data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251007-03-4
میر بابر مشتاق
غزہ کی جنگ اپنے سب سے نازک اور فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہو چکی ہے۔ اسرائیل نے پوری دنیا کے سامنے انسانی المیے کو جنم دیا ہے، لیکن اس کے باوجود فلسطینی مزاحمت نے جس ثابت قدمی، نظم اور وقار کے ساتھ مقابلہ کیا ہے، وہ تاریخ ِ جنگ کا ایک منفرد باب بن چکا ہے۔ ہر دن، ہر رات، بمباری، ملبہ، آنسو، اور خون میں لتھڑا ہوا وجود، مگر ان سب کے باوجود ’’لا الٰہ الا اللہ‘‘ کے نعرے سے لبریز دل دشمن کے سامنے جھکنے سے انکار کر رہے ہیں۔ حالیہ دنوں میں جب اسرائیلی حکومت اور امریکا کی حمایت یافتہ سفارتی کوششوں کے ذریعے جنگ بندی کی باتیں زور پکڑیں، تو دنیا کی نظریں حماس کے جواب پر ٹک گئیں۔ بہت سے مبصرین نے قیاس آرائیاں کیں کہ شاید اب فلسطینی مزاحمت دبائو میں آ جائے گی، کیونکہ حالات ناقابل ِ برداشت ہو چکے ہیں۔ مگر حیرت انگیز طور پر، حماس نے جو جواب دیا، وہ نہ صرف سفارتی اعتبار سے باوقار تھا بلکہ اخلاقی لحاظ سے بھی دنیا کے سامنے ایک نئی مثال بن گیا۔
حماس کا موقف بالکل واضح تھا: ’’ہم جنگ بندی کے خلاف نہیں، لیکن ایسی جنگ بندی کے حامی بھی نہیں جو غلامی کی دستاویز ہو‘‘۔ یہ جملہ غزہ کے ملبے تلے دفن ہر بچے کی صدا بن گیا۔ مزاحمت کی قیادت نے صاف الفاظ میں کہا کہ اگر اسرائیل سنجیدگی سے جنگ بندی چاہتا ہے تو اسے غزہ سے اپنی فوجیں واپس بلانی ہوں گی، ناکہ بندی ختم کرنی ہوگی، اور قیدیوں کا تبادلہ ایک باعزت اور متوازن بنیاد پر کرنا ہوگا۔ یہ جواب صرف ایک سیاسی یا عسکری اعلان نہیں تھا، بلکہ یہ ایک فکری بیانیہ تھا جس نے بتا دیا کہ حماس کے نزدیک ’’امن‘‘ محض فائر بندی کا نام نہیں، بلکہ انصاف پر مبنی توازن کا تقاضا ہے۔ یہی وہ نکتہ ہے جہاں فلسطینی مزاحمت تمام مغربی طاقتوں کے دوغلے پن کو بے نقاب کر دیتی ہے۔ اسرائیل کے جرائم پر خاموش رہنے والے ممالک اس وقت ’’امن‘‘ کے علمبردار بننے کی کوشش کر رہے ہیں، مگر وہ امن دراصل اسرائیلی تسلط کی ضمانت ہے۔
دنیا کے بڑے ذرائع ابلاغ نے حماس کے اس جواب کو مختلف زاویوں سے پیش کیا۔ کوئی اسے سخت مؤقف کہہ رہا ہے، کوئی سیاسی ضد۔ لیکن جو حقیقت میدانِ جنگ سے جھانک رہی ہے، وہ اس کے بالکل برعکس ہے۔ حماس کی قیادت نے دکھا دیا کہ وہ کسی وقتی رعایت یا عارضی سکون کے بدلے اپنی آزادی کا سودا نہیں کرے گی۔ یہ وہی جذبہ ہے جس نے صلاح الدین ایوبی کے لشکروں کو صلیبیوں کے مقابل کھڑا کیا تھا، اور وہی جذبہ آج غزہ کے زیر ِ زمین بنکروں سے ابھر رہا ہے۔ جنگ بندی کی تجویزوں میں سب سے زیادہ بحث کا نکتہ قیدیوں کا تبادلہ ہے۔ اسرائیل چاہتا ہے کہ اپنے فوجی قیدیوں کی رہائی کے بدلے غزہ کے عام شہریوں پر بمباری روک دے، لیکن اس کے بدلے وہ ہزاروں فلسطینی قیدیوں کو آزاد کرنے سے گریزاں ہے۔ حماس نے واضح کیا کہ ’’اگر اسرائیلی قیدی واپس چاہییں تو تمہیں ہمارے قیدی بھی لوٹانے ہوں گے۔ یہ سودا صرف خون کے انصاف پر مبنی ہوگا، ذلت پر نہیں‘‘۔ یہ وہ جملہ ہے جس نے فلسطینی عوام کے دلوں کو تقویت دی، اور دشمن کو بے بسی میں تڑپنے پر مجبور کر دیا۔
یہ جنگ اب محض میزائلوں اور ٹینکوں کی نہیں رہی، بلکہ یہ بیانیے کی جنگ ہے۔ اسرائیل اپنی مظلومیت کا جعلی تاثر دے کر دنیا کو گمراہ کرنا چاہتا ہے، جبکہ حماس مظلومیت نہیں، وقار کا پیغام دے رہی ہے۔ وہ کہہ رہی ہے: ’’ہمیں رحم نہیں، انصاف چاہیے۔ ہمیں روٹی نہیں، آزادی چاہیے‘‘۔ حماس کے اس بیانیے نے مغربی دنیا کے اندر بھی ارتعاش پیدا کر دیا ہے۔ یورپ اور امریکا کے بڑے شہروں میں عوام سڑکوں پر نکل کر فلسطین کے ساتھ کھڑے ہو رہے ہیں۔ یہ وہ عوامی ردِعمل ہے جو شاید اسرائیل نے کبھی تصور بھی نہیں کیا تھا۔ دنیا کے سامنے اب یہ حقیقت عیاں ہو چکی ہے کہ غزہ کے لوگ دہشت گرد نہیں، بلکہ وہ اپنی زمین، اپنے وقار اور اپنی نسلوں کے حق ِ زندگی کے لیے لڑ رہے ہیں۔
مزاحمت کی تاریخ میں ایسے مواقع کم ہی آتے ہیں جب کمزور سمجھی جانے والی قوت دشمن کے مقابل نہ صرف عسکری بلکہ اخلاقی برتری حاصل کر لے۔ حماس نے وہ مقام حاصل کر لیا ہے۔ وہ دنیا کو یہ باور کرانے میں کامیاب ہوئی ہے کہ طاقت کا معیار صرف اسلحہ نہیں ہوتا، بلکہ ایمان، عزم، اور حق پر ڈٹے رہنے کی جرأت بھی ایک طاقت ہے۔ اب سوال یہ نہیں کہ جنگ بندی ہوگی یا نہیں، بلکہ یہ ہے کہ اگر جنگ بندی ہوئی تو کس کی شرائط پر؟ اگر یہ اسرائیلی شرائط پر ہوئی تو یہ ایک عارضی وقفہ ہوگا، اور اگر فلسطینی وقار کی بنیاد پر ہوئی تو یہ تاریخ کا نیا موڑ ثابت ہوگی۔
حماس کا باوقار جواب اس امت کے لیے ایک سبق ہے کہ ظلم کے سامنے خاموشی اختیار کرنا دراصل ظلم کی حمایت کے مترادف ہے، اور مزاحمت اگر ایمان سے جنم لے تو وہ کبھی شکست نہیں کھاتی۔ آج غزہ کے ملبے سے جو آوازیں اٹھ رہی ہیں، وہ صرف فلسطین کی نہیں بلکہ پوری امت کی غیرت کو پکار رہی ہیں۔ دنیا کے ایوانِ طاقت یہ سمجھ لیں کہ اگر وہ انصاف کے بغیر ’’امن‘‘ چاہتے ہیں تو وہ دراصل ایک نئی جنگ کی بنیاد رکھ رہے ہیں۔ کیونکہ جس قوم کے بچے اپنے کھنڈرات میں بھی ’’اللہ اکبر‘‘ کے نعرے لگاتے ہیں، اسے طاقت سے نہیں، صرف عدل سے روکا جا سکتا ہے۔ غزہ کے ملبے میں دبی ہوئی وہ ننھی سی آواز شاید دنیا تک پہنچ جائے ’’ہم نے خون سے قیمت ادا کی ہے، اب تم سے انصاف مانگتے ہیں‘‘۔ یہی وہ پیغام ہے جو حماس کے باوقار جواب میں چھپا ہے۔ یہ پیغام آج کے دور کے تمام ظالموں کے لیے ایک چیلنج ہے: کہ اگر تم سمجھتے ہو کہ طاقت جیت جائے گی، تو تاریخ تمہیں یاد دلا دے گی کہ ہمیشہ حق ہی غالب آیا ہے، اور حق ہمیشہ قائم رہے گا۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: کے سامنے دنیا کے رہے ہیں حماس کے غزہ کے کہ اگر
پڑھیں:
غزہ جنگ بندی کے فیصلے کی گھڑی آن پہنچی، حماس اسرائیل بالواسطہ مذاکرات آج ہوں گے
SHARM EL SHEIKH:غزہ میں جاری خونریز جنگ کے خاتمے اور یرغمالیوں کی رہائی کے لیے اہم ترین سفارتی کوششیں آج مصر میں ہونے والے مذاکرات میں داخل ہو رہی ہیں، جہاں حماس اور اسرائیل کے درمیان بالواسطہ بات چیت متوقع ہے۔
مذاکرات مصر کے ساحلی شہر شرم الشیخ میں ہو رہے ہیں جس میں فریقین کے وفود کے علاوہ امریکہ کی نمائندگی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے داماد جیرڈ کشنر اور خصوصی ایلچی اسٹیووٹکوف کریں گے۔
اسرائیلی وزیراعظم کے دفتر نے تصدیق کی ہے کہ اسرائیلی وفد بھی مذاکرات کے لیے آج مصر روانہ ہو رہا ہے۔ جبکہ حماس کی قیادت خلیل الحیہ کر رہے ہیں، جو وفد کے ہمراہ پہلے ہی قاہرہ پہنچ چکے ہیں۔
مذاکرات کا مرکزی محور یرغمالیوں کی رہائی، اسرائیلی فوج کا غزہ سے ممکنہ انخلا اور جنگ بندی کے مستقل انتظامات ہوں گے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک بیان میں کہا ہے کہ انہیں امید ہے کہ غزہ میں یرغمال بنائے گئے افراد بہت جلد رہا کر دیے جائیں گے کیونکہ ثالثی کی کوششیں فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہو چکی ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ معاہدے میں زیادہ لچک کی ضرورت نہیں، کیونکہ سب فریقین بنیادی نکات پر متفق ہیں۔
ادھر عرب میڈیا نے دعویٰ کیا ہے کہ حماس نے بین الاقوامی نگرانی میں غیر مسلح ہونے پر بھی آمادگی ظاہر کر دی ہے، تاہم تنظیم کو بعض نکات پر تحفظات بھی درپیش ہیں جن پر آج کی بیٹھک میں بحث متوقع ہے۔
دوسری جانب مذاکرات سے قبل اسرائیلی آرمی چیف ایال زمیر کا سخت مؤقف سامنے آیا ہے جنہوں نے واضح کیا کہ غزہ میں آپریشن ختم نہیں ہوا اور ابھی کوئی جنگ بندی نہیں ہے۔ اگر سفارتی کوششیں ناکام ہوئیں تو ہم دوبارہ لڑائی کی طرف لوٹ آئیں گے۔
ایال زمیر کا مزید کہنا تھا کہ مذاکرات کے باوجود میدان کی صورتِ حال تبدیل نہیں ہوئی اور اسرائیلی فوج ہر ممکن صورتحال کے لیے تیار ہے۔