Express News:
2025-05-20@06:16:09 GMT

گول روٹی سے گول چہرے تک۔۔۔

اشاعت کی تاریخ: 20th, May 2025 GMT

ہم پاکستانی بحیثیت قوم دائروں میں ہی زیادہ گردش کرتے ہیں۔ چاہے گول روٹی کا دائرہ ہو یا نومولود بچے کا گول سر۔ اب خوب صورت چہرہ بھی وہی ہے، جو ’گول‘ ہو۔ اکثر آپ نے لوگوں کو یہ بھی کہتے ہوئے سنا ہوگا ’ارے کتنا معصوم اور گول مٹول سا بچہ ہے۔‘ یہی نہیں ہمارے معاشرے میں 90 فی صد افراد کی روز مرہ زندگی ایک ہی ’گول‘ دائرے میں گھوم رہی ہے۔ جس کو ہم  ان کا ’کمفرٹ زون‘ کہتے ہیں۔

ویسے ہمارے معاشرے کا ایک طبقہ وہ  بھی ہے، جس کو لگتا ہے لڑکی کی نجات ’گول‘ روٹی میں ہی ہے۔ ارے ’گول‘ روٹی کے چکر میں کیا کچھ نہیں ہو جاتا۔ میں نے تو اپنے حلقۂ احباب میں  پڑھی لکھی خواتین کو بھی ’گول‘ روٹی بنانے کے جنون میں مبتلا پایا، جن کی اب گویا ساری زندگی کی کام یابی اور خوشی کا محور صرف ’گول‘ روٹی بنانے میں ہی باقی رہ گیا ہے۔

حیرانی اس وقت انتہا کو پہنچی، جب ’یوٹیوب‘ پر بھی ’گول‘ روٹی بنانے کی لاتعداد وڈیوز دیکھیں، جن میں ننانوے اعشاریہ نو فی صد ویڈیوز پاکستانی اورانڈین یوٹیوبرز کی پائیں۔ ایک لمحے کوایسا لگا کہ جیسے گول روٹی کے علاوہ ہماری زندگی میں کام یابی اور مقصدیت کو پرکھنے کا کوئی دوسرا پیمانہ ہی نہ ہو، مگر معاملہ صرف روٹی تک محدود نہیں۔ یہ ’گول‘ دائرے کے چکر نے ہماری معاشرتی سوچ، رسم و رواج اور خواتین سے وابستہ توقعات  کو بھی ایک گھن چکر بنا دیا ہے۔ یہی وجہ ہے ہماری خواتین اور بچیاں جو اس ہی ’گول‘ کے دائرے میں گول گول گھومتی رہتی ہیں۔

ایسا لگتا ہے جیسے ہمارے معاشرے کی لڑکی کا اصل کام، زندگی میں کسی اعلیٰ مقصد اور بامعنی اہداف کے حصول کی بہ جائے ایسی ہی مشقیں ہیں۔ گول چہرہ، گول روٹی، گول مول گفتگو اور خاندان کے گرد گول گول ہی گھومتی زندگی۔ اگر وہ اس ’گول‘ دائرے سے نکل کر سیدھی بات کرے، بامقصد اور بامعنی زندگی کا انتخاب کرے یا اپنی سوچ اور باتوں سے لوگوں کو ’گول گول‘ گھمانے کے بہ جائے سیدھا راستہ چُنے یا سیدھی سوچ رکھے، تو ہمارا معاشرہ ایسی عورت کو نہ صرف اسے سخت نظروں سے دیکھتا ہے، بلکہ بدمزاج، بد اخلاق اور پھوہڑ جیسے القابات سے بھی نوازتا ہے۔

یہاں تک کہ ’ہونے والی بہو‘ یا نئی نویلی دلہن کی جانچ بھی ’گول‘ روٹی بنانے کی صلاحیت ہی سے کی جاتی ہے۔ گویا لڑکی کی تمام تعلیم، قابلیت، اخلاقیات پسِ پشت ڈال دی جاتی ہیں اگر وہ روٹی گول نہ بنا سکے۔ ہمارے معاشرے کا ایک طبقہ تو ایسا بھی ہے جسے پختہ یقین ہے کہ لڑکی کی نجات، اس کا اصل کمال، صرف اور صرف ’گول‘ روٹی میں ہی پوشیدہ ہے۔ جیسے لڑکی کا وجود، اس کی قابلیت، حتیٰ کہ اس کی عزت بھی توے اور بیلن کے درمیان سمیٹی جا سکتی ہے۔

ایسا لگتا ہے کہ معاشرے میں عورت کا کردار بھی ایک مخصوص ’گول‘ دائرے میں قید ہے۔ بچپن سے اسے سکھایا جاتا ہے کہ تمھاری زندگی کا مقصد صرف گھر، چولھا، شوہر اور بچے ہیں۔ تعلیم ہو یا نوکری، سب تبھی تک قابل قبول ہیں، جب وہ اس ’دائرے‘ کے اندر رہیں۔ اگر کوئی عورت اس ’گول‘ دائرے سے باہر نکلنے کی کوشش کرے یا اپنے خواب، اپنی خواہشات یا اپنی شناخت کی بات کرے، تو نہ صرف معاشرہ بلکہ ہر دل عزیز گھر والوں کی کڑی تنقید کا نشانہ بنتی ہے۔

ضروری نہیں کہ روٹی ’گول‘ ہی کھانے کے چکر میں دوسرے کی زندگیاں ہی گول کر دی جائیں۔ روٹی گول بنانی آنا ایک ہنر ضرور ہے، لیکن ضروری نہیں کہ ہر کسی کے ہاتھ میں ایک ہی جیسا ہنر موجود ہو۔ اللہ رب العزت نے دنیا میں تنوع رکھا ہے، ہر انسان دوسرے انسان سے مختلف ہے۔ اس بھری دنیا میں کسی بھی دو لوگوں کا ’ڈی این اے‘ ایک جیسا نہیں تو یہ کیسے ممکن ہے کہ ہر کوئی ایک ہی فن میں ماہر ہو؟

لہٰذا ’گول‘ روٹی بنانی آنا ایک فن ضرور ہے، لیکن اس کو کام یابی یا نجات کا ذریعہ نہیں سمجھنا چاہیے۔ اب بات کر لیتے ہیں ’گول‘ چہرے کی، جو نہ صرف ’خوب صورتی کا معیار‘ سمجھا جاتا ہے، بلکہ ’گول‘ چہرا کسی لڑکی کو احساس برتری تو کسی خاتون کو احساسِ کم تری کا شکار بنا دیتا ہے۔ شکل کی خوب صورتی کے تمام پیمانے ’گول‘ چہرے سے شروع ہوکر اس کی گولائی پرکھنے میں ہی ختم ہو جاتے ہیں۔

افسوس کی بات تو یہ ہے کہ ہمارے معاشرے کے اس ’گول‘ دائرے میں نہ صرف عورت کا جسم، بلکہ اس کا ذہن بھی قید کر دیا گیا ہے۔ وہ خود فیصلے نہیں کر سکتی، اسے سکھایا جاتا ہے کہ اگر سچ بولنا ہے تو ’’نرمی سے‘‘، اگر اختلاف کرنا ہے تو ’’ادب سے‘‘، اور اگر خواب دیکھنے ہیں تو ’’حقیقت کے مطابق‘‘۔ صرف اسی پر یہ ساری ذمہ داری بھی ڈال دی جاتی ہے کہ خاندان کی عزت، بچوں کی تربیت، شوہر کی خوشی، سب کچھ اس کی ’’نرمی‘‘ اور ’’بردباری‘‘ سے جُڑی ہوئی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اس ’گول‘ پن کی نفسیات کو پہچانیں اور اس کے خلاف آواز بلند کریں۔ عورت کو بھی ایک انسان سمجھیں، ایک مکمل شخصیت کے طور پر۔ نہ کہ کسی ایسی بے جان وجود یا چیز کے طور پر جسے گڑھ کر، تراش کر مطلوبہ سماجی سانچوں میں فٹ کیا جائے۔ اسے اس کی قابلیت، اس کے خواب، اور اس کے فیصلوں کے ساتھ قبول کریں۔

یہ وقت ہے کہ ہم اپنے ذہنوں سے ان ’گول‘ چکر کی روایات کو نکال پھینکیں، جو عورت کو صرف خوب صورتی، خدمت یا برداشت کی علامت بنا کر پیش کرتی ہیں۔ عورت صرف ایک کردار نہیں، وہ ایک مکمل کائنات ہے۔ وہ عورت جو زندگی میں آگے بڑھنا چاہتی ہے، اس کی حوصلہ افزائی کرنا اور اس کو گول چکر سے باہر نکالنا ضروری ہے۔

وہ عورت جو درست سمت کا تعین کر کے اپنی اور اپنے خاندان کی پہچان بنانا چاہتی ہے، اس کے لیے آسانیاں پیدا کریں، نہ کہ اس کی صلاحیتوں کو ایک مخصوص ’گول‘ دائرے میں محدود کر دیا جائے۔ ہمیں بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ معاشرے کی ترقی کے لیے ایک دو تین افراد کا نہیں، بلکہ بلکہ پورے معاشرے کو ترقی پسند ہونا ضروری ہے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: روٹی بنانے میں ہی

پڑھیں:

امن کا راستہ ہی واحد حل

امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ پاکستانی شاندار لوگ ہیں، وہ ناقابل یقین چیزیں بناتے ہیں، انھیں نظر انداز نہیں کرسکتے۔ امریکی خبر رساں ادارے فوکس نیوز کو دیے گئے ایک انٹرویو میں امریکی صدر کا کہنا تھا کہ میری مداخلت نے دو جوہری ہتھیاروں سے لیس پڑوسیوںکو شدید فوجی کشیدگی کے بعد جنگ کے دہانے سے واپس لانے میں مدد کی۔ میں تجارت کو استعمال کرکے جنگوں کو روک رہا ہوں۔

 بین الاقوامی طور پر امریکا سمیت دیگر ممالک نے پاک بھارت کشیدگی کم کرنے اور متوقع ایٹمی جنگ کو روکنے میں مثبت اور فوری کردار ادا کیا ہے۔ جنگ بندی کو بین الاقوامی طور پر خوش آیند قرار دیا گیا ہے۔ اس جنگ کے دوران در پیش مسائل کا ادراک بھی ضروری ہے۔

صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے متعدد بار مسئلہ کشمیر پر ثالثی کی پیشکش کی ہے۔ان کی یہ پیشکش اس وقت بھی اہم سمجھی گئی جب بھارت نے اسے سختی سے مسترد کیا ۔ پاکستان کی طرف سے ہمیشہ سے یہ مؤقف رہا ہے کہ مسئلہ کشمیر کو عالمی سطح پر اٹھایا جائے اور کسی غیر جانبدار تیسرے فریق کی ثالثی سے حل کیا جائے۔

صدر ٹرمپ کی پیشکش دراصل اسی خواہش کا عکس تھی تاہم بھارت کی ہٹ دھرمی اور داخلی سیاست میں کشمیر کارڈ کے غلط استعمال نے ہر کوشش کو ناکام بنایا ہے۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی کشمیریوں کے حق خود ارادیت کی قرارداد جس پر کئی دہائیوں سے عمل نہیں کرایا جا سکا، اب اس کو یقینی بنانے کا وقت آگیا ہے۔ کشمیریوں کو آزادانہ طور پر اپنی زندگی کا فیصلہ کرنے کا حق دیا جائے اور پاکستان اور بھارت دونوں اپنے ملکوں میں درپیش مسائل پر توجہ مرکوز کر کے اپنی عام عوام کی زندگی بہتر کر سکتے ہیں۔

عالمی دنیا کو یہ بھی یقینی بنانا ہے کہ بغیر ثبوت اور تحقیق کے صرف ایک الزام کی بنیاد پر کوئی ملک دوسرے ملک پر حملہ کرنے کا حق نہیں رکھتا تاکہ مستقبل میں ایسے تنازعات اور جنگ سے بچا جا سکے۔ کیا واقعی ہم اکیسویں صدی کے 25 ویں سال میں رہ رہے ہیں، جہاں ہر مُلک میں تعمیر و ترقی کا شور ہے، مگر اِن دونوں ممالک کے عوام خوش حال زندگی کی تلاش میں اپنے اپنے ممالک سے بھاگ رہے ہیں۔ بہتر یہی ہوگا کہ بھارت خُود پر طاری جن کو بوتل میں بند کرنے کی کوئی تدبیر کرے۔

ہر بار حالات کی سنگینی نے عالمی برادری کو مجبور کیا کہ وہ مداخلت کرے اور فریقین کو پیچھے ہٹنے پر آمادہ کرے۔ تاہم یہ وقتی حل تھے، مستقل نہیں۔ سوال یہ ہے کہ آخر کب تک یہ تلوار لٹکتی رہے گی؟ کب تک دونوں ممالک اپنی معیشتوں، انسانی وسائل اور عوامی فلاح کو نظر انداز کر کے دفاعی اخراجات پر زور دیتے رہیں گے؟ ایٹمی ہتھیاروں کا ذکر کرنا کسی بھی ملک کے لیے ایک خوفناک سوچ ہے، لیکن جب دونوں ممالک کی تاریخ میں تین بڑی جنگیں ہو چکی ہوں، اور ہر وقت لائن آف کنٹرول پر فائرنگ کا سلسلہ جاری ہو، تو ایٹمی جنگ کا امکان کوئی دور کی بات نہیں رہتی۔

پاکستان اور بھارت دونوں کے پاس سیکنڈ اسٹرائیک صلاحیت موجود ہے، جو دفاعی حکمت عملی کے اعتبار سے ایک خطرناک توازن پیدا کرتی ہے۔ کوئی بھی حادثاتی یا غیر ذمے دارانہ اقدام پورے خطے کو تباہی کے دہانے پر لا سکتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق اگر دونوں ممالک کے درمیان محدود ایٹمی جنگ بھی چھڑ جائے، تو کروڑوں افراد لقمہ اجل بن جائیں گے، اس کے ماحولیاتی اثرات پوری دنیا کو لپیٹ میں لے سکتے ہیں۔ اس صورت میں عالمی معیشت، خوراک کی فراہمی، موسمیاتی تبدیلی اور انسانی صحت پر پڑنے والے اثرات ناقابل تصور ہوں گے۔

ایسی صورتحال میں امن کا راستہ ہی واحد حل ہے۔ سوال یہ ہے کہ امن کیسے قائم ہو؟ اس کا پہلا اور اہم قدم یہ ہے کہ دونوں ممالک سنجیدہ اور نتیجہ خیز مذاکرات کی طرف آئیں۔ ٹھوس ایجنڈے، عوامی شمولیت، اعتماد سازی کے اقدامات اور مسئلہ کشمیر کو مرکز میں رکھنا ہوگا۔

اعتماد سازی کے لیے دونوں ممالک کو تجارت، ثقافت، تعلیم، سائنس اور ماحولیات کے شعبوں میں تعاون بڑھانا چاہیے۔ جب عوام کے درمیان رابطے بڑھیں گے، جب طلبہ، فنکار، صحافی، اساتذہ اور کاروباری افراد ایک دوسرے کے ملک جائیں گے، تبھی دلوں میں پیدا ہونے والی خلیج کم ہو سکیں گی۔ میڈیا کو اس میں اہم کردار ادا کرنا ہوگا، جو اکثر اوقات نفرت اور تعصب کو ہوا دیتا ہے۔

طاقتور اقوام کو بھی اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ صرف اس لیے خاموش رہنا کہ بھارت ایک بڑی منڈی ہے، ایک کمزور دلیل ہے۔ سعودی عرب، ترکیہ، یواے ای، قطر، جرمنی، فرانس، برطانیہ، جاپان، جنوبی کوریا، چین، روس اور امریکا کو مل کر اس مسئلے کو ایک منصفانہ اور پائیدار حل کی طرف لے جانا ہوگا۔ ایک اور اہم پہلو یہ ہے کہ مسئلہ کشمیر کے حل کے بغیر پاکستان اور بھارت کبھی ترقی نہیں کر سکتے۔

چین، جاپان اور جرمنی کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں، جنھوں نے جنگوں کے بعد معیشت، تعلیم اور ٹیکنالوجی پر توجہ دی، اور آج دنیا کی طاقتوں میں شامل ہیں۔ ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ حقیقی طاقت علم، معیشت اور خوشحال عوام ہیں۔

پاکستان اور بھارت کے پاس اب بھی وقت ہے کہ وہ جنگ کے راستے سے ہٹ کر امن کی طرف قدم بڑھائیں۔ دشمنی ہماری قسمت نہیں، بلکہ ہماری اپنی بنائی ہوئی دیوار ہے، جسے ہم ہی گرا سکتے ہیں۔ 2023کے عالمی بینک کے ریکارڈ کے مطابق انڈیا میں 123 ملین افراد ایسی زندگی گزار رہے ہیں جو غربت کی لکیر سے بھی نیچے ہیں۔

اسی طرح 2024 کے ڈیٹا کے مطابق پاکستان کی 42.4 فیصد آبادی شدید غربت کا شکار ہے۔ دونوں ملکوں کے نوجوان اپنی معیشت سے مایوس ہو کر کثیر تعداد میں تعلیم اور روزگار کے بہتر مواقع ڈھونڈنے کے لیے مغربی ممالک کا رخ کر رہے ہیں۔ دونوں ملکوں کو تعلیم، معاشی ترقی، سماجی مسائل، انسانوں کی حفاظت اور بہتر طرز زندگی کے لیے کوشش کی ضرورت ہے۔ جنگ ہو یا کوئی قدرتی آفت زیادہ نقصان ہمیشہ غریب کا ہی ہوتا ہے۔ سیاست دان یا بڑے اداروں میں بیٹھے ہوئے لوگ کسی بھی آفت سے اس طرح متاثر نہیں ہوتے جتنا خمیازہ ایک غریب کو بھگتنا پڑتا ہے۔

اب دنیا کے لیے نیا موقع ہے کہ پاکستان کو نئے سرے سے سمجھے اور بھوک، افلاس اور دشمنوں کی ہزاروں سازشوں کے بیچ تھوڑے وسائل سے حاصل کی بہت مؤثر، ہمہ گیر قوتوں کا ادراک کرے، ہم احترام ڈیزرو کرتے ہیں، ہمارا احترام کیا جائے۔ وار ڈپلومیسی کا پہلا قدم یا ہدف تلخی کو جنگ میں بدلنے سے روکنا ہوتا ہے اور اِس کے لیے ضروری ہے کہ فریقین کے درمیان رابطوں کے دروازے بند نہ ہوں۔

ویسے دشمن ممالک میں بھی بیک چینل ڈپلومیسی کے ذریعے بات چیت کے دروازے کُھلے رہتے ہیں۔ ’’وار ڈپلومیسی‘‘ محض فریقین سے کام یاب نہیں ہوتی، اِسی لیے مختلف ممالک اُن کے ساتھ شامل ہوکر تنازعے یا جنگ کے خاتمے میں مدد دیتے ہیں۔ یہ دوسری پارٹیز آپس میں دوست ہوتی ہیں یا اُن کے متعلقہ ممالک سے مضبوط روابط ہوتے ہیں۔ قطر اور پاکستان نے دوحا مذاکرات میں طالبان اور امریکا کے درمیان یہ کردار ادا کیا، جسے تُرکیہ، عرب ممالک، چین اور روس کی سپورٹ حاصل تھی۔

موجودہ صدی میں وار ڈپلومیسی کے تحت جنگیں رکوانے کے لیے اقتصادی دباؤ یا پابندیوں کا حربہ بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ تو یہ کہنا کہ وار ڈپلومیسی حالیہ زمانے میں کام یاب نہیں ہو رہی، غلط ہوگا، ہاں یہ ضرور ہے کہ سفارت کاری میں وقت درکار ہوتا ہے، یہ کوئی جنگ نہیں ہوتی کہ لمحوں میں سب کچھ تہس نہس کردیا جائے۔

اِس کے لیے صبر و حوصلے کے ساتھ، تدبر کی ضرورت ہوتی ہے اور سب سے بڑھ کر عوام کی فکر کہ پراپیگنڈے کے ذریعے عام آدمی کے جذبات خواہ کتنے ہی کیوں نہ بھڑکا دیے جائیں، وہ بہرحال جنگ پسند نہیں کرتا اور اپنے بال بچوں کے ساتھ سُکون کی زندگی گزارنا چاہتا ہے۔

یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ امن محض ایک نعرہ نہیں، ایک عملی عمل ہے، جو قربانی، برداشت، سمجھداری اور دور اندیشی کا تقاضا کرتا ہے، اگر دونوں ممالک اس سوچ کو اپنا لیں، تو مسئلہ کشمیر کا حل نکل سکتا ہے۔جنوبی ایشیاء کا خطہ عشروں سے عدم استحکام، کشیدگی اور خطرناک تنازعات کا شکار رہا ہے، جن میں سب سے سنگین اور دیرینہ مسئلہ پاک بھارت تعلقات اور ان کے بطن سے ابھرنے والا مسئلہ کشمیر ہے۔

یہ ایک ایسا قضیہ ہے جو نہ صرف دو ملکوں کے درمیان کشیدگی کا محور ہے بلکہ عالمی امن کے لیے بھی ایک سنگین خطرہ بن چکا ہے۔ اس مسئلے کی پیچیدگی اس قدر گہری ہے کہ اسے محض سفارتی بیانات یا وقتی اقدامات سے سلجھایا نہیں جا سکتا۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ دونوں ممالک تاریخ کے زخموں کو سمجھتے ہوئے، حال کے تقاضوں اور مستقبل کی اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک نئے مکالمے کا آغاز کریں، جس کا مرکز عوام کی خواہشات، انسانی حقوق کا احترام اور علاقائی سلامتی ہو۔

متعلقہ مضامین

  • کیا لوگ آپ سے کَترا رہے ہیں؟
  • کوچۂ سخن
  • سفرِ جنوں (پہلی قسط )
  • کام یاب زندگی
  • احد رضا میر اور سجل علی کی طلاق کیوں ہوئی؟ آصف رضا میر نے خاموشی توڑ دی
  • امن کا راستہ ہی واحد حل
  • اس فتح کا راز
  • کوئٹہ میں 320 گرام تندوری روٹی کی قیمت 30 روپے مقرر
  • جنگ اور امن