غلط زمین، غلط موسم اورغلط کاشت (دوسرا اور آخری حصہ)
اشاعت کی تاریخ: 23rd, May 2025 GMT
پیشے کی ایک نشانی اور پہچان یہ بھی ہے کہ انسان جو پیشہ بچپن سے سیکھتا ہے وہ اس میں تو ماہرہوجاتا ہے لیکن دوسرا کوئی کام نہیں کرسکتا اوراگر کرناچاہے تو اس کے لیے اسے نئے پیشے کو نئے سرے سے سیکھنا ہوگا چنانچہ آج بے تحاشا درسگاہوں سے جو بے تحاشا تعلیم یافتہ ہرسال نکلتے ہیں انھیں صرف سرکاری ملازمت کرنا آتا ہے۔
کوئی اورکام نہ وہ کرسکتے ہیں نہ کرنا چاہتے ہیں اورسرکاری نوکریاں اس تعداد میں کہاں سے لائی جائیں گی جو اس بے تحاشا تعلیم یافتہ گان کو دی جا سکیں۔ اور یہاں تو سیاسی گینگوں کی برکت سے اورجرائم پیشہ داداؤں اورڈانوں کی دعا سے کرپشن بھی شیر مادر ہوچکی ہے جو صرف سرکاری نوکریوں ہی میں دستیاب ہے، تو بیروزگاری کی جوحالت اس وقت ہے وہ ہرکسی کو معلوم ہے کہ ’’تعلیم‘‘ والے ڈگریاں لیے ہوئے پھرتے ہیں اور… پھرتے ہیں میرخوارکوئی پوچھتا نہیں ۔یہ وضاحت بھی کرتا چلوں کہ میں نے سیاسی پارٹیوں کو گینگ اورلیڈروں کو دادا اورڈان یعنی گینگسٹر کہا اوراصل حقیقت یہی ہے کیوں کہ سیاسی پارٹیوں میں انتخابات ہوتے ہیں۔
ان کا کوئی نظریہ اور پروگرام ہوتا ہے جب کہ یہاں سارا نظریہ ’’کرسی‘‘میں سمٹ چکا ہے اورپارٹیوں میں خاندانی وراثت چل رہی ہے، ملک میں جمہوریت چاہتے ہیں اورگھر میں بادشاہت بلکہ شہنشاہیت …چنانچہ جب گینگ وار میں کامیاب ہوکر آتے ہیں تو سب کچھ ہوتے ہیں لیکن حکومت نہیں ہوتی کیوں کہ حکومت کے لیے ملک مقدم ہوتا ہے جب کہ یہاں لوٹ مارمقدم ہوتی ہے ، ڈاکوؤں کو لٹنے والے گھر سے کیاہمدردی ہوسکتی ہے جب کہ وقت کم اورکام زیادہ ہوتا ہے سب کچھ سامنے ہے اس لیے بس اتنا ہی کافی ہے اپنے اصل موضوع پر آتے ہیں ۔
ہمارے دینیات کے استاذ دیوبند کے فاضل تھے، انھوں نے ایک مرتبہ کہا کہ دیوبند میں دینی علم کے ساتھ ساتھ ہنر بھی سکھائے جاتے تھے ، لوہاری، ترکھانی، موچی گیری، درزی گیری اورراج معماری اورمستری وغیرہ ۔ انھوں نے کہا تھا کہ میں نے بھی درزی کاکام سیکھا ہے وہ تو مجھے نوکری آسانی سے مل گئی ورنہ میرا ارادہ درزی کی دکان کھولنے کاتھا ۔
پشتو میں ایک کہاوت ہے کہ ہنرسیکھ لو اوراسے اونچے طاق میں رکھ لو ، جب بھی ضرورت پڑے اٹھا کر شروع کرلینا۔پچھلے دنوں تعلیم کے عالمی ایام منائے گئے ، عورتوں کی تعلیم کادن بھی منایا گیا اورتقریبات میں ’’تعلیم‘‘ پر دانا دانشوروں نے زبردست قسم کے بھاشن بھی دیے ۔ سرکار دولت مدار کے کل پرزوں نے بھی تعلیم تعلیم تعلیم کے آموختے دہرائے ،گن گائے اور فلسفے بگھارے لیکن یہ کسی نے بھی نہیں بتایا کہ کونسی تعلیم کس غرض کے لیے تعلیم اورکیا تعلیم …یہی صرف سرکاری نوکری سکھانے کی تعلیم اورایسی نوکری جس میں کام نہ ہو۔
ہمیں اچھی طرح یاد ہے کہ ہمارے ساتھ پڑھنے والے کئی لڑکے اسکول چھوڑ گئے تھے اورجب ہم تعلیم سے فارغ ہوکر نوکری کے لیے جوتے چٹخانے نکلے تو وہ چائلڈ لیبر سے ہوکر کوئی دکاندار سیٹھ بنا تھا، کوئی کلینر سے ٹرانسپورٹر بنا ، کوئی شاگرد سے مستری بن کر لاکھوں میں کھیل رہا تھا ، سب سے نالائق ایک لڑکا مزدورسے راج اورراج سے ٹھیکیداربن کر کروڑپتی بن گیا تھا ۔دراصل پاکستانی قوم اورحکومت بھی اس مرض کاشکار ہیں جس مرض کا میں نے ابتدامیں ذکر کیا ہے ، غلط زمین غلط وقت پر غلط فصل کاشت کرنا ۔ دنیا کے ترقی یافتہ ملکوں میں جب بھی کوئی فیشن ایبل نعرہ اٹھتا ہے یاکوئی تحریک کوئی ترقی کا غلغلہ اٹھتا ہے۔
پاکستانی اسے فوراً گلے لگا لیتے ہیں ، این جی اوز سرگرم ہوجاتی ہیں، تقریبات میں تقریریں ، اخبارات میں بیانات مضامین اورکالم برسنے لگتے ہیں۔کوئی یہ نہیں دیکھتا نہ سوچتا ہے کہ ہماری زمین ہمارا کھیت ہمارا موسم اس کے لیے سازگار ہے یا نہیں ، اس کا نمونہ دیکھنا ہو تو اس جمہوریت کو دیکھئے جو ہمارے ملک میں رائج ہے، اس سیاست کو دیکھئے جو ہورہی ہے اوران حکومتوں کو دیکھئے جو پون صدی سے چل رہی ہیں ان میں سے کسی ایک کو بھی آپ حکومت کہہ سکتے ہیں گینگوں کے سوا۔سب کے سب کو ملک سے کوئی سروکار نہیں ہوتا صرف اپنے لوگوں کو اس کھیت میں چروانا ہوتا ہے۔
نہ کوئی دور رس پالیسی نہ پلان صرف عارضی دسترخوان۔ چنانچہ اس کانتیجہ یہ ہے کہ ہرحکومتی محکمہ اورادارہ نااہل اورنکمے نکھٹو لوگوں بلکہ کرپٹ اورجرائم پیشہ لوگوں سے بھر کر خسارے میں جارہا ہے کیوں کہ میرٹ کو مینڈیٹ میں دفن کیاجاچکا ہے جب یہ صورت حال ہوکہ جو سرکاری پوسٹوں پر نااہل نالائق اورغیر مستحق لوگوں کو بٹھایاجارہا ہو کام نہ کرنے اورکرپشن کو فروغ دینے کے لیے ۔۔۔تو آپ لوگوں کو ’’تعلیم‘‘ دے بھی دیں لائق لوگ پیدا بھی ہوں تو کیافائدہ؟اس وقت ہمارے ہاں تین اقسام کی تعلیم مروج ہے ، انگریزی پرائیویٹ تعلیم ، سرکاری تعلیم اوردینی تعلیم۔۔ اوریہ ایک نہایت ہی نفع آورتجارت ہے۔
اس تجارت سے کمانے والوں کو صرف کمائی سے غرض ہے ، اس سے کوئی غرض نہیں کہ وہ جو ’’مال‘‘ دھڑادھڑ بنارہے ہیں اورمارکیٹ میں پھیلا رہے ہیں اس کی کھپت ہوگی یانہیں چنانچہ سرکاری تعلیم سرکاری نوکر تیار کررہی ہے ، انگلش درسگاہوں والے سرکاری افسر تیار کررہے ہیں اوردینی مدارس علمائے دین تیار کررہے ہیں یہ سوچے سمجھے بغیر کہ اتنی سرکاری نوکریاں کہاں سے لائی جائیں گی اتنے سرکاری افسر کہاں بٹھائے جائیں گے اوراتنی مساجد کہاں بنائی جائیں گی۔ اب ہم بتاتے ہیں کہ ہرسال لاکھوں کی تعداد میں تیارکیاجانے والا مال کہاںجائے گا ، کسی نہ کسی شارٹ کٹ پر ہی جائے گاکیوں کہ پیٹ تو مانگتا ہے اورجب پیٹ خالی ہوتو جائز ناجائز کون دیکھتا ہے۔
یہ لوگ مزدوری نہیں کرسکتے ، ہاتھوںپیروں کی مشقت کے نہ عادی ہوتے ہیں اورنہ ہی تعلیم یافتگی ان کو کرنے دیتی ہے ، پھر ہم روتے ہیں کہ جرائم بڑھ رہے ہیں ، دہشت گردی ہورہی ہے ، بے راہ رویاں بڑھ رہی ہیں، تشدد میں اضافہ ہورہا ہے یہ ہورہا ہے وہ ہورہا ہے۔ آپ برا مان جائیں گے اگر میں یہ کہوں کہ یہ جرائم کرنے والے تشدد پر اتر آنے والے ، بے راہروی اختیارکرنے والے سارے قطعی ’’بے قصور‘‘ہیں، کہ ان کے لیے کوئی اورراستہ ہی نہیں ، کیوں کہ انسان جو کچھ بنتا ہے ، بچپن سے بلوغت تک بنتا ہے کہ یہی عمر سیکھنے کی ہوتی ہے ، اب یہ لوگ اپنی سیکھنے کی عمر تو ’’تعلیم ‘‘ میں ضایع کرچکے ہوتے ہیں اوراگر اب انھیں کچھ اور کرناپڑے تو کیسے کریں گے ،سرکاری نوکری سرکاری افسری اورمسجد کے لیے تیار کیے جانے والے نہ تو کھیت میں کام کرسکتے ہیں نہ اینٹ گارا ڈھو سکتے ہیں نہ جانور چراسکتے ہیں تو پھر کریں گے کیا؟بات ایک مرتبہ پھر تعلیم کی کرتے ہیں، اس فیشن ایبل تعلیم کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ اس نے انسان سے اس کی ’’ماں‘‘ چھین لی ہے ، آزادی نسواں اورتعلیم نسواں کی بانسری بجا کر عورت کو مرد بنا لیاگیا ہے ۔
کیوں کہ بچے کی جسمانی مادی اورظاہری ذمے داری مرد کی ہوتی ہے دوسرے الفاظ میں کمانا ، بچے اوراس کی ماں کی ضروریات پوری کرنا مرد کی ذمے داری ہے جب کہ ماں کی ذمے داری اس بچے کی اندرونی اورباطنی تعمیر ہوتی ہے ، حیوان سے انسان بنانا ماں کاکام ہے اوراگر عورت کو آپ نے خوش نما بانسریوں سے مسحور کر کے باہرنکال دیا یا اپنی ذمے داری بھی اس پر ڈال دی ہے تو بوتل کادودھ پینے والا نوکروں کے ہاتھوں الگ بیڈروم میں پلنے والا اورپھر تجارتی درسگاہوں میں تعلیم حاصل کرنے والے بچے میں ’’انسان‘‘کہاں سے آئے گا ، وہ ڈاکٹر، انجینئر، پروفیسر یہاں تک کہ موجد اورسائنس دان بھی بن جائے گا لیکن اس کے اندر انسان نہیں ہوگا وہ صرف کماؤ مشین ہوگا ۔انسان نہیں کہ انسان بنانا ماں کاکام ہے اوراسے آپ نے مرد بنا دیا ہے ۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: سرکاری نوکری ہوتے ہیں ہے جب کہ نے والے ہوتا ہے کیوں کہ ہیں اور ہوتی ہے کے لیے کام نہ ہیں کہ
پڑھیں:
کامیاب رشتے کے لیے سب سے اہم نکتہ کیا ہے: اداکارہ انمول بلوچ کا مشورہ
کم وقت میں اپنا نام بنانے والی اداکارہ انمول بلوچ اکثر رشتے یا مثالی شریک حیات کے حوالے سے سوالوں کی زد میں رہتی ہیں، حال ہی میں ایک انٹرویو میں انہوں نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کسی بھی رشتہ میں قدم رکھنے سے پہلے انسان کو اپنے آپ پر توجہ دینی چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ ’کسی بھی رشتہ کو کامیاب بنانے کے لیے ذہنی طور پر مضبوط ہونا بہت ضروری ہے، کیونکہ رشتہ کی بنیاد صحت مند ذہن پر ہی ممکن ہے۔‘
ایک انٹرویو میں بات کرتے ہوئے انمول بلوچ نے کہا کہ رشتہ بنانے سے پہلے انسان کو اپنے جذبات کو بہتر طور پر سمجھنا چاہیے اور اس کے لیے خود پر توجہ دینا ضروری ہے۔
انمول بلوچ نے کہا، ’اگر آپ اپنے جذبات کا سامنا کرنا سیکھ لیں تو ہی آپ اپنے پارٹنر کو بہتر طریقے سے سمجھ پاتے ہیں۔‘ انہوں نے مزید کہا کہ تعلق میں خود کو نہیں کھونا چاہیے اور انسان کو اپنی حقیقت کو برقرار رکھنا چاہیے۔
Post Views: 2