پرائیویٹ حج اسکیم کے تحت حج کا کوٹہ نامکمل کیوں رہا؟ تحقیقاتی کمیٹی قائم
اشاعت کی تاریخ: 23rd, May 2025 GMT
وفاقی وزیر برائے مذہبی امور سردار محمد یوسف نے کہا ہے کہ پرائیویٹ حج آپریٹرز نے اپنی ذمہ داریاں پوری نہیں کی ہیں جس کی وجہ سے بہت سے پاکستانی حج پر نہیں جاسکیں گے، اس حوالے سے وزیراعظم نے تحقیقاتی کمیٹی بنادی ہے جو بھی ذمہ دار ہوا اس کے خلاف کارروائی کی جائے گی، سرکاری حج کا کوٹہ مکمل ہوگیا ہے۔
اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے وفاقی وزیر برائے مذہبی امور سردار محمد یوسف نے کہا کہ میں 2 دفعہ سعودی عرب گیا اور وہاں پر حج انتظامات دیکھے، سعودی عرب کے وزیرحج سے بھی ملاقات ہوئی، پاکستان کی سرکاری حج اسکیم کے تحت 50 فیصد عازمین حج جاتے ہیں، جبکہ 50 فیصد پرائیویٹ ٹور آپریٹرز کے ذریعے جاتے ہیں، پاکستان کا ٹوٹل کوٹہ ایک لاکھ 79 ہزار 210 ہے، نصف پرائیویٹ اور نصف سرکاری اسکیم کے تحت عازمین حج، حج پر جاتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: خادم الحرمین الشریفین نے ایک ہزار فلسطینیوں کو ذاتی خرچے پر حج کرانے کا اعلان کردیا
انہوں نے کہا کہ سرکاری اسکیم کے تحت حج کا جو کوٹہ ہے اس کو وزارت مذہبی امور ہینڈل کرتی ہے، سعودی تعلیمات کے مطابق سرکاری حج کا جتنا بھی کوٹہ ہے وہ مکمل ہوگیا ہے، بدقسمتی سے پرائیویٹ آپریٹرز ایسا نہیں کرسکے، سعودی عرب نے بتادیا تھا کہ جس کمپنی کے پاس 2000 کا عدد ہوگا، اس کو شامل کریں گے، پرائیویٹ کمپنیوں نے مل کر کلسٹر بنائے اور 2000 کا عدد پورا کیا، ہوپ ان کی سپرویژن کرتی ہے اور ہوپ کی اپنی پالیسی ہے، لیکن سعودی وزارت حج نے 14 فروری کی ڈیڈ لائن دی تھی کہ آپ نے اس مدت تک 25 فیصد رقم جمع کروانی ہے، جب تک بکنگ نہیں ہوگی اس وقت تک آپ کوئی بلڈنگ یا ٹرانسپورٹ نہیں لے سکتے۔
ان کا کہنا تھا کہ 14 فروری تک صرف 3 ہزار 600 افراد نے رقم جمع کروائی، اس کے بعد انہوں نے پھر ایکسٹینشن دی، اور 48 گھنٹے دیے کہ آپ اس میں مزید پیسے جمع کریں، تاکہ قدانہ (پلاٹ جہاں مکتب بنائے جاتے ہیں) آپ کے نام پر الاٹ کی جائے اور آپ کو طوافہ فراہم کی جائیں، اس کے بعد پرائیویٹ حج آپریٹرز کے تحت مزید کوئی 10 ہزار افراد نے پیسے جمع کروائے، ٹوٹل 13 ہزار افراد ہوگئے۔
’جب ہمیں اس بات کا علم ہوا تو میں سعودی عرب گیا، وہاں وزیر حج سے ملاقات ہوئی اور ہم نے ان سے درخواست کی مزید وقت دیا جائے اور کوٹہ بھی بڑھایا جائے، سعودی عرب کی حج پالیسی تمام ممالک کے لیے یکساں ہے، اگر کسی کا حج کوٹہ بڑھایا جائے گا تو سب کے لیے بڑھایا جائے گا، میں سعودی عرب سے واپس آیا تو وزیراعظم سے ملاقات کی، وزیراعظم نے فوری طور پر نوٹس لیا اور وزیرخارجہ کی ذمہ داری لگائی، وزیرخارجہ نے سعودی حکام سے رابطہ کیا، جس کے باعث کوٹے میں 10 ہزار کا اضافہ ہوا، سعودی حکومت نے دوسرے ممالک کے لیے بھی یہ 10 ہزار کا کوٹہ دیا۔‘
یہ بھی پڑھیں: وزارت مذہبی امور نے عازمین کو جعلی حج پرمٹ سے ہوشیار کردیا
محمد یوسف نے کہا کہ اب پرائیویٹ حج اسکیم کے تحت ٹوٹل 25 ہزار 698 عازمین حج پر جاسکیں گے، ہم نے بارہا پرائیویٹ حج آپریٹرز کو خطوط بھی لکھے کہ وہ اس ٹائم تک ضروریات پوری کریں، اگر تاخیر کریں گے تو آپ کا کوٹہ متاثر ہوگا اور آپ کا کوٹہ کم کردیا جائے گا، نجی شعبے نے عازمین حج کے لیے بروقت اقدامات نہیں کیے، وزارت کی طرف سے وقتاً فوقتاً اشتہار بھی دیے گئے، لوگوں کو بھی اطلاع دی گئی کہ اگر کوئی عازمین حج کسی جگہ کوئی بکنگ کرتا ہے تو وہ اپنی تصدیق کرکے بکنگ کرے کہ آیا اس کو اجازت ملی ہے یا نہیں ملی، اگر اجازت نہیں ملی تو ایسی کمپنی میں آپ بکنگ نہ کریں، ہم نے اشتہار میں بتادیا تھا کہ ان ان کمپنیوں کو کوٹہ ملا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں احساس ہے کہ پاکستان کو جو کوٹہ ملا تھا اس کے مطابق پاکستانی عازمین کو حج پر جانا چاہیے تھا لیکن بعض لوگوں کی غفلت کی وجہ سے لوگ رہ گئے، جس کی بھی غفلت یا کوتاہی ہے حکومت اس کے خلاف کارروائی کرے گی، اس حوالے سے وزیراعظم نے کمیٹی بنادی ہے، کمیٹی کی تحقیقات جاری ہیں، رپورٹ آںے کے بعد جو بھی کارروائی بنتی ہے اس پر عملدرآمد ہوگا۔
یہ بھی پڑھیں: وزرات مذہبی امور نے عازمین حج کو کس بات سے محتاط رہنے کا مشورہ دیا؟
ان کا کہنا تھا کہ مدینہ منورہ گیا تھا، حج انتظامات کا جائزہ لیا، مدینہ منورہ میں ہمارے حاجی 100 فیصد مرکزیہ میں رہائش پذیر ہیں، اس میں تھری اسٹار، فوراسٹار، فائیو اسٹار ہوٹلز تھے، عازمین حج بڑے خوش تھے، حاجی کھانے کے انتظامات سے بڑے مطمئن ہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
we news پاکستان پرائیویٹ احج اسکیم حج سردار محمد یوسف وزارت مذہبی امور.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: پاکستان پرائیویٹ احج اسکیم سردار محمد یوسف پرائیویٹ حج ا اسکیم کے تحت محمد یوسف نے کہا کہ جاتے ہیں حج اسکیم ا پریٹرز کا کوٹہ کے لیے تھا کہ
پڑھیں:
ایک یمنی کا بے باک تجزیہ
اسلام ٹائمز: ڈاکٹر الحوثی اس بات پر زور دیتے ہیں کہ امریکی، برطانوی اور اسرائیلی انٹیلی جنس رپورٹس تجویز کرتی ہیں کہ محمد بن سلمان اپنے والد شاہ سلمان کی موت کا باضابطہ اعلان کریں اور امریکہ، برطانیہ یا اسرائیل کی فوجی، سیاسی یا اقتصادی مدد کے بغیر بلا مشروط اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لائیں، کیونکہ اب حقیقت میں امریکی اور اسرائیلی فوجیں مدد فراہم کرنے کے قابل نہیں ہیں۔ انہوں نے اس مضمون میں خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور قطر کی طرف سے انصار اللہ (حوثیوں) کے خلاف اب کوئی بھی فوجی مہم جوئی ان ممالک کے حکمرانوں کے اقتدار کے خاتمے کا باعث بنے گی۔ ترتیب و تنظیم: علی واحدی
جدید تاریخ میں مغرب اور عرب دنیا کے تعلقات ہمیشہ مفادات اور طاقت کے توازن پر مبنی رہے ہیں۔ جب بھی یہ توازن مغرب کے نقصانات کی طرف منتقل ہوا ہے، ان کی سیاسی اور عسکری حکمت عملی بھی تبدیل ہوئی ہے۔ آج مغربی ایشیاء اور شمالی افریقہ کے خطے میں برسوں کے طویل اور مہنگے تنازعات کے بعد، بڑی طاقتوں کے رویئے میں تھکاوٹ اور دوبارہ سوچنے کے آثار نظر آرہے ہیں۔ امریکہ، برطانیہ اور یہاں تک کہ اسرائیل بھی اب علاقائی تنازعات میں براہ راست ملوث ہونے کو تیار نہیں ہے اور محفوظ فاصلے سے تبدیلیوں کی رہنمائی کو ترجیح دیتا ہے۔ اس تناظر میں ڈاکٹر ابراہیم طہٰ الحوثی کا تجزیہ قابل غور ہے۔ موجودہ سیاسی موڑ اور سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور قطر کے مستقبل نیز یمن کے خلاف جنگ کے اثرات کیا رخ اختیار کریں گے، اس بارے میں اس تجزیہ کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔
ڈاکٹر ابراہیم طہٰ الحوثی کے مطابق امریکہ، برطانیہ اور اسرائیل نے اعلان کیا ہے کہ وہ یمن میں انصار اللہ (حوثی) اور یمنی مسلح افواج کے مقابلے میں سعودی عرب، امارات اور قطر کو اب عسکری، سیاسی اور اقتصادی مدد فراہم کرنے سے گریز کریں گے۔ وہ سابقہ تنازعات میں شکست کھا چکے ہیں اور اب امریکہ، برطانیہ اور اسرائیلی فوجیں یمن کے ساتھ جنگ کے لیے تیار نہیں ہیں۔ ان ممالک کی افواج اور سکیورٹی اداروں کی طرف سے شائع ہونے والی خفیہ رپورٹس سے پتہ چلتا ہے کہ وہ یمن کے خلاف جنگ کو ایک لا حاصل جنگ سمجھتے ہیں۔ ڈاکٹر الحوثی اپنے تجزیئے میں بتاتے ہیں کہ یہ رپورٹس تجویز کرتی ہیں کہ سعودی عرب کو چاہیئے کہ وہ جلد از جلد اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لائے اور امریکہ سے بغیر کسی حمایت اور توقع کے اسے یہ اقدامات انجام دینا ہوگا۔ امریکہ، برطانیہ اور اسرائیل نے محمد بن سلمان کو مشورہ دیا ہے کہ وہ سعودی عرب پر حکومت کرنے کی خواہش ترک کر دیں اور آل سعود خاندان کو ان کی جگہ نیا حکمران منتخب کرنا چاہیئے۔
یہی بات متحدہ عرب امارات پر بھی لاگو ہوتی ہے۔ محمد بن زاید کو مستعفی ہونا چاہیئے اور اسے اپنا ایک جانشین انتخاب کرنا چاہیئے۔ قطر میں تمیم بن حمد کو مستعفی ہونا چاہیئے اور ایک مناسب جانشین کا انتخاب کرنا چاہیئے۔ یہ اقدامات امن کے ذریعے یا عوامی انقلاب کے ذریعے انجام پانے چاہئیں۔ یمنی تجزیہ نگار کے مطابق امریکہ، برطانیہ، اسرائیل، فرانس اور جرمنی کی انٹیلی جنس ایجنسیاں بھی محمد بن سلمان کو اپنے مرحوم والد کی جگہ سعودی عرب کا بادشاہ تسلیم کرنے کی پابند نہیں ہیں۔ رپورٹس بتاتی ہیں کہ شاہ سلمان کا انتقال ایک سال سے زائد عرصہ قبل ہوا تھا، لیکن محمد بن سلمان نے اپنے خلاف بغاوت کے خدشے کے پیش نظر اپنے والد کی موت کا باضابطہ اعلان کرنے اور ان کی جانشینی کے لیے شاہی فرمان جاری کرنے سے انکار کر دیا ہے۔
ڈاکٹر الحوثی اس بات پر زور دیتے ہیں کہ امریکی، برطانوی اور اسرائیلی انٹیلی جنس رپورٹس تجویز کرتی ہیں کہ محمد بن سلمان اپنے والد شاہ سلمان کی موت کا باضابطہ اعلان کریں اور امریکہ، برطانیہ یا اسرائیل کی فوجی، سیاسی یا اقتصادی مدد کے بغیر بلا مشروط اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لائیں، کیونکہ اب حقیقت میں امریکی اور اسرائیلی فوجیں مدد فراہم کرنے کے قابل نہیں ہیں۔ انہوں نے اس مضمون میں خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور قطر کی طرف سے انصار اللہ (حوثیوں) کے خلاف اب کوئی بھی فوجی مہم جوئی ان ممالک کے حکمرانوں کے اقتدار کے خاتمے کا باعث بنے گی۔ الحوثی کے مطابق یمنی مسلح افواج سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے دارالحکومتوں میں چند دنوں یا اس سے بھی کم یعنی چند گھنٹوں میں داخل ہونے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔یمنی فورسز بڑی آسانی سے تیل کی تنصیبات، آرامکو، ہوائی اڈوں اور بندرگاہوں کو نشانہ بنا سکتی ہیں اور سعودی اور متحدہ عرب امارات کی حکومتوں کا کنٹرول حاصل کرسکتی ہیں۔
ڈاکٹر ابراہیم طہٰ الحوثی مزید لکھتے ہیں: سعودی عرب نے یمن میں جن گروہوں پر انحصار کیا ہے، جیسے کہ سیاسی قیادت کونسل، طارق افش، العرادہ اور الاصلاح پارٹی، یہ سب بدعنوان گروہ ہیں اور سعودی پیسہ ہڑپ کر رہے ہیں۔ یہ یمن کی حفاظت یا حوثی اور یمنی افواج کا مقابلہ کرنے کے قابل نہیں ہیں۔ یمن میں سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے اتحادی بھی کرائے کی خواتین سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتی ہیں۔ دوسری جانب امریکی، برطانوی اور اسرائیلی فوجیں صنعا کے ساتھ کوئی نیا ایڈونچر کرنے کو تیار نہیں ہیں، خاص طور پر حوثیوں کی فوجی، میزائل اور بحری صلاحیتوں میں اضافے کے بعد امریکا، برطانیہ اور حتیٰ کہ اسرائیل بھی خوفزدہ ہے۔ اس یمنی مصنف کے مطابق ڈونلڈ ٹرمپ بھی صنعاء کے ساتھ کوئی نیا ایڈونچر کرنے کے قابل نہیں ہے اور امریکی فوج، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور قطر کی آمرانہ اور جابر حکومتوں کی جانب سے کوئی نئی جنگ لڑنے پر آمادہ نہیں ہوگی۔