پاکستان میں کرپٹو اتھارٹی کا قیام، ماہرین کے خدشات برقرار
اشاعت کی تاریخ: 8th, July 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 08 جولائی 2025ء) پیر سات جولائی کو جاری کی گئی ایک پریس ریلیز کے مطابق، مجوزہ اتھارٹی ایک خودمختار ریگولیٹر کے طور پر کام کرے گی جو ورچوئل اثاثہ جات کی سروس فراہم کرنے والے اداروں کو لائسنس جاری کرنے، ان کی نگرانی اور جائزہ لینے کی ذمہ دار ہوگی، اور اس بات کو یقینی بنائے گی کہ تمام ایسے ادارے حکومتی اور ایف اے ٹی ایف کی ہدایات اور بین الاقوامی بہترین طریقہ کار سے ہم آہنگ ہوں۔
پاکستان: کرپٹو کرنسیوں کا استعمال غیر قانونی
پاکستان کی کرپٹو پالیسی: سوال زیادہ، جواب کم
یہ پیش رفت رواں سال مارچ میں پاکستان کرپٹو کونسل کے قیام کے چار ماہ بعد سامنے آئی ہے۔ حکومت ملک میں کرپٹو ٹریڈ اور مائننگ کو باقاعدہ شکل دینے کے ساتھ ساتھ دو ہزار میگاواٹ بجلی، کرپٹو مائننگ کے لیے فراہم کرنے کا ارادہ بھی رکھتی ہے تاکہ ریاست کا ڈیجیٹل اثاثوں کا ذخیرہ قائم کیا جا سکے۔
(جاری ہے)
کیا کرپٹو کی ریگولیشن پر کچھ کام ہوا بھی ہے؟ڈیجیٹل اثاثہ جات اتھارٹی کے چیئرمین کے لیے تاحال کسی شخص کا فیصلہ نہیں کیا گیا، اور سرکاری ذرائع کے مطابق، صرف کرپٹو امور کے وفاقی وزیر بلال بن ثاقب، جو کرپٹو کونسل کے چیف اگزیکٹو بھی ہیں، وزیرِاعظم سے مشاورت کے بعد اس کا فیصلہ کریں گے۔ تاہم، حکومتی مشینری کے متعلقہ اداروں میں کام کرنے والے افسران نے یہ بتایا ہے کہ ریگولیشنز کے حوالے سے تا حال کسی قسم کی پیش رفت نہیں ہو رہی اور کرپٹو کے وفاقی وزیر کے جو اس وقت ملک سے باہر ہیں، واپس آنے کے بعد شاید کوئی پیش رفت ہو۔
پاکستانمیں مالیاتی اور یہاں تک کہ کرپٹو ماہرین بھی حکومت کے کرپٹو کے شعبے میں تیزی سے اٹھائے گئے اقدامات پر شکوک و شبہات کا اظہار کر رہے ہیں اور ان کا ماننا ہے کہ یہ اقدامات ملک سے بڑے پیمانے پر غیر ملکی کرنسی کے انخلا کا سبب بن سکتے ہیں۔
ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ ایسی صورتحال میں وزارتِ خزانہ کو ڈیجیٹل اثاثہ جات کے ضوابط کے لیے فعال کردار ادا کرنا چاہیے۔
تاہم، وزارتِ خزانہ نے اس سلسلے میں کوئی عملی پیش رفت نہیں کی، حالانکہ وزیرِ خزانہ خود کرپٹو کونسل کے چیئرمین بھی ہیں۔ وزارتِ خزانہ کے ترجمان قمر عباسی نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ کرپٹو کونسل ہی بنیادی طور پر کرپٹو سے متعلق معاملات اور ضوابط کی ذمہ دار ہے۔ کرپٹو مائیننگ پاکستان کے لیے قابل عمل یا ایک خواب؟پاکستان میں حکومت کی جانب سے کرپٹو یا ڈیجیٹل اثاثے مائن کرنے کے ارادے کے بارے میں ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ حکمتِ عملی قابلِ عمل نہیں اور جس فائدے کی امید حکومت کر رہی ہے، اس کے مقابلے میں ڈیجیٹل کرنسی کی مائننگ پر لاگت کہیں زیادہ آ سکتی ہے۔
معروف کرپٹو ماہر ہارون بیگ جو وقتاً فوقتاً مشاورت کے عمل میں بھی شامل ہوتے ہیں کہتے ہیں کہ کرپٹو مائننگ میں مہنگے آلات استعمال ہوتے ہیں اور سرورز کو ٹھنڈا رکھنے کے لیے بہت زیادہ بجلی درکار ہوتی ہے، اسی لیے زیادہ تر مائننگ اسٹیشنز آئس لینڈ جیسے سرد ممالک میں قائم کیے جاتے ہیں، جہاں قدرتی طور پر ٹھنڈک میسر ہوتی ہے: ’’پاکستان جیسے ملک کے لیے، جو پہلے ہی معاشی بحران کا شکار ہے، کرپٹو مائننگ اور ڈیجیٹل اثاثوں کے ذخائر قائم کرنا شاید سودمند نہیں ہو گا۔
‘‘ہارون بیگ اگرچہ کرپٹو سے متعلق ضوابط مرتب کرنے کے حامی ہیں، تاہم وہ اس بات پر بھی یقین رکھتے ہیں کہ کرپٹو ٹریڈنگ سے ملک سے زر مبادلہ کے انخلا کا خطرہ یقینی ہے۔
ان کا کہنا تھا، ''یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک غیر ملکی پراڈکٹ ملک سے زرمبادلہ کے انخلا کا سبب نہ بنے؟ میں مفتاح اسماعیل اور شبر زیدی سے متفق ہوں جو مسلسل یہ کہہ رہے ہیں کہ کرپٹو کرنسی کی تجارت کی اجازت دینا پاکستان کی معیشت کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔‘‘
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے کرپٹو کونسل پیش رفت کے لیے ملک سے ہیں کہ
پڑھیں:
چین نے پاکستان کے لئے لاکھوں ڈالر کی رقم جاری کردی
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اسلام آباد: چین نے صوبہ پنجاب میں معاشی اور تکنیکی تعاون کے منصوبے کے لیے 20 لاکھ امریکی ڈالر کی رقم جاری کر دی ہے۔ یہ تازہ ادائیگی بیجنگ کے پاکستان میں صوبائی ترقی اور ادارہ جاتی صلاحیت بڑھانے کےپروگراموں میں مسلسل مالی عزم کی عکاسی کرتی ہے۔
میڈیا ذرائع کے مطابق وزارتِ اقتصادی امور کی جاری کردہ رپورٹ کے حوالے سے لکھا کہ یہ منصوبہ پاکستان کے تکنیکی ڈھانچے کو مضبوط بنانے، ادارہ جاتی روابط کو فروغ دینے اور دونوں ممالک کے درمیان جاری ترقیاتی تعاون کو مستحکم کرنے پر مرکوز ہے۔
ذرائع کے مطابق ستمبر 2025 کے دوران چین کی مجموعی ادائیگیاں تقریباً 20 لاکھ ڈالر رہیں، جبکہ مالی سال 2025-26 کی پہلی سہ ماہی (جولائی تا ستمبر) کے دوران چین کی مجموعی معاونت، جس میں گرانٹس اور قرضے دونوں شامل ہیں، 97.5 لاکھ ڈالر تک پہنچ گئی۔پنجاب کے منصوبے کے علاوہ، چین نے ملک کے مختلف علاقوں میں اہم تعمیرِ نو اور بحالی کے منصوبوں کے لیے مالی تعاون جاری رکھا۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ ان میں خیبر پختونخوا کے ضلع باڑہ میں مکمل طور پر تباہ شدہ اسکولوں کی تعمیر نو کے لیے 44.7 لاکھ ڈالر، بلوچستان میں مکانات کی تعمیر کے لیے 60 لاکھ ڈالر، اور پاکستان کے نئے جیوڈیٹک ڈیٹم کے قیام کے لیے 10.8 لاکھ ڈالر شامل ہیں۔چین قومی اہمیت کے حامل کئی بڑے منصوبوں میں بھی شراکت دار ہے، جن میں شاہراہِ قراقرم (ٹھاکوٹ تا رائیکوٹ سیکشن) کی منتقلی، پاکستان اسپیس سینٹر(سپارکو ) کا قیام اور قائداعظم یونیورسٹی میں چین-پاکستان جوائنٹ ریسرچ سینٹر برائے ارضی سائنسز کا قیام شامل ہے۔
یہ تمام منصوبے پاکستان کے بنیادی ڈھانچے اور سائنسی صلاحیتوں کو جدید خطوط پر استوار کرنے کے وسیع تر ترقیاتی شراکت داری کا حصہ ہیں۔