سفاک اسرائیلی رژیم کے سنگین جنگی جرائم پر یورپ بھی بولنے پر مجبور
اشاعت کی تاریخ: 19th, May 2025 GMT
غاصب و سفاک صیہونی رژیم کے اندھے حامی یورپی رہنماؤں نے بھی غزہ کی پٹی میں جاری غاصب اسرائیلی رژیم کے سفاکانہ جنگی جرائم اور انکے نتیجے میں نمودار ہونیوالے وسیع انسانی بحران کی شدت پر علیحدہ علیحدہ بیانات جاری کرتے ہوئے اسرائیلی حملوں اور غزہ کے غیر انسانی محاصرے کے فوری خاتمے کا مطالبہ کیا ہے اسلام ٹائمز۔ غزہ کی پٹی میں جاری غاصب و سفاک اسرائیلی رژیم کے سنگین جنگی جرائم پر اس جعلی رژیم کے اندھے حامی بھی بول اٹھنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔ تفصیلات کے مطابق اس حوالے سے جاری ہونے والے اپنے بیان میں برطانوی وزیر اعظم کیئر اسٹارمر نے غزہ کی موجودہ صورتحال کو "انتہائی سنگین، ناقابل قبول اور ناقابل برداشت" قرار دیا ہے۔ برطانوی وزیر اعظم نے مزید کہا کہ برطانوی حکومت دیگر رہنماؤں کے ساتھ مل کر کام کر رہی ہے تاکہ اس بحران سے نمٹنے کے لئے ہم آہنگی پیدا کی جا سکے۔
دوسری جانب یورپی کونسل کے صدر انتونیو کوسٹا نے بھی شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے "شہریوں کو بھوک میں مبتلاء کرنے اور ہسپتالوں پر وسیع حملوں" پر صدمے کا اظہار اور غزہ کے خلاف وسیع تشدد و سخت ترین محاصرے کے فوری خاتمے کا مطالبہ کیا ہے۔
ترک خبررساں ایجنسی ایناڈولو کے مطابق یورپی کمیشن کی صدر ارسولا وان ڈیر لیین نے بھی غزہ کی ابتر انسانی صورتحال کو ''ناقابل قبول'' قرار دیتے ہوئے فلسطینی شہریوں تک انسانی امداد کی فوری ترسیل پر زور دیا ہے۔
واضح رہے کہ یہ یورپی بیانات ایک ایسے وقت میں سامنے آئے ہیں کہ جب عالمی برادری خصوصا انسانی حقوق کے دعویدار ممالک و بین الاقوامی اداروں کی شرمناک خاموشی کے سائے میں، امریکہ و مغربی ممالک کی اندھی حمایت یافتہ سفاک اسرائیلی رژیم کی جانب سے جاری سنگین جنگی جرائم نے غزہ کی پٹی میں وجود میں آنے والے انسانی بحران کو ایک غیر معمولی مرحلے پر پہنچا دیا ہے جبکہ قابض اسرائیلی رژیم نہ صرف اپنی وحشیانہ فوجی کارروائیاں روکنے اور امدادی گزرگاہوں کو کھولنے سے انکاری ہے بلکہ غزہ کی پٹی سے فلسطینی شہریوں کو نکال باہر کر دینے پر مبنی مذموم ''ٹرمپ منصوبے'' کو عملی جامہ پہنانے پر بھی مصر ہے!
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: اسرائیلی رژیم جنگی جرائم غزہ کی پٹی رژیم کے
پڑھیں:
آسٹریا نے شام میں خانہ جنگی کے آغاز کے بعد پہلے شامی کو ملک بدر کیا
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 04 جولائی 2025ء) آسٹریا کی وزارت داخلہ نے جمعرات کو کہا کہ اس نے 15 سال سے زیادہ عرصہ قبل شام میں خانہ جنگی شروع ہونے کے بعد سے پہلی مرتبہ کسی شامی کو اس کے وطن بھیج دیا ہے۔ ملک بدر کیے گئے 32 سالہ شخص کو استنبول کے راستے دمشق پہنچایا گیا۔
یورپی یونین: پناہ کے متلاشیوں کو واپس بھیجنے کا نیا منصوبہ تنقید کی زد میں
اگرچہ اس شخص کا نام نہیں بتایا گیا اور نہ ہی اس کے مخصوص جرم کا حوالہ دیا گیا، تاہم آسٹریا کے وزیر داخلہ گیرہارڈ کارنر نے کہا کہ اس شخص کو نومبر 2018 میں سزا سنائی گئی تھی جس کے بعد اس کا پناہ گزین کا درجہ ختم کر دیا گیا تھا۔
نیدرلینڈز اور ہنگری سیاسی پناہ کے یورپی قانون سے کیوں نکلنا چاہتے ہیں؟
کارنر نے صحافیوں کو بتایا، ’’ایک شامی مجرم کو آج آسٹریا سے شام، خاص طور پر دمشق جلا وطن کر دیا گیا،‘‘ انہوں نے مزید کہا،’’مجھے یقین ہے کہ یہ ایک انتہائی اہم اشارہ ہے کہ آسٹریا ایک سخت، مشکل، زبردست لیکن منصفانہ پناہ دینے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے جس میں دوسروں کو خطرے میں ڈالنے والے مجرموں کو ملک سے نکال دیا جائے گا۔
(جاری ہے)
‘‘ شام محفوظ ہے،آسٹریا کا دعویٰآسٹریا اور ہمسایہ ملک جرمنی دونوں شامی مجرموں اور جنہیں وہ ممکنہ اسلام پسندوں کے طور پر دیکھتے ہیں، اب سابق صدر بشار الاسد کا تختہ الٹنے اور خانہ جنگی کے خاتمے کے بعد وطن واپس بھیجنے کے خواہشمند ہیں۔
جرمنی میں پناہ گزینوں کے لیے اب نقد رقم کے بجائے پیمنٹ کارڈ
اپریل میں، کارنر جرمنی کی اپنی اس وقت کی ہم منصب نینسی فیزر کے ساتھ دمشق گئے تھے، تاکہ ایسے افراد کی شام واپسی شروع کی جا سکے، جنہیں واپسی کے لیے محفوظ سمجھا جاتا تھا۔
جمعرات کی ایک شامی کی ملک بدری کے ساتھ، آسٹریا یورپی یونین کا پہلا ملک بن گیا جس نے کسی کو شام واپس بھیج دیا۔
تاہم انسانی حقوق کے گروپوں کا کہنا ہے کہ یہ جاننا بہت اہم ہے کہ شام میں اس اسلامی حکومت کے تحت حالات کیسے ترقی کریں گے جس نے اسد کو ہٹانے کے بعد اقتدار سنبھالا ہے۔ انہیں یہ خدشہ بھی ہے کہ آسٹریا کا یہ اقدام دوسرے ممالک کے لیے ایک مثال قائم کرے گا۔
پناہ کے متلاشیوں میں سب سے زیادہ تعداد شامیوں اور افغانوں کیآسٹریا کا حکمراں قدامت پسند اتحاد امیگریشن پر اپنے سخت موقف کو استعمال کرنے کی کوشش کر رہا ہے تاکہ ان ووٹروں کو واپس حاصل کر سکے جو انتہائی دائیں بازو کی آسٹرین فریڈم پارٹی میں شامل ہو گئے تھے۔
آسٹریا کی پیپلز پارٹی، جو اس حکومت کی قیادت کرتی ہے، نے اسد کے زوال کے بعد شامیوں کے لیے پناہ کی درخواستوں کی کارروائی کو معطل کر دیا تھا۔
وزارت داخلہ کے اعداد و شمار کے مطابق، شامی شہریوں نے 2015 سے اب تک کسی بھی دوسرے گروپ کے مقابلے میں زیادہ پناہ کی درخواستیں درج کرائی ہیں۔
کارنر نے نامہ نگاروں سے بات کرتے ہوئے افغانستان کے شہریوں کی بھی ملک بدری شروع کرنے کی اپنی خواہش کا ذکر کیا۔
کارنر نے کہا، ’’شام کی طرح دیگر ملکوں کے شہریوں کی بھی ملک بدری ہو گی، اور ہونی چاہئیں۔
وہ بھی تیار رہیں۔‘‘جرمنی کے وزیر داخلہ الیگزینڈر ڈوبرینڈ نے کہا ہے کہ وہ آسٹریا کی قیادت کی پیروی کرنے کی امید رکھتے ہیں، اور ساتھ ہی ساتھ افغانستان میں بھی طالبان کے ساتھ براہ راست بات چیت کے خواہاں ہیں۔
ڈوبرینڈ نے کہا،’’شام کے ساتھ شامی مجرموں کی واپسی کے معاہدے پر رابطے ہوئے ہیں۔ لیکن ابھی تک کوئی نتیجہ نہیں نکلا ہے۔‘‘
ادارت: صلاح الدین زین