کم از کم تنخواہ ایک ہزار ڈالر جتنی کرنے کی درخواست ناقابل سماعت قرار
اشاعت کی تاریخ: 11th, December 2025 GMT
لاہور(خبر نگار )لاہور ہائیکورٹ نے پاکستان میں کم از کم تنخواہ ایک ہزار ڈالر جتنی کرنے کی درخواست ناقابل سماعت قرار دے دی۔چیف جسٹس لاہورہائیکورٹ جسٹس عالیہ نیلم نے فہمید نواز کی درخواست پر سماعت کی جس میں انہوں نے اس درخواست کو ناقابلِ سماعت قرار دیا۔جسٹس عالیہ نیلم نے ریمارکس دئیے کہ درخواست قابلِ سماعت نہیں، یہ اخباروں میں خبریں لگانے کی جگہ نہیں ہے۔ لاہور ہائیکورٹ نے پاکستان میں کم از کم تنخواہ ایک ہزار ڈالر کے برابر مقرر کرنے کی آئینی درخواست کو ناقابلِ سماعت قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا۔درخواست کی سماعت بدھ کو چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ نے کی، جنہوں نے رجسٹرار آفس کے اعتراضات کو برقرار رکھتے ہوئے درخواست کو داخل دفتر کرنے کا حکم جاری کیا۔سماعت کے دوران عدالت نے واضح کیا کہ درخواست گزار کی جانب سے اٹھائے گئے نکات ہائیکورٹ کے دائرہ اختیار میں نہیں آتے۔چیف جسٹس نے کہا کہ رجسٹرار آفس نے درست اعتراضات اٹھائے ہیں اور درخواست میں شامل کچھ معاملات ایسے ہیں جنہیں ہائیکورٹ میں چیلنج نہیں کیا جا سکتا۔عدالت نے قرار دیا کہ قانون کے مطابق ایسی درخواست کو داخل دفتر کرنے کے لیے باقاعدہ حکم جاری کرنا ضروری ہوتا ہے۔درخواست ایڈووکیٹ فہمید نواز انصاری نے دائر کی تھی، جس میں وزیراعظم سمیت متعلقہ حکام کو فریق بنایا گیا تھا۔درخواست گزار کا موقف تھا کہ پاکستان ماضی میں برطانوی کالونی رہا ہے اور اسی بنیاد پر یہاں کی عدلیہ امریکی اور برطانوی عدالتوں کے فیصلوں کو اہمیت دیتی ہے۔درخواست گزار کے مطابق پاکستان میں بھی برطانیہ اور امریکہ کے طرز پر لیبر قوانین نافذ ہونے چاہئیں۔درخواست میں یہ موقف بھی پیش کیا گیا کہ امریکہ اور برطانیہ میں کم از کم تنخواہ ایک ہزار ڈالر مقرر ہے، اس لیے عدالت پاکستان میں بھی کم از کم تنخواہ اتنی ہی مقرر کرنے کا حکم جاری کرے۔تاہم عدالت نے قرار دیا کہ اس نوعیت کے فیصلے عدالتی نہیں بلکہ حکومتی اور پالیسی سطح کے معاملات ہیں، جن کا تعین متعلقہ ادارے ہی کر سکتے ہیں۔سماعت مکمل ہونے پر عدالت نے درخواست کو ناقابلِ سماعت قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا۔
.ذریعہ: Nawaiwaqt
کلیدی لفظ: کم از کم تنخواہ ایک ہزار ڈالر پاکستان میں درخواست کو عدالت نے
پڑھیں:
جسٹس طارق محمود جہانگیری کیخلاف جعلی ڈگری کیس قابل سماعت قرار، فریقین کو نوٹس جاری
اسلام آباد ہائیکورٹ نے جسٹس طارق محمود جہانگیری کو نوٹس جاری کرتے ہوئے جسٹس طارق محمود جہانگیری کیخلاف جعلی ڈگری کیس قابل سماعت قرار دے دیا۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے وفاق کو بذریعہ وزارت قانون اور صدر مملکت کو بذریعہ پرنسپل سیکرٹری نوٹس جاری کیے، سیکرٹری جوڈیشل کمیشن اور پارلیمانی کمیٹی برائے ججز تقرر اور ایچ ای سی اور کراچی یونیورسٹی کو بھی نوٹس جاری کر دیا گیا۔
اسلام آباد ہائیکورٹ نے جسٹس طارق محمود جہانگیری کی ڈگری کے تنازعے میں تین دن میں جواب طلب کرلیا، چیف جسٹس سردار سرفراز ڈوگر اور جسٹس اعظم خان نے سماعت کی۔
عدالتی معاون بیرسٹر ظفر اللہ عدالت میں موجود تھے جب کہ میاں داؤد ایڈووکیٹ نے عدالت سے رجوع کررکھا ہے۔
دوران سماعت ایچ ای سی اور کراچی یونیورسٹی کے تحریری جواب داخل کیے گئے، عدالت نے وکلاء کو بیٹھنے کی ہدایت کی، درخواست گزار میاں داؤد ایڈووکیٹ نے درخواست کے قابل سماعت ہونے پر دلائل دیے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ کیس قابل سماعت ہونے پر پہلے درخواست گزار پھر بار اس کے بعد عدالتی معاون کو سنوں گا،درخواست گزار نے مؤقف اپنایا کہ آئین کے آرٹیکل 193 کے تحت ہائیکورٹ جج کے لیے وکیل ہونا لازم ہے، اخبار میں اس حوالےسے خبر شائع ہوئی ، کراچی یونیورسٹی کے کنٹرولر امتحانات نے تصدیق کی کہ لیٹر درست ہے۔
وکیل درخواست گزار نے کہا کہ کراچی یونیورسٹی کے لیٹر میں کہا گیا گیا جج کی ڈگری فیک ہے، 1998 سے طے ہے ملک اسد علی کیس ہے، اس کیس میں یہ بتایا گیا ہے کہ کیا کسی ہائیکورٹ کے جج کے خلاف اسی ہائیکورٹ میں پٹیشن قابل سماعت ہے یا نہیں، ہائیکورٹ کے جج کے خلاف اسی ہائیکورٹ میں کو وارنٹو پٹیشن قابلِ سماعت ہے۔
درخواست گزار وکیل میاں داؤد نے کہا کہ ہم کووارنٹو کی رٹ میں پوچھ رہے ہیں کہ آپ وکیل یا جج بننے کے اہل نہیں تھے، اس بات کو طول دینے کے بجائے وہ آ کر بتا دیں کہ ان کی ڈگری اصل ہے یا جعلی ہے۔
درخواست گزار وکیل کے دلائل مکمل ہوگئے جس کے بعد عدالت نے عدالتی معاون کو طلب کر لیا، بیرسٹر ظفر اللہ نے بطور عدالتی معاون دلائل کا آغاز کیا۔
وکیل اسلام آباد بار نےمؤقف اپنایا کہ پہلے بار کو اس کیس میں سنا جائے اس کے بعد عدالتی معاون کو سنا جائے ، میں آٹھ ہزار وکلا کا نمائندہ ہوں مجھے پہلے سنا جائے، اسلام ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن نے درخواست دائر کی ہے۔
درخواست گزار وکیل نے اسلام آباد بار کے فریق بننے پر اعتراض عائد کر دیا، اسلام آباد بار کے وکیل احمد حسن نے دلائل کا آغاز کر دیا، بیرسٹر ظفر اللہ دوبارہ بیٹھ گئے، اسلام آباد بار نے دلائل کا آغاز کر دیا۔
وکیل اسلام آباد بار نے کہا کہ درخواست گزرا اس کیس میں متاثرہ فریق نہیں ہے ، اگر یہ سمجھتے ہیں کوئی ایشو ہے تو ان کو بار کونسل جانا چاہیے، ہائیکورٹ کا جج بننے کیلئے دس سال وکالت کا تجربہ رکھنا ضروری ہے، وکالت کا لائسنس دینا بار کونسل کا کام ہے یہ معاملہ انہوں نے دیکھنا ہوتا ہے۔
وکیل اسلام آباد ڈسٹرکٹ بار نے کہا کہ جسٹس طارق جہانگیری کی وکیل بننے کی کوالیفیکیشن میں کوئی سقم ہے تو متبادل فورم موجود ہے، جسٹس طارق جہانگیری کو جج بنانے کیلئے جوڈیشل کمیشن کا نوٹیفکیشن موجود ہے، جس جج کے خلاف کیس ہے وہ پہلے وکیل رہے، بعد میں جج بنے، ڈگری اور دیگر معاملات کا فیصلہ بار کونسل نے کرنا ہے۔
احمد احسن شاہ نے کہا کہ ڈگری غلط ہو تو معاملہ عدالت نہیں، بار کونسل لے کر جانا ہوتا ہے، اگر کسی کو ان کی دس سالہ وکالت پر اعتراض ہے تو بار کونسل میں جائے۔
اسلام آباد ڈسٹرکٹ بار نے جسٹس طارق جہانگیری کے خلاف کیس قابلِ سماعت قرار دینے کی مخالفت کی اور مؤقف اپنایا کہ یہ کیس اِس ہائیکورٹ کے دائرہ اختیار کا نہیں، سپریم جوڈیشل کونسل کا اختیار ہے، عدالت بار کونسل کے اختیارات میں مداخلت نہ کرے۔
ڈسٹرکٹ بار نے کہا کہ جسٹس جہانگیری کے خلاف کوئی درخواست بار کو نہیں دی گئی،
بار کونسلز آزاد اور خود مختار ہیں، درخواست گزار پہلے بار کونسل جائے، وہاں درخواست جمع کرائے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کہہ رہے ہیں عدالت اس کیس میں تحمل کا مظاہرہ کرے؟ وکیل ڈسٹرکٹ بار نے مؤقف اپنایا کہ عدالت فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ یا فیصلہ نہیں دے سکتی، عدالت سے استدعا ہے کہ اپنے ہی ساتھی جج کو ماتحت نہ سمجھا جائے۔
اسلام آباد ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن کے وکیل احمد حسن کے دلائل مکمل ہوگئے، اسلام آباد بار کونسل کے ممبر راجہ علیم عباسی عدالت کے سامنے پیش ہوئے اور مؤقف اپنایا کہ آرٹیکل 209 کی موجودگی میں یہ ٹرینڈ عدلیہ کی آزادی کو نقصان پہنچائے گا۔
راجہ علیم عباسی نے کہا کہ جسٹس جہانگیری کے پاس تین لائسنسز ہیں لوئر کورٹ ، ہائیکورٹ ، سپریم کورٹ ، آئینی عدالت میں آپ کے خلاف انٹرا کورٹ اپیل زیر التوا ہے ، بہتر ہے یہ کیس کسی اور بینچ کو بھیج دیں، اگر ہائیکورٹ کا ایک جج دوسرے جج کے خلاف اس طرح کارروائیاں شروع کر دے گا تو نظام عدل دھرم برہم ہو جائے گا۔
راجہ علیم عباسی نے ٹرانسفر ججز کیخلاف جسٹس جہانگیری وجہی 5 ججز کی انٹرا کورٹ اپیل کا حوالہ دیا اور مؤقف اپنایا کہ آج اگر یہ نظیر قائم ہوگئی تو کل کسی کو نہیں روک سکیں گے،
یونیورسٹی کچھ بھی کہے، عدالت فیصلہ نہیں دے سکتی۔
علیم عباسی نے کہا کہ جج کا معاملہ جوڈیشل کونسل، وکالت کا معاملہ بار کونسل دیکھے گی،
یہ ہماری ہائی کورٹ ہے، اس کا تحفظ ضروری ہے۔
ڈسٹرکٹ بار کے وکیل احمد حسن شاہ پھر روسٹرم پر آگئے، چیف جسٹس نے مکالمہ کیا کہ یہ طریقہ نہیں، آپ کو وقت دیا جا چکا ہے،احمد حسن شاہ نے مؤقف اپنایا کہ یونیورسٹی سے ریکارڈ طلب کرلیا تھا بار کونسلز سے بھی ریکارڈ طلب کرلیا جائے۔
ممبر اسلام آباد بار کونسل راجہ علیم عباسی کے دلائل مکمل ہوگئے، عدالتی معاون بیرسٹر ظفراللہ خان نے دلائل کا آغاز کیا اور مؤقف اپنایا کہ میں ذاتی رائے نہیں دوں گا، صرف قانونی نکات سامنے رکھوں گا، رِٹ پیٹیشن پر بھارتی اعلیٰ عدالتی فیصلوں کا حوالہ دیا گیا۔
عدالتی معاون بیرسٹر ظفر اللہ نے کو وارنٹو رٹ کے قابل سماعت ہونے پر دلائل دیے، عدالتی معاون بیرسٹر ظفر اللہ خان نے اسلام آباد ہائیکورٹ کے سامنے کیس قابل سماعت ہونے کی حمایت کردی۔
ایڈوکیٹ جنرل اسلام آباد نے کراچی یونیورسٹی اور ایچ ای سی کا جواب پڑھ کر سنایا، چیف جسٹس سرفراز ڈوگر نے ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد کو کراچی یونیورسٹی کی رپورٹ پڑھنے کی ہدایت کی۔
ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ یونیورسٹی رپورٹ کے مطابق اسلامیہ کالج نے طارق محمود کو اجنبی قرار دیا، چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ یونیورسٹی یہ کہہ رہی ہے کہ طارق محمود اسلامیہ کالج کے کبھی اسٹوڈنٹ ہی نہیں رہے؟