ہم پاکستانی بحیثیت قوم دائروں میں ہی زیادہ گردش کرتے ہیں۔ چاہے گول روٹی کا دائرہ ہو یا نومولود بچے کا گول سر۔ اب خوب صورت چہرہ بھی وہی ہے، جو ’گول‘ ہو۔ اکثر آپ نے لوگوں کو یہ بھی کہتے ہوئے سنا ہوگا ’ارے کتنا معصوم اور گول مٹول سا بچہ ہے۔‘ یہی نہیں ہمارے معاشرے میں 90 فی صد افراد کی روز مرہ زندگی ایک ہی ’گول‘ دائرے میں گھوم رہی ہے۔ جس کو ہم ان کا ’کمفرٹ زون‘ کہتے ہیں۔
ویسے ہمارے معاشرے کا ایک طبقہ وہ بھی ہے، جس کو لگتا ہے لڑکی کی نجات ’گول‘ روٹی میں ہی ہے۔ ارے ’گول‘ روٹی کے چکر میں کیا کچھ نہیں ہو جاتا۔ میں نے تو اپنے حلقۂ احباب میں پڑھی لکھی خواتین کو بھی ’گول‘ روٹی بنانے کے جنون میں مبتلا پایا، جن کی اب گویا ساری زندگی کی کام یابی اور خوشی کا محور صرف ’گول‘ روٹی بنانے میں ہی باقی رہ گیا ہے۔
حیرانی اس وقت انتہا کو پہنچی، جب ’یوٹیوب‘ پر بھی ’گول‘ روٹی بنانے کی لاتعداد وڈیوز دیکھیں، جن میں ننانوے اعشاریہ نو فی صد ویڈیوز پاکستانی اورانڈین یوٹیوبرز کی پائیں۔ ایک لمحے کوایسا لگا کہ جیسے گول روٹی کے علاوہ ہماری زندگی میں کام یابی اور مقصدیت کو پرکھنے کا کوئی دوسرا پیمانہ ہی نہ ہو، مگر معاملہ صرف روٹی تک محدود نہیں۔ یہ ’گول‘ دائرے کے چکر نے ہماری معاشرتی سوچ، رسم و رواج اور خواتین سے وابستہ توقعات کو بھی ایک گھن چکر بنا دیا ہے۔ یہی وجہ ہے ہماری خواتین اور بچیاں جو اس ہی ’گول‘ کے دائرے میں گول گول گھومتی رہتی ہیں۔
ایسا لگتا ہے جیسے ہمارے معاشرے کی لڑکی کا اصل کام، زندگی میں کسی اعلیٰ مقصد اور بامعنی اہداف کے حصول کی بہ جائے ایسی ہی مشقیں ہیں۔ گول چہرہ، گول روٹی، گول مول گفتگو اور خاندان کے گرد گول گول ہی گھومتی زندگی۔ اگر وہ اس ’گول‘ دائرے سے نکل کر سیدھی بات کرے، بامقصد اور بامعنی زندگی کا انتخاب کرے یا اپنی سوچ اور باتوں سے لوگوں کو ’گول گول‘ گھمانے کے بہ جائے سیدھا راستہ چُنے یا سیدھی سوچ رکھے، تو ہمارا معاشرہ ایسی عورت کو نہ صرف اسے سخت نظروں سے دیکھتا ہے، بلکہ بدمزاج، بد اخلاق اور پھوہڑ جیسے القابات سے بھی نوازتا ہے۔
یہاں تک کہ ’ہونے والی بہو‘ یا نئی نویلی دلہن کی جانچ بھی ’گول‘ روٹی بنانے کی صلاحیت ہی سے کی جاتی ہے۔ گویا لڑکی کی تمام تعلیم، قابلیت، اخلاقیات پسِ پشت ڈال دی جاتی ہیں اگر وہ روٹی گول نہ بنا سکے۔ ہمارے معاشرے کا ایک طبقہ تو ایسا بھی ہے جسے پختہ یقین ہے کہ لڑکی کی نجات، اس کا اصل کمال، صرف اور صرف ’گول‘ روٹی میں ہی پوشیدہ ہے۔ جیسے لڑکی کا وجود، اس کی قابلیت، حتیٰ کہ اس کی عزت بھی توے اور بیلن کے درمیان سمیٹی جا سکتی ہے۔
ایسا لگتا ہے کہ معاشرے میں عورت کا کردار بھی ایک مخصوص ’گول‘ دائرے میں قید ہے۔ بچپن سے اسے سکھایا جاتا ہے کہ تمھاری زندگی کا مقصد صرف گھر، چولھا، شوہر اور بچے ہیں۔ تعلیم ہو یا نوکری، سب تبھی تک قابل قبول ہیں، جب وہ اس ’دائرے‘ کے اندر رہیں۔ اگر کوئی عورت اس ’گول‘ دائرے سے باہر نکلنے کی کوشش کرے یا اپنے خواب، اپنی خواہشات یا اپنی شناخت کی بات کرے، تو نہ صرف معاشرہ بلکہ ہر دل عزیز گھر والوں کی کڑی تنقید کا نشانہ بنتی ہے۔
ضروری نہیں کہ روٹی ’گول‘ ہی کھانے کے چکر میں دوسرے کی زندگیاں ہی گول کر دی جائیں۔ روٹی گول بنانی آنا ایک ہنر ضرور ہے، لیکن ضروری نہیں کہ ہر کسی کے ہاتھ میں ایک ہی جیسا ہنر موجود ہو۔ اللہ رب العزت نے دنیا میں تنوع رکھا ہے، ہر انسان دوسرے انسان سے مختلف ہے۔ اس بھری دنیا میں کسی بھی دو لوگوں کا ’ڈی این اے‘ ایک جیسا نہیں تو یہ کیسے ممکن ہے کہ ہر کوئی ایک ہی فن میں ماہر ہو؟
لہٰذا ’گول‘ روٹی بنانی آنا ایک فن ضرور ہے، لیکن اس کو کام یابی یا نجات کا ذریعہ نہیں سمجھنا چاہیے۔ اب بات کر لیتے ہیں ’گول‘ چہرے کی، جو نہ صرف ’خوب صورتی کا معیار‘ سمجھا جاتا ہے، بلکہ ’گول‘ چہرا کسی لڑکی کو احساس برتری تو کسی خاتون کو احساسِ کم تری کا شکار بنا دیتا ہے۔ شکل کی خوب صورتی کے تمام پیمانے ’گول‘ چہرے سے شروع ہوکر اس کی گولائی پرکھنے میں ہی ختم ہو جاتے ہیں۔
افسوس کی بات تو یہ ہے کہ ہمارے معاشرے کے اس ’گول‘ دائرے میں نہ صرف عورت کا جسم، بلکہ اس کا ذہن بھی قید کر دیا گیا ہے۔ وہ خود فیصلے نہیں کر سکتی، اسے سکھایا جاتا ہے کہ اگر سچ بولنا ہے تو ’’نرمی سے‘‘، اگر اختلاف کرنا ہے تو ’’ادب سے‘‘، اور اگر خواب دیکھنے ہیں تو ’’حقیقت کے مطابق‘‘۔ صرف اسی پر یہ ساری ذمہ داری بھی ڈال دی جاتی ہے کہ خاندان کی عزت، بچوں کی تربیت، شوہر کی خوشی، سب کچھ اس کی ’’نرمی‘‘ اور ’’بردباری‘‘ سے جُڑی ہوئی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اس ’گول‘ پن کی نفسیات کو پہچانیں اور اس کے خلاف آواز بلند کریں۔ عورت کو بھی ایک انسان سمجھیں، ایک مکمل شخصیت کے طور پر۔ نہ کہ کسی ایسی بے جان وجود یا چیز کے طور پر جسے گڑھ کر، تراش کر مطلوبہ سماجی سانچوں میں فٹ کیا جائے۔ اسے اس کی قابلیت، اس کے خواب، اور اس کے فیصلوں کے ساتھ قبول کریں۔
یہ وقت ہے کہ ہم اپنے ذہنوں سے ان ’گول‘ چکر کی روایات کو نکال پھینکیں، جو عورت کو صرف خوب صورتی، خدمت یا برداشت کی علامت بنا کر پیش کرتی ہیں۔ عورت صرف ایک کردار نہیں، وہ ایک مکمل کائنات ہے۔ وہ عورت جو زندگی میں آگے بڑھنا چاہتی ہے، اس کی حوصلہ افزائی کرنا اور اس کو گول چکر سے باہر نکالنا ضروری ہے۔
وہ عورت جو درست سمت کا تعین کر کے اپنی اور اپنے خاندان کی پہچان بنانا چاہتی ہے، اس کے لیے آسانیاں پیدا کریں، نہ کہ اس کی صلاحیتوں کو ایک مخصوص ’گول‘ دائرے میں محدود کر دیا جائے۔ ہمیں بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ معاشرے کی ترقی کے لیے ایک دو تین افراد کا نہیں، بلکہ بلکہ پورے معاشرے کو ترقی پسند ہونا ضروری ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: روٹی بنانے میں ہی
پڑھیں:
تنہائی کا کرب
تنہائی کا کرب جن کو اپنی لپیٹ میں لیتا ہے، وہی اس کی اذیت کو جانتے ہیں، ہمارے ارد گرد کتنے لوگ تنہائی کے آسیب کا شکار ہیں، کسی کو پتا نہیں، بس جن کا شور سوشل میڈیا پر مچ گیا، اس کے تعلق سے لوگ اپنی اپنی کہانیاں بنا کر پیش کررہے ہیں، میری دو عزیز سہیلیاں اس تنہائی کا زخم سہتے سہتے ختم ہوگئیں، ایک دوست تھیں جانی مانی صحافی شمیم اختر، جو بیوہ تھیں، انھوں نے ایک بچے کو لے کر پالا، جب وہ جوان ہو گیا تو اس کی شادی اپنی بھابی کی بھتیجی سے کروا دی۔
اس کے بعد ہم سے کہنے لگیں کہ ’’ میں اپنی زندگی ہی میں فلیٹ اپنے بیٹے کے نام کردوں گی‘‘ ہم دوستوں نے انھیں منع کیا کہ ملنا تو اسی کو ہے، لیکن تمہاری زندگی میں نہیں، میں نے انھیں مشورہ دیا کہ آپ کاغذی کارروائی مکمل کر لیں، لیکن فائل اپنے پاس رکھیں جس میں واضح طور پر لکھا ہو کہ جو کچھ بھی ہوگا آپ کے بعد ہوگا، لیکن ان خاتون نے نہ ماننا تھا، نہ مانی اور اچھے لگژری فلیٹ کی فائل لے پالک کے حوالے کر دی۔
اس نے چند ماہ بعد ہی وہ فلیٹ بیچ دیا اور اپنی ساس کے قریب ایک گھر لے لیا، شمیم اختر کے لیے 10x10 کا ایک چھوٹا سا کمرہ چھت پر بنوا دیا، وہ بہت بیمار رہنے لگی تھیں، لیکن دوپہر کے کھانے کی ذمے داری ان پر تھی، اگر کسی دن وہ نہ پکا پاتیں تو انھیں فاقہ کرنا پڑتا، رات کو زیادہ تر ان کی بہو اور بیٹا باہر چلے جاتے اور کھانا کھا کر آتے، یہ پریشان رہتیں، اب روتی رہتی تھیں کہ فلیٹ کیوں بیٹے کے نام کیا، مگر اب کیا ہو سکتا تھا۔ میرا ڈپریشن ان سے مل کر اور بڑھ جاتا تھا۔ دوست احباب اگر ان کے لیے کچھ کھانے پینے کا سامان یا پھل وغیرہ لے کر جاتے توکوئی پانی کو بھی پوچھنے نہ آتا،گیٹ پر ہی سے اوپر جانے کا اشارہ مل جاتا تھا۔
شمیم کھانے پینے کی چیزوں کو چھپا دیتی تھیں، بصورت دیگر ان کی بہو لے جاتی تھی۔ شمیم کا آدھا چہرہ جھلسا ہوا تھا، جس کے بارے میں وہ یہ بتاتی تھیں کہ کالج میں پریکٹیکل کرتے ہوئے جل گیا۔ تب سبھی یہ سوچتے کہ پریکٹیکل کرتے ہوئے اسی لیے کوٹ پہنا جاتا ہے کہ اگر کچھ گرے تو کپڑے خراب نہ ہوں، میں نے کبھی شمیم سے ان کے چہرے کے متعلق بات نہ کی، دراصل مجھے کبھی یہ نہیں پسند کہ کسی کی خامیوں پر بات کی جائے۔ پھر ایک دن معروف صحافی علیم درانی نے مجھے اور اختر کو یہ بتایا کہ کالج کے زمانے میں ایک لڑکا برابر شمیم کا پیچھا کرتا تھا، پھر ایک دن اس نے اپنا رشتہ بھجوایا، جسے فوری طور پر اس لیے رد کر دیا گیا کہ وہ آوارہ تھا، پھر ایک دن شمیم کے لیے تباہی لے کر آیا۔
نیچے کا گھر تھا، کھڑکی روڈ پر کھلتی تھی، شمیم استری کر رہی تھیں کہ اس بدبخت نے تیزاب شمیم کے چہرے پہ پھینک دیا، بعد میں وہ پکڑا گیا لیکن کیا فائدہ؟ شمیم تو جیتے جی مرگئی۔ شمیم نے آخری وقت میں یہ وصیت کر دی تھی کہ اس کی میت اس کی بھانجی کے گھر سے اٹھائی جائے، ایسا ہی ہوا، وہ تنہائی کا آسیب سینے سے لگائے قبر میں جا سوئیں۔ انتقال سے دو ماہ پہلے شمیم نے مجھے فون کیا اور کہا کہ ’’ میں اگر کسی اولڈ ہوم کا پتا جانتی ہوں تو، مجھے وہاں داخل کرا دو۔‘‘ میں نے قائد اعظم کے مزار کے سامنے ایک اولڈ پیپلز ہوم ہے جس کا نام غالباً دارالسکون ہے اور اسے کرسچن سوسائٹی چلاتی ہے، میں نے دورہ کیا ہے بہت خوب انتظام ہے۔
اس وقت ایک مریض کے 17 ہزار روپے لیے جاتے تھے، میں نے وہاں کی منتظم خاتون سے بات کی تو انھوں نے یہ کہہ کر معذرت کر لی کہ وہ بیمار لوگوں کو ایڈمٹ نہیں کرتے کیونکہ ان کے پاس کسی ڈاکٹر کا انتظام نہیں ہے۔ بعد میں خیال آیا کہ اگر اتنا اچھا اولڈ ہوم ہے تو کسی ڈاکٹر کا انتظام بھی کر لیتے۔ ہو سکتا ہے کوئی ڈاکٹر بغیر پیسے لیے ہفتے میں ایک بار وقت دے سکتا تھا۔
دوسری دوست جو تنہائی کا شکار ہو کر اس دنیا سے گئیں وہ عبداللہ گرلز کالج کی ایسوسی ایٹ پروفیسر تھیں جو شپ اونرز کالج کے پاس مردہ پائی گئی تھیں، ایدھی والوں نے فیس بک پر ان کی تصویر لگا دی تھی اور وہ لاوارث لاش سمجھ کر دفنانے والے تھے کہ ان کے چھوٹے بھائی کو خبر ہو گئی۔ اس نے لاش وصول کی، مجھے لوگوں کی بے حسی پر رونا آیا، میں نے پچھلے دنوں ان پر ایک کالم بھی لکھا تھا، لیکن افسوس یہ ہوا کہ ان کی المناک موت پر سوشل میڈیا بالکل خاموش تھا، شاید اس لیے کہ ان کا تعلق شوبز کی دنیا سے نہیں تھا۔ ورنہ اگر وہ کوئی اداکارہ ہوتیں تو نجانے فیس بک پہ کتنی کہانیاں آ چکی ہوتیں، لیکن وہ تو پروفیسر تھیں، ان سے کون اپنا تعلق بتاتا۔
تنہائی کے کرب کی ایک اور خاتون شکار ہوئیں، عائشہ خان جو کچھ عرصہ پہلے تک عائشہ ریاست کے نام سے ڈراموں میں کام کرتی تھیں، پھر کب انھوں نے خان کا لاحقہ اپنے نام کے ساتھ لگا لیا اس کا پتا نہیں چلا۔ اس میں شک نہیں کہ عائشہ کی موت بہت المناک ہوئی، لیکن اس سے بھی زیادہ تکلیف دہ ان کی تنہائی تھی، سب کچھ اپنے بیٹے کے سپرد کر کے تنہائی کا عذاب انھوں نے جھیلا، عائشہ خان کی موت کی خبر جیسے ہی سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی۔
ان کے جاننے والوں کی تحریروں کے تانتے بندھ گئے، پتا نہیں کہاں کہاں سے ان کے واقف کار نکل آئے اور ہر ایک کی کہانی الگ، کوئی اپنی تحریر میں بتا رہا ہے کہ ان کے دو بیٹے تھے، ایک بیٹا ملائیشیا میں ہے دوسرا اسلام آباد میں چک شہزاد میں۔ فیس بک پر بھی لوگ رواں ہوگئے، کوئی بتا رہا ہے ان کے تین بچے تھے، دو بیٹے، ایک بیٹی لیکن بیٹی کا کہیں ذکر نہیں۔ کوئی لکھ رہا ہے کہ ان کے بیٹوں کے نام احمد اور احمر تھے، کوئی لکھ رہا ہے کہ ان کے بیٹوں کے نام ریحان اور کامران ہیں۔ کسی نے تصحیح کرنے کی کوشش نہیں کی، شاید ان کے لواحقین کسی بھی تحریر کی تصدیق یا تردید کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کر رہے۔
جو بھی ہوا بہت برا ہوا، عائشہ نے بڑی ذمے داری سے بچوں کو پالا لیکن وہ اپنا اپنا حصہ لے کر الگ ہو گئے، کسی کو نہ ماں کی تنہائی کا خیال تھا، نہ رشتے کا، شادی کے بعد عموماً لڑکے بدل جاتے ہیں، وہ بیوی کی نظر سے دنیا کو دیکھنے لگتے ہیں، بہوئیں چاہتی ہیں کہ ساس مر جائے، نندیں ہیں تو وہ بھی جہنم واصل ہو جائیں، لیکن وہ یہ بھول جاتی ہیں کہ دنیا مکافات عمل ہے، وہ بھی ایک دن ساس بنیں گی، لیکن نہ بیٹوں کو خدا کا خوف ہوتا ہے نہ ان کی بیویوں کو۔ عائشہ خان کی موت بہت عبرت ناک ہے، ایک بے بس ماں کی موت جو اپنی اولادوں سے جیتے جی محروم ہو گئی، جو فون کالز کا انتظار کرتی تھی، پھر ناامید ہو کر خود فون کرتی تھی تو جواب نہیں ملتا تھا، جواب ملتا تو بیٹا کہتا ’’ بس دو منٹ دیجیے، ابھی فون کرتا ہوں۔‘‘ اور یہ دو منٹ کبھی دو گھنٹے اور کبھی دو دن میں تبدیل ہو جاتے، لیکن فون نہ آتا، کچھ عرصہ پہلے انھوں نے نئی گاڑی خریدی اور مٹھائی لے کر طلعت حسین کے گھر پہنچیں، وہاں اپنے دل کی بھڑاس نکالی، خوب روئیں اور اس بات کا اعتراف کیا کہ زندگی میں انھوں نے بیٹوں کو جائیداد دے کر بہت بڑی غلطی کی ہے۔ اب جو سنا ہے کہ ان کا ایک بیٹا اسلام آباد سے آیا ہے میت وصول کرنے۔
ایک بات سمجھ میں نہیں آتی کہ ہمسایوں کو پہلے خیال نہیں آیا کہ وہ نظر نہیں آ رہی ہیں، ایک صاحب جنھوں نے دعویٰ کیا کہ ان کی بیگم سے عائشہ کے بہت گہرے تعلقات تھے انھوں نے نوٹس نہیں لیا، ان کے بقول وہ تین دن تک کھانا لے کر جاتے رہے لیکن دروازہ نہیں کھلا، ایسی صورت میں انھیں پولیس کو اطلاع دینی چاہیے تھی، لیکن وہ تین دن تک کھانا واپس لاتے رہے اور پھر سات دن بعد جب فلیٹ سے تعفن اٹھنے لگا تب پولیس کو اطلاع دی، اور پھر ان کی گھریلو ملازمہ کہاں تھی۔
اس کی بھی کوئی خبر نہیں۔ مجھے شکایت ہے تو اہل محلہ سے، ایک جانی مانی خاتون جب مسلسل منظر سے غائب ہیں تو ان کا نوٹس لینا چاہیے تھا۔ کسی نے لکھا ’’اچھا ہوا عائشہ خان مرگئیں۔‘‘ میں بھی یہی کہتی ہوں کہ اچھا ہوا عائشہ مرگئیں۔ جیتی رہتیں تو نہ جانے تنہائی کے کتنے کرب انھیں سہنے پڑتے، لوگوں کی بے حسی کا اس سے بڑا ثبوت اورکیا ہوگا کہ لوگوں کی بغل میں ایک عورت مر گئی اور انھیں خبر نہ ہوئی، پتا نہیں معاشرے کو کیا ہوتا جا رہا ہے۔