جب آپ کو پتا ہو کہ آپ لاکھ کوششوں کے باوجود بھی وقتِ حاضر میں اپنے ماحول سے باہر نہیں نکل سکتے تو پھر اُسی حبس زدہ ماحول میں سے چھوٹی چھوٹی خوشیاں تلاش کریں، یقین کریں زندگی بہت خوب صورت لگے گی۔
یہ کراچی میں جاڑے کے اختتامی ایام تھے، اُن دنوں کراچی میں جو تھوڑی بہت ٹھنڈ تھی وہ بھی کوئٹہ کی سرد ہواؤں کی مرہونِ منت تھی۔ اِن دنوں میرا دل بھی ایک عجیب سی اداسی میں گھرا ہوا تھا کچھ بھی کرنے کو جی نہ چاہتا تھا، اور پھر ایک دن میں اپنے ماحول سے فرار چاہتے ہوئے بوجھل دل کے ساتھ کراچی سے باہر جانے والی مرکزی شاہراہ پر سفر کر رہا تھا۔
یہ سڑک سیکڑوں راہ گیروں کا بوجھ اٹھائے میرے دل کی طرح منوں بوجھ تلے دبی نظر آ رہی تھی۔ گرد آلود ہوائیں چل رہی تھیں جو موٹرسائیکل پر سفر کو مزید دشوار بناتی تھیں۔ تقریباً دو گھنٹے کی مسافت کے بعد کراچی کا مضافاتی علاقہ ختم ہوچکا تھا اور اب میں سندھ کے ضلع ٹھٹھہ کی حدود میں داخل ہو چکا تھا۔ میری منزل دھابے جی شہر تھا جہاں میرے آج کے سفر کا ساتھی اورنگ زیب میرا منتظر تھا۔
سیاحت کی بدولت اللّہ پاک نے مجھے بہت اچھے اچھے دوستوں سے نوازا ہے اِنہیں میں سے ایک اورنگ زیب ہے۔ گو کہ اورنگ زیب سے میری دوستی کو پانچ سال ہو چلے ہیں، ایک بار ہم پہلے بھی کراچی میں مل چکے ہیں، لیکن آج اورنگ زیب نے پہلی بار میرا سفری ساتھی بننا تھا۔ میری طرح اورنگ زیب بھی بسلسلہ روزگار کراچی کے نواحی شہر دھابیجی میں مقیم ہے اور سیاحت کا دلداہ ہے۔
میں ہمیشہ سے دوست اور سفری ساتھی میں فرق کرتا آیا ہوں، آپ کے ساتھ دوستی کے دعوے دار تو بہت سے لوگ ہوں گے لیکن سفری ساتھی بننے کی منازل کوئی کوئی طے کرتا ہے۔ خیر میں اپنے ہی خیالات میں الجھا ہوا تھا جب مجھے ’’دھابیجی دو کلومیٹر‘‘ کا سنگ میل دکھائی دیا۔ زیب سے رابطہ ہوا اور وہ مرکزی شاہراہ کے کنارے بنے ایک ہوٹل میں میرا منتظر تھا۔
گھڑی دن کے دس بجا رہی تھی جب میں اور اورنگ زیب ہوٹل میں بیٹھے چائے پی رہے تھے۔ ہم اپنی آج کی منزل بھنبھور یا بھمبور کے متعلق گفتگو میں مصروف تھے جو دھابیجی سے بہ مشکل دس کلومیٹر دور تھی۔ بھنبھور ہی وہ شہر ہے جس کے حفاظتی قلعے ’’دیبل‘‘ کو محمد بن قاسم کی سپاہ نے فتح کیا تھا۔ بھنبھور شہر کی دوسری وجہ شہرت ایک تاریخی رومانوی کردار سسی ہے، وہی سسی جس کے لیے کیچ کا شہزادہ دیوانہ ہوا پھرتا تھا۔
دھابیجی شہر عبور کرنے کے بعد ہم بائیں جانب ایک چھوٹی سے سڑک پر ہو لیے جو ہمیں بھنبھور میوزیم کے دروازے تک لے گئی۔ میوزیم کے باہر بالکل خاموش تھی، شاید پرانی تہذیبوں کو کھنگالنے بہت کم لوگ آتے ہیں۔ میوزیم کی حدود میں داخل ہوتے ہی دائیں جانب ایک بہت پرانا برگد کا درخت نظر آتا ہے جس کی شاخوں سے پھوٹتی ہوئی جڑیں بھی اب باقاعدہ درخت کی شکل اختیار کرچکی ہیں۔ اب یہ درخت کتنا پرانا ہے وثوق سے تو کچھ نہیں کہا جا سکتا ہاں البتہ سیکڑوں سال پرانا تو ضرور نظر آتا ہے۔
احاطے کی بائیں جانب میوزیم کی عمارت ہے جس میں بھنبھور شہر سے دریافت ہونے والی تاریخی نادر اشیاء رکھی گئی ہیں، جن میں مٹی کے برتن، سکے، باٹ، پتھر، زیورات اور عام استعمال کے اوزار شامل ہیں۔ کچھ برتنوں پر بیل بوٹے، انسان، ہاتھی، سانپ، مچھلی اور سورج کے نقش بنے ہوئے ہیں جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہندوؤں کی روایتی صنعت کا اثر اس دور کی صنعت پر بھی تھا۔ یہاں سے ملنے والے زیورات ہاتھی دانت یا سیپ ہڈی کے بنے ہوئے ہیں جو خوب صورت نقش و نگار سے مزین ہیں۔ دورانِ کھدائی اس خطے کی پہلی مسجد سے ملنے والی پتھر کی ایک تختی بھی میوزیم میں رکھی گئی ہے جس پر بنا اعراب کے کوفی رسم الخط میں قرآنی آیت کنندہ ہے۔ یہ تمام اشیاء تین تہذیبوں کی کہانیاں بیان کرتی ہیں جن میں پہلی پارتھی (پہلی صدی قبل مسیح سے دوسری صدی عیسوی) دوسری ہندو بدھ (دوسری صدی سے آٹھویں صدی عیسوی) اور تیسرا مسلم دور (آٹھویں صدی عیسوی) ہے۔
میوزیم میں ایک ماڈل بھی بنا کر رکھا گیا ہے جس میں محمد بن قاسم کے سپاہیوں کو دیبل کی بندرگاہ پر اترتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ یہ میوزیم تاریخ سے دلچسپی رکھنے والوں کے لیے معلومات کا خزانہ ہے۔
ہم میوزیم سے باہر نکلے تو بھنبھور قلعے کے کھنڈرات کی جانب کچے راستے پر چل دئیے۔ راستے میں ایک تختی آویزاں تھی جس پر لکھا ہوا تھا ’’ قدرتی پانی کی جھیل‘‘، جھیل کی جانب جانے والا راستہ بند تھا لہٰذا ہماری جھیل تک رسائی نہ ہوسکی۔ ایک بات میری سمجھ میں نہیں آئی کہ یہ علاقہ سمندری پانی کی حدود میں آتا ہے تو پھر یہاں میٹھے پانی کی جھیل کیوںکر ہوسکتی ہے؟ خیر اس معمے کو حل کیے بنا ہم آگے بڑھے جہاں اب بھنبھور قلعے کے آثار نظر آنا شروع ہو چکے تھے۔
بھنبھور قلعے کی شکستہ ہوتی ہوئی دیواروں کو پار کر کے میں پہلی صدی قبل از مسیح میں پہنچ چکا تھا۔ یہ وہ شہر تھا جو تین تہذیبوں کے عروج و زوال کا گواہ رہ چکا تھا۔ اس شہر نے کبھی سورج کی پرستش ہوتی دیکھی، کبھی مورتیوں کی پوجا اور کبھی کلمۂ حق بلند ہوتے دیکھا تھا۔
ہم قلعے کے شہر کی جانب کھلنے والے دروازے میں سے داخل ہوئے تھے اور اب سمندر کی جانب کھلنے والے دروازے کی طرف بڑھ رہے تھے۔ گو کہ اب بھنبھور کھنڈرات کے ڈھیر میں تبدیل ہو چکا ہے لیکن قلعے کی باقیات اور اس کے ارد گرد کے آثار قدیمہ اس کے ماضی کی عظمت کی گواہی دیتے نظر آتے ہیں۔ بھنبھور میں قدیم تہذیبوں کے رہائشی گھروں کے آثار بھی نظر آتے ہیں۔ ایک جگہ پر محمد بن قاسم سے منسوب اس خطے کی پہلی مسجد کے آثار بھی ہیں۔ شیو مندر کے آثار بھی ہیں۔
ہم اس قلعے کے سمندر کی جانب کھلنے والے دروازے کو پار کرکے ساحل کے قریب پہنچ چکے تھے۔ سمندر کا پانی یہاں سے بہت پیچھے ہٹ چکا ہے، اب صرف اس قلعے کے سامنے سے سمندر کے پانی کی ایک بڑی کریک (Creek) گزرتی ہے جس میں ماہی گیروں کی چھوٹی چھوٹی کشتیاں رواں دواں رہتی ہیں۔ میں اس قلعے کے مرکزی دروازے کے سامنے دھری سنگی بینچ پر بیٹھ گیا، جہاں اس خنک فضا میں چلنے والی سمندر کی ہواؤں میں عجیب سرگوشیاں تھیں۔ یہ ہوائیں شاید سمندر میں موجود دیبل قلعے کے مٹتے ہوئے در و دیوار کو چھو کر آ رہی تھیں جو مجھے بار بار ماضی کے دریچوں میں جھانکنے پر مجبور کر رہی تھیں۔
یہ بنوامیہ کا دور تھا جب ایک نوجوان سپہ سالار کو سندھ پر لشکرکشی کا حکم ملتا ہے۔ وہ نوجوان خشکی کے راستے مکران سے ہوتا ہوا راجاداہر کے پہلے حفاظتی قلعے دیبل کے قریب پہنچتا ہے اور اپنی سپاہ کو قلعے کے محاصرے کا حکم دیتا ہے۔ یہ ہی قلعہ راجاداہر کا پہلا سرحدی قلعہ ہے جس کے باہر اسلامی فوج مورچہ زن ہو چکی ہے۔ راجا کی فوج بھی قلعہ بند ہوچکی ہے اور اسلامی فوج کے حملوں کو کام یابی سے پسپا کرتی چلی جارہی ہے۔
محاصرے کا دورانیہ بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے جب اسی دوران مخبر نوجوان کمانڈر کو یہ خبر دیتا ہے کہ جب تک اس قلعے میں موجود مندر پر پرچم لہرا رہا ہے تب تک راجاداہر کی فوجوں کے حوصلے پست نہیں ہوں گے۔ یہ کمانڈر اپنی ساتھ لائی گئی بڑی بڑی توپیں جنہیں منجنیق کہا جاتا ہے اُن سے مندر پر لہراتے پرچم کو نشانہ بناتا ہے۔ جیسے ہی پرچم پارہ پارہ ہوتا ہے، دوسری جانب سے اسلامی فوج کاری حملہ کرتی ہے اور تب راجا کی فوج کے حوصلے ٹوٹ جاتے ہیں۔
راجہ کی فوج شہرِپناہ کے دروازے کھول دیتی ہے، قلعہ فتح ہوچکا ہے۔ یہ اسلامی فوج کی برصغیر میں پہلی فتح ہے۔ بعد میں سندھ کے پہلے بڑے شہر بھنبھور میں ایک شان دار مسجد تعمیر کی جاتی ہے۔ اس نوجوان سپہ سالار نے بھلے جس مرضی مقصد کے تحت دیبل پہ فوج کشی کی تھی لیکن اس بات کی پوری تاریخ گواہی دیتی ہے کہ برصغیر میں اسلام کی فتوحات اور سر بلندی کی ابتدا اسی نوجوان نے کی تھی۔
……………
تاریخ بہت تلخ بھی ہوتی ہے اور نہایت دل کش بھی۔ بھنبھور شہر بھی اس لحاظ سے دونوں آئینوں کا غماز ہے۔ اگرچہ اس شہر نے بہت بار جنگ و جدال دیکھا لیکن اسی شہر کی فضاؤں میں محبت کے پھول بھی کھلے۔ اس شہر کی فضاؤں میں ایک ایسی محبت کی داستان پروان چڑھی جو بعد میں تاریخ کا حصہ بن گئی۔
یہ گیارہویں صدی تھی جب سندھ کے ایک براہمن ہندو کے ہاں ایک خوب صورت بیٹی پیدا ہوئی۔ اس بچی کے بارے میں جوتشی یہ پیش گوئی کرتا ہے کہ یہ لڑکی بڑی ہوکر کسی غیرہندو کے عشق میں گرفتار ہوجائے گی اور ماں باپ کی بدنامی کا باعث بنے گی۔ اُس زمانے میں اکثر ہندو اپنی بیٹیوں کو جوتشیوں کے کہنے پر مار دیتے تھے۔
جب سسی کی ماں کو جوتشی کی پیش گوئی کا پتا چلا تو اس نے اپنی بیٹی کو ایک صندوق میں ڈال کر دریائے سندھ کے پانیوں کے حوالے کر دیا۔ کہتے ہیں جسے اللّہ رکھے اُسے کون چکھے، بھنبھور شہر میں دریا کے کنارے ایک مسلمان دھوبی کو یہ صندوق نظر آتا ہے اور وہ اس چاند سی خوب صورت بچی کو اپنے گھر لے آتا ہے جہاں اُس کی پرورش ہونے لگتی ہے۔ یہ بچی جب جوان ہوئی تو اس کی خوب صورتی کے چرچے دور دور تک پھیل گئے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب بھنبھور ایک بڑا تجارتی مرکز تھا۔ سسی کی خوب صورتی کے چرچے کیچ (موجودہ مکران) کے شہزادے پنل تک بھی پہنچتے ہیں۔ پنوں ایک سوداگر کے روپ میں بھنبھور آتا ہے اور سسی کو دیکھتے ہی دل ہار بیٹھتا ہے۔
دھوبی کی تمام شرائط پوری کرکے پنوں سسی سے شادی کر لیتا ہے۔ جب پنوں کی شادی کی خبر اس کے بھائیوں تک پہنچتی ہے تو وہ پنوں کو واپس لینے کے لیے آتے ہیں اور یہ کہتے ہیں کہ تم ایک عالی مرتبت خاندان کے بیٹے ہو لہٰذا دھوبی کی بیٹی کو چھوڑ کر ہمارے ساتھ واپس چلو۔ پنوں سسی کو چھوڑنے سے انکار کرتا ہے اور بھائیوں کے ساتھ چلنے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔ جب زور زبردستی سے بھی پنل راضی نہیں ہوتا تو اس کے بھائی پینترا بدلتے ہیں اور پنوں کے ساتھ نرمی کا رویہ اختیار کرتے ہیں۔ ایک رات پنوں کے بھائی اسے نشہ آور مشروب پلاتے ہیں اور پھر مدہوش ہوچکے پنوں کو رات کی تاریکی میں اونٹوں پر لاد کر مکران کی جانب چل دیتے ہیں۔
جب سسی نے پنوں کو غائب پایا تو وہ بے اختیار مکران کی سر زمین کی جانب بھاگتی ہے۔ راستے میں ایک ریگستان سے گزرتے ہوئے بھوک اور پیاس سے نڈھال سسی ایک چرواہے سے پانی مانگتی ہے۔ لوک روایات کے مطابق چرواہے کی سسی پر نیت بگڑ جاتی ہے۔ سسی اپنی عزت بچانے کے لیے خدا سے دعا مانگتی ہے، زمین شق ہو جاتی ہے اور سسی زمین میں سما جاتی ہے۔ اُدھر جب پنوں کو ہوش آتا ہے تو وہ بھی سسی کو ڈھونڈتا ہوا اسی مقام پر پہنچ جاتا ہے جہاں سسی کا صرف دوپٹہ زمین سے باہر ہوتا ہے۔ چرواہا پنل کو تمام صورت حال سے آگاہ کرتا ہے۔
پنوں سسی کو زور زور سے پکارنے لگتا ہے روایت کے مطابق زمین دوبارہ شق ہوتی ہے اور پنوں بھی سسی کے ساتھ ہی زمین میں سما جاتا ہے۔ وہ چرواہا توبہ تائب ہو کر سسی پنوں کے مزار کا مجاور بن جاتا ہے۔ یہ افسانوی قبر آج بھی بلوچستان کے علاقے ’’ویندر‘‘ میں موجود ہے جہاں محبت کرنے والے اس مرقد پر حاضری دے کر اپنی محبت کے امر ہونے کی دعا کرتے ہیں۔
اب اس لوک داستان میں کتنی سچائی ہے یہ تو خدا ہی بہتر جانتا ہے لیکن سندھ کے مشہور صوفی شاعر شاہ عبداللطیف بھٹائی نے سسی کے کردار کو اپنی شاعری کے ذریعے امر کر دیا۔ شاہ عبداللطیف بھٹائی نے آج سے تین صدیاں قبل اپنی شاعری میں عورت کے کرداروں کو ہیرو کے طور پر پیش کیا تھا۔ ان کی یہ ’’سات سورمیاں‘‘ محبت کی لوک داستانوں کی ہیروئنیں ہیں۔ انہیں میں سی ایک سسی کی کہانی ہے۔ سسی پنوں کی داستان پر برصغیر کی دیگر زبانوں کے شعرا نے بھی شاعری کی ہے مگر فرق یہ ہے کہ شاہ عبداللطیف بھٹائی نے اس داستان کو محبت کی داستان کے بجائے ’’سسی‘‘ کے کردار کو جہدمسلسل اور قربانی کی علامت کے طور پر پیش کیا ہے۔
تیرا لٹیا شہر بھنبھور نی سسیے بے خبرے
بے خبری وچ پریت لگائی
اکھ کھلی تے ٹر گیا ماہی
کرنی پے گئی حوش نی سسیے بے خبرے
تیرا لٹیا شہر بھنبھور نی سسیے بے خبرے
……………
دن کے بارہ بج چکے تھے اور ہم بھنبھور کو خیرباد کہنے کے بعد ایک بار پھر کراچی سے بدین جانے والی مرکزی شاہراہ پہ سفر کر رہے تھے۔ ہماری منزل ٹھٹھہ شہر کے نواح میں موجود مکلی قبرستان تھا۔ سڑک بڑی پختہ حالت میں تھی اور اس کے ارد گرد بلندوبالا درخت اسے مزید خوبصورت بنا رہے تھے۔ تقریباً ایک گھنٹے کی مسافت کے بعد ہم مکلی شہرِخموشاں کے مرکزی دروازے کے باہر موجود تھے۔
زمین کے چند ٹکڑوں کے مقدر میں نوحے لکھ دیے جاتے ہیں اور زمین کے ان ٹکڑوں پر بنے کچھ گورستان ایسے ہوتے ہیں جن کے حصے میں طویل عمری لکھ دی جاتی ہے جو اپنے اندر ہزاروں راز دفن کیے برقرار رہتے ہیں۔
اسی طرح مکلی قبرستان بھی دنیا میں اپنی ایک الگ شناخت رکھتا ہے۔ ایک جائزے کے مطابق اس قبرستان میں، جسے دنیا کا دوسرا بڑا قبرستان ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے، تقریباً پانچ لاکھ قبور ہیں۔ مکلی قبرستان عالمی ورثے کی فہرست میں شامل ہے۔ روایت کے مطابق یہ قبرستان مائی مکلی نامی ایک خاتون کے نام سے موسوم ہے تاہم تاریخی شواہد اس کی تصدیق نہیں کرتے۔
جب ہم اس قبرستان میں داخل ہوئے تو چاروں جانب بڑے بڑے مقبرے نظر آنا شروع ہوگئے۔ نظر آنے والے مقابر مختلف فن تعمیر کا نمونہ نظر آ رہے تھے۔ نظر آنے والی قبریں ایک دوسرے سے مختلف نقش و نگار کی حامل تھیں۔ یہاں کے مقابر چار ادوار کی تہذیب و تمدن اور تعمیراتی حسن کو بیان کرتے ہیں، پہلا دور سمہ خاندان (1340ء – 1520ء)، دوسرا دور ارغون خاندان (1520ء – 1555ء)، تیسرا دور ترخان خاندان (1555ء – 1592ء) اور چوتھا دور مغل صوبہ داروں (1592ء – 1793ء) کا ہے۔ روایت کے مطابق یہاں محمد بن قاسم اور مغلوں کے سپاہیوں کی قبریں بھی موجود ہیں۔
دیکھنے والوں کے لیے شاید یہ اینٹ اور پتھروں کی قبریں ہوں، لیکن یہ ایک ایسی پر اسرار جگہ ہے جہاں آپ بنا ٹائم مشین کا سفر طے کیے صدیوں پیچھے چلے جاتے ہیں۔ اِن مقبروں اور قبروں پر اترتی ڈوبتے سورج کی نارنجی کرنیں سوگواری، خاموشی، اور یاسیت میں ڈوبی نظر آتی ہیں۔ ماضی کی اس دنیا میں چلتے ہوئے لگتا ہے کہ جیسے صدیوں کا بوجھ ہمارے سینے پر آن دھرا ہو، یہاں آج کی دنیا کا وجود خواب نظر آتا ہے۔ اس خاموش دنیا میں آپ ایک زندہ وجود کے ساتھ موجود ہوتے ہیں اور ابدی نیند سونے والوں کی موجودگی محسوس کرتے ہیں۔ یہاں چہار سو ایک خاموشی اور پر اسراریت ہے۔
اس قبرستان میں سب سے بڑا اور منفرد نظر آنے والا مقبرہ مرزا عیسیٰ خان ترخان دوئم کا ہے جو مغل شہنشاہ شاہ جہاں کے دورِ حکومت میں سندھ کا گورنر تھا۔ یہ مقبرہ تقریباً پانچ سو سال پرانا ہے جو اپنے منفرد فن تعمیر کی بدولت آج بھی بڑی شان و شوکت سے سر اٹھائے کھڑا ہے۔ زرد پتھروں سے تعمیر شدہ یہ ایک منزلہ مقبرہ کاریگروں کی مہارت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اس مقبرے کے باہر پتھروں کے ستونوں سے ایک راہ داری بھی تعمیر کی گئی ہے۔
مقبرے کے بیشتر اندرونی حصے میں پتھروں پر قرآنی آیات بھی کنندہ کی گئی ہیں۔ کہتے ہیں کہ عیسیٰ خان ترخان دوئم نے یہ مقبرہ اپنی زندگی میں تعمیر کروا دیا تھا۔ حاکم تو پھر حاکم ہوتے ہیں وہ چاہتے ہیں کہ مرنے کے بعد بھی رعایا اُن کی شان و شوکت سے مرعوب ہوتی نظر آئے۔ ہم بھی کچھ وقت کے لیے اس مقبرے کے سحر میں گرفتار ہوئے لیکن پھر جلد ہی آگے چل دیے کیوںکہ آگے بھی اس قبرستان میں اپنے اپنے وقت کے سکندروں کی آخری آرام گاہیں موجود تھیں۔
مکلی میں ایک بہت بڑی قبر بھی موجود ہے، مقامی روایات کے مطابق یہ قبر کسی لٹر فقیر نامی شخص کی ہے جس کے بارے میں لوک روایات میں عجیب و غریب داستانیں موجود ہیں۔ یہاں ایک کنواں بھی ہے جسے چوروں کا کنواں کہا جاتا ہے۔
ہم موٹر سائیکل پر سوار مختلف حکم رانوں کے مقابر کو دیکھتے ہوئے آگے بڑھتے جا رہے تھے۔ اگر آپ کو مکلی قبرستان دیکھنا ہے تو اسے دیکھنے کے لیے ایک دن تو ضرور درکار ہے۔ یہ اتنا بڑا قبرستان ہے جو ختم ہونے میں نہیں آتا اور ہر ہر قدم پہ یہاں تاریخ بکھری پڑی ہے۔ بڑے بڑے صوفی بزرگ، حکمران، سپہ سالار، شہ سوار اور میدان جنگ کے سپاہی یہاں ابدی نیند سو رہے ہیں۔
اس شہرخموشاں کے ابدی باسیوں کے ساتھ ہزاروں داستانیں مدفون ہیں۔ ان مدفون داستانوں میں ایک محبت کی داستان بھی ہے۔ یہ داستان ہے سندھ کے حکم راں ’’جام تماچی‘‘ کی جو ایک غریب لڑکی کے پیار میں گرفتار ہو گیا تھا۔
سمہ دور حکومت میں سندھ کے مشہور حاکم جام تماچی کے عہد میں کینجھر جھیل کے کنارے بہت سے مچھیرے آباد تھے جن کی گزرو اوقات ماہی گیری کا پیشہ تھا۔ خدا کی کرنی یہ ہوئی کہ بستی میں ایک مچھیرے کے ہاں ایک نہایت خوب صورت لڑکی نے جنم لیا۔ لڑکی اتنی حسین و جمیل تھی کہ مچھیروں کی پوری بستی اسے دیکھنے کے لیے امڈ آئی۔ لڑکی کی جگمگاتی اور پُرنور صورت دیکھنے کے بعد بستی کے لوگوں نے فیصلہ کیا کہ اس لڑکی کا نام ’’نوری‘‘ رکھا جائے۔ نوری جوں جوں بڑی ہوتی گئی، اس کی خوب صورتی میں اضافہ ہوتا رہا۔ وہ انتہائی حسین و جمیل تھی، اس کے حسن کے چرچے زبان زد و عام تھے۔
ایک دن ’’جام تماچی‘‘ جسے سیروشکار کا بہت شوق تھا، اپنی شاہی کشتی میں بیٹھ کر کینجھر جھیل کی سیر کر رہا تھا کہ اچانک اس کی نظر نوری پر پڑی اور وہ اس کے حسن سے اتنا متاثر ہوا کہ واپس اپنے محل میں آ کر اسی کے بارے میں سوچنے لگا۔ اب نوری کی سادگی اس کی آنکھوں میں گھوم رہی تھی۔ جام تماچی نے فیصلہ کیا کہ وہ نوری سے شادی کرے گا۔ ذات پات کے سب بندھن اس کی نظر میں کوئی حیثیت نہیں رکھتے تھے۔ اس نے ’’نوری‘‘ کے رشتے داروں کو اپنے محل میں طلب کیا۔ نوری کے سبھی عزیز و اقارب اس خبر کو سن کر بہت ہی خوش تھے کہ ان کا حاکم نوری سے شادی کرنا چاہتا ہے۔
جام تماچی کے حکم سے خوشی کے شادیانے بجنے لگے۔ نوری بیاہ ہو کر شاہی محل میں رہنے لگی۔ شاہی محل میں جام تماچی کی دوسری رانیاں نوری کو حسد سے دیکھتیں کیوںکہ نوری کی اہمیت شاہی محل میں بہت بڑھ گئی تھی۔ جام تماچی نے نوری کو مہارانی کا درجہ دے رکھا تھا یعنی محل کی تمام رانیوں پر نوری کی اطاعت اور فرماں برداری لازم تھی۔
نوری اپنے خاوند سے بے حد محبت کرتی تھی لیکن یہ محبت سازش کی بھینٹ چڑھ گئی۔ لوک روایات کے مطابق نوری کے بھائی جب اُس سے ملنے آتے تو اُن کے پاس ایک لکڑی کا ڈبا ہوتا تھا اور واپس جاتے ہوئے وہ ڈبا واپس لے جایا کرتے تھے۔ جام تماچی کی دوسری بیویوں نے اسے شکایت لگائی کہ نوری اپنے بھائیوں کو ڈبے میں قیمتی زیورات بھر کے دیتی ہے۔ اسی بات پر ایک بار جام تماچی نے نوری کے بھائی کو روک لیا، جب تلاشی لی گئی تو اُس ڈبے میں مچھلی کے کانٹے تھے۔
اس بات سے نوری کو گہرا صدمہ پہنچا۔ نوری نے جام تماچی سے کہا میں تو آپ کی باندی بن کر آئی تھی لیکن آپ نے مجھ پر شک کیا تو میں بتاتی ہوں کہ اس ڈبے میں مچھلی کے کانٹوں کے پیچھے کیا کہانی ہے۔ نوری کہنے لگی کہ میری ماں مجھے میری پسند کی مچھلیاں بھون کر بھیجتی تھی جو میں کھاتی تھی اور کانٹے واپس بھجوا دیتی تھی تاکہ ماں کو تسّلی ہوجائے کہ میں نے مچھلی کھالی ہے۔
روایات کے مطابق جام تماچی کی اس بات سے نوری کو بہت صدمہ پہنچا اور وہ اندر ہی اندر گھلنے لگی اور ایک دن موت کی وادیوں میں جا اتری، یوں نوری جام تماچی کی زندگی میں ہی وفات پاگئی جسے مکلی کے قبرستان میں دفن کیا گیا۔ نوری اور جام تماچی کی ایک اولاد تھی جو بچپن میں ہی فوت ہوئی، اُسے بھی نوری کے پہلو میں دفن کیا گیا اور جب جام تماچی کا انتقال ہوا تو اُسے بھی نوری کے پہلو میں ہی دفن کیا گیا یوں یہ کنبہ بلکہ لوک داستان کے اہم کردار مکلی قبرستان میں ایک چھتری تلے ابدی نیند سو رہے ہیں۔
(نوری کی قبر کے بارے میں بھی اختلاف رائے موجود ہے کچھ لوگوں کے بقول نوری کی قبر کینجھر جھیل کے پانیوں کے درمیان موجود ہے جسے دیکھنے کے لیے اکثر سیاح حضرات جاتے ہیں)
شاہ عبداللطیف بھٹائی نے اپنی شاعری میں نوری کو کچھ اس طرح خراج پیش کیا ہے۔
ہزاروں عیب وابستہ ہیں مجھ سے
میں اک ملاح کی بیٹی ہوں پیارے
مجھے احساس ہے بے مائیگی کا
کہ مانند تن ماہی ہوں پیارے
کہیں ایسا نہ ہو پھر بے رخی ہو
خبر ہے تجھ کو جیسی بھی ہوں پیارے
کہاں میں اور کہاں محلوں کی رانی
میں اس زمرے میں کب آتی ہوں پیارے
کہاں ذرہ، کہاں خورشید تاباں
’’سمہ‘‘ تو اور میں ’’گندری‘‘ ہوں پیارے
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: روایات کے مطابق اس قبرستان میں مکلی قبرستان جام تماچی کی بھنبھور شہر کے بارے میں نظر ا تا ہے اسلامی فوج تے ہیں اور اورنگ زیب کی داستان ہوں پیارے دیکھنے کے تا ہے اور کرتے ہیں جاتے ہیں میں اپنے کے بھائی موجود ہے کے لیے ا کے ا ثار ا تے ہیں ہے جہاں پنوں کو سے باہر کرتا ہے کی جانب نے والی کے باہر قلعے کے سندھ کے نوری کے میں ایک ہوتے ہی رہی تھی جاتا ہے کے ساتھ جاتی ہے داخل ہو چکا تھا رہے تھے نوری کو نوری کی محبت کی پانی کی نے والے ہیں کہ ایک دن کے بعد کی فوج کی قبر سسی کو جہاں ا لیکن ا شہر کی اور وہ
پڑھیں:
الیکٹرک وہیکلز سیکٹر کا فروغ پنجاب حکومت کی پہلی ترجیح ہے، شافع حسین
چوہدری شافع حسین--فائل فوٹووزیر صنعت و تجارت پنجاب چوہدری شافع حسین کا کہنا ہے کہ پنجاب کے مختلف شعبوں میں سرمایہ کاری کا بہترین وقت اور سازگار ماحول موجود ہے۔
صوبائی وزیر شافع حسین سے جاپان کے سرمایہ کار گروپ کے وفد نے ملاقات کی، جس میں پنجاب میں سرمایہ کاری کے مواقع پر گفتگو کی گئی۔
جاپانی سرمایہ کار گروپ نے پنجاب میں پہلے مرحلے میں لیتھیئم بیٹریز کا اسمبلنگ پلانٹ اور دوسرے مرحلے میں مینوفیکچرنگ پلانٹ لگانے کا اعلان کیا۔
چوہدری شافع حسین نے کہا ہے کہ علما بورڈ سوشل میڈیا پر پھیلائے جانے والے نفرت آمیز اور اشتعال انگیز مواد پر بھی نظر رکھے۔
اس موقع پر شافع حسین نے کہا کہ الیکٹرک وہیکلز سیکٹر کا فروغ پنجاب حکومت کی پہلی ترجیح ہے، اسپیشل اکنامک زونز میں غیر ملکی سرمایہ کاروں کو خصوصی مراعات حاصل ہیں۔
چوہدری شافع حسین نے جاپانی وفد کو ہرممکن تعاون کی یقین دہانی کروائی۔
انہوں نے مزید کہا کہ ملکی اور غیر ملکی سرمایہ کار پنجاب کو سرمایہ کاری کے لیے ترجیح دے رہے ہیں۔