(سیپا )ضلع وسطی کے انچارج کامران کی پیدا گیریاں ، سرکاری حکم نظر انداز
اشاعت کی تاریخ: 23rd, May 2025 GMT
عالمی یوم حیاتیاتی تنوع کے موقع پر بلڈروں اور صنعت کاروں سے نقد وصولیاں جاری ، ذرائع
دفتر میں مشکوک سرگرمیاں ، دانستہ طور پر سیمینار میں شریک نہیں ہوئے ، ڈائریکٹر بننے کی کوشش
محکمہ ماحولیات کے ماتحت سیپا میں کینیڈین نیشنل بگھوڑے افسر نے ڈی جی کے احکامات کی دھجیاں اڑادیں، ماحولیاتی سیمینار میں شرکت کے بجائے دفتر میں مبینہ طور پر لاکھوں روپے کی وصولی۔ جرات کی رپورٹ کے مطابق محکمہ ماحولیات کے ماتحت سندھ انوائرنمنٹ پروٹیکشن ایجنسی (سیپا) کے ڈپٹی ڈائریکٹر لیبارٹری اور ضلع وسطی کے انچارج کامران خان نے ڈی جی کے حکم کی دھجیاں اڑاتے ہوئے، عالمی یوم حیاتیاتی تنوع کے موقع پر بھی اپنی جیبیں بھرنے کا فریضہ انجام دیا۔ ایک طرف اعلیٰ حکام این ای ڈی یونیورسٹی میں ماحولیاتی سیمینار کی گہرائیوں میں غوطہ زن تھے، وہیں ہمارے موصوف نے چمڑہ چورنگی میں اپنی ”کرپشن کی دکان” سجا رکھی تھی۔ ڈی جی سیپا نے تمام افسران کو سیمینار میں شرکت کی ہدایت کی تاکہ وہ ماحولیاتی شعور بیدار کریں، لیکن کامران خان کے لیے یہ موقع سیمینار میں شرکت کا نہیں، بلکہ ”ڈائریکٹ وصولی” کا تھا۔ دفتر خالی تھا، کوئی پوچھنے والا نہیں، اور بس پھر کیا تھا! بلڈروں اور صنعتکاروں کو بلا بلا کر ان سے لاکھوں روپے نقد اینٹھے گئے، کیونکہ اس وقت ان کے کمرے کے باہر ہونے والی غیر معمولی چہل پہل کو نوٹس کرنے والا کوئی موجود نہیں تھا۔ سابق ڈی جی کا سایہ اٹھتے ہی ڈپٹی ڈائریکٹر نے ”آزادی” سے وصولی کی ہے۔ اندرونی ذرائع سے پتا چلا ہے کہ کامران خان سابق کی ریٹائرمنٹ کے بعد سے بے یارو مددگار ہو چکے ہیں۔ نئے ڈی جی وقار پھلپوٹو، جو نظم و ضبط کے پکے قائل ہیں، ان کے ہوتے ہوئے کامران خان کی ”من مانیاں” مشکل ہو گئی ہیں، یہی وجہ ہے کہ وہ ایسے سنہری موقعوں کی تلاش میں رہتے ہیں جب دفتر خالی ہو اور وہ کرپشن کا بازار بے خوف ہو کر گرم کر سکیں۔ سابق ڈی جی کے دور میں تو یہ صاحب ”کھلی چھٹی” پر تھے، کیونکہ ان کے تمام ”بڑوں” کو ان کا ”معقول حصہ” باقاعدگی سے ملتا تھا، لیکن اب لگتا ہے کہ یہ ”ڈپٹی ڈائریکٹر” صرف ”ڈپٹی” ہی رہ گئے ہیں اور ”ڈائریکٹر” بننے کے لیے انہیں نئے ”باس” کی تلاش ہے۔
ذریعہ: Juraat
کلیدی لفظ: کامران خان
پڑھیں:
کراچی، لیاری میں عمارت کے حادثے میں سرکاری غفلت کا انکشاف
عمارت 2022ء میں تین منزلہ ہونے پر ہی خطرناک قرار دے کر تیسری منزل گرانے کا سرکاری فیصلہ ہو چکا تھا، لیکن پھر کیا جادو ہوا کہ تیسری منزل گرانے کے بجائے دو منزلیں اور تعمیر ہوگئيں۔ اسلام ٹائمز۔ شہر قائد کے علاقے لیاری بغدادی میں 5 منزلہ عمارت کے گرنے میں سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی (ایس بی سی اے) اور ضلعی انتظامیہ کی نااہلی سامنے آگئی۔ تفصیلات کے مطابق عمارت حادثہ میں سرکاری غفلت کا انکشاف ہوا ہے، عمارت 2022ء میں تین منزلہ ہونے پر ہی خطرناک قرار دے کر تیسری منزل گرانے کا سرکاری فیصلہ ہو چکا تھا، لیکن پھر کیا جادو ہوا کہ تیسری منزل گرانے کے بجائے دو منزلیں اور تعمیر ہوگئيں، لوگ آباد کرکے انہيں جانتے بوجھتے موت کے منہ میں دھکیل دیا گيا۔ کراچی کے علاقے لیاری بغدادی فدا حسین شیخا روڈ پر واقع 5 منزلہ عمارت کو خطرناک قرار دینے کے باوجو خالی کیوں نہیں کروایا گیا؟ پلاٹ نمبر 29 ایل وائی پر بنی عمارت گاڈا پیلس ایک کمپاؤنڈ نما جگہ پر ڈھائی سو گز کے رقبے پر بنی ہوئی تھی۔
1974ء میں بننے والی عمارت قانونی طور پر تین منزلہ تھی، لیکن چند سال قبل عمارت مخدوش ہونا شروع ہو ئی، جس کے بعد 2022ء میں اسے خطرناک قرار دے دیا گیا اور رپورٹ دی گئی کہ عمارت کی تیسری منزل کو توڑ کر بقیہ عمارت لائسنس یافتہ اسٹراکچر انجینئر سے مرمت کروائی جائے، تو عمارت رہنے کے لائق ہو جائے گی، لیکن رپورٹ میں دی گئی تجاویز پر کام ہونا تو دور الٹا 2022ء کے بعد تین منزلہ عمارت پر مزید دو غیر قانونی فلورز بلڈرز مافیا کی جانب سے سرکاری افسران کی مبینہ ملی بھگت کے ساتھ تعمیر کر دیے گئے اور نچلی منزلوں کی مرمت بھی نہیں کی گئی۔ غیر قانونی فلورزکی تعمیرات کے بعد سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کی ویجیلنس ٹیم نے غیر قانونی منزلوں کی رپورٹ دی اور نا ہی ڈینجرس بلڈنگ قرار دینے والی ٹیم نے اس پر کوئی ایکشن لیا۔
2023ء سے 2025ء تک دستاویزات میں 5 منزلہ عمارت کو 3 منزلہ عمارت دکھا کر خطرناک قرار دیا جا تا رہا، افسوس اس پر کہ اس غفلت پر ضلعی انتظامیہ اور پولیس نے بھی اپنی آنکھیں بند رکھیں۔ ان دستاویزاتی ثبوت سے سوالات اٹھتے ہیں کہ تین منزلہ عمارت جب غیر قانونی قرار دے دی گئی اس اس پر اضافی فلور کیسے بنے؟ جب مخدوش عمارت پر تعمیرات جاری تھیں، تب ایس بی سی اے کی ویجیلنس ٹیم نے رپورٹ کیوں نہیں کیا؟ بلڈنگ کو خطرناک قرار دینے والی ٹیم نے 5 منزلہ عمارت کی دستاویزات میں کیوں تین منزلہ دکھایا اور خالی کروانے کے نوٹسز دیے؟ اس سب کے دوران ضلعی انتظامیہ کہاں تھی؟ جب گیس بجلی منقطع کرنے کیلئے متعلقہ اداروں کو خط لکھا گیا تو گیس بجلی پانی کی فراہمی کیوں منقطع نہیں کی گئی؟
یہ سب وہ سوالات ہیں جنہوں نے تمام متعلقہ محکمہ جات کی کارکردگی پر سوالیہ نشان پیدا کر دیا ہے، اب دیکھنا یہ ہے کہ اس سانحے میں جاں بحق ہونے والے اور زخمیوں کے دکھ کا ازالہ ہو سکے گا یا نہیں۔ گزشتہ روز گرنے والی عمارت کے ملبے سے ہفتے کے روز مزید 6 لاشیں نکال لی گئيں، جاں بحق افراد کی تعداد 21 ہوگئی، اب بھی 10سے 12 افراد ملبے تلے دبے ہونے کا خدشہ ہے۔ ریسکیو آپریشن جاری ہے حکام کے مطابق ملبا ہٹانے میں مزید کچھ وقت لگے گا۔