ابھی بجٹ 2025-26 کا آغاز ہوا ہی تھا کہ پاکستان کے غریب عوام کے سر پر اولے پڑنے لگے۔ حکومت نے یکم جولائی کی تاریخ کے آغاز کے ساتھ ہی ملک بھر میں پٹرول، ڈیزل وغیرہ کی قیمتوں میں ہوش ربا اضافہ کر دیا۔
ابھی صبح ہوئی، اس نوجوان کو دیکھیے جوگھر سے دفتر کے لیے نکلا تھا کہ پٹرول پمپ پہنچا اور نئی قیمت سن کر اس کے ہوش اڑ گئے، اب کیا ہوگا۔ روزانہ دفتر جانا، واپسی پر پارٹ ٹائم کے لیے جانا، پھر اتنی دور سے گھر لوٹنا، ان ہی سوچوں میں گم تھا کہ آواز آئی ’’ صاحب! کتنا پٹرول؟‘‘ ہڑبڑاتے ہوئے جلدی جلدی اپنے کپکپاتے ہوئے سیدھے ہاتھ کو جیب میں ٹھونسا، ہاتھ نے بھی پھرتی دکھائی، جیب سے ساری رقم سمیٹی، پمپ والے کو دکھایا جسے دیکھتے ہی وہ آگ بگولا ہو کر بولا’’ یہ تو پرانی قیمت ہے، اب قیمت بڑھ گئی ہے‘‘ اس نے پھر اپنے ناتواں ہاتھ کو اپنی زخمی جیب میں بھر دیا، اس کی زخمی جیب سے ایک آہ نکلی مالک! میری جیب خالی ہے اور دل زخمی۔ بے بسی کے عالم میں ہاتھ میں جو رقم تھی پمپ والے کے سامنے رکھ کر ملتجی نگاہوں سے اسے دیکھنے لگا۔
بس جتنی رقم تھی اتنا ہی پٹرول خرید کر گزارے سے کم سطح پر آ کھڑا ہوا۔ اسے کہتے ہیں غربت سے کم سطح پر زندگی بسر کرنا۔ کیونکہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کے ساتھ ہر ہر شے کی قیمت میں اضافہ ہو جاتا ہے، سبزی والا کہتا ہے سبزی مہنگی ہو گئی، کیوں کہ سبزی منڈی کا آڑھتی کہتا ہے کہ ٹرک والوں کے دام بہت بڑھ گئے اور سبزی والے کو سوزوکی والے کو بھی زیادہ کرایہ دینا پڑ گیا۔
دکاندار بھی کہنے لگا اب تھوک فروش کہتے ہیں کہ ٹرانسپورٹ کے کرایوں میں اضافہ ہوگیا ہے، لہٰذا دال، چاول، آٹا، گھی، چینی، پتی، صابن یوں ہر چیزکی قیمت بڑھ گئی ہے اور تو اور میڈیکل اسٹور والا بھی یہی بات کہنے سے باز نہیں آ رہا۔ پہلے تو بڑے پیار سے سمجھاتا ہے کہ ’’ بھائی، جس سوزوکی میں دوا لاتا ہوں اب اس کا کرایہ مہنگا ہوگیا ہے کیونکہ پٹرول جو مہنگا ہوگیا ہے۔‘‘ یعنی ایک پٹرول کی قیمت کیا بڑھتی ہے ہر شے اس سے متاثر ہوکر اپنی بھی قیمت بڑھا دیتی ہے۔
رکشے والا، ٹیکسی والا، سوزوکی والا، ٹرک والا تو پٹرول کی بڑھتی ہوئی قیمت پہلے بھی ادا کرتا چلا آیا ہے اور اب بھی ادا کر رہا ہے اور ادا کرتا رہے گا۔ حکومت اب ان کی طرف توجہ دے جو پروٹوکول کے نام پر لاکھوں لیٹر پٹرول کا ضیاع کر رہے ہیں جن کو سیکڑوں لیٹر پٹرول بھی مفت میں ملتا ہے۔ ہزاروں یونٹ بجلی بھی مفت، سفری سہولیات بھی مفت اور تنخواہ لاکھوں میں، پنشن سالانہ کروڑوں میں۔ حکومت اس پر نظرثانی کرے۔ سوائے چند اداروں کے جن کو پٹرول کی مفت فراہمی لازمی ہے۔ چاہے وہ دفاعی مقاصد کے لیے ہو یا امن و امان کی بہتری کے لیے ہو۔
ان اداروں کو پٹرول کی فراہمی جاری رکھی جائے۔ باقی بہت سے ادارے ایسے ہیں جن کی گاڑیاں شام کے اوقات میں شاپنگ پلازوں، مارکیٹوں کے ارد گرد نظر آتی ہیں ان پر گہری نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔عموماً پٹرول کے مہنگا ہونے کے ساتھ ہی بسوں، ویگنوں اور مزدا والے اب ملک بھر میں چنگچی والے بھی بڑی تعداد میں ہیں۔
صرف کراچی کے بارے میں ایک اندازے کے مطابق 60 ہزار چنگچی والے ہیں، اب ان سب کے بشمول رکشے والے، ٹیکسی والے سب کے کرایوں میں اضافہ ہو کر رہے گا، خاص طور پر شہری علاقوں میں سفر کرنے والے مسافروں کے لیے پہلے دو سے تین دن بڑے ہی بھیانک ہوتے ہیں۔
جب کنڈیکٹر کڑک دار لہجے میں کہتا ہے ’’ پہلے کرایہ 80 روپے تھا، اب پورے 100 روپے ہو گئے ہیں‘‘ کنڈیکٹر کی آواز میں تلخی، غصہ، گرج اور کڑک تھی’’ کرایہ پورا نہیں دو گے تو بس سے اتر جاؤ‘‘ ۔ مسافر بھی اپنی بپتا بیان کرتا ہے ’’ بھائی! میں بھی ایک ٹھیکیدار کے پاس مزدور ہوں، کل کی دیہاڑی بھی نہیں ملی، جیب میں صرف 90 روپے پڑے ہیں، 100 تو نہیں ہیں، یہ تم لے لو۔‘‘ کنڈیکٹر 90 روپے لیتا ہے، پھر کچھ سوچتا ہے، 10 روپے واپس کر دیتا ہے۔ غربت کے خلاف جنگ ہم کبھی اکیلے نہیں جیت سکتے۔ ہاں ایک دوسرے کا دکھ درد بانٹ کر، غریب کی مجبوریوں کو سمجھ کر جیت سکتے ہیں۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: پٹرول کی کی قیمت کے لیے ہے اور
پڑھیں:
’وِکٹری 45-47‘، ٹرمپ کا نیا پرفیوم متعارف، قیمت کیا ہے، خریدنے والے کیا کہتے ہیں؟
امریکا کے موجودہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی برانڈنگ کی فہرست میں ایک اور پراڈکٹ کا اضافہ کر دیا ہے، اور یہ ہے پرفیوم۔
ٹرمپ نے پیر کی شب اپنی سوشل میڈیا ویب سائٹ ’ٹروتھ سوشل‘ پر اعلان کیا کہ “ٹرمپ فرینگرینسز’ اب دستیاب ہیں، جن کا نام ہے ‘Victory 45-47” — “کیونکہ یہ خوشبو جیت، طاقت اور کامیابی کی علامت ہے، مردوں اور خواتین دونوں کے لیے۔”
یہ پرفیوم 249 امریکی ڈالر کی قیمت پر فروخت ہو رہا ہے، جس کی بوتل ایک “آئیکونک” سنہری مجسمے پر مشتمل ہے۔
خواتین کے لیے تیار کردہ پرفیوم کو ’اعتماد، خوبصورتی اور ناقابل شکست عزم‘ کی علامت قرار دیا گیا ہے، جبکہ مردوں کے لیے خوشبو کو ’طاقتور اور باوقار قیادت‘ سے تعبیر کیا گیا ہے۔
تاہم، پرفیوم کی فروخت کرنے والی ویب سائٹ پر ایک نوٹ دیا گیا ہے کہ ’ یہ پرفیومز براہ راست ڈونلڈ جے ٹرمپ کے تیار کردہ یا فروخت کردہ نہیں ہیں‘ بلکہ یہ صرف برینڈنگ لائسنس کے تحت پیش کیے جا رہے ہیں۔
ٹرمپ کے نقادوں نے اس اقدام کو ’صدراتی منصب کے ذاتی مفادات کے لیے استعمال‘ کی تازہ مثال قرار دیا ہے۔
‘ریپبلکنز اگینسٹ ٹرمپ’ نامی گروپ نے ایک بیان میں کہا ’کرپٹو، جائیدادوں کے متنازع سودے، گھڑیاں، اور اب پرفیوم — ٹرمپ نے کبھی صدارت کو ذاتی منافع کے لیے استعمال کرنا نہیں چھوڑا۔‘
صحافی مہدی حسن نے سوال اٹھایا کہ ’یہ سب قانونی کیسے ہے؟ جبکہ ایک زمانے میں امیدوار جمی کارٹر نے محض اپنے مونگ پھلی کے کھیت بیچ دیے تھے تاکہ مفادات کا ٹکراؤ نہ ہو۔‘
پرفیوم کے بارے میں صارفین کا ردعملبعض صارفین کا کہنا ہے کہ خوشبو بری نہیں ہے، لیکن کچھ خاص بھی نہیں۔ اس کی قیمت بہت زیادہ ہے۔ یہی خوشبو آپ کو 26 ڈالر میں عام اسٹور پر مل سکتی ہے۔
کاروبار یا انتخابی مہم؟دلچسپ بات یہ ہے کہ پرفیوم فروخت کرنے والے ادارے نے وضاحت کی ہے کہ یہ اقدام کسی سیاسی مہم کا حصہ نہیں اور نہ ہی اس کا مقصد انتخابی فنڈنگ جمع کرنا ہے، بلکہ صرف ’ٹرمپ کی میراث کو خراج‘ پیش کرنا ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں