ماضی کی خوبصورت اداکارہ اور گلوکارہ
اشاعت کی تاریخ: 28th, February 2025 GMT
یہ ری مکس گانا اور اس پر ڈانس آپ نے بارہا سنا اور دیکھا ہوگا:
گورے گورے او بانکے چھورے کبھی میری گلی آیا کرو
گوری گوری او بانکی چھوری چاہے روز بلایا کرو
یہ مشہور گانا جو آپ ری مکس میں سنتے ہیں، شاید ری مکس بنانے والوں کو بھی پتا نہیں ہوگا کہ یہ گیت کس نے گایا ہے، تو ہم آپ کو بتائے دیتے ہیں کہ اس گلوکارہ اور حسین اداکارہ کا نام ہے امیر بائی کرناٹکی۔ ان کا جنم بیجا پور میں سن 1906 میں ہوا اور 3 مارچ 1965کو انتقال ہوا۔ ہندی سینما کے اوائل کی بلیک اینڈ وائٹ فلموں کی اداکارہ جو اپنے گیت خود گاتی تھیں۔
اس زمانے کا یہ دستور تھا کہ فلمی اداکار اور اداکارائیں اپنے گیت خود گاتے تھے جیسے نور جہاں، ثریا، گوہر بائی، منور سلطانہ، اوما دیوی (ٹن ٹن)۔ البتہ مردوں میں کے ایل سہگل، سریندر، سی ایچ آتما، کرن دیوان۔ لیکن مردوں میں جو شہرت سہگل کو ملی وہ کسی اور کو نصیب نہ ہوئی۔ آج بھی تو موسیقی کے متوالے سہگل کے گانے بڑے شوق سے سنتے ہیں، ان کا ہر گیت لازوال ہے۔ کردار کو خود پر طاری کر لیتے تھے۔
امیربائی کرناٹکی کی پانچ بہنیں تھیں، لیکن امیر بائی اورگوہربائی قسمت کی دھنی نکلیں، گوہر بائی کرناٹکی پہلے ہی اداکاری اور گلوکاری میں اپنا نام بنا چکی تھیں، اس لیے امیر بائی کو فلموں میں آنے کے لیے کوشش نہیں کرنی پڑی، جہاں تک گائیکی کا تعلق ہے دونوں بہنوں کو شہرت مقبولیت دنوں میں ملی جیسی کہ 1944 میں بننے والی فلم ’’ رتن‘‘ سے زہرہ بائی انبالے والی کو راتوں رات شہرت ملی، بالکل اسی طرح امیر بائی کو راتوں رات شہرت فلم ’’ قسمت‘‘ سے ملی جو 1943 میں بنی تھی۔
اولین فلموں کی کامیابی کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ سارا کام میرٹ پر ہوتا تھا، کسی موسیقار کو کوئی آواز اچھی لگی فوراً رابطہ کیا، جیسے شمشاد بیگم اور لتا کی آوازوں سے ماسٹر غلام حیدر واقف ہوئے تو فوراً انھیں موقع دیا، آج بھی ری مکس ان تمام گلوکاروں کے بنتے ہیں جو اولین بلیک اینڈ وائٹ فلموں سے تعلق رکھتے تھے۔ اس سلسلے میں سب سے زیادہ مدھر آواز شمشاد بیگم کی تھی جو آج بھی پہلے کی طرح مقبول ہیں۔
امیر بائی کی قسمت کو چار چاند لگے انل بسواس کی کمپوز کی ہوئی دھنوں پر جو گیت انھوں نے گائے وہ امر تھے جیسے:
دھیرے دھیرے آ رے بادل دھیرے دھیرے آ
مورا بلبل سو رہا ہے شور غل نہ مچا
٭……٭
کاہے جادو کیا مجھ کو اتنا بتا جادوگر بالما
مجھ کو اپنی خبر ہے نہ دل کا پتا جادوگر بالما
امیر بائی یوں ہی مقبولیت کی طرف بڑھتی جا رہی تھیں، اسی دوران اس زمانے کے معروف ولن ہمالیہ والا سے ان کی شادی ہوگئی۔ لیکن کچھ ہی عرصے بعد دونوں کے تعلقات میں دراڑ آگئی جس میں ساری غلطی اور قصور ہمالیہ والا کا تھا۔ وہ امیربائی کی شہرت اور مقبولیت کو برداشت نہ کرسکے، جب کہ وہ خود بہت ہینڈسم شخصیت کے مالک تھے، فلمی دنیا میں ان کا طوطی بولتا تھا، لیکن وہ بیوی کی کامیابی کو ہضم نہ کرسکے اور نوبت مار پیٹ تک آگئی۔ بیوی کی کامیابی سے ہمالیہ والا کی ایگو ہرٹ ہوتی تھی، وہ امیر بائی کو مارتے پیٹتے تھے اور زد و کوب کرنے کے بعد اسے کمرے میں بند کرکے چلے جاتے۔
آخرکار امیر بائی روز روز کی مار پیٹ سے تنگ آگئی اور اس نے طلاق لے لی۔ چند سال بعد امیر بائی نے معروف صحافی بدری کانچ والا سے دوسری شادی کر لی۔ تب ان کی زندگی میں بدلاؤ آیا۔ بدری کانچ والا بہت ہمدرد اور پرخلوص انسان تھے، بعد میں ہمالیہ والا پاکستان آگئے اور یہاں کی فلموں میں مصروف ہوگئے لیکن پھر انھوں نے شادی نہیں کی کیونکہ ان کی بدنامی ان کا پیچھا کرتی ہوئی یہاں بھی آگئی جب کہ وہ امیربائی کے پیسوں پر عیش کرنے کے عادی تھے، جس زمانے میں عام اداکار ایک فلم کا معاوضہ پانچ سو روپے لیتے تھے تب امیربائی ایک ہزار لیتی تھیں۔
وہ ایک گانے کا معاوضہ ایک ہزار لیتی تھیں جو اس وقت کے لحاظ سے ایک بڑی رقم تھی۔ جب امیر بائی نے طلاق کا مطالبہ کیا تو بدلے میں ہمالیہ والا نے کار کی ڈیمانڈ کر دی کہ جب تک کار نہیں دو گی طلاق نہیں دوں گا۔ امیر بائی روزانہ کے جسمانی اور ذہنی تشدد سے اس قدر تنگ آ چکی تھیں کہ انھوں نے یہ شرط بھی قبول کر لی اور کار دے کر طلاق حاصل کر لی۔ امیر بائی نے اپنے فلمی کیریئر میں 180 سے زیادہ گیت گائے جن میں سے چند ایک یہ ہیں۔
(1)۔ مار کٹاری مر جانا کسی سے دل نہ لگانا
(2)۔ اب تیرے سوا کون مرا کرشن کنہیا
بھگوان کنارے سے لگا رے میری نیّا
(3)۔ مل کے بچھڑ گئیں انکھیاں ہائے راما مل کے بچھڑ گئی انکھیاں
(4)۔او جانے والے بالموا لوٹ کے آ لوٹ کے آ۔۔۔۔۔ (موسیقار نوشاد، فلم رتن)
(5)۔ گھر گھر میں دیوالی ہے میرے گھر میں اندھیرا
(6)۔ آہیں نہ بھریں شکوہ نہ کیا کچھ بھی نہ زباں سے کام لیا
اس پر بھی محبت چھپ نہ سکی جب تیرا کسی نے نام لیا
1948 میں جب لتا کی آواز ایک ستارے کی طرح چمکی اور شمشاد بیگم کی کھنکھناتی آواز نے لوگوں کو اپنے سحر میں جکڑ لیا تو امیر بائی نے اداکاری کی طرف زیادہ توجہ دینی شروع کر دی۔ فلم زینت کی قوالی سے انھیں آخری دنوں میں بڑا بریک ملا۔ امیر بائی کو ان کی آواز کی بنا پر کنڑ کوئل کا خطاب بھی ملا یعنی کرناٹک کی کوئل۔ ان کا ایک بھجن تھا جو مہاتما گاندھی کو بہت پسند تھا جسے وہ روزانہ صبح کے وقت سنا کرتے تھے۔ ابتدائی طور پر فلم انڈسٹری میں جو بھی کام ہوا میرٹ پر ہوا، اسی لیے اس دور کی فلمیں، اس دور کے موسیقار اور گلوکاروں کا نام اور کام آج تک زندہ ہیں۔
پرانے وقتوں کی ایک گلوکارہ کملا جھریا تھی جس کا جنم جھریا میں ہوا۔ کملا جھریا کا اصل نام کملا سنیا تھا، ان کے والد جھریا کے راجہ کے دربار سے وابستہ تھے، راجہ کے دربار کے درباری گائیک کمل ملک نے جب کملا جھریا کے گیت سنے اور اسے شاگردی میں لے لیا، کملا جھریا کی مقبولیت روز بروز بڑھتی جا رہی تھی، کلکتہ سے لے کر پشاور، لاہور، بنارس، یوپی، دلّی ہر جگہ پہنچ چکی تھی۔ 1933 میں کملا جھریا نے اداکاری میں بھی قدم رکھا، وہ بے حد خوب صورت تھیں اور کئی زبانوں میں کلاسیکل گیت گائے مثلاً ہندی، اردو، پنجابی اور بنگالی میں بھی گیت گائے۔
موجودہ دور میں موسیقی کا جنازہ نکل گیا ہے۔ موسیقی بھی ریڈیو کے ساتھ ختم ہوگئی۔ ہمارے ہاں موسیقی کا جنازہ ضیا الحق کے زمانے میں نکل گیا۔ ابتدائی دور میں یہاں بھی ٹیلی وژن پہ بڑے اچھے موسیقی کے پروگرام پیش کیے گئے جیسے نکھار، سُر سنگیت اور سُر ساگر کے نام سے لیکن اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی۔ ایسے میں نجی چینلز کو خیال نہیں آتا کہ وہ کوئی موسیقی کا پروگرام بھی ترتیب دیں۔ کبھی محفل غزل،کبھی سیمی کلاسیکل کی بندش میں ٹھمری ملہار اور دیپک راگ یا ہلکے پھلکے گانے، لیکن ایسا کرے گا کون، یہ ایک سوال ہے؟
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: امیر بائی کو کملا جھریا کی تھی
پڑھیں:
پاکستان نے اب اسکور بورڈ پر کچھ رنز بنا لیے،ماضی کی غلطیوں سے بچنا ہوگا، وزیر خزانہ
پاکستان نے اب اسکور بورڈ پر کچھ رنز بنا لیے،ماضی کی غلطیوں سے بچنا ہوگا، وزیر خزانہ WhatsAppFacebookTwitter 0 23 April, 2025 سب نیوز
واشنگٹن(آئی پی ایس) وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے معاشی اصلاحات، مالی استحکام اور ماحولیاتی عزم کی تجدید کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان نے اب اسکور بورڈ پر کچھ رنز بنالیا ہے لیکن ماضی کی غلطیوں سے بچنا ہوگا۔
وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے واشنگٹن ڈی سی میں عالمی مالیاتی ادارہ (آئی ایم ایف)-ورلڈ بینک کے اجلاس کے موقع پر اٹلانٹک کونسل کے جیو اکنامکس سینٹر میں “2025 اور اس کے بعد پاکستانی معیشت کو درپیش چیلنجز اور مواقع” کے موضوع پر گفتگو کی۔
انہوں نے پاکستان کی معاشی صورت حال، اصلاحاتی منصوبوں اور حکومتی ترجیحات پر کھل کر اظہار خیال کیا اور عالمی مالیاتی اداروں کے ساتھ مثبت شراکت داری کی اہمیت پر زور دیا۔
وزیر خزانہ نے بتایا کہ گزشتہ برس کے مقابلے میں پاکستان نے معاشی استحکام کی جانب اہم پیش رفت کی ہے، زر مبادلہ کے ذخائر میں اضافہ، مہنگائی میں کمی، کریڈٹ ریٹنگ میں بہتری اور مالی خسارے میں کمی کو اہم کامیابیاں قرار دیا۔
انہوں نے واضح کیا کہ یہ صرف پہلا قدم ہے، اصل مقصد پائیدار ترقی اور اصلاحات کا تسلسل ہے
کرکٹ کی مثال دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پاکستان نے اب “اسکور بورڈ پر کچھ رنز بنا لیے ہیں” لیکن ماضی کی غلطیوں سے بچنا ہوگا۔
مالیاتی نظم و ضبط کے حوالے سے وزیر خزانہ نے کہا کہ بجٹ میں توازن قائم رکھتے ہوئے عوامی فلاح اور ترقیاتی اخراجات کے لیے گنجائش پیدا کرنا ضروری ہے، رواں مالی سال میں ٹیکس ریونیو میں 29 فیصد اضافہ ہوا ہے اور ٹیکس کا جی ڈی پی تناسب 10.6 فیصد تک پہنچنے کی امید ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ قرضوں کی مؤثر مینجمنٹ سے تقریباً 10 کھرب روپے کی بچت ہوئی ہے، جبکہ پالیسی ریٹس میں کمی سے مالی گنجائش بڑھی ہے۔
انہوں نے صوبوں کے ساتھ قومی مالیاتی معاہدے کے تحت شراکت داری کو فروغ دینے پر بھی زور دیا اور پاکستان میں پہلی مرتبہ زرعی آمدن پر ٹیکس لگانے کو ایک تاریخی پیش رفت قرار دیا۔
ریونیو اصلاحات کے مؤثر نفاذ پر بات کرتے ہوئے وزیر خزانہ نے ڈیجیٹل نظام اور نفاذ کی اہمیت پر زور دیا اور پاکستان کی بھاری بھر کم انفارمل معیشت اور لگ بھگ 90 کھرب روپے مالیت کے نوٹوں کی گردش کو ایک بڑا چیلنج قرار دیا۔
انہوں نے کہا کہ ریٹیل، رئیل اسٹیٹ، زراعت اور ہول سیل جیسے شعبوں کو باقاعدہ بنانے کے لیے جدید ٹیکنالوجی پر مبنی آڈٹ، ٹریک اینڈ ٹریس اور فیس لیس کسٹمز استعمال کیے جا رہے ہیں۔
وزیرخزانہ نے ایف بی آر میں اصلاحات کے لیے افراد، طریقہ کار اور ٹیکنالوجی میں بہتری کی ضرورت پر زور دیا۔
محمد اورنگزیب نے اپنی گفتگو میں آبادی میں اضافے اور ماحولیاتی تبدیلی کو بھی پاکستان کے لیے بڑے چیلنجز قرار دیا اور بتایا کہ حکومت صوبوں کے ساتھ مل کر خاندانی منصوبہ بندی، ماں اور بچے کی صحت اور خاص طور پر لڑکیوں کی تعلیم پر جامع حکمتِ عملی پر کام کر رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ بچوں کی نشوونما متاثر ہونے کی بڑی وجہ بھی منصوبہ بندی کا فقدان ہے، جس سے انسانی وسائل پر منفی اثر پڑتا ہے، ان کا زور صرف مسائل کی نشان دہی نہیں بلکہ عملی اور مقامی سطح پر مؤثر حل پر ہے اور انہوں نے اس ضمن میں بنگلہ دیش کے ماڈل سے سیکھنے کی بات کی۔
وزیر خزانہ نے ماحولیاتی بہتری کے لیے پرائیویٹ سیکٹر کی سرمایہ کاری اور شفاف منصوبوں کی تیاری کو ناگزیر قرار دیا۔
انہوں نے ایشیائی ترقیاتی بینک کے 500 ملین ڈالر، ورلڈ بینک کے دس سالہ شراکتی فریم ورک اور آئی ایم ایف کے ساتھ 1.3 ارب ڈالر کے نئے پروگرام کو مثبت پیش رفت قرار دیا۔
ان کا کہنا تھا کہ اسٹیٹ بینک کے تحت پاکستان گرین ٹیکسونومی فریم ورک تیار کر رہا ہے جس کے ذریعے گرین بانڈز، گرین سکوکس اور پہلا پانڈا بانڈ متعارف کرایا جائے گا، جس کی رقم اقوام متحدہ کے ترقیاتی اہداف کے مطابق استعمال کی جائے گی۔
عالمی سطح پر بات کرتے ہوئے وزیر خزانہ نے بریٹن ووڈز جیسے مالیاتی اداروں میں اصلاحات کی ضرورت پر زور دیا تاکہ ترقی پذیر ممالک کی ضروریات بہتر طریقے سے پوری ہو سکیں۔
انہوں نے آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کی قیادت کو سراہا اور زور دیا کہ عالمی سطح پر ایک ایسا پلیٹ فارم قائم کیا جائے جو رعایتی فنانس کے بہاؤ کو منظم کر سکے۔
وزیر خزانہ نے ادارہ جاتی احتساب کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے پاکستان کی جانب سے اصلاحات، عملی اقدامات اور عالمی شراکت داری کے عزم کا اعادہ کیا۔
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔
WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرمقبوضہ جموں و کشمیر میں 26سیاحوں کی ہلاکت، دفتر خارجہ کا ردعمل سامنے آگیا مقبوضہ جموں و کشمیر میں 26سیاحوں کی ہلاکت، دفتر خارجہ کا ردعمل سامنے آگیا پاکستان اور ترکیہ کی غزہ بربریت کی مذمت، اردوان کی دہشتگردی کے خاتمے کیلئے پاکستان کی حمایت آئی ایم ایف نے پاکستان کی معاشی شرح نمو پیشگوئی کم کر کے 2.6 فیصد کر دی نہتے افراد پر بزدلانہ حملے کی مذمت کرتے ہیں، فالس فلیگ ڈرامہ رچانا بھارتی روایت ہے، جلیل عباس جیلانی پاکستان کے کارڈینل جوزف کاٹس بھی نئے پوپ کے انتخاب میں حصہ لیں گے بھارتی فالس فلیگ آپریشن کا مقصد تحریکِ آزادی کشمیر کو بدنام کرنا ہے، مشعال ملکCopyright © 2025, All Rights Reserved
رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیم