بنگلہ دیش کو پاکستان اور بھارت سے کیسا تعلق رکھنا چاہیے؟ کارکنوں نے اپنی جماعتوں کو بے نقاب کردیا
اشاعت کی تاریخ: 13th, October 2025 GMT
حال ہی میں سامنے آنے والے ایک سروے نے بنگلہ دیش کی خارجہ پالیسی سے متعلق عوامی رائے میں موجود انتہائی سیاسی و نظریاتی تقسیم کو واضح کر دیا ہے۔
سروے کے مطابق، حکمران جماعت عوامی لیگ (اے ایل) اور اپوزیشن جماعتوں کے حامیوں کے درمیان بھارت اور پاکستان سے تعلقات پر رائے تقریباً ایک دوسرے کی ضد ہے۔
اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ کسی سیاسی جماعت کا بھارت یا پاکستان کے بارے میں مؤقف دراصل اس کے ووٹر بیس کے جذبات کی عکاسی کرتا ہے۔
بھارت سے تعلقات کے بارے میں رجحانسروے کے مطابق، عوامی لیگ کے 88 فیصد حامیوں کا ماننا ہے کہ بنگلہ دیش کو بھارت کے ساتھ تعلقات مزید بہتر بنانے چاہییں۔
اس کے برعکس، اپوزیشن جماعتوں کے ووٹرز میں اس حوالے سے ملا جلا رجحان پایا گیا۔
یہ بھی پڑھیے کیا بنگلہ دیش کی ’تحریک انصاف‘ کامیاب ہو پائے گی؟
بی این پی (BNP) کے 68 فیصد حامی بہتر تعلقات کے حامی ہیں، جبکہ 19 فیصد سمجھتے ہیں کہ بنگلہ دیش کو بھارت سے فاصلہ بڑھانا چاہیے۔
جماعتِ اسلامی کے 23 فیصد اور جاتیا پارٹی کے 27 فیصد ووٹرز بھارت سے فاصلے کے قائل ہیں۔
اس کے مقابلے میں، عوامی لیگ کے صرف 4 فیصد ووٹرز بھارت سے دوری کے حامی ہیں۔
پاکستان کے حوالے سے نقطۂ نظرپاکستان کے معاملے میں سیاسی ترجیحات بالکل الٹ جاتی ہیں۔
سروے سے ظاہر ہوتا ہے کہ اپوزیشن جماعتوں کے ووٹرز پاکستان کے ساتھ بہتر تعلقات کے سب سے زیادہ خواہاں ہیں۔
اسلامی আন্দোলন بنگلہ دیش (IAB) کے 83 فیصد،
جماعتِ اسلامی (JIB) کے 81 فیصد،
اور بی این پی کے 79 فیصد ووٹرز نے پاکستان سے تعلقات بہتر بنانے کی خواہش ظاہر کی۔
دوسری جانب، عوامی لیگ کے ووٹرز اس معاملے پر منقسم ہیں۔
صرف 51 فیصد پاکستان کے ساتھ تعلقات میں بہتری چاہتے ہیں،
جبکہ 30 فیصد کا کہنا ہے کہ بنگلہ دیش کو پاکستان سے فاصلہ بڑھانا چاہیے۔
یہ وہ مؤقف ہے جو بی این پی اور جماعتِ اسلامی کے صرف 5 سے 7 فیصد ووٹرز میں پایا گیا۔
سروے کے نتائج اس امر کو مزید واضح کرتے ہیں کہ بنگلہ دیشی سیاست میں ایک گہری نظریاتی لکیر موجود ہے۔
عوامی لیگ کا بھارت نواز مؤقف 1971 کی جنگِ آزادی کے تاریخی پس منظر سے جڑا ہے، جس میں بھارت نے بنگلہ دیش کی حمایت کی تھی۔
یہ بھی پڑھیے بنگلہ دیشی ووٹرز کس جماعت کو برسراقتدار لانا چاہتے ہیں؟ رائے عامہ کا جائزہ سامنے آگیا
اس کے برعکس، بی این پی اور اس کے اتحادی خصوصاً مذہبی و قوم پرست جماعتیں بھارتی اثر و رسوخ پر شکوک و شبہات رکھتی ہیں اور تاریخی طور پر پاکستان سے بہتر تعلقات کے حامی رہی ہیں۔
سروے کے تجزیے کے مطابق، بنگلہ دیش کی سیاسی جماعتوں کے ووٹرز کے درمیان بھارت اور پاکستان کے حوالے سے مؤقف میں واضح نظریاتی تفریق پائی جاتی ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
بنگلہ دیش.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: بنگلہ دیش بنگلہ دیش کی کہ بنگلہ دیش بنگلہ دیش کو پاکستان کے پاکستان سے جماعتوں کے فیصد ووٹرز تعلقات کے عوامی لیگ بی این پی کے ووٹرز بھارت سے کے حامی سروے کے
پڑھیں:
اوگرا کا قیمتوں میں کمی کا دعویٰ بے نقاب، صارفین کیلیے گیس مزید مہنگی کر دی
اسلام آباد:اوگرا کے اعلامیے میں گیس کی قیمتوں میں کمی کے دعوے کی حقیقت سامنے آگئی ہے۔ ادارے نے مجموعی طور پر گیس کی قیمتوں میں کمی نہیں بلکہ اضافے کی منظوری دی ہے۔
دستاویزات کے مطابق اوگرا نے رواں مالی سال کے لیے گیس کی قیمتوں میں 7.14 فیصد تک اضافہ منظور کیا ہے۔
سوئی سدرن کے لیے گیس کی قیمت میں 118 روپے 47 پیسے فی ایم ایم بی ٹی یو اضافہ کیا گیا ہے، جس کے بعد مجموعی قیمت 1777 روپے 02 پیسے فی ایم ایم بی ٹی یو تک پہنچ جائے گی۔ یہ اضافہ 7.14 فیصد بنتا ہے۔
اسی طرح سوئی ناردرن کے لیے 4.89 فیصد اضافہ منظور کیا گیا ہے، جو 86 روپے 30 پیسے فی ایم ایم بی ٹی یو بنتا ہے۔
نئی قیمت بڑھ کر 1852 روپے 80 پیسے فی ایم ایم بی ٹی یو مقرر کی گئی ہے۔
اوگرا نے سابقہ شارٹ فال میں گیس کمپنیوں کے لیے 60 ارب 88 کروڑ روپے کی ایڈجسٹمنٹ کی بھی اجازت دی ہے۔
واضح رہے کہ اس سے قبل اوگرا نے گیس کی قیمتوں میں اوسطاً 8 فیصد کمی کا دعویٰ کرتے ہوئے میڈیا کو اعلامیہ جاری کیا تھا،
تاہم اصل اعدادوشمار کے مطابق صارفین کے لیے ریلیف کے بجائے بوجھ میں مزید اضافہ ہو رہا ہے۔