Islam Times:
2025-07-07@11:03:14 GMT

کربلا کا ابلاغ

اشاعت کی تاریخ: 22nd, May 2025 GMT

کربلا کا ابلاغ

اسلام ٹائمز: مشی پر پابندی درحقیقت تحریک کربلا کے اثرات کو روکنا ہے۔ وجہ یہ کہ بعض لوگ تحریک کربلا کو روز بروز پھلتا پھولتا نہیں دیکھ سکتے۔ ایسے لوگوں کو خبر ہونی چاہیئے کہ کل تک جو ناگفتنی تھا آج گفتنی ہوگیا ہے۔ کل تک تحقیق و تنقید کے جن راستوں سے لوگوں کو ناآشنا رکھا گیا تھا آج وہ راستے ہر خاص و عام کی گزرگاہ ہیں۔ سچ کی ایک اپنی طاقت ہوتی ہے جو اپنا راستہ خود بناتی ہے۔ سچ جب اپنی بندش سے آزاد ہوتا ہے تو ہواٸیں اسے اپنا شانہ فراہم کرتی ہیں۔ آپ مشی کرتے ہوئے انسانوں کو ناکے لگا کر روک سکتے ہیں لیکن سچائی کے سامنے کوئی دیوار کھڑی نہیں کر سکتے۔ تحریر: سید تنویر حیدر

یزید اگر اپنی جنگ کو امام حسینؑ اور ان کے اصحاب و انصار کو شہید کرنے تک ہی محدود رکھتا تو شاید یہ خونِ شہیداں، رزقِ خاکِ کربلا ہو جاتا اور اس وقت کی ریاستی پروپیگنڈہ مشینری نواسہ رسولؑ کو عوام کے سامنے ایک باغی کی حیثیت سے متعارف کرانے میں کامیاب ہو جاتی اور یوں یہ خونِ ناحق کسی بڑی تحریک کا پیش خیمہ نہ بنتا لیکن یہاں یزید ایک بہت بڑی سیاسی غلطی کر بیٹھا اور وہ صحرائے کربلا جس کی پہچان محض اس کی گرم ریت تھی ایک تحریک کربلا کا نقطہ آغاز بن گیا۔ یزید نے اپنے خلاف ایک بغاوت کو کچلنے کا ڈھنڈورا پیٹنے کے لیے یہ کیا کہ کربلا کے اسیروں کو شہر شہر اور گلی گلی گھمانے کا اہتمام کیا تاکہ وہ بظاہر اس شکست خوردہ قافلے کو اپنی ”فتح“  کے ثبوت کے طور پر اپنی عوام کے سامنے پیش کرے لیکن یزید کو اپنی بظاہر کامیابی کو مشتہر کرنے کا یہ انداز خود اس کے قبیح جراٸم  کی تشہیر کا سبب بن گیا۔

اس زمانے میں آج کا سوشل میڈیا نہیں تھا جو کربلا میں پیش آنے والی صورت حال کو من و عن لوگوں تک براہِ راست پہنچا سکتا لیکن یزید کے اس اقدام نے کربلا میں پیش آنے والے واقعات کی تفصیلات کو کوفہ و شام کی گلیوں اور بازاروں تک پہنچا دیا۔ نتیجے میں  ایک ایسی تحریک نے جنم لیا جس نے قصر یزیدی کے درودیوار کو ہلا کر رکھ دیا اور حسینیت کے عنوان سے تادم قیامت ہر حقیقی جدوجہد کا پیش خیمہ بن گٸی۔ گویا یزید نے اپنی کج فہمی کی بنا پر تہی دست کاروان حسینی کی قافلہ سالار دختر حیدر کرارؑ کے ہاتھوں میں ذراٸع ابلاغ کا ہتھیار دے دیا جس نے جھوٹ اور فریب کا پردہ چاک کر دیا۔ یہاں ہمیں سیدہ زینب سلام اللہ علیہا کے کردار کی اصل اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے۔
جس انقلاب کی بنیاد کربلا میں پڑی
اس انقلاب کو پھیلا دیا ہے زینبؑ نے
یزیدیت کے مراکز جہاں جہاں تھے وہاں
علم حسینؑ کا لہرا دیا ہے زینبؑ نے

جب صدام حسین نے شہید باقر الصدر کو شہید کرنے کے بعد ان کی ہمشیرہ سیدہ بنت الہدیٰ کو شہید کرنے کا ارادہ کیا تو کسی نے اس سے کہا کہ انہیں کیوں قتل کرنا چاہتے ہو تو جواب میں صدام حسین نے کہا کہ میں وہ غلطی نہیں کروں گا جو یزید نے کی تھی کہ امام حسینؑ کو تو قتل کر دیا لیکن ان کی ہمشیرہ کو چھوڑ دیا جس نے اس کی فتح کو شکست میں بدل دیا لیکن صدام سیدہ بنت الہدیٰ کو شہید کرکے غلطی ہی تو کر گیا۔ اس نے یزید بن معاویہ سے ایک قدم آگے بڑھنے کی کوشش کی لیکن جس تحریک کو وہ کچلنا چاہتا تھا وہ زیر زمین ایک حرکت سے شروع ہو کر ایک انقلاب کی صورت اختیار کر گئی۔

کل تک جس عراق میں محرم کے جلوسوں پر پابندی عائد تھی، آج اسی عراق میں سیدالشہداء علیہ السلام کے حرم تک کروڑوں انسان ”مشی“ کرتے ہوئے جاتے ہیں۔ آج حرم امام حسین علیہ السلام تک باپیادہ جانا ہر عزادار کی سب سے بڑی تمنا ہے۔ پاکستان میں جو لوگ عراق نہیں جا سکتے وہ بعض مخصوص علاقوں میں اربعین کے ایام میں کچھ فاصلہ پیدل چل کر امام عالی مقام سے اپنی عقیدت کا اظہار کرتے ہیں لیکن کچھ لوگ اس عمل کو اپنے عقیدے کی شکست سمجھتے ہیں اور ہر سال حکومت پر دباؤ ڈال کر مشی کی رسم پر پابندی لگوانے کی کوشش کرتے ہیں۔ سنا ہے کہ پنجاب حکومت نے اس بار بھی احتیاط کو واجب سمجھتے ہوئے ابھی سے مشی پر پابندی عائد کردی ہے۔ گویا یہ مسئلہ ان کے نزدیک بھارت کی آئندہ ممکنہ جارحیت سے بھی زیادہ خطرناک ہے۔

مشی پر پابندی درحقیقت تحریک کربلا کے اثرات کو روکنا ہے۔ وجہ یہ کہ بعض لوگ تحریک کربلا کو روز بروز پھلتا پھولتا نہیں دیکھ سکتے۔ ایسے لوگوں کو خبر ہونی چاہیئے کہ کل تک جو ناگفتنی تھا آج گفتنی ہوگیا ہے۔ کل تک تحقیق و تنقید کے جن راستوں سے لوگوں کو ناآشنا رکھا گیا تھا آج وہ راستے ہر خاص و عام کی گزرگاہ ہیں۔ سچ کی ایک اپنی طاقت ہوتی ہے جو اپنا راستہ خود بناتی ہے۔ سچ جب اپنی بندش سے آزاد ہوتا ہے تو ہواٸیں اسے اپنا شانہ فراہم کرتی ہیں۔ آپ مشی کرتے ہوئے انسانوں کو ناکے لگا کر روک سکتے ہیں لیکن سچائی کے سامنے کوئی دیوار کھڑی نہیں کر سکتے۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: تحریک کربلا سے لوگوں کو پر پابندی کے سامنے کو شہید تھا آج

پڑھیں:

خدا کے ماننے والے، بھگوان کے پوجنے والے

لیاری میں بوسیدہ بلڈنگ کے ملبے تلے 27 لوگوں کی ہلاکت پر مرتضیٰ وہاب نے وہی کہا جو ایسے مواقع پر بدنصیب شہروں کے میئر کہا کرتے ہیں۔ انہوں نے کچھ حالات کا شکوہ کیا، کچھ مرحومین کے لیے دعا کی، کچھ مظلومین کو کوسا، کچھ سوگواران کو معاوضے کا لالچ دیا۔ کچھ عمارتوں کے مالکان کو نوٹس کیا۔ کچھ پر ریڈ کی نوید سنائی۔ کچھ کو زبردستی خالی کروانے کا مژدہ سنایا۔
مرتضیٰ وہاب کی پریس کانفرنس میں بیک گراؤنڈ میں بھاری مشینری کا شور تھا ۔ جس سے ملبہ اٹھایا جا رہا تھا۔ یہ شور سب کو سنائی دیا۔ ملبے تلے دبی زندگیوں کی صدا کسی کو نہیں سنائی دی۔
ہر آفت پر ہم یہی کرتے ہیں۔ یہ طرز عمل قومی ہے۔ نہ پہلے کبھی حادثوں سے بچنے کے لیے پیش بندی کی گئی نہ بعد میں کبھی کوئی پرسان حال ہوا۔ ہر سیاسی جماعت کے کارکن، جو جائے حادثہ پر پہنچے سب نے پرسہ دیا، ماتم کیا تاکہ خبر لگے۔ اور پھر وقت آگے چل پڑا۔ زمانہ کی رفتار پھر وقت کا ساتھ دینے لگی۔ حالات پھر محدود مدت کے لیے ہی سہی مگرمعمول پر آگئے۔ ہاں البتہ ملبے تلے لوگوں کی زندگی کی ساعتیں تھم گئیں۔ وقت ان کی نبض پر رک گیا۔ باقی تو سارا زمانہ رواں رہا، دواں رہا۔
چینلوں نے بریکنگ نیوز چلائی۔ ڈی ایس این جیز برق رفتاری سےپہنچیں۔ رپورٹروں نے لائیو بیپر دیے۔ مرنے والے کے ماتمین کو گلے لگایا۔ ان کے ساتھ آنسو بہائے۔ ان کے غم میں شریک رہنے کا فیصلہ کیا۔ واقعے کے ذمہ داروں کو قرار واقعی سزا دینے کا عہد کیا لیکن پھر ملبہ ختم ہو گیا۔ 5 منزلوں کا ڈھیر اٹھا دیا گیا۔ کسی کے بچ جانے کی امید ختم ہو گئی۔ مرنے والوں کا کفن دفن شروع ہوا۔ چینلوں کی دلچسپی ختم ہوئی۔ نئی خبریں آ چکٰیں۔کہیں نیا واقعہ وقوع پذیر ہو چکا۔

ہنگام کے ان لمحات میں کسی نے سندھ پر برسوں سے حکومت کرنے والوں سے نہیں پوچھا کہ ایسی کتنی عمارتیں ہیں جہاں زندگیاں ملبہ بننے کی منتظر ہیں۔ سرکاری نوٹس ملنے کے بعد ان عمارتوں میں رہائش کا ریٹ کیا ہوتا ہے؟ کتنی لرزتی عمارتیں ہیں جن کے مکین اب وہاں بلڈنگ مافیا کے کسی کارندے کی ساز باز سے رہ رہے ہیں۔ کتنے لوگ ہیں جو ان بوسیدہ لرزتی عمارتوں میں رہائش کا بھتہ دے رہے ہیں۔ زمین پر گرنے والی عمارتوں میں اوپر کی آمدنی کس طرح وصول کی جا رہی ہے ۔ کتنے لوگ ہیں جو بلڈنگ انسپکٹر کی مدد سے موت کے ان کنوؤں میں جی رہے ہیں؟
بتانے والے بتاتے ہیں کہ نوٹس بھی مل جاتا ہے، سرکار بھی عمارت چھوڑ جانے کا حکم دیتی ہے لیکن رہائشی جگہ نہیں چھوڑتے۔ آپ کو پتہ ہے کہ کیوں لوگ اس طرح کی موت کو قبول کرتے ہیں؟ کیوں لرزتی عمارتوں کے انہدام تک ان میں قیام پذیر رہتے ہیں اس لیے کہ ان کے پاس رہنے کو کوئی اور جگہ نہیں ہوتی۔ وہ مرنا پسند کرتے ہیں لیکن بے گھر ہونا پسند نہیں کرتے۔ یہ لرزتی چھت ان کا واحد سہارا ہوتی ہے۔ یہ اکھڑا پلستر، یہ کچی بنیادیں، یہ ناقص تعمیر ان کا کل اثاثہ ہوتا ہے۔ ان سے اگر یہ بھی کوئی بلڈنگ انسپکڑ چھین لے تو وہ پھر بھی فٹ پاتھوں پر ڈمپروں تلے کچل کر مر جاتے ہیں۔
لیای وہ علاقہ ہے جو پیپلز پارٹی کا ہمیشہ سے گڑھ رہا ہے۔ کہتے ہیں کہ یہاں سے غریب کارکن ملبے تلے دب کر زندگی کی بازی تو ہار سکتا ہے مگر پیپلز پارٹی نہیں ہار سکتی۔ اس علاقے نے ہمیشہ پیپلز پارٹی کا ساتھ دیا۔ پیپلز پارٹی نے ان سے نعرے لگوائے، جلسے کروائے، لانگ مارچوں میں انہیں استعمال کیا۔ ان کے بل بوتے پر کبھی وفاق کو للکارا، کبھی صوبائیت کی بات کی۔ ایم کیو ایم بھی اس علاقے پر راج کرتی رہی۔ انہوں نے یہاں سے خوب بھتے لیے، پرچیاں تقسیم کیں مگر اس علاقے کے مکینوں کے حق کے بارے میں کسی نے نہیں سوچا۔
اب کچھ عرصہ تو شور رہے گا، پھر خاموشی ہو جائے گی۔ پھر انہی لرزتی عمارتوں میں رہنے کا کرایہ پہلے سے زیادہ وصول کیا جائے گا۔ المیہ یہ ہے کہ یہ سماج اب ایسا بن چکا ہے کہ یہاں ہر طرح کے ملبے کے خریدار موجود ہوتے ہیں۔
کل کو ہم یہ ملبہ بھی بھول جائیں گے۔ اس کے تلے دبی لاشوں کی کراہیں بھی ہماری سماعتوں سے معدوم ہو جائیں گی۔ اسی پلاٹ کی بڑی شاندار نیلامی ہو گی۔ پھر 3 منزلوں کی اجازت ملے گی، پھر 5 منزلیں بنائی جائیں گی۔ پھر وہ عمارت گرے گی۔ کراچی میں زندگی کا پہیہ پھر ایسے ہی چلتا رہے گا۔
بدقسمتی یہ ہے کہ ایسے المیے اپنے ہاں اس تواتر سے ہوتے ہیں کہ ہمیں نہ لاشیں گننے کا ہوش ہوتا ہے نہ ماتم کرنے کی فرصت رہتی ہے۔ لیکن مایوسی کےاس اندھیرے میں روشنی کا امکان بہر حال موجود رہتا ہے۔ عمارت کے گرنے سے مرنے والوں کی تعداد کو سب نے بارہا گنا مگر شاید ہی کسی نے بتایا ہو کہ 27 لاشوں میں سے 21 لاشیں ہندو برادری کی تھیں جو غربت اور کسمپرسی میں یہاں زندگی بسر کر رہے تھے۔ شاید ہی کسی نے بتایا ہو کہ اس عمارت کے پڑوس کی بلڈنگ میں سلمان احمد رہتا ہے جس نے جب حادثے کے دھماکے کی آواز سنی تو پہلے تو یہ سمجھا کہ زلزلہ آگیا ۔ لیکن اگلے ہی لمحے بھاگ کر حادثے کے مقام کی طرف لپکا ۔ 2 بچیاں سیڑھی سے لٹک رہی تھیں۔ سلمان احمد نے لپک کر دونوں بچیوں کو بچا لیا۔ پل بھر بعد سیڑھی دھڑام سے نیچے گر گئی۔ سب کچھ ملبے کا ڈھیر ہو گیا۔ وہ 2 بچیاں ایک ہندو خاندان کی بچیاں تھیں۔ خدا کے ماننے والے نے بھگوان کو پوجنے والوں کو بچا لیا لیکن نہ ان سے ان کا مذہب پوچھا، نہ ان کے مسلک کے بارے میں دریافت کیا۔ نہ ان کے بھگوان کو برا بھلا کہا، نہ انہیں اقلیت ہونے کا طعنہ دیا۔ اس نے وہ کیا جو انسانیت کا تقاضا تھا۔ نہ اپنے مسلمان ہونے کا رعب جمایا نہ ان کی تضحیک کی۔ وہ کیا جو انسانیت کا سبق تھا، جو نبی کریم ﷺ کا درس تھا۔
ہمارے ہاں بین المذاہب ہم آہنگی پر کتنے سیمینار ہوتے ہیں، کیا کیا نصحیتیں نہیں کی جاتیں۔ پریس ریلیز میں کون کون سی مبہم اور مشکل تلمیحات استعمال نہیں کی جاتیں۔ لیکن ان سب سے وہ کام نہیں ہو سکا جو تنہا سلمان احمد نے کر دکھایا۔ دیکھا جائے تو سلمان احمد بین المذہب ہم آہنگی کا سب سے توانا نشاں ہو گیا ہے۔ سلمان احمد ملبے میں روشنی کا امکاں ہو گیا ہے۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

عمار مسعود

عمار مسعود کالم نگار، سیاسی تجزیہ کار، افسانہ نگار اور صحافی۔ کبھی کبھی ملنے پر اچھے آدمی ہیں۔ جمہوریت ان کا محبوب موضوع ہے۔ عوامی مسائل پر گہری نظر اور لہجے میں جدت اور ندرت ہے۔ مزاج میں مزاح اتنا ہے کہ خود کو سنجیدہ نہیں لیتے۔ تحریر اور لہجے میں بلا کی کاٹ ہے مگر دوست اچھے ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • خدا کے ماننے والے، بھگوان کے پوجنے والے
  • حسینؓ کا راستہ یا یزید کا؟
  • جب کربلا نے پکارا!
  • میرا ملک میری عزت
  • علی امین گنڈا پور کیخلاف کوئی سازش نہیں ہورہی، انہیں ڈر اپنی ہی جماعت سے ہے. رانا ثنااللہ
  • موسیٰ و فرعون و شبیر و یزید
  • شریکۃ الحسین، ثانی زہرا، صحیفۂ وفا، سفیر کربلا سیّدہ زینبؓ
  • قیامِ امام حسین عالی مقامؓ
  • پاکستان اور معاہدہ ابراہیمی
  • اسرائیل کا خاتمہ ہمارا ناقابل تبدیل ہدف ہے، شہید حاج رمضان کے کلمات