای 8 مشن کو چین کے Wenchang سپیس سینٹر سے روانہ کیا جائے گا اور اس کی کامیابی کی صورت میں پاکستان چاند کی سطح پر روور بھیجنے والا چھٹا ملک بن جائے گا۔ علاوہ ازیں وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے کہا ہے کہ ہمارا خلائی پروگرام نئی شناخت حاصل کر رہا ہے۔ سیٹلائٹ ماحولیاتی تحفظ میں مدد گار ہوگا۔ گورنر سندھ کامران ٹیسوری نے کہا کہ یہ کامیابی تاریخی سنگ میل ہے۔ علاوہ ازیں وزیراعظم شہبازشریف نے چینی راکٹ لچیان 1 کے ذریعے پاکستان کے سیٹلائٹ کو زمین کے مدار میں کامیابی سے بھیجے جانے پر پاکستانی خلائی سائنسدانوں و انجینئرز کی پذیرائی کرتے ہوئے کہا ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں کے مضر اثرات سے مقابلہ کرنے میں یہ پیش رفت ایک اہم سنگ میل ثابت ہوگی۔ وزیراعظم شہبازشریف نے کہاکہ پاکستان اور چین کا باقی شعبوں کی طرح خلائی تحقیق میں تعاون مثالی اور کلیدی اہمیت کا حامل ہے۔ اس مثالی تعاون کیلئے اپنے عظیم و دیرینہ دوست اور سٹرٹیجک شراکت دار چین کے مشکور ہیں۔ پاکستانیوں کے دل چینی قیادت عوام کے ساتھ دھڑکتے ہیں۔ خلاء میں بھیجا جانے والا سیٹلائٹ پاکستان کو ماحولیاتی تبدیلیوں اور جغرافیائی تغیر کے بارے تحقیق میں مددگار ثابت ہوگا۔