یورپی دفاعی تجزیاتی ویب سائٹ نے ایس 400 کی تباہی کو پاک بھارت جنگ کا سب سے بڑا واقعہ قرار دیدیا
اشاعت کی تاریخ: 11th, May 2025 GMT
صوفیہ(ڈیلی پاکستان آن لائن )یورپ کی ڈیفنس تجزیاتی ویب سائٹ نے اینٹی ایئر کرافٹ سسٹم ایس 400 کی تباہی پاک بھارت جنگ کا سب سے بڑا واقعہ قرار دے دیا۔
نجی ٹی وی جیونیوز نے بلغاریہ ملٹری ریویو کے حوالے سے بتایا کہ پاکستانی جوابی حملے میں ایس 400 کی تباہی ہوئی ہے تو یہ سب سے زیادہ ہائی پروفائل واقعہ ہے، آدم پور بیس شمالی بھارت کا مرکزی بیس، سخوئی سکواڈرن مرکز اور سرحد سے 100 کلومیٹر دور ہے۔ڈیفنس تجزیاتی ویب سائٹ میں کہا گیا ہے کہ انتہائی اہم ایئر بیس پر روسی سسٹم کی تباہی سے بھارتی دفاع کمزور پڑ گیا، پاکستان نے ہائپر سونک، جے ایف 17 تھنڈر میں لگایا ہے تو پاک فضائیہ کے حملے کی صلاحیت بہت بڑھ گئی۔
بلغاریہ ملٹری ریویو کے مطابق ہو سکتا ہے کہ پاکستان نے چین کے ہائپر سونک میزائلوں کا مقامی ماڈل تیار کیا ہو، ایس 400 تباہی کے بھارت کی دفاعی حکمت عملی پر دور رس نتائج ہوں گے۔
ملٹری ریویو میں کہا گیا ہے کہ یہ علامتی پیغام بھی گیا کہ پاکستان بھارت کے بہت اندر جا کر حملہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے، ایس 400 سیچوریشن حملوں یا ریڈار و کمانڈر پر حملہ کئے جانے پر کمزور پڑجاتا ہے۔
جکارتہ ؛ شمالی سماٹرا میں 6شدت کا زلزلہ
مزید :.ذریعہ: Daily Pakistan
کلیدی لفظ: کی تباہی
پڑھیں:
امریکی حملے فوردو نیوکلیئر سائٹ کو نقصان پہنچانے سے قاصر کیوں رہے؟
مختلف ذرائع اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ ایران کی جوہری تنصیبات پر امریکی بمباری کا کوئی خاص نتیجہ نہیں نکلا ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان جوہری تنصیبات کے محفوظ رہنے کی کیا وجہ ہے؟ اسلام ٹائمز۔ تازہ ترین رپورٹس سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکی GBU-57 بنکر میں گھسنے والے بم ایران کی زیر زمین فوردو جوہری تنصیب کو تباہ کرنے کے لیے اپنے ہدف تک پہنچنے میں ناکام رہے ہیں جس سے وائٹ ہاؤس کے اس دعوے کی تکذیب ہوتی ہے کہ یہ سائٹ مکمل طور پر تباہ ہو گئی تھی۔ حملے سے قبل امریکی میڈیا کے پروپیگنڈے میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ یہ بڑے بم، جن میں سے ہر ایک کا وزن 13.6 ٹن ہے زمین میں تقریباً 60 میٹر کی گہرائی تک گھسنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ تاہم، امریکی ڈیفنس انٹیلی جنس ایجنسی کی طرف سے اب ایک خفیہ تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ فوردو سائٹ پر جدید سینٹری فیوجز کو پہنچنے والا نقصان محدود تھا اور ایران کے جوہری پروگرام میں زیادہ سے زیادہ چند ماہ کی تاخیر ہوئی ہے۔ وائٹ ہاؤس نے اس تجزیے کو مسترد کرتے ہوئے اسے صدر ٹرمپ کی ساکھ کو کمزور کرنے کی کوشش قرار دیا ہے، تاہم امریکی ماہرین کے آزادانہ تجزیوں سے معلوم ہوتا ہے کہ ان بموں کے زمین میں گھسنے کی گہرائی کا انحصار زیادہ تر علاقے کی نوعیت پر ہے۔ مطالعات سے پتہ چلتا ہے کہ تہہ دار مٹی میں GBU-57 بم 80 میٹر تک گھس سکتا ہے لیکن درمیانی طاقت کی چٹانوں میں اس کی رسائی کی گہرائی صرف 7.9 میٹر ہے۔ یہ اعداد و شمار امریکی پروپیگنڈے میں دعویٰ کی گئی گہرائی سے بہت کم ہے اور یہ فوردو سائٹ کی گہرائی سے بھی بہت دور ہے جو کہ تقریباً 90 میٹر ہے۔
چٹان کی طاقت کے علاوہ کچھ دیگر عوامل بھی موثر ہیں۔ یونیورسٹی آف کیلی فورنیا کے پروفیسر اور زمین سے گھسنے والے بموں کے ماہر رچرڈ جانلوز نے این پی آر سے ایک انٹرویو میں نشاندہی کی کہ ٹوٹ پھوٹ اور دراڑوں جیسی ارضیاتی ڈھانچے میں ہونے والی تبدیلیاں بم کے راستے کو زمین کے اندر موڑ سکتی ہیں اور دھماکے کی تاثیر کو کم کر سکتی ہیں۔ اس لیے بموں کی اپنے ہدف تک پہنچنے اور فوردو جوہری تنصیب کو مکمل طور پر تباہ کرنے میں ناکامی کی ممکنہ وجہ علاقے میں چٹان کی مزاحمت اور ارضیاتی عوامل پر مشتمل تھی۔ یوں دکھائی دیتا ہے کہ امریکی منصوبہ ساز اس قسم کے چیلنجز سے آگاہ تھے لہذا انہوں نے ایک یا دو GBU-57 بم بھیجنے کے بجائے 12 بم فوردو کی تنصیب کو نشانہ بنانے کے لیے بھیجے۔ سیٹلائٹ سے حاصل شدہ تصاویر کی بنیاد پر یہ بم جوڑوں کی صورت میں دو دو کر کے گرائے گئے ہیں۔ پہلے بم نے چٹان کو توڑا اور دوسرے بم کے لیے زمین میں گھسنے کی گہرائی میں اضافہ کیا۔
اسی طرح یوں دکھائی دیتا ہے کہ بمبار طیاروں نے فوردو کے وینٹیلیشن سسٹم کو بھی نشانہ بنایا تھا۔ ان بموں نے ممکنہ طور پر زمین میں گھس کر چٹانوں میں دھماکے کی شدید لہر پیدا کی ہو گی جس کے باعث زیر زمین تنصیبات کی چھتوں کو نقصان پہنچا ہو گا۔ لیکن جانلوز کا کہنا ہے کہ دھماکے کی یہ لہریں پتھریلی زمین میں بہت جلد کمزور ہو جاتی ہیں جبکہ فردو تنصیبات بھی درست پہاڑ کے دامن میں واقع ہیں جس کے باعث ان کے محفوظ رہنے کا امکان مزید بڑھ گیا ہے۔ یوں نظر آتا ہے کہ جیولوجیکل عوامل کے علاوہ فوردو تنصیبات میں انجام پانے والے حفاظتی اقدامات بھی امریکہ کے فضائی حملوں کی ناکامی کی ایک اہم وجہ ہیں۔ ان مختلف وجوہات کی بنا پر یہ حملہ زیادہ موثر ثابت نہیں ہوا اور ایران کی جوہری تنصیبات تباہ ہونے سے بچ کئی ہیں۔