افکار سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ
اشاعت کی تاریخ: 14th, February 2025 GMT
رسمیں اور گمراہی
دراصل اسلام رسموں اور تہواروں کا مذہب ہے ہی نہیں۔ یہ تو ایک سیدھا اور معقول مذہب ہے، جو انسان کو رسموں کی جکڑبندیوں سے، کھیل تماشے کی بے فائدہ مشغولیتوں سے، اور فضول کاموں میں وقت، محنت اور دولت کی بربادیوں سے بچاکر، زندگی کی ٹھوس حقیقتوں کی طرف توجہ دلاتا ہے اور اْن کاموں میں آدمی کو مشغول کرنا چاہتا ہے جو دنیا اور آخرت کی فلاح و بہبود کا ذریعہ ہوں۔
ایسے مذہب کی فطرت سے یہ بالکل بعید ہے کہ وہ سال میں ایک دن حلوے پکانے اور آتش بازیاں چھوڑنے کے لیے مخصوص کردے اور آدمی سے کہے کہ تو مستقل طور پر ہرسال اپنی زندگی کے چند قیمتی گھنٹے اور اپنی محنت سے کمائے ہوئے بہت سے روپے ضائع کرتا رہا کر۔ اور اس سے بھی زیادہ بعید یہ ہے کہ وہ کسی ایسی رسم کا انسان کو پابند بنائے جو صرف وقت اور روپیہ ہی برباد نہیں کرتی بلکہ بعض اوقات جانوں کو بھی ضائع کرتی ہے اور گھر تک پھونک ڈالتی ہے۔
اس قسم کی فضولیات کا حکم دینا تو درکنار، اگر ایسی کوئی رسم نبیؐ کے زمانے میں موجود ہوتی تو یقیناً اس کو حکماً روک دیا جاتا، اور جو ایسی رسمیں اس زمانے میں موجود تھیں اْن کو روکا ہی گیا۔
ابتدائی زمانے میں جو لوگ شریعت محمدی کی روح کو سمجھتے تھے انھوں نے نئی رسمیں ایجاد کرنے سے انتہائی پرہیز کیا، اور جو چیز لازمی رسم بنتی نظر آئی اس کی فوراً جڑ کاٹ کر رکھ دی۔ انھیں معلوم تھا کہ ایک چیز جس کو نیکی اور ثواب کا کام سمجھ کر ابتدا میں بڑی نیک نیتی کے ساتھ شروع کیا جاتا ہے، وہ رفتہ رفتہ کس طرح سنت، پھر واجب، پھر فرض، اور آخرکار فرضوں سے بھی زیادہ اہم بنتی چلی جاتی ہے اور جہالت کی بنا پر لوگ اس نیکی کے ساتھ کس طرح بہت سی بْرائیاں ملا جلا کر ایک قبیح رسم بنا ڈالتے ہیں۔ اس لیے ابتدائی دور کے علما اور امام اس بات کی سخت احتیاط ملحوظ رکھتے تھے کہ شریعت میں کسی نئی چیز کا اضافہ نہ ہونے پائے۔ ان کا یہ مستقل عقیدہ تھا کہ جو چیز شریعت میں نہیں ہے اسے شرعی حیثیت دینا، یا جس چیز کی شریعت میں جو حیثیت ہے اس سے زیادہ اہمیت اس کو دینا بدعت ہے، اور ہر بدعت گمراہی ہے۔
لیکن افسوس ہے کہ بعد کی صدیوں میں اس طرف سے انتہائی غفلت برتی گئی اور بتدریج مسلمان بھی اپنی خودساختہ رسموں کے جال میں اسی طرح پھنستے چلے گئے، جس طرح دنیا کی دوسری قومیں پھنسی ہوئی تھیں۔ (شب ِ برأت، ترجمان القرآن، فروری 1959)
.ذریعہ: Jasarat News
پڑھیں:
خاتون نے دوسری شادی کیلئے بیٹی کو قتل کردیا
منڈی بہاءالدین میں خاتون نے دوسری شادی کے لیے اپنی بیٹی کو قتل کر دیا۔پولیس کے مطابق منڈی بہاءالدین کے علاقے مراد وال میں خاتون نے دوسری شادی کے لیے اپنی 8 سال کی بچی کو قتل کیا اور پھر اس کے اغوا کا ڈرامہ رچایا۔پولیس کا کہنا ہے کہ بچی کی والدہ نے اعتراف جرم کرلیا ہے، خاتون سے مزید تفتیش کی جا رہی ہے۔پولیس کے مطابق منڈی بہاءالدین میں دو روز قبل بچی لاپتہ ہوئی تھی جس کی لاش گزشتہ روز کھیت سے ملی تھی، وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز نے واقعے کا نوٹس لیا تھا۔