روہنگیا مسلمانوں کے ساتھ انسانیت سوز سلوک، اقوام متحدہ نے بھارت سے جواب طلب کرلیا
اشاعت کی تاریخ: 17th, May 2025 GMT
اقوام متحدہ نے روہنگیا مسلمانوں کے ساتھ انسانیت سوز سلوک پر بھارت سے جواب طلب کرلیا ہے۔
بھارت ایک طرف خطے میں امن کو تہہ و بالا کرنے کے اقدامات میں مصروف ہے، تو دوسری طرف نہتے انسانوں پر انسانیت سوز مظالم بھی ڈھا رہا ہے۔
ذرائع کے مطابق بھارتی حکومت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر میں تعینات 8 لاکھ سے زائد افواج بے گناہ اور معصوم کشمیریوں کے ساتھ بدترین سلوک روا رکھے ہوئے ہیں، جبکہ روہنگیا مسلمانوں کے خلاف بھی مظالم کا سلسلہ جاری ہے۔
اقوام متحدہ کی جانب سے جاری کردہ ایک حالیہ پریس ریلیز میں انکشاف کیا گیا ہے کہ گزشتہ ہفتے بھارتی حکام نے دہلی سے درجنوں روہنگیا پناہ گزینوں کو آنکھوں پر پٹیاں باندھ کر انڈمان جزائر کی جانب منتقل کیا۔ بعدازاں ان پناہ گزینوں کو ایک کشتی کے ذریعے زبردستی بحیرہ انڈمان عبور کروا کر میانمار کے ایک دور افتادہ جزیرے میں اتار دیا گیا۔
اقوام متحدہ کے مطابق پناہ گزین افراد تیر کر کسی نہ کسی طرح ساحل تک پہنچنے میں کامیاب ہوئے، تاہم تاحال ان کی زندگی یا موت سے متعلق کوئی مصدقہ اطلاع سامنے نہیں آئی۔
میانمار میں اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے خصوصی نمائندے، ٹام اینڈریوز نے اس عمل کو سخت تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ روہنگیا پناہ گزینوں کو بحری جہازوں سے سمندر میں پھینکنا کسی اشتعال انگیزی سے کم نہیں۔ اُن کے مطابق اس واقعے سے متعلق مزید معلومات اور گواہیاں حاصل کی جا رہی ہیں اور بھارتی حکومت سے اس حوالے سے تفصیلی جواب طلب کیا گیا ہے۔
ٹام اینڈریوز نے زور دیا کہ ایسے اقدامات بین الاقوامی تحفظ کے اصولوں کی صریح خلاف ورزی ہیں، جس پر عالمی برادری کو شدید تشویش ہے۔ انہوں نے 3 مارچ 2025 کو بھارت کو ایک مراسلہ ارسال کیا، جس میں روہنگیا پناہ گزینوں کی زبردستی واپسی پر تحفظات کا اظہار کیا گیا۔ اس مراسلے میں بھارت سے حراستی مراکز میں موجود پناہ گزینوں کی رہائی اور ان مراکز تک اقوام متحدہ کی رسائی کا مطالبہ بھی شامل ہے۔
دفاعی ماہرین کا کہنا ہے کہ بھارتی بحریہ کا یہ غیر انسانی رویہ دراصل ہندوتوا ذہنیت، نفرت اور عدم برداشت پر مبنی سوچ کی عکاسی کرتا ہے۔ ان کے مطابق بھارتی مسلح افواج کو یہ اجازت نہیں دی جا سکتی کہ وہ بین الاقوامی قوانین اور انسانی حقوق کی کھلم کھلا خلاف ورزی کرتی رہیں۔
دوسری جانب دفاعی ماہرین نے پاک بحریہ کے کردار کو سراہتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستانی بحریہ ہمیشہ انسانی بنیادوں پر عمل کرتی ہے اور کسی بھی آپریشن میں یہ نہیں دیکھا جاتا کہ جس کو بچایا جا رہا ہے، اس کی قومیت یا مذہب کیا ہے۔ متعدد مواقع پر پاک بحریہ نے نہ صرف ایرانی بلکہ بھارتی ماہی گیروں اور سمندری مسافروں کو بھی محفوظ طریقے سے ریسکیو کیا، جو اس کے انسانی ہمدردی پر مبنی اصولی موقف کا ثبوت ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: اقوام متحدہ پناہ گزینوں کے مطابق
پڑھیں:
برطانیہ ،اسائلم سسٹم میں بڑی تبدیلی: مستقل رہائش کیلئے 20 سال انتظار لازم
برطانیہ (ویب ڈیسک)نے پناہ گزینوں کے لیے پالیسی میں اہم تبدیلی کی ہے جس کے تحت پناہ گزینوں کا درجہ عارضی کیا جائے گا اور مستقل رہائش کے حصول کے لیے انتظار کی مدت کو چار گنا بڑھا کر 20 سال کر دیا جائے گا۔
عالمی خبر رساں ادارے رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق حکومت اپنی امیگریشن پالیسیوں کو سخت کر رہی ہے، خاص طور پر فرانس سے چھوٹی کشتیوں کے ذریعے غیر قانونی طور پر آنے والوں کے خلاف، تاکہ ریفارم یوکے جیسی مقبول جماعت کی بڑھتی ہوئی پذیرائی کو روک سکے، جو امیگریشن کے بیانیے کی قیادت کر رہی ہے۔
حکومت کا کہنا ہے کہ وہ ڈنمارک کے طریقۂ کار سے رہنمائی لے رہی ہے — جو یورپ میں سخت ترین پالیسیوں میں شمار ہوتا ہے — جہاں کئی ممالک میں تارکین وطن مخالف جذبات بڑھنے سے پابندیاں مزید سخت ہوئی ہیں، جس پر حقوقِ انسانی کے گروہوں نے سخت تنقید کی ہے۔
برطانوی وزارت داخلہ نے ہفتہ کی شب جاری کردہ بیان میں کہا کہ تبدیلیوں کے حصے کے طور پر کچھ پناہ گزینوں کو معاونت فراہم کرنے کی قانونی ذمہ داری — جس میں رہائش اور ہفتہ وار الاؤنس شامل ہیں — ختم کر دی جائے گی۔
وزیر داخلہ شبانہ محمود کی سربراہی میں چلنے والے محکمے نے کہا کہ یہ اقدامات اُن پناہ گزینوں پر لاگو ہوں گے جو کام کر سکتے ہیں مگر کرتے نہیں، اور ان پر بھی جنہوں نے قانون توڑا ہو۔ وزارت نے کہا کہ ٹیکس دہندگان کے پیسوں سے فراہم کی جانے والی مدد اُن افراد کو ترجیحی بنیادوں پر دی جائے گی جو معیشت اور مقامی کمیونیٹیز میں کردار ادا کرتے ہیں۔
وزارتِ داخلہ نے یہ بھی کہا کہ پناہ گزینوں کو تحفظ اب “عارضی ہوگا، باقاعدگی سے اس کا جائزہ لیا جائے گا، اور اگر اُن کا وطن محفوظ قرار پایا تو درجہ منسوخ کر دیا جائے گا۔”
وزیر داخلہ شبانہ محمود نے اتوار کو اسکائی نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا، “ہمارا نظام دیگر یورپی ممالک کے مقابلے میں خاصا فراخدل ہے، جہاں پانچ سال بعد آپ کو مؤثر طور پر خودکار طور پر مستقل رہائش مل جاتی ہے۔ ہم اس میں تبدیلی لائیں گے۔”
انہوں نے مزید کہا کہ ان تبدیلیوں کے تحت پناہ گزین کا درجہ ہر ڈھائی سال بعد پرکھا جائے گا، جبکہ مستقل رہائش تک پہنچنے کا راستہ اب “20 سال کا کہیں زیادہ طویل مرحلہ” ہوگا۔
شبانہ محمود نے کہا کہ وہ پیر کو ان تبدیلیوں کی مزید تفصیلات فراہم کریں گی، جن میں یورپی کنونشن برائے انسانی حقوق کے آرٹیکل 8 سے متعلق اعلان بھی شامل ہوگا۔
حکومت کہہ چکی ہے کہ وہ ECHR میں رہنا چاہتی ہے مگر آرٹیکل 8 — جو خاندان کی یکجائی کے حق سے متعلق ہے — کی تشریح تبدیل کرنا چاہتی ہے۔
شبانہ محمود نے کہا کہ اس آرٹیکل کو “اس انداز میں استعمال کیا جا رہا ہے جس کا مقصد اُن افراد کی ملک بدری کو روکنا ہے جو ہمارے امیگریشن قوانین کے مطابق اس ملک میں رہنے کا حق نہیں رکھتے۔”
برطانوی حکومت کے سخت اقدامات کو تنقید کا سامنا ہے۔ 100 سے زائد برطانوی فلاحی تنظیموں نے شبانہ محمود کو خط لکھ کر مطالبہ کیا کہ وہ “مہاجرین کو موردِ الزام ٹھہرانے اور دکھاوے کی پالیسیوں” کو ختم کریں، جو نفرت اور تشدد میں اضافہ کر رہی ہیں۔
رائے عامہ کے جائزوں میں ظاہر ہوا ہے کہ امیگریشن برطانوی ووٹرز کے لیے معیشت سے بڑا مسئلہ بن چکا ہے۔ گرمیوں میں اُن ہوٹلوں کے باہر احتجاج ہوئے جہاں پناہ گزینوں کو سرکاری خرچے پر ٹھہرایا گیا تھا۔
مارچ 2025 تک کے سال میں مجموعی طور پر 109,343 افراد نے برطانیہ میں پناہ کی درخواست دی — جو پچھلے سال کے مقابلے میں 17 فیصد زیادہ اور 2002 کی بلند ترین سطح سے 6 فیصد زیادہ ہے۔
شبانہ محمود نے کہا کہ حکومت مزید “محفوظ اور قانونی” راستے کھولنے کی کوشش کرے گی، کیونکہ ان کے مطابق برطانیہ کو مشکلات سے بھاگنے والوں کی مدد میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔