Express News:
2025-10-07@00:23:38 GMT

اب اسرائیل کی نگاہ ترکی پر ہے

اشاعت کی تاریخ: 7th, October 2025 GMT

جیسے ہی نو ستمبر کو امریکا کے قریب ترین اتحادی اسرائیل نے ایک اور قریب ترین امریکی اتحادی قطر پر حملہ کیا۔واشنگٹن میں قائم دائیں بازو کے اسرائیل نواز تھنک ٹینک امریکن انٹرپرائز انسٹی ٹیوٹ کے ایک سرکردہ محقق مائکل روبن نے خبردار کیا کہ ترکی اب اپنی فکر کرے اور اپنے تحفظ کے لیے ناٹو اور امریکا کے بھروسے نہ رہے۔

کل کلاں اسرائیل اور ترکی کا کھلا دنگل ہوتا ہے تو یہ اندازہ لگانے کی ضرورت نہیں کہ ناٹو کی تاسیسی دستاویز کا آرٹیکل پانچ ترکی کے کام آئے گا جس کے مطابق ایک رکن ملک پر حملہ پورے ناٹو پر حملہ تصور ہو گا۔مائکل روبن اکیلے نہیں ہیں۔سرکردہ اسرائیلی تجزیہ کار مائر مسری نے بھی ٹویٹ کیا کہ ’’ آج قطر کل ترکی ‘‘۔ترک صدر اردوان کے ایک سینیر مشیر نے مائر مسری پر ترنت جوابی وار کیا ’’ سگانِ اسرائیل جلد ہی نقشے سے مٹ جائیں گے اور دنیا سکھ کا سانس لے پائے گی ‘‘۔

ترکی اور ایران دو مسلمان ملک ہیں جنہیوں نے اسرائیل کے قیام کے ایک برس بعد ہی اسے تسلیم کر لیا تھا۔ایران نے تو خیر انیس سو اناسی میں تعلقات ختم کر لیے البتہ ترکی اور اسرائیل کے تجارتی و عسکری تعلقات میں متعدد بار اونچ نیچ ضرور آئی مگر کبھی منقطع نہیں ہوئے۔

اسرائیلی سیاحوں کی ایک بڑی تعداد جغرافیائی قربت اور سستائی کے سبب سات اکتوبر دو ہزار تئیس سے پہلے تک استنبول جانا پسند کرتی تھی۔مگر گزشتہ دو برس میں امریکا کے عسکری و سفارتی کندھے پر سوار ہو کر اسرائیل جس بے باکی سے خطے میں اپنے حریفوں کو توڑنے اور کمزور کرنے کے مشن پر ہے اس کے سبب ہر ہمسائے کے پر پھڑپھڑا رہے ہیں۔

حزب اللہ کو کونے میں دھکیلنے ، ایران پر بمباری ، شام کی کمر ٹوٹنے اور مقبوضہ مغربی کنارے پر یہودی بستیوں کی تعمیرات میں برق رفتاری اور غزہ کی نسل کشی کے باوجود بین الاقوامی اجتماعی احتساب سے بے خوف نیتن یاہو اینڈ کمپنی کو لامحالہ عظیم تر اسرائیل کے سنہری خواب بکثرت آنے باعثِ حیرت نہیں ۔

ایسے میں ترکی آس پڑوس میں واحد حریف ہے جو عسکری اعتبار سے اسرائیل کی ہم پلائی کے سبب اس کے عزائم کی راہ میں بھاری رکاوٹ بن سکتا ہے۔ویسے بھی بین الاقوامی سیاست میں مفادات کا نام ہی دوستی ہے۔مفادات کے ٹکراؤ میں پہلی ہلاکت ہی نام نہاد کاروباری مروت و سوچی سمجھی رواداری کی ہوتی ہے۔

ترکی کئی برس پہلے ہی بھانپ چکا تھا کہ آڑے وقت میں مغربی اتحادیوں کا ممکنہ رویہ کیا ہو گا۔لہٰذا خود انحصاری کی پالیسی کے تحت ترکی نے نہ صرف اپنے اقتصادی روابطی انڈے ایک کے بجائے الگ الگ ٹوکریوں میں رکھنے شروع کیے بلکہ دفاعی شعبے میں خودکفالت کو بھی ترجیح دی اور آج وہ اسرائیلی اسلحہ ساز صنعت کا لگ بھگ ہم پلہ ہو چکا ہے۔اس کی دفاعی برآمدات میں بھی خاطر خواہ اضافہ ہو رہا ہے۔

دو برس پہلے تک مصر اور ترکی کے درمیان مشرقی بحیرہ روم میں گیس کے ذخائر کو لے کر ، استنبول میں صحافی جمال خشوگی کے قتل کو لے کر سعودی حکومت سے اور متحدہ عرب امارات سے لیبیا کی خانہ جنگی اور قطر کی عرب ناکہ بندی کے سبب تعلقات خاصے کشیدہ تھے۔اس دوران عثمانی سلطنت کے تعلق سے تاریخی عرب ترک مخاصمت ابھارنے کی بھی کوششیں ہوئیں۔مگر اسرائیل کے تیور دیکھتے ہوئے اب سب علاقائی ممالک کے اختلافی کس بل سیدھے ہو رہے ہیں۔

مصر سے ترکی کے تعلقات نارمل ہو گئے ہیں۔اماراتی اور سعودی ترکی میں تعمیرات و دفاع اور خدمات کے شعبوں میں بھاری سرمایہ کاری میں دلچسپی لے رہے ہیں اور ایران پر اسرائیلی حملے کے بعد تہران کے رویے میں بدلاؤ بھی عرب و عجم کا روائیتی بخار کم کرنے میں مددگار ثابت ہو رہا ہے۔

چنانچہ اسرائیلی میڈیا کی توپوں کا رخ اب ترکی کی جانب ہے اور ترکی کو مشرقی بحیرہ روم میں اسرائیل کا سب سے بڑا حریف اور آگے چل کے سلامتی کے لیے سنگین خطرہ قرار دیا جا رہا ہے۔

وجہ یہ ہے کہ اسرائیل اردگرد کے ممالک میں قومیتی و علاقائی تعصبات کو ہوا دے کے شام اور لبنان کے حصے بخرے کرنے کا شدید خواھش مند ہے یا پھر ایسی فضا تیار کرنے کے درپے ہے کہ جس میں کرد ، علوی ، دروز اور سنی باہم برسرِ پیکار رہیں اور لبنان میں بھی یہی ماحول بنا رہے۔

اس کے برعکس ترکی اپنے اور اسرائیل کے مابین ایک مضبوط و متحد شامی ریاست بطور بفر دیکھنا چاہتا ہے اور کسی طور نہیں چاہتا کہ ایک کمزور شام اسرائیل کے حلقہِ اثر میں آ کر اسرائیل کو ترکی کی جنوبی سرحد تک پہنچا دے۔اسی خدشے کو محسوس کرتے ہوئے ترکی نے کرد علیحدگی پسندوں سے امن سمجھوتہ کر لیا ہے تاکہ شامی کردوں پر اسرائیل اور امریکا مزید ڈورے نہ ڈال سکیں۔

ترکی کا شام کے بارے میں خدشہ کوئی واہمہ نہیں ہے۔جولائی میں انقرہ میں متعین امریکی سفیر ٹام بیرک نے کھل کے کہا کہ اسرائیل ایک منقسم کٹا پھٹا شام دیکھنا چاہتا ہے۔کیونکہ طاقت ور عرب ریاستیں ہمیشہ سے ایک خطرہ ہیں۔اسی مشن کو آگے بڑھانے کے لیے گزشتہ برس آٹھ دسمبر کو بشار الاسد کے فرار کے بعد اسرائیل شام کی بری ، فضائی اور بحری سہولتیں تہس نہس کر چکا ہے۔

اسے قطعاً منظور نہیں کہ شام میں ترکی کو فوجی سہولتیں قائم کر کے قدم جمانے کا موقع مل جائے۔اسرائیل نے شام میں مستقل پیر جمانے کے لیے گولان سے متصل شامی صوبے الدرہ کا جزوی کنٹرول سنبھال لیا ہے اور یہ بھی اعلان کیا ہے کہ وہ اپنی سلامتی کے تحفظ کے لیے اس علاقے میں غیر معینہ مدت تک فوجی دستے رکھے گا۔

اسرائیل کی پوری کوشش ہے کہ شام میں نسلی و مذہبی آگ دوبارہ بھڑک اٹھے۔جب کہ ترکی شامی صدر احمد الشرع کی حکومت پر نسلی و فرقہ وارانہ بارودی سرنگوں سے بچنے کے لیے ایک متوازن وفاقی آئین کی جلد از جلد تشکیل پر مسلسل زور دے رہا ہے تاکہ شام کے نسلی گروہ دمشق کی مرکزی حکومت کو اپنے مفادات کا نگراں سمجھیں اور دشمن کے ورغلانے میں نہ آئیں۔یہی وجہ ہے کہ احمد الشرع کی حکومت نے فی الحال اسرائیلی حمائیت یافتہ دروز کمیونٹی سے ٹکراؤ کے بجائے پرامن بقائے باہمی کی پالیسی اپنائی ہے کیونکہ اسرائیل دمشق کی نوزائیدہ حکومت کو کمزور رکھنے کے لیے اس کی گردن پر مسلسل گرم گرم سانس چھوڑ رہا ہے۔

اسرائیل نے گزشتہ برس جنوبی لبنان میں جو علاقہ ہتھیایا ہے اسے بھی خالی کرنے کا کوئی ارادہ نہیں۔جب امریکا کو اطمینان ہو جائے گا کہ لبنان کی مرکزی حکومت حزب اللہ کو غیر مسلح کرنے میں کامیاب ہو گئی ہے تب اسرائیل یہ علاقے خالی کرے گا۔اس کا صاف صاف مطلب ہے کہ نہ نو من تیل ہو گا نہ رادھا ناچے گی۔

بھلے ترکی سمیت خطے کا کوئی بھی ملک کتنی بھی وقتی احتیاط و فراست سے کام لے لے مگر اسرائیل کا کوئی ارادہ نہیں کہ وہ دیگر ہمسائیوں کے اسٹرٹیجک مفادات کی ریڈ لائن کا احترام کرے۔ترکی کی ریڈ لائن شام اور قبرص ہے اور اسرائیل دونوں سرخ لکیروں پر بار بار پاؤں رکھ رہا ہے۔مگر قبرض کی ترک ریڈ لائن کیا ہے ؟ وہ اگلے مضمون میں دکھائی دے گی۔

(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.

com اورTweeter @WusatUllahKhan.پر کلک کیجیے)

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: اسرائیل کے ہے اور کہ شام کے سبب رہا ہے ترکی ا کے لیے

پڑھیں:

غزہ کا منظر نامہ اور ملین مارچ

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251007-03-2

 

غزہ میں جاری اسرائیلی مظالم و نسل کشی، صمود فلوٹیلا پر حملے کے خلاف اور نہتے فلسطینیوں سے اظہارِ یکجہتی کے لیے جماعت اسلامی کے تحت شاہراہ فیصل پر عظیم الشان ’’غزہ ملین مارچ‘‘ منعقد ہوا جس میں شہر بھر سے لاکھوں مردو وخواتین، مختلف طبقات و مکتب فکر اور شعبہ ہائے زندگی سے وابستہ افراد نے شرکت کی۔ غزہ ملین مارچ سے خطاب کرتے ہوئے جماعت ِ اسلامی پاکستان کے امیر حافظ نعیم الرحمن کا کہنا تھا کہ فلسطین کا کوئی دو ریاستی حل قبول نہیں، ریاست صرف ایک فلسطین اور قیادت صرف ایک حماس کی ہے۔ وزیر اعظم پاکستان شہباز شریف اہل پاکستان کی رائے دیکھ لیں، حماس کے موقف کو تسلیم کریں، حماس کے ترجمان بنیں اور کسی بھی قسم کے بیرونی دبائو کو قبول کیے بغیر پاکستان میں حماس کا دفتر کھولنے کا اعلان کریں۔ دیگر اسلامی ممالک میں بھی حماس کا دفتر کھولا جائے۔ اپوزیشن و دیگر حکمران پارٹیاں بھی حماس اور اہل غزہ کی حمایت کریں اور کھل کر امریکا و اسرائیل کی مذمت کریں، عمران خان بلاشبہ سیاسی قیدی ہیں، ان کی بھی ذمے داری ہے کہ وہ جیل سے دیگر اعلانات کی طرح حماس کی حمایت اور امریکا و اسرائیل کی مذمت کریں۔ اسرائیل کے نام کی کوئی بھی چیز ہے وہ مقبوضہ فلسطین ہے، پاکستان کا قومی موقف وہی ہے جو بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے اختیار کیا تھا کہ اسرائیل ایک ناجائز ریاست جسے کسی صورت تسلیم نہیں کیا جائے گا۔ حکمران امریکی غلامی اختیار اور امریکا و اسرائیل سے قربت پیدا نہ کریں، اسرائیل کو تسلیم کرنے یا ابراہم ایکارڈ کی طرف جانے کی جس نے بھی کوشش کی عوام اس کا ناطقہ بند کردیں گے۔ حماس کی بصیرت، بصارت، مزاحمت، جد وجہد قربانیوں اور سفارتی کوششوں کو بھی سلام پیش کرتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ غزہ ملین مارچ میں حافظ نعیم الرحمن نے جن خیالات کا اظہار کیا وہ نہ صرف پوری امت مسلمہ بلکہ خود فلسطینی عوام کے احساسات و جذبات کا بھی ترجمان ہے، انہوں نے اپنے خطاب میں پیش آمدہ صورتحال پر تفصیلی روشنی ڈالی ہے، ایک جانب جہاں انہوں نے فلسطین کے درینہ موقف کا اعادہ کیا، حکومت اور اپوزیشن کے کردار پر تنقید کی وہیں انہوں نے اس لائن آف ایکشن کا بھی ذکر کیا جس سے انحراف سنگین مضمرات کا حامل ہوسکتا ہے۔ 7 اکتوبر 2023 کے بعد سے غزہ میں جس طرح بے گناہ فلسطینیوں کے خون سے ہولی کھیلی جاری ہے اور جس بڑے پیمانے پر انسانی حقوق کی پامالی جارہی ہے تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی، اب تک 67 ہزار افراد شہید اور ایک لاکھ ستر ہزار سے زائد افراد زخمی کیے جاچکے ہیں، غزہ پر مسلسل بمباری کے نتیجے میں پورا شہر ملبے کے ڈھیر میں تبدیل ہوچکا ہے، بائیس لاکھ نفوس پر مشتمل آبادی کو جبری طور پر نقل مکانی پر مجبور کیا جارہا ہے، غزہ کی ناکہ بندی کی وجہ سے قحط کی سی صورتحال پیدا ہوگئی ہے، اقوام متحدہ، ہیومن رائٹس واچ اور ایمنسٹی انٹرنیشنل جیسی تنظیمیں کھل کر کہہ رہی ہیں کہ اسرائیل غزہ میں جنگی جرائم کا مرتکب ہورہا ہے اقوام متحدہ کی کمیشن آف انکوائری بھی اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ غزہ میں نسل کشی کی جارہی ہے۔ اقوامِ متحدہ اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے اس صورتحال پر اسرائیل پر پابندی عاید کرنے کا مطالبہ کیا ہے جبکہ عالمی عدالت ِ انصاف نے صہیونی رہنماؤں کے خلاف وارنٹ جاری کیے ہیں، مگر اس کے باوجود غزہ میں اسرائیلی درندگی کا کھیل جاری ہے اور بد قسمتی سے امریکا مسلسل اسرائیل کی حمایت اور سرپرستی کر رہا ہے۔ غزہ امن پلان کے تحت ایک ایسے منصوبے پر کام کیا جارہا ہے جو فلسطینی عوام کی خواہشوں اور دیرینہ مطالبات کے برعکس ہیں، غزہ میں قیام امن کے لیے ڈونلڈ ٹرمپ اپنے منصوبے کو عرب اور اسلامی دنیا کے لیے امن کا عظیم منصوبہ قرار دے رہے ہیں ساتھ ہی ان کی دھمکیاں بھی جاری ہیں، کہتے ہیں کہ غزہ کا کنٹرول نہ چھوڑا تو حماس کو صفحہ ہستی سے مٹادیں گے جب کہ بن یامین نیتن یاہو نے بھی عندیہ دیا ہے کہ اگر حماس نے جنگ بندی معاہدے کو قبول نہ کیا تو غزہ میں اسرائیلی فوجی کارروائیاں مزید تیز کر دی جائیں گی، جب کہ حماس نے اس منصوبے کے کچھ نکات کو قبول کرنے کا عندیہ بھی دیا ہے۔ اس ساری صورتحال میں انتہائی ہوشیاری اور چابکدستی کے ساتھ فلسطینیوں کے اصل بیانیے کو پس ِ پشت ڈال دیا گیا ہے اور ایسے حالات پیدا کردیے گئے ہیں کہ کسی طرح دنیا فلسطین پر اسرائیل کے غاصبانہ قبضے کو تسلیم کرلے۔ مگر حقیقت وہی ہے جس کا اظہار جماعت اسلامی کے امیر نے کیا ہے کہ اسرائیل کا فلسطین پر قبضہ ناجائز ہے، دو ریاستی فارمولا فلسطین کے مسئلے کا حل نہیں، فلسطینیوں کو حق ِ خود ارادیت دیے بغیر مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ ٹرمپ کے امن منصوبے کو کسی بھی طور نہتے فلسطینیوں کے امنگوں کا ترجمان قرار نہیں دیا جاسکتا، مذکورہ امن معاہدے میں فلسطینیوں سے مزاحمت کا حق بھی چھیننے کی کوشش کی گئی ہے تاکہ خطے میں اسرائیل کو مکمل طور پر کھل کھیلنے کا موقع مل جائے۔ یہ امر کسی سے پوشیدہ نہیں کہ غزہ میں امن کے نام پر جو منصوبہ پیش کیا گیا ہے وہ حقیقی امن کے قیام کے لیے نہیں بلکہ امن کے نوبل انعام کی خواہش کی تکمیل اور اسرائیل کو مکمل طور پر تحفظ فراہم کرنے کی کوشش ہے، اگر امریکی صدر ٹرمپ خطے میں حقیقتاً امن کے قیام کے خواہش مند ہوتے تو غزہ میں جنگ بندی کے حوالے سے سلامتی کونسل میں پیش کی جانے والی قرارداد کی مخالفت نہ کرتے، اگر امریکا ویٹو نہ کرتا تو اب تک غزہ میں امن قائم ہوچکا ہوتا۔ اب تو ڈونلڈ ٹرمپ یہ بات کھل کر کہہ رہے ہیں کہ غزہ میں جارحیت کی وجہ سے اسرائیل پوری دنیا میں اپنی حمایت کھو چکا ہے، غزہ امن منصوبہ اسرائیل کا کھویا ہوا اعتماد بحال کردے گا۔ المیہ یہ ہے کہ امریکا اور اسرائیل مل کر شیطانی چال چل رہے ہیں مگر اس باب میں مسلم حکمران مسئلہ فلسطین کے دیرینہ موقف پر ڈٹے رہنے اور فلسطینی عوام کا مقدمہ لڑنے کے بجائے جارح قوتوں کی ہاں میں ہاں ملا رہے ہیں، جو سراسر عاقبت نا اندیشی اور اصولی موقف سے انحراف ہے۔ گزشتہ دنوں اقوامِ متحدہ میں دو ریاستی حل کی قرارداد کی منظوری کے بعد کئی ممالک نے فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا بھی اعلان کیا جسے نہ امریکا نے تسلیم کیا اور نہ ہی اسرائیل نے حالانکہ دو ریاستی حل بھی فلسطین کے مسئلے کا حل نہیں بلکہ یہ فلسطین کا مسئلہ ہمیشہ کے لیے دفن کرنے کی ایک مذموم کوشش ہے۔ خوش آئند امر یہ ہے کہ امریکا کے بیس نکاتی امن فامولے پر غور کے لیے مصر کے شہر شرم الشیخ میں حماس اور ثالثوں کے درمیان مذاکرات کا آغاز ہوگیا ہے جس پر سفارتی حلقے جنگ بندی کے حوالے سے پر امید ہیں تاہم اس حقیقت سے کسی طور صرفِ نظر نہیں کیا جاسکتا کہ غزہ سے اسرائیلی افواج کے مکمل انخلا، فوری جنگ بندی اور ناکہ بندی کے خاتمے کے اعلان کے بغیر امن کی کوئی کوشش بارآور ثابت نہیں ہوسکتی، مزاحمتی قوتوں پر جنگ بندی کے لیے یک طرفہ شرائط عاید کرنا خطے میں قیام ِ امن کو بھیانک خواب بنادے گا۔

اداریہ

متعلقہ مضامین

  • برطانیہ کے ساتھ تعلقات کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں، محسن نقوی
  • سعودی پاکستان معاہدہ
  • زنجیر غلامی نامنظور!
  • غزہ کا منظر نامہ اور ملین مارچ
  • پاکستان برطانیہ کے ساتھ دیرینہ تعلقات کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے، محسن نقوی
  • پاکستان پر میلی نگاہ ڈالنے والے کو پہلے سے شدید جواب ملے گا: احسن اقبال
  • غزہ میں صحافیوں کا قتل، سچائی کا قتل ہے!
  • پاکستان پر میلی نگاہ ڈالنے والوں کو پہلے سے زیادہ شدید جواب ملے گا، احسن اقبال
  • یہ بربریت آخرکب تک؟