لاہور آج بھی فضائی آلودگی کی عالمی درجہ بندی میں بدستور پہلے نمبر پر
اشاعت کی تاریخ: 26th, October 2025 GMT
آج کے روز بھی لاہور سمیت پنجاب کے مختلف شہروں میں فضائی آلودگی خطرناک حدوں کو چھو رہی ہے۔
تفصیلات کے مطابق عالمی ادارہ آئی کیو ایئر کے مطابق لاہور فضائی آلودگی کی عالمی درجہ بندی میں بدستور پہلے نمبر پر ہے جہاں اوسط اے کیو آئی 378 ریکارڈ کیا گیا، جبکہ دہلی 288 اور تاشقند 175 اے کیو آئی کے ساتھ بالترتیب دوسرے اور تیسرے نمبر پر ہیں۔
پنجاب کے سرکاری اعدادوشمار کے مطابق شیخوپورا صوبے کا سب سے زیادہ آلودہ شہر ہے جہاں اے کیو آئی 500 کی انتہائی خطرناک سطح ریکارڈ کی گئی۔ لاہور 372 کے ساتھ دوسرے، گوجرانوالہ 294 پر تیسرے، فیصل آباد 255 پر چوتھے اور ملتان 194 کے ساتھ پانچویں نمبر پر ہے۔
فضائی آلودگی کے اعتبار سے سرفہرست دس شہروں میں سرگودھا 186، ڈیرہ غازی خان 179، بہاولپور 159، سیالکوٹ 156 اور راولپنڈی 124 اے کیو آئی کے ساتھ شامل ہیں۔
لاہور کے مختلف علاقوں میں بھی صورتحال مزید تشویش ناک ہے۔ شاہدرہ میں اے کیو آئی 500، ملتان روڈ 395، پنجاب یونیورسٹی کے علاقے میں 393، سفاری پارک 367، کہا نو 346، برکی روڈ 340، جی ٹی روڈ 337 اور ڈی ایچ اے فیز 6 میں 320 ریکارڈ کیا گیا، جو عالمی ادارۂ صحت کے تجویز کردہ معیار سے کئی گنا زیادہ ہے۔
ماہرین کے مطابق فضائی آلودگی میں اضافہ بنیادی طور پر بھارتی پنجاب سے داخل ہونے والی آلودہ ہواؤں اور فصلوں کی باقیات جلانے کے بڑھتے ہوئے واقعات کی وجہ سے ہے۔ رواں سال بھارتی پنجاب میں پرالی جلانے کے واقعات میں گزشتہ برس کے مقابلے میں 15 فیصد اضافہ ہوا، جس کے اثرات لاہور، قصور، شیخوپورہ اور گوجرانوالہ سمیت وسطی پنجاب کے بیشتر اضلاع پر پڑ رہے ہیں۔
محکمہ موسمیات اور ماحولیاتی تجزیاتی نظام کے مطابق رواں ہفتے ہوا کی رفتار 3 تا 5 میل فی گھنٹہ تک محدود اور درجہ حرارت میں نمایاں کمی کے باعث فضا میں آلودہ ذرات کے بکھراؤ کی صلاحیت کمزور ہو چکی ہے۔ رات اور صبح کے اوقات میں فضائی نمی 95 تا 100 فیصد ہونے کے باعث آلودگی زمین کے قریب جمع ہو جاتی ہے، جس سے حدِ نگاہ میں شدید کمی واقع ہو رہی ہے۔
دن کے وقت سورج کی روشنی سے فضا میں معمولی بہتری آتی ہے، لیکن شام ڈھلتے ہی سموگ دوبارہ گہری ہو جاتی ہے۔ محکمہ ماحولیات کا کہنا ہے کہ رواں سال ہوا کے کم دباؤ والے زونز، خشک موسمی حالات اور سرحد پار آلودگی نے صورتحال کو مزید بگاڑا ہے۔
پنجاب حکومت نے انسدادِ سموگ مہم میں تیزی لانے کا اعلان کیا ہے۔ محکمہ زراعت اور ماحولیات کی مشترکہ ٹیمیں لاہور، ننکانہ اور قصور سمیت مختلف اضلاع میں فصلوں کی باقیات جلانے والوں کے خلاف کارروائیاں کر رہی ہیں۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اب تک پانچ ہزار سپرسیڈرز کے استعمال سے چار لاکھ ایکڑ رقبہ جلنے سے محفوظ رہا ہے۔ حکومت کی جانب سے کسانوں کو چھ لاکھ سپرسیڈرز، ہارویسٹرز، کبوٹا ہارویسٹرز اور بیلرز جیسی جدید ماحول دوست مشینری فراہم کی گئی ہے، جس سے پرالی کو جلانے کے بجائے گٹھوں کی شکل میں محفوظ کر کے چارہ یا توانائی کے متبادل کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔
دوسری جانب دیہی علاقوں میں فصلوں کی باقیات نہ جلانے کی آگاہی مہم جاری ہے۔ مساجد میں اعلانات، دیہاتوں میں اجتماعات اور لمبرداروں کے ذریعے کسانوں کو سموگ کے نقصانات سے آگاہ کیا جا رہا ہے۔
شہری علاقوں میں ضلعی انتظامیہ نے سموگ گنز (فوگ کینن) کے ذریعے زیادہ آلودہ علاقوں میں مصنوعی بارش کے چھڑکاؤ کا سلسلہ شروع کیا ہے تاکہ فوری طور پر آلودہ ذرات زمین پر بیٹھ جائیں۔
محکمہ ماحولیات کے ترجمان کے مطابق گزشتہ سال کے مقابلے میں اس سال انسدادِ سموگ مانیٹرنگ سسٹم زیادہ فعال اور مربوط ہے۔ عوام کو گھبرانے کی نہیں بلکہ تعاون کی ضرورت ہے۔
محکمہ موسمیات نے شہریوں کو ہدایت کی ہے کہ صبح و شام کے اوقات میں غیر ضروری سفر سے گریز کریں اور حساس افراد ماسک کا لازمی استعمال کریں۔ ادارے کے مطابق اگر آئندہ 48 گھنٹوں میں ہوا کی رفتار میں معمولی اضافہ ہوا تو فضائی آلودگی کی شدت میں جزوی کمی متوقع ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: فضائی آلودگی علاقوں میں اے کیو آئی کے مطابق کے ساتھ
پڑھیں:
غزہ میں بھوک کا بحران بدستور سنگین، جنگ بندی کے باوجود انسانی المیہ برقرار
اقوام متحدہ کے عالمی ادارۂ صحت (WHO) کے سربراہ ٹیڈروس اذہانوم گیبریسوس نے کہا ہے کہ جنگ بندی کے دو ہفتے بعد بھی غزہ میں بھوک اور غذائی قلت کا بحران ’انتہائی تباہ کن‘ صورت اختیار کر چکا ہے، جب کہ امدادی تنظیموں نے اسرائیل پر الزام لگایا ہے کہ وہ امدادی سامان کو “من مانی” بنیادوں پر روکے ہوئے ہے۔
خوراک کی شدید کمی اور ناکافی امدادعالمی ادارۂ خوراک (WFP) کے مطابق غزہ میں روزانہ 2000 ٹن امدادی سامان کی ضرورت ہے، مگر صرف 750 ٹن کے قریب خوراک داخل ہو رہی ہے، کیونکہ اسرائیل نے صرف دو کراسنگ پوائنٹس، کرم ابو سالم اور الکرارہ کھولے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں:عالمی عدالت انصاف نے اسرائیل کو غزہ میں انسانی بحران کا ذمہ دار قرار دے دیا
امدادی تنظیموں کا کہنا ہے کہ موجودہ فراہمی مقامی آبادی کی غذائی ضروریات پوری کرنے کے لیے ناکافی ہے۔
41 امدادی اداروں کا اسرائیل پر الزامجمعرات کے روز 41 بین الاقوامی تنظیموں، بشمول آکسفیم اور ناروے ریفیوجی کونسل، نے اسرائیل پر الزام لگایا کہ وہ امدادی سامان کو بلا جواز روک رہا ہے۔
ان تنظیموں نے ایک مشترکہ خط میں بتایا کہ 10 سے 21 اکتوبر کے درمیان 99 بین الاقوامی تنظیموں کی درخواستیں مسترد کی گئیں، جبکہ اقوام متحدہ کی چھ درخواستیں بھی منظور نہیں کی گئیں۔ مسترد کیے گئے سامان میں خیمے، کمبل، خوراک، صفائی کا سامان اور بچوں کے کپڑے شامل تھے۔
قحط کے اثرات اور غذائی قلت کی شدتاقوام متحدہ کی تازہ رپورٹ کے مطابق، غزہ کی ایک چوتھائی آبادی شدید بھوک کا شکار ہے، جن میں 11,500 حاملہ خواتین شامل ہیں۔
یونائیٹڈ نیشنز پاپولیشن فنڈ کے نائب سربراہ اینڈریو سیبرٹن کے مطابق، 70 فیصد نوزائیدہ بچے کم وزن یا قبل از وقت پیدا ہو رہے ہیں، جو غذائی قلت کے طویل مدتی اثرات کا ثبوت ہیں۔
اشیائے خور و نوش کی قیمتیں آسمان پرفلسطینی تنظیم PARC کے ترجمان بہاء زقوت کے مطابق، بازار میں بنیادی غذائی اشیاء بھی ناقابلِ خرید ہیں۔ ایک کلو ٹماٹر جو پہلے ایک شیکل میں ملتا تھا، اب 15 شیکل میں فروخت ہو رہا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ اگرچہ کچھ پھل اور سبزیاں دستیاب ہیں، مگر ان کی قیمتیں عام شہریوں کی پہنچ سے باہر ہیں۔
عالمی عدالت کا حکمبین الاقوامی عدالت انصاف (ICJ) نے بدھ کے روز اپنے فیصلے میں اسرائیل کو پابند کیا کہ وہ غزہ کے شہریوں کی بنیادی ضروریات پوری کرنے کے لیے اقدامات کرے۔ عدالت نے واضح کیا کہ انسانی امداد کی راہ میں رکاوٹیں بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی ہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
اسرائیل اقوام متحدہ بحران بھوک غزہ