اسرائیلی حراست: فلوٹیلا کارکنوں کے ساتھ ظلم و ستم اور تضحیک آمیز رویے کا انکشاف
اشاعت کی تاریخ: 7th, October 2025 GMT
فلوٹیلا صمود میں شامل مزید 29کارکنوں کوڈی پورٹ کردیاگیا، اسرائیلی وزیرخارجہ نے کہاکہ اب تک 450 سےزائدگرفتار شدہ کارکنوں میں سے 170کو ڈی پورٹ کردیا گیا ہے۔
عالمی خبررساں اداروں کے مطابق اسرائیل سے ڈی پورٹ ہونے کے بعد وطن واپس پہنچنے پر امدادی کارکنوں نے اسرائیلی حراست میں ظلم و ستم کے انکشافات کردیے۔
امدادی کارکنوں نے اٹلی واپسی پر کہا کہ اسرائیلی فوج اور پولیس نے انہیں ہراساں کیا جبکہ ادویات سے بھی محروم رکھاگیا۔
اطالوی کارکن سیزیر توفانی نے روم پہنچ کر بتایا کہ ‘ہمارے ساتھ بہت برا سلوک کیا گیا،فوج کے بعد اسرائیلی پولیس کے ہاتھوں بھی ہراسانی کا سامنا کرنا پڑا’۔
اٹلی میں اسلامی کمیونٹیز یونین کے صدر نے کہا کہ ‘ہمارے ساتھ پرتشدد رویہ اپنایا گیا اور ہم پر بندوقیں تانی گئیں۔
ایک اور فلوٹیلا کارکن نے بتایا کہ اسرائیلی فوج نے پہلے اُن کے دونوں ہاتھ باندھے جس کے بعد 6 گھنٹے تک برفیلے کمرے میں رکھا، اور صحافی ہونے کی وجہ سے ان کے ساتھ اور بھی سخت رویہ اپنایا گیا۔
اطالوی صحافی ساویریو توماسی نے بتایا کہ قید کے دوران کارکنوں کی تضحیک کی گئی، حالانکہ ان میں عالمی ماحولیاتی کارکن گریٹا تھنبرگ، نیلسن منڈیلا کے پوتے اور یورپی پارلیمنٹ کے ارکان بھی شامل تھے۔
ایک اور اطالوی صحافی لورینزو ڈی آگوسٹینو نے انکشاف کیا کہ اسرائیلی حکام نے ان کا سامان اور رقم ضبط کر لی۔
یاد رہے کہ غزہ کے لیے امداد لے جانے والے گلوبل صمود فلوٹیلا کے 450 سے زائد امدادی کارکنوں کو اسرائیلی بحریہ نے گرفتار کیا تھا۔
.
ذریعہ: Al Qamar Online
پڑھیں:
گریٹاتھنبرگ سمیت فلوٹیلا کے مزید 171 ارکان ڈی پورٹ ،مشتاق احمد شامل نہیں
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251007-01-13
مقبوضہ بیت القدس(مانیٹرنگ ڈیسک) اسرائیلی حکومت نے غزہ تک امداد لے جانے والے گلوبل صمود فلوٹیلا سے گرفتار کیے گئے مزید 171 اراکین کو ڈی پورٹ کردیا۔اسرائیلی بحریہ نے اس فلوٹیلا کو بین الاقوامی پانیوں میں روک کر اس پر موجود افراد کو حراست میں لیا تھا۔اسرائیلی وزارت خارجہ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ ملک بدر کیے گئے افراد کو یونان اور سلوواکیہ بھیج دیا گیا ہے۔فلوٹیلا کے جن کارکنوں کو ڈی پورٹ کیا گیا ہے ان کا تعلق یونان، اٹلی، فرانس، آئرلینڈ، سویڈن، پولینڈ، جرمنی، بلغاریہ، لیتھوانیا، آسٹریا، لکسمبرگ، فن لینڈ، ڈنمارک، سلوواکیہ، سوئٹزرلینڈ، ناروے، برطانیہ، سربیا اور امریکا سے ہے۔پاکستان کے سابق سینیٹر مشتاق احمد خان بھی اس فلوٹیلا کا حصہ تھے جو تاحال اسرائیلی حراست میں ہیں۔اس سے قبل اسرائیلی حکومت نے فلوٹیلا کے 450 سے زاید گرفتار ارکان میں سے 170 کو ڈی پورٹ کیا تھا۔ اسرائیل سے ڈی پورٹ ہونے کے بعد وطن واپس پہنچنے پر امدادی کارکنوں نے اسرائیلی حراست میں ظلم و ستم کے انکشافات کیے۔امدادی کارکنوں نے اٹلی واپسی پر کہا کہ اسرائیلی فوج اور پولیس نے انہیں ہراساں کیا جب کہ ادویات سے بھی محروم رکھاگیا۔ سویڈن کی ماحولیاتی کارکن گریٹا تھنبرگ سمیت گلوبل صمود فلوٹیلا سے گرفتار کیے گئے درجنوں کارکنان اسرائیلی جیل سے رہائی کے بعد یونان پہنچنے پر ائرپورٹ پر فلسطین کے حامی افراد نے ان کا پرجوش استقبال کیا۔ایتھنز پہنچنے کے بعد گریٹا تھنبرگ نے کہا کہ ہم پر جو ظلم ہوا اس کے بارے میں بہت تفصیل سے بات کر سکتی ہوں لیکن یہ اہم بات نہیں ہے‘۔انہوں نے کہا کہ ’اسرائیل، جو اس وقت نسل کْشی کے ارادے سے ایک پوری قوم کو مٹانے کی کوشش کر رہا ہے، اس نے ایک بار پھر بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے انسانی امداد کو غزہ تک پہنچنے سے روکا ہے جبکہ غزہ میں لوگ بھوک سے مر رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ بین الاقوامی ادارے فلسطینیوں کو دھوکا دے رہے ہیں اور وہ جنگی جرائم کو روکنے میں مکمل طور پر ناکام ہو چکے ہیں۔گریٹا تھنبرگ کے مطابق ہم نے ‘گلوبل صمود فلوٹیلا’ کے ذریعے وہ ذمے داری پوری کرنے کی کوشش کی جو ہماری حکومتیں انجام دینے میں ناکام رہیں۔سوئٹزرلینڈ واپس پہنچنے والے 9 کارکنوں نے الزام لگایا کہ اسرائیلی حراست میں انہیں نیند سے محروم رکھا گیا، پانی اور خوراک نہیں دی گئی اور بعض کو مارا پیٹا گیا اور پنجروں میں بند کیا گیا۔اس سے قبل ہسپانوی کارکنوں نے بھی ملک واپسی پر اسرائیلی فوج کی جانب سے بدسلوکی کے الزامات عائد کیے، وکیل رافائیل بورریگو نے میڈرڈ ائیرپورٹ پر صحافیوں کو بتایا کہ ’انہوں نے ہمیں مارا، زمین پر گھسیٹا، آنکھوں پر پٹیاں باندھیں، ہاتھ پاؤں باندھے، پنجروں میں رکھا اور گالیاں دیں۔ سویڈش کارکنوں نے کہا کہ گریٹا تھنبرگ کو زبردستی اسرائیلی پرچم اٹھانے پر مجبور کیا گیا جبکہ دیگر کو صاف پانی اور کھانے سے محروم رکھا گیا اور ان کی دوائیں اور ذاتی سامان ضبط کرلیا گیا۔