سپریم کورٹ نے اینٹی کرپشن ہاٹ لائن سے متعلق وضاحتی اعلامیہ جاری کر دیا
اشاعت کی تاریخ: 21st, March 2025 GMT
سپریم کورٹ نے اینٹی کرپشن ہاٹ لائن سے متعلق وضاحتی اعلامیہ جاری کر دیا WhatsAppFacebookTwitter 0 21 March, 2025 سب نیوز
اسلام آباد: سپریم کورٹ آف پاکستان نے اینٹی کرپشن ہاٹ لائن سے متعلق وضاحتی اعلامیہ جاری کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ یہ ہاٹ لائن صرف سپریم کورٹ کے دائرہ اختیار میں آنے والے معاملات کے لیے مخصوص ہے۔
اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ اینٹی کرپشن ہاٹ لائن سپریم کورٹ کے اندرونی معاملات، بالخصوص مقدمات کی فکسنگ اور دیگر انتظامی امور کے حوالے سے شکایات درج کرنے کے لیے قائم کی گئی ہے۔ ہاٹ لائن پر صرف سپریم کورٹ کے افسران اور عملے کے خلاف شکایات سنی جائیں گی۔
مزید وضاحت کی گئی ہے کہ سپریم کورٹ سے باہر کے اداروں یا افراد سے متعلق کسی بھی قسم کی شکایات اس ہاٹ لائن پر وصول نہیں کی جائیں گی اور نہ ہی ان شکایات پر کوئی ردعمل دیا جائے گا۔
اعلامیہ میں عوام الناس کو تاکید کی گئی ہے کہ وہ صرف متعلقہ نوعیت کی شکایات ہی ہاٹ لائن پر درج کروائیں تاکہ ہاٹ لائن کا مؤثر استعمال ممکن بنایا جا سکے۔
.ذریعہ: Daily Sub News
کلیدی لفظ: اینٹی کرپشن ہاٹ لائن سپریم کورٹ
پڑھیں:
سپریم کورٹ نے انتخابی عمل میں ‘ریورس انجینئرنگ’ کو مسترد کر دیا
سپریم کورٹ نے انتخابی عمل میں ‘ریورس انجینئرنگ’ کو مسترد کر دیا WhatsAppFacebookTwitter 0 2 July, 2025 سب نیوز
تحریر: حافظ احسان احمد کھوکھر، ایڈووکیٹ سپریم کورٹ آف پاکستان
جو آئینی امور کے معروف ماہر ہیں اور 25 سال سے زائد قانونی تجربہ رکھتے ہیں۔ ان کا دفتر اسلام آباد میں ہے اور ان سے 0300-8487161 پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔
پاکستان کی سپریم کورٹ کا 27 جون 2025 کا فیصلہ، جو 10 کے مقابلے میں 3 ججوں کی اکثریت سے سنایا گیا، قومی و صوبائی اسمبلیوں میں ریزرو نشستوں کی تقسیم سے متعلق آئینی اور قانونی فریم ورک کی تعبیر میں ایک نازک مگر فیصلہ کن موڑ کی حیثیت رکھتا ہے۔ ان ریویو درخواستوں کو منظور کرتے ہوئے اور 12 جولائی 2024 کے اپنے پہلے فیصلے کو کالعدم قرار دے کر عدالت نے اپنے ریویو دائرہ اختیار کو نہایت محتاط انداز میں استعمال کیا تاکہ ایک ایسی قانونی غلط فہمی کو درست کیا جا سکے جو پاکستان میں انتخابی نمائندگی کے بنیادی ڈھانچے کو خطرے میں ڈال رہی تھی۔ اس عمل کے ذریعے عدالت نے آئین کے آرٹیکل 51 اور 106 میں بیان کردہ آئینی اسکیم پر وفاداری بحال کی اور الیکشنز ایکٹ 2017 کے سیکشن 66 اور 104 اور الیکشن رولز 2017 کے رول 95 کی پابندی کو دوبارہ سے مؤثر قرار دیا۔
یہ تصحیحی فیصلہ آئین کی روح اور متنی اسکیم کی مضبوط توثیق اور عدالتی صوابدید کی حدود کی از سرِ نو وضاحت کے طور پر سامنے آیا ہے۔ اب اس میں کوئی شبہ باقی نہیں رہا کہ ریزرو نشستیں ایک آئینی حق ہیں، جو قبل از انتخاب اور بعد از انتخاب طے شدہ قانونی تقاضوں کی مکمل پابندی سے مشروط ہیں۔ آئینی فریم ورک سے کسی بھی انحراف کا مطلب نہ صرف آئین کی صریح دفعات کی خلاف ورزی ہے بلکہ یہ قانون ساز ادارے کی نمائندہ نوعیت اور جمہوری سالمیت کو بھی مجروح کرتا ہے۔ لہٰذا، حالیہ ریویو فیصلہ محض ایک طریقہ کار کی اصلاح نہیں بلکہ آئینی احکام اور ان کے نفاذ کے لیے بنائے گئے قانونی ڈھانچے کی اصولی اور بامعنی توثیق ہے۔
چھبیسویں آئینی ترمیم کے نفاذ کے بعد آئین میں شامل کیے گئے آرٹیکل 191-A(3) کے تحت اب یہ بات غیر مبہم طور پر واضح ہو چکی ہے کہ بنیادی حقوق کے نفاذ سے متعلق مقدمات کی سماعت سپریم کورٹ کی آئینی بنچز کریں گی۔ اس لیے ریویو درخواستوں کی سماعت کے لیے تشکیل دی گئی بنچ کا تعین محض ایک سہولت نہیں بلکہ ایک آئینی تقاضا تھا۔ لہٰذا، اس بنچ کی قانونی حیثیت یا دائرہ اختیار پر اعتراضات بے بنیاد تھے اور انہیں بجا طور پر رد کر دیا گیا۔ نہ تو آئین اور نہ ہی سپریم کورٹ رولز 1980 کسی باقاعدہ آئینی بنچ کو ایسے ریویو مقدمات کی سماعت سے روکتے ہیں جن کا تعلق بنیادی حقوق سے ہو۔
اسی آئینی فریم ورک میں، سپریم کورٹ کا ریویو فیصلہ جو اس سے پہلے 12 جولائی اور 23 ستمبر 2024 کو دیے گئے فیصلوں کو کالعدم قرار دیتا ہے، اکثریتی فیصلہ تھا جو دس کے مقابلے میں تین ججوں نے دیا۔ ریویو درخواستوں کی سماعت کے لیے اصل میں 13 جج صاحبان پر مشتمل بنچ تشکیل دیا گیا تھا۔ کارروائی کے آغاز میں ہی دو معزز جج صاحبان نے ریویو درخواستیں ابتدائی سماعت پر خارج کر دیں اور یوں وہ اختلافی اقلیت کا حصہ بنے۔ بعد ازاں ایک جج صاحب نے آخری دن سماعت سے علیحدگی اختیار کی اور حتمی فیصلہ میں شریک نہ ہوئے۔ باقی دس معزز جج صاحبان نے مقدمے کے میرٹ پر فیصلہ دیا، جنہوں نے تمام کی تمام ریویو درخواستیں منظور کر لیں۔ ان میں سے سات جج صاحبان نے اصل اکثریتی فیصلہ دیا اور پہلے فیصلے کو صریحاً کالعدم قرار دیا، جب کہ تین دیگر ججوں نے الگ وجوہات کی بنیاد پر فیصلے سے اتفاق کرتے ہوئے معاملہ الیکشن کمیشن کو قانون کے مطابق فیصلے کے لیے واپس بھیج دیا۔ نتیجتاً، پہلے دیے گئے فیصلے مکمل طور پر دس معزز جج صاحبان کی واضح اکثریت کے ساتھ کالعدم قرار پائے اور ریویو فیصلہ ایک مستند 10-3 فیصلہ بن گیا۔
پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 51 اور 106 میں شامل آئینی فریم ورک جب الیکشنز ایکٹ 2017 کے سیکشن 104 اور الیکشن رولز 2017 کے قواعد 92 تا 94 کے ساتھ ہم آہنگ ہو کر پڑھا جائے تو وہ قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں ریزرو نشستوں کے حصول کے لیے ایک سخت اور لازمی قانونی نظام وضع کرتا ہے۔ یہ دفعات نہایت واضح اور دوٹوک الفاظ میں یہ تقاضا کرتی ہیں کہ صرف وہی سیاسی جماعتیں ریزرو نشستوں کے لیے اہل ہوں گی جنہوں نے:
(1) عام انتخابات میں ایک مشترکہ انتخابی نشان کے تحت حصہ لیا ہو؛
(2) عام انتخابات میں کم از کم ایک جنرل نشست جیتی ہو؛
(3) ریزرو نشستوں کے لیے اپنے امیدواروں کی فہرست الیکشن کمیشن کی طرف سے مقرر کردہ وقت کے اندر جمع کرائی ہو؛ اور
(4) آزاد امیدواروں سے، جو کہ متعلقہ پارٹی میں شمولیت اختیار کرنا چاہتے ہوں، مقررہ قانونی مدت کے اندر باقاعدہ اعلان حاصل کیا ہو۔
یہ شرائط محض رسمی کارروائیاں نہیں بلکہ آئینی طور پر لازم اور قانونی طور پر مؤثر تقاضے ہیں۔ ان کا مقصد پارلیمانی اسکیم کی تناسبی نمائندگی، شفافیت اور جمہوری حیثیت کو برقرار رکھنا ہے اور انتخابی عمل میں کسی قسم کی من مانی یا بعد از وقت رد و بدل سے روکنا ہے۔ اس اصولی فریم ورک سے انحراف آئینی ڈھانچے اور جمہوری نمائندگی کے قانونی تحفظات کو کمزور کرتا ہے۔
اس کے علاوہ، پاکستان میں انتخابات سے متعلق آئینی و قانونی فریم ورک—بالخصوص آئین اور الیکشنز ایکٹ 2017 کی متعلقہ دفعات—یہ واضح کرتے ہیں کہ کوئی بھی سیاسی جماعت جو ضروری قبل از انتخاب قانونی تقاضے پورے نہ کرے، مثلاً ریزرو نشستوں کے لیے بروقت ترجیحی فہرستیں جمع نہ کرائے یا کوئی جنرل نشست حاصل نہ کرے، تو وہ قانونی طور پر بعد از انتخاب کسی بھی ریزرو نشست کی دعوے دار نہیں بن سکتی۔ یہ تقاضے محض طریقہ کار یا رہنمائی کی نوعیت کے نہیں بلکہ ٹھوس، لازمی اور پہلے سے طے شدہ شرائط ہیں جن کی عدم تکمیل خودبخود نااہلی کا سبب بنتی ہے۔
اعلیٰ عدلیہ کا مسلسل مؤقف یہی رہا ہے کہ انتخابی شیڈول کی خلاف ورزی یا انتخابی قوانین کی صریح دفعات کی عدم تعمیل ایسی جماعت کو ریزرو نشستوں کے لیے نااہل بناتی ہے۔ الیکشنز ایکٹ 2017 کے سیکشن 104 کو رولز 92 تا 94 کے ساتھ ملا کر پڑھا جائے تو یہ قطعی طور پر ترمیم شدہ، اضافی یا مقررہ وقت کے بعد جمع کرائی گئی ترجیحی فہرستوں کو جمع کروانے، ان پر غور کرنے یا قبول کرنے پر مکمل پابندی عائد کرتے ہیں، جس سے ان تقاضوں کی قطعی نوعیت اور پابندی کو واضح کیا گیا ہے۔
مزید یہ کہ آئینی اسکیم میں یہ تصور موجود نہیں کہ انتخابات کے بعد آزاد امیدوار ایسی جماعت میں شامل ہو سکیں جو کہ قومی اسمبلی یا متعلقہ صوبائی اسمبلی میں کوئی نشست حاصل نہ کر سکی ہو۔ جب کسی جماعت کی اسمبلی میں کوئی نمائندگی ہی نہ ہو تو ایسی جماعت میں شمولیت کا کوئی آئینی یا قانونی راستہ باقی نہیں رہتا، اور اس جماعت کی طرف سے ریزرو نشستوں کا کوئی بھی دعویٰ از خود آئینی و قانونی حیثیت سے محروم ہو جاتا ہے۔
آئین کے آرٹیکل 51(6)(d) اور 106(3)(c) جب الیکشنز ایکٹ 2017 کے سیکشن 104 اور الیکشن رولز 2017 کے رول 94 کے ساتھ پڑھے جائیں تو وہ ایک سخت اور منظم قانونی فریم ورک تشکیل دیتے ہیں، جو قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں ریزرو نشستوں کی تقسیم کو منضبط کرتا ہے۔ یہ فریم ورک واضح طور پر یہ شرط عائد کرتا ہے کہ صرف وہی سیاسی جماعتیں جو انتخابی میدان میں مؤثر طور پر حصہ لے کر کم از کم ایک جنرل نشست جیتنے میں کامیاب ہوں، وہ ریزرو نشستوں کی حقدار قرار دی جا سکتی ہیں، اور بعد از انتخاب اتحاد یا ایڈجسٹمنٹ کے ذریعے انتخابی خامیوں کی اصلاح کی اجازت نہیں دی گئی۔
زیر نظر مقدمے میں، نہ تو الیکشن کمیشن اور نہ ہی پشاور ہائی کورٹ کے سامنے پاکستان تحریکِ انصاف (PTI) یا سنی اتحاد کونسل (SIC) یہ ثابت کر سکے کہ انہوں نے ان بنیادی آئینی اور قانونی شرائط کو پورا کیا۔ ان کا سپریم کورٹ سے رجوع بھی ایک ایسے دعوے پر مبنی تھا جو طریقہ کار کے لحاظ سے ناقص اور قانوناً غیر مستحکم تھا اور آئین یا متعلقہ قوانین میں اس کی کوئی بنیاد موجود نہ تھی۔
(ترجمہ کا تیسرا حصہ…)
12 جولائی 2024 کا سابقہ اکثریتی فیصلہ، جو 8-5 کی معمولی برتری سے دیا گیا، ایک قانونی اور آئینی حد سے تجاوز کی مثال تھا۔ پاکستان تحریک انصاف (PTI) نہ تو ابتدائی طور پر الیکشن کمیشن کے سامنے فریق بنی اور نہ ہی بعد ازاں کسی مرحلے پر—سوائے ریویو درخواستوں کے—اس نے کسی فورم پر ریزرو نشستوں کا کوئی باقاعدہ آئینی دعویٰ کیا۔ بلکہ، PTI نے ابتدا سے ہی سنی اتحاد کونسل (SIC) کے مؤقف کی حمایت کی۔ اس کے باوجود، سپریم کورٹ کے سابقہ اکثریتی فیصلے نے آئین کے آرٹیکل 17(2)—جو سیاسی جماعت بنانے اور اس میں شامل ہونے کا حق دیتا ہے—اور آرٹیکل 187(1)—جو عدالت کو مکمل انصاف فراہم کرنے کا اختیار دیتا ہے—کی تشریح کو اس حد تک پھیلا دیا کہ وہ آئینی دفعات 51، 106 اور 175(2) میں موجود واضح حدود کو نظرانداز کر گیا۔
جب عدالت نے ایک ایسی سیاسی اتحاد کو ریزرو نشستوں کا حقدار قرار دیا جو کوئی جنرل نشست حاصل نہ کر سکا تھا اور صرف آزاد امیدواروں کی بعد از انتخاب شمولیت پر انحصار کرتا تھا، تو اس نے انتخابی نمائندگی سے متعلق آئینی اور قانونی ڈھانچے کی غلط تعبیر کی۔ اس تشریح نے وہ لازم شرائط نظرانداز کر دیں جو انتخابی اہلیت کے لیے ضروری تھیں اور اس تناسبی نمائندگی کے اصول سے انحراف کیا جو ریزرو نشستوں کی تقسیم کا بنیادی تصور ہے۔ آئین اور الیکشنز ایکٹ 2017 کی متنی اسکیم سے اس انحراف نے دستور سازوں کے تصور کردہ نمائندہ توازن کو بگاڑ دیا اور انتخابی عمل کی آئینی ساکھ کو متاثر کیا۔
12 جولائی 2024 کا فیصلہ نہ صرف آئینی حد سے تجاوز کی مثال تھا بلکہ اس نے عدالتی تشریح کو ان حدود سے بھی آگے بڑھا دیا جو آئین کے تحت مقرر کی گئی ہیں۔ اس توسیع نے ریزرو نشستوں کی تقسیم کے آئینی و قانونی ڈھانچے کو مسخ کر دیا اور آئین و الیکشن ایکٹ 2017 میں درج لازمی شرائط کو غیر مؤثر بنا دیا۔ اس کے برعکس، بعد میں آنے والے ریویو فیصلے نے عدالتی تشریح کو دوبارہ آئین کے اصل مقصد اور اس کی واضح زبان سے ہم آہنگ کیا۔ اس سے پاکستان کے انتخابی نظام کی داخلی ہم آہنگی، اصولی تسلسل اور ساختی سالمیت بحال ہوئی، اور نمائندہ جمہوریت و قانون کی حکمرانی کے بنیادی اصولوں کی ازسرنو توثیق ہوئی۔
اگرچہ آئین کا آرٹیکل 187(1) سپریم کورٹ کو مکمل انصاف کی فراہمی کا وسیع اختیار دیتا ہے، لیکن یہ اختیار لامحدود نہیں ہے اور اس کا استعمال آئین کے صریح احکام کو پسِ پشت ڈالنے یا ان کی خلاف ورزی کے لیے نہیں کیا جا سکتا۔ عدالت کو ایسا اختیار حاصل نہیں کہ وہ آئینی حدود سے تجاوز کرتے ہوئے ایسے حقوق یا رعایتیں تخلیق کرے جو آئین میں صریحاً موجود نہ ہوں۔ اسی طرح، اگرچہ آرٹیکل 17(2) سیاسی جماعت بنانے اور اس میں شمولیت کا بنیادی حق عطا کرتا ہے، لیکن یہ حق بھی معقول پابندیوں کے تابع ہے اور انتخابی عمل میں شرکت کے لیے دیگر آئینی و قانونی شرائط کو بالکل ختم نہیں کرتا۔ سابقہ فیصلے کی قانونی غلطی یہ تھی کہ اس نے عام سیاسی حقوق کو مخصوص انتخابی استحقاق کے ساتھ خلط ملط کر دیا، جس سے آئینی و انتخابی ڈھانچے کا توازن بگڑ گیا۔
مزید برآں، 12 جولائی اور ستمبر 2024 کے فیصلے شدید آئینی اور طریقہ کار کی خامیوں سے بھرپور تھے۔ سپریم کورٹ نے ان فیصلوں میں الیکشن رولز 2017 کے رول 94 اور اگست 2024 میں کی گئی قانونی ترامیم کو کالعدم قرار دے دیا، حالانکہ نہ تو کوئی فریق عدالت میں ان ترامیم یا رولز کو چیلنج کرنے آیا اور نہ ہی اس بارے میں کوئی مخصوص دعا یا استدعا کی گئی تھی۔ اس سے بھی زیادہ سنگین بات یہ ہے کہ وفاق کو، جو ان قانونی ترامیم کا اصل مدعا تھا، سول پروسیجر کوڈ 1908 کے سیکشن 27-A کے تحت اٹارنی جنرل پاکستان کے ذریعے نوٹس جاری نہیں کیا گیا۔ یہ قانونی کوتاہی ایک فنی غلطی تھی جو کہ کسی بھی قانون کی آئینی حیثیت پر دیے گئے فیصلے کو ناقابل اعتبار بنا دیتی ہے۔ سپریم کورٹ نے اپنے متعدد فیصلوں میں یہ اصول تسلیم کیا ہے کہ اگر کسی قانون کی آئینی حیثیت پر فیصلہ دیتے وقت اٹارنی جنرل کو نوٹس نہ دیا جائے تو وہ فیصلہ طریقہ کار کے لحاظ سے ناقص اور قانونی اثر سے عاری سمجھا جائے گا۔
سپریم کورٹ کی حالیہ برسوں کی ارتقائی عدالتی تشریح—جس میں آرٹیکل 62(1)(f)، 63A، سپریم کورٹ (پریکٹس اینڈ پروسیجر) ایکٹ، سویلینز کے ملٹری ٹرائلز، اور نیب قوانین میں ترامیم جیسے اہم آئینی معاملات شامل ہیں—نے آئینی حدود اور عدالتی احتیاط (judicial restraint) کے اصول کو بتدریج زیادہ اہمیت دی ہے۔ ریزرو نشستوں سے متعلق حالیہ ریویو فیصلہ بھی اسی تشریعی رجحان کے مطابق ہے اور یہ عدالت کے ادارہ جاتی کردار کی ایک بالغ نظر ثانی (mature recalibration) کو ظاہر کرتا ہے۔
پاکستان تحریک انصاف (PTI) اور اس سے منسلک پلیٹ فارم، سنی اتحاد کونسل (SIC)، نے ایک سنگین سیاسی اور آئینی غلطی کی جو انتخابی عمل کے ہر مرحلے میں، اور اس کے بعد بھی، پوری شدت کے ساتھ نمایاں رہی۔ باوجود اس کے کہ انہوں نے سیاسی اتحاد کا دعویٰ کیا، SIC نے نہ تو ایک رجسٹرڈ جماعت کی حیثیت سے انتخابات میں حصہ لیا، نہ ہی ریزرو نشستوں کے لیے مقررہ وقت پر اپنی ترجیحی فہرستیں جمع کروائیں، اور نہ ہی کسی ایک بھی جنرل نشست پر کامیابی حاصل کی۔ ایک غیر آئینی اور قانونی طور پر غلط حکمت عملی کے تحت PTI نے آزاد امیدواروں کو بعد از انتخاب SIC سے وابستہ کروانے کی کوشش کی تاکہ ریزرو نشستوں پر دعویٰ کیا جا سکے۔ تاہم، یہ حکمت عملی شروع سے ہی ناقابل عمل اور آئینی لحاظ سے ناپائیدار تھی۔ اس میں بعد از انتخاب طریقوں کے ذریعے پارلیمانی حیثیت کو “ریورس انجینئر” کرنے کی کوشش کی گئی، جو کہ انتخابی شرکت اور کامیابی کے بنیادی تقاضے سے کھلی انحراف تھی۔
یہ حکمت عملی نہ صرف قانونی بنیاد سے عاری تھی بلکہ اسے ہر سطح پر مسترد کر دیا گیا—الیکشن کمیشن آف پاکستان، مختلف ہائی کورٹس، اور بالآخر سپریم کورٹ آف پاکستان نے SIC کے ریزرو نشستوں کے دعوے کو مسترد کیا اور اس بات کو ایک بار پھر مؤثر طریقے سے واضح کیا کہ انتخابی حیثیت کسی بعد از وقت طریقہ کار کے ذریعے تخلیق نہیں کی جا سکتی۔ PTI کی یہ حکمت عملی مکمل طور پر ناکام ہوئی، اور SIC کو پارلیمانی حیثیت کا کوئی بھی قانونی یا علامتی حق حاصل نہ ہو سکا۔ یہ اعلیٰ درجے کی آئینی غلط فہمی تھی، جو نمائندہ جمہوریت اور انتخابی نظام کی بنیادی سمجھ کے فقدان پر مبنی تھی۔ PTI اور SIC نے سیاسی جنگ کو عدالت کے فورم پر منتقل کر کے ایک ایسا راستہ اختیار کیا جو آئینی اسکیم کی روح اور متن دونوں سے متصادم تھا، جس کے نتیجے میں مکمل قانونی و سیاسی ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔
سپریم کورٹ کا حالیہ فیصلہ ان آئینی، طریقہ کار، اور تشریحی غلطیوں کو درست کرتا ہے۔ یہ فیصلہ اس بات کی توثیق کرتا ہے کہ ریزرو نشستوں کی تقسیم آئینی دفعات پر مکمل عملدرآمد سے مشروط ہے۔ آرٹیکل 17 اور 187 کو آرٹیکل 51 اور 106 کی مخصوص اور صریح شرائط کے تابع ہی مانا جا سکتا ہے، ان کے متبادل نہیں۔ عدالت نے بالکل بجا طور پر یہ قرار دیا کہ بعد از انتخاب وابستگیاں، چاہے سیاسی طور پر کتنی ہی موزوں کیوں نہ ہوں، ریزرو نشستوں کے لیے اہلیت پیدا نہیں کر سکتیں۔ یہ فیصلہ ادارہ جاتی احتیاط کے اصول کو بھی بحال کرتا ہے۔ عدلیہ کا اختیار، جیسا کہ آرٹیکل 175(2) میں درج ہے، صرف قانون کی تشریح تک محدود ہے، اس میں ترمیم کا اختیار شامل نہیں۔ جون 2025 کا یہ فیصلہ سپریم کورٹ کے کردار کو اس کے آئینی دائرہ کار سے ہم آہنگ کرتا ہے اور اختیارات کی علیحدگی کے اصول کو مستحکم کرتا ہے۔ اس میں یہ اعادہ کیا گیا ہے کہ نمائندہ حق صرف انتخابی جواز اور قانونی تقاضوں کی تکمیل سے حاصل ہو سکتا ہے، نہ کہ عدالتی رعایت سے۔ آئینی بالادستی کی توثیق کرتے ہوئے، یہ ریویو فیصلہ اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ آئینی اسکیم اور انتخابی نظام اپنی اصل صورت میں برقرار رہیں گے جب تک کہ ان میں پارلیمنٹ خود ترمیم نہ کرے۔
اگرچہ سپریم کورٹ کا ریویو دائرہ اختیار محدود نوعیت کا ہے اور عام طور پر اس کا استعمال احتیاط سے کیا جاتا ہے، تاہم ایسے معاملات میں جہاں سابقہ فیصلے آئینی توازن کو متاثر کرتے ہوں یا صریح ناانصافی کا سبب بن رہے ہوں، وہاں اس دائرہ اختیار کا استعمال نہ صرف موزوں بلکہ ایک آئینی ضرورت بن جاتا ہے۔ زیر نظر مقدمے میں، سابقہ فیصلوں کو کالعدم قرار دینا محض ایک قانونی غلطی کی اصلاح نہیں بلکہ آئینی وفاداری کی بحالی ہے۔ موجودہ فیصلہ آئینی تشریح کی سمت کو درست کرتا ہے اور اس بنیادی اصول کو ازسرِنو قائم کرتا ہے کہ سپریم کورٹ، بطور آئین کی محافظ، صرف آئین کی تشریح کرنے کی پابند ہے، نہ کہ اس کی دوبارہ تدوین کی۔ عدالت کا فرض ہے کہ آئینی متن اور اس کی قانونی کارروائیوں کی حرمت کو قائم رکھے اور صرف اس دائرے میں رہے جس کا تعین خود آئین نے کیا ہے۔
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔
WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرحکومتِ پنجاب کا راولپنڈی کے عوام کو شاندار تحفہ، اڈیالہ پارک میں جدید ترقیاتی کام تیزی سے جاری حق کی تلوار اور ظلم کا تخت اسلام آباد میں خاموش مون سون نے خطرے کی گھنٹی بجا دی سوات کے بہتے پانیوں میں آنسوؤں کی رم جھم حضرت عمر فاروقؓ: عادل خلیفہ اور قیادت کا لازوال نمونہ ایران اسرائیل جنگ بندی کے بعد… دنیا کے امتحان کا نیا دور طاقت سے امن یا امن کے بغیر طاقت؟Copyright © 2025, All Rights Reserved
رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیم