پاکستانی خاتون پولیس افسر نے عالمی تحقیقاتی ایوارڈ اپنے نام کر لیا
اشاعت کی تاریخ: 17th, May 2025 GMT
لاہور:
پاکستانی پولیس فورس کو بین الاقوامی سطح پر ایک شاندار اعزاز حاصل ہوا ہے۔ اے ایس پی انعم شیر خان نے ورلڈ پولیس سمٹ 2025 میں "Excellence in Criminal Investigation" کیٹیگری میں اول پوزیشن حاصل کرتے ہوئے بین الاقوامی ایوارڈ اپنے نام کر لیا۔
پنجاب پولیس کے ترجمان کے مطابق یہ ایوارڈ انعم شیر خان کو دبئی میں واقع ورلڈ ٹریڈ سینٹر میں ہونے والی ایک پر وقار تقریب میں دبئی پولیس کے کمانڈر ان چیف نے پیش کیا۔ اس ایوارڈ کیلئے دنیا کے 192 ممالک سے پولیس افسران کی مختلف کیٹیگریز میں غیر معمولی کارکردگی کو جانچا گیا۔
ترجمان کے مطابق اے ایس پی انعم شیر خان نے پاکستان کی نمائندگی کرتے ہوئے اپنی قابلیت اور پیشہ ورانہ مہارت سے عالمی ججز کا اعتماد حاصل کیا اور اول پوزیشن حاصل کی۔ یہ ایوارڈ ان کی کریمینل انویسٹی گیشن کے شعبے میں شاندار خدمات کا اعتراف ہے۔
آئی جی پنجاب ڈاکٹر عثمان انور نے انعم شیر خان کو اس شاندار کامیابی پر مبارکباد دیتے ہوئے کہا کہ ’’ان کی یہ کامیابی پاکستان اور پنجاب پولیس کا نام دنیا بھر میں روشن کرنے کا باعث بنی ہے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ ’’اے ایس پی انعم شیر خان جیسی باصلاحیت افسران مستقبل میں پولیس لیڈر شپ کا اہم حصہ بنیں گی۔‘‘
ترجمان پنجاب پولیس کے مطابق ورلڈ پولیس سمٹ دنیا بھر کے پولیس لیڈرز کے لئے سب سے بڑی، موثر اور پروفیشنل تنظیم ہے، جہاں ہر سال بہترین قائدانہ صلاحیتوں اور جدید پولیسنگ کے حامل افسران کو اعزازات سے نوازا جاتا ہے۔
ایوارڈز کمیٹی نے اس سال کی سخت جانچ پڑتال اور انٹرویوز کے بعد پنجاب پولیس کے دو افسران کو ایوارڈ کے لیے منتخب کیا۔ دوسرے منتخب افسر، ڈی پی او قصور محمد عیسیٰ خان، کو "Best Artificial Intelligence Implementation in Policing" کیٹیگری میں اعلیٰ کارکردگی پر دوسری پوزیشن کا حقدار قرار دیا گیا۔
یہ کامیابیاں نہ صرف پنجاب پولیس بلکہ پوری پاکستانی پولیس سروس کے لیے فخر کا باعث ہیں اور اس بات کا ثبوت ہیں کہ پاکستانی افسران عالمی معیار پر پورا اترنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
.
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: پنجاب پولیس پولیس کے
پڑھیں:
پاکستانی مزدوروں کی ملک سے ہجرت کا المیہ
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اللہ تعالیٰ نے پاکستان کو ہر طرح کی نعمتوں سے نوازا ہوا ہے۔ لیکن کچھ الیٹ کلاس حکومتی طبقے کی غلط حکمتِ عملیوں کا بھگتان پوری قوم کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔ غور کیا جائے تو بہت تیزی کے ساتھ پاکستانی مزدور ملک سے باہر روزی روٹی تلاش کرنے جارہے ہیں۔ ایسی کیا وجہ ہے کہ ہمارا ہنر مند مزدور ملک میں روزی کمانے سے بھاگ رہا ہے اور وہی مزدور بیرون ملک جانے کا خواہشمند ہے؟؟؟ کیا حکومتوں نے مستقبل میں مزدوری کا کام روبوٹس سے لینے کا سوچ لیا ہے یا وہ مزدوروں کو ملک میں انسانوں کا درجہ دینے سے بھی قاصر ہوچکی ہے؟؟؟ فی زمانہ خطے کے جو حالات ہیں اس کی روشنی میں دیکھا جائے تو تیسری جنگِ عظیم کے پرندے اپنے پر تول رہے ہیں لیکن کیا ان حالات میں ملک کے مزدوروں کے ساتھ یہ ناانصافی نہیں کہ بجٹ میں حکومت مزدوروں کی تنخواہ صرف چند ہزار ہی مختص کررہی ہے اور اس میں میڈیکل، لیو انکیشمنٹ، انکریمنٹ اور ہاؤس سیلنگ کے لیے وہ در در کی ٹھوکریں کھاتا پھر رہا ہے۔ یعنی ہر ہر جگہ آپ کے گورنمنٹ ادارے منہ کھول کر رشوتیں مانگ رہے ہیں؟؟؟ ذرا اپنے گریبانوں میں جھانکیں کہ اس طرح کے حرام کمائے ہوئے پیسے سے آپ اپنے بیوی بچوں اور اپنے لیے کیسی قبر تیار کر رہے ہیں۔ کیا یہ معیار ہے آپ کا اپنے ملک کی بنیادوں کو مضبوط کرنے والوں کو جانچنے کے لیے؟؟؟ یا اگر مزدور طبقہ ہڑتال کی کال دے تو ہی آپ کے کانوں میں آواز جاتی ہے؟؟؟ دفتری امور ہوں یا دفتر سے باہر کے کام یہ مزدور طبقہ ہی ہوتا ہے جو آپ کی ایک بیل پر لبیک کہتا ہے۔ جبکہ جس دفتری کمرے کا تالہ آپ کھولتے ہیں اس کی کنڈی تک مزدور کے ہاتھ کی لگائی ہوئی ہوتی ہے۔ آپ کو چھٹی چاہیے ہو تو ٹھیک لیکن مزدور کی ہاف ڈے لیو سے بھی آپ کو تکلیف ہوتی ہے۔ تو پھر مزدور کا آپ کے ملک میں مستقبل کیا ہے؟؟؟ اس کے بچوں کی تعلیم، گھر کا کرایہ، اضافی ٹیکس، TA/DA، علاج معالجہ، بجلی، گیس، پانی، انٹرنیٹ، کیبل، اشیاء ِ خوردونوش، اسکول، کالج، یونیورسٹی کی فیس آپ خود بتا دیں کہ یہ کہاں سے اور کیسے پورا ہوگا؟؟؟ سونے پہ سہاگا یہ کہ ہر ہر جگہ رشوتوں کا بازار گرم ہے کیونکہ جہاں افسروں نے چھاپے مارنے ہوتے ہیں وہاں رشوت لے کر AC والے کمروں میں بیٹھے بیٹھے دستخط کر دیے جاتے ہیں اور دفتری چپڑاسی اس دفتر کے افسر سے بھی بڑا افسر بنا پھرتا ہے۔ بس یہی وجہ ہے کہ جب گھر میں کام کر کے دال دلیہ ہی نہ چل سکے تو مجبوراً گھر سے باہر قدم رکھنے پڑتے ہیں۔ جب ملک میں مزدوروں کے حقوق جانتے بوجھتے پامال کیے جائیں گے تو یہی نتائج برآمد ہوں گے۔ جس ملک میں بجلی، گیس، پانی وافر مقدار میں موجود ہو وہاں پھر مہنگائی ہونے کا مطلب حکمران ملک کے ساتھ مخلص کم اور اپنی عیاشیوں کے ساتھ زیادہ سنجیدہ نظر آتے ہیں۔ کیا ضرورت ہے بڑے بڑے پروٹوکول پر عوام کا ٹیکس اُڑانے کی نہ کہ وہی پیسہ بلٹ پروف گاڑیوں کو ملک میں بنانے اور سیکورٹی کیمروں کو ٹھیک کروانے پر لگایا جائے۔ جب سے حکمرانوں میں غیر پڑھے لکھے اور چور ڈاکو ذہنیت کے لوگ آئے ہیں انہیں اپنی عیاشیوں کے سوا کچھ نظر ہی نہیں آتا۔ بھاری قرضے لے کر اپنی عیاشیوں کو بڑھانے اور اس ملک کو بین الاقوامی سطح پر ذلت و رسوائی کے اور کیا دیا۔ کراچی جیسے روشنیوں کا شہر موئن جو دڑو اور ہڑپہ جان بوجھ کے بنا دیا گیا۔ وہ کون سا کام ہے جو 78 سال میں بھی پورا نہیں ہو پارہا؟؟؟ کیا ضرورت ہے بار بار سڑکیں کھودوانے کی سوائے عوام کا ٹیکس ضائع کرنے اور قرضوں پر عیاشیاں بڑھانے کے۔ اس سب میں مزدور کہاں کھڑا ہے؟؟؟ آپ کی دی ہوئی بھیک سے گھر نہیں چلتا بوس اور نہ ہی مزدور آپ کی طرح عیش و عشرت کی زندگی حرام کے پیسوں پر جیتے ہیں اس لیے وہ باہر کا رُخ کرتے ہیں۔ جب حکمران یہ سب مراعات فری لے سکتے ہیں تو پھر مزدور کیوں نہیں؟؟؟ اس کا حل یہ ہے کہ فوری بنیادوں پر مزدوروں کی تنخواہ، مراعات اور رہائش کی جگہ بہتر کی جائیں، مزدوروں اور عوام کے لیے فری ایمبولینس سروس کا انتظام کیا جائے۔ پتہ کیا جائے کہ چندوں کے پیسوں سے فلاحی ادارے جب چل رہے ہیں تو یہ ایمبولینس کے کرائے کیوں عوام اور مزدوروں سے بھاری بھرکم لیے جارہے ہیں؟؟؟ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ حکمرانوں کو عقل و دانش عطا فرمائے اور حلال روزی کمانے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین ثمہ آمین