ماہرہ خان کا کراچی کی حالت زار پر افسوس کا اظہار
اشاعت کی تاریخ: 6th, October 2025 GMT
کراچی:
نامور پاکستانی اداکارہ ماہرہ خان نے کراچی کی حالت زار پر افسوس کا اظہار کردیا۔
ماہرہ خان نے انسٹاگرام پر کراچی کے مختلف علاقوں کی تصاویر شیئر کی جس کے ساتھ انہوں نے اپنے پیغام میں لکھا کہ کبھی کبھی میں اپنے شہر کو دیکھ کر حیران رہ جاتی ہوں۔ مجھے اپنے کام کے سلسلے میں ایسی جگہوں پر جانے کا موقع ملتا ہے جہاں شاید میں کبھی خود سے نہ جا پاتی۔ مجھے ایسی گلیاں اور بستیاں دیکھنے کا موقع ملا جنہیں میں نے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔
اداکارہ نے لکھا کہ ہم سب اپنی چھوٹی سی دنیا میں رہتے ہیں۔ پریشانیاں سب کو ہوتی ہیں لیکن میں نے کراچی میں ایسے علاقوں کو بھی دیکھا جہاں لوگ ہمیشہ سے تکلیف میں ہیں، یہاں گھنٹوں بجلی نہیں ہوتی، کھانے کو بمشکل کچھ میسر ہوتا ہے اور گندگی ہفتوں جمع رہتی ہے، اس شہر میں امیر اور غریب کا فرق بہت زیادہ ہے۔
ماہرہ خان نے لکھا کہ ان سب مسائل کے باوجود کراچی کی زندگی میں اُمید اور محبت کی جھلک اب بھی موجود ہے۔ میں نے یہاں بچوں کو ہنستے کھیلتے دیکھا، ماؤں کو اپنے بیٹوں کے لیے تازہ پراٹھے بناتے دیکھا، وہ بیٹے جو روزی کمانے کے لیے نکل رہے تھے۔
ماہرہ خان نے لکھا کہ میں نے کراچی میں ایک ایسی گلی بھی دیکھی جہاں مندر، چرچ اور مسجد ایک ہی دیوار شیئر کر رہے تھے۔ میں نے لوگوں کے چہروں پر وہ مسکراہٹیں دیکھیں جن میں اداسی تھی مگر ساتھ ہی امید بھی تھی۔
ماہرہ خان نے آخر میں اپنے شہر سے محبت کا اظہار کرتے ہوئے لکھا کہ کراچی میں تم سے پیار کرتی ہوں۔ افسوس ہے کہ ہم تمہاری ویسی دیکھ بھال نہیں کر پائے جیسے تم ہماری کرتے ہو۔
.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: ماہرہ خان نے لکھا کہ
پڑھیں:
عمران خان سے ملاقات، تین ججز کے حکم پر ایس ایچ او کہتا ہے میں نے آرڈر نہیں دیکھا، وزیراعلیٰ کے پی
میڈیا سے گفت گو میں سہیل آفریدی نے کہا کہ ہم آئین و قانون کے دائرے میں رہ کر تمام راستے اپنانے کی کوشش کر رہے ہیں، ہمارے پاس عدالتی احکامات موجود ہیں اس کے بعد کون ہے جو مجھے روک رہا ہے؟ اسلام ٹائمز۔ وزیراعلیٰ کے پی سہیل آفریدی نے کہا ہے کہ عمران خان سے ملاقات کیلیے وزیراعظم کو اب کال نہیں کروں گا، اگر کسی کے پاس اختیار نہیں ہے تو اس سے بات کرنے کا کیا فائدہ۔ میڈیا سے گفت گو میں انہوں نے کہا کہ ہم آئین و قانون کے دائرے میں رہ کر تمام راستے اپنانے کی کوشش کر رہے ہیں، ہمارے پاس عدالتی احکامات موجود ہیں اس کے بعد کون ہے جو مجھے روک رہا ہے؟ تین ججز کے احکامات موجود ہیں یہ کہتے ہیں ہم نے آرڈر نہیں دیکھے، عدالتی احکامات اتنے بے توقیر ہو چکے کہ ایک ایس ایچ او کہہ رہا ہے میں نے دیکھا ہی نہیں؟ اداروں کو اس پر فوری ایکشن لے کر اپنے احکامات پر عمل درآمد کرانا چاہیے اگر ادارے اپنے احکامات نہیں منواتے تو پھر ہم سے گلہ ہی نہ کریں۔
ان کا کہنا تھا کہ میری تلخی اسی وجہ سے ہے کہ آئین و قانون کی پاس داری نہیں ہو رہی، میری تلخی غیر آئینی و قانونی نہیں ہے، میں کوئی دھمکی یا ایسا لہجہ استعمال نہیں کر رہا جو قانون و آئین کے دائرے سے باہر ہو، میر احق ہے کہ اگر کوئی آئین و قانون پر عمل نہیں کر رہا تو اسے تھوڑے تلخ لہجے میں سمجھاؤں یہی میں کر سکتا ہوں۔ وزیراعلیٰ نے کہا کہ محمود اچکزئی صاحب نے جو بات کی ہے وہ تجربے کی بنیاد پر کی ہو گی، میرے علم میں ایسی کوئی بات نہیں، محمود اچکزئی کو بانی نے تمام ذمہ داریاں دی ہوئی ہیں، ہم تنظیمی لوگ ہیں ہم اسی پر عمل کریں گے۔
سہیل آفریدی نے کہا کہ میں نے وزیراعظم کو پہلے دن ہی درخواست کی تھی کہ کچھ کریں اور مجھے ملنے دیں اگر ان سے بات کرنے کی میری خواہش نہ ہوتی تو ان کی کال کی اٹینڈ نہیں کرتا، میں وفاق سے اچھا ورکنگ ریلیشن چاہ رہا تھا مجھے جو جواب ملا اس کے بعد مناسب نہیں سمجھا کہ انہیں دوبارہ بتاؤں، اگر کسی کے پاس اختیار نہیں ہے تو اس سے بات کرنے کا فائدہ؟ ان کا کہنا تھا کہ وفاق ہمیں فیڈریشن یونٹ سمجھے اور ہمارے تین ہزار بلین سے زائد کے واجبات دے، واجبات ملنے پر ہم ترقی میں جو تھوڑے پیچھے رہ گئے اسے کور کرلیں گے، آئین و قانون کی بات کرنے کے باوجود میرے خلاف ایف آئی اے کا مقدمہ درج ہوگیا، اس کا مطلب ہے کہ میرا یہاں آنا فضول نہیں تبھی میرے خلاف ایف آئی اے کا پرچہ ہوا، میں ایک صوبے کا وزیراعلی ہوں اس کے باجود میرا نام پاسپورٹ کنٹرول لسٹ میں ڈالا گیا، میں واضح کردوں، میں انھیں اچھی طرح جانتا ہوں یہ مجھے مکمل طور پر نہیں جانتے۔
وزیراعلیٰ نے کہا کہ کے پی میں انٹیلی جینس بیسڈ آپریشن کبھی نہیں رکے، یہ خود بھی کہہ چکے کہ 14 ہزار سے زائد آئی بی او آپریشن کر چکے ہیں، اس بات سے کسی کو انکار نہیں کہ کے پی میں دہشت گردی نہیں ہو رہی، تمام اسٹیک ہولڈرز کو بند کمروں سے باہر آکر دہشت گردی کے خاتمے کے لئے پالیسی اپنانے پڑے گی تو کوئی فوجی، سویلین شہید نہیں ہو گا۔ نہوں نے کہا کہ 20 سال سے اگر دہشت گردی ختم نہیں ہورہی تو دہشت گردی کے خلاف پالیسی میں تبدیلی آنی چاہیے، ہم دہشت گردی کے خلاف کارروائیوں کے مخالف نہیں، عام شہریوں کی شہادتوں پر ہمارا اعتراض ہے، فوجی شہداء بھی ہمارے اپنے ہیں ان پر ہم کبھی سوالات نہیں اٹھاسکتے جس پالیسی شفٹ کی بات ہم کرتے ہیں ہمیں پتہ ہے اس سے پاکستان میں امن آسکتا ہے۔