پاکستان سے انڈوں کی برآمدات میں اضافہ، امریکا بھی فہرست میں شامل
اشاعت کی تاریخ: 23rd, October 2025 GMT
کراچی:
پاکستان سے انڈوں کی برآمدات میں زبردست اضافے کا رحجان غالب ہوگیا، پہلی بار امریکا کو بھی انڈوں کی برآمدات شروع ہوگئی ہے۔
محمکہ قرنطینہ حیوانیات کے مطابق مجموعی طور پر امریکا کے لیے انڈوں کی برآمدات میں 23لاکھ 70ہزار ڈالر تک پہنچ گئی ہے، رواں مالی سال میں پاکستان سے انڈوں کی ایکسپورٹ میں زبردست اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔
پاکستان سے متحدہ عرب امارات، بحرین، ہانگ کانگ، کویت، قطر، صومالیہ، افغانستان سمیت دیگر ممالک میں انڈے برآمد کیے جاتے ہیں۔
مالی سال 25-2024 میں متحدہ عرب امارات کو 17لاکھ 23ہزار ڈالر، ہانگ کانگ کو 5لاکھ 44ہزار ڈالر، بحرین کو 32لاکھ 950 ڈالر، کویت کو 31لاکھ 654 ڈالر، صومالیہ کو 2لاکھ 41ہزار ڈالر اور افغانستان کو 10لاکھ 70ہزار ڈالر رہی۔
پاکستان سے مائع شکل میں بھی انڈے برآمد کیے گئے ہیں۔
مالی سال 25-2024 میں 1169 میٹرک ٹن انڈے مائع شکل میں بھیجے گئے، مائع شکل میں برآمد ہونے والے انڈوں کی مالیت 26 لاکھ 12 ہزار 930 ڈالر رہی ہے۔
بحرین، مصر، کویت، عمان، قطر، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارت میں انڈے مائع کی صورت میں برآمد کیے جاتے ہیں۔
پاکستان سے مالی سال 25-2024 میں 18لاکھ 25ہزار ڈالر کے انڈے برآمد کیے گئے جبکہ مالی سال 24-2023 میں انڈوں کی ایکسپورٹ 14لاکھ ڈالر تھی۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: انڈوں کی برا مدات پاکستان سے مالی سال
پڑھیں:
پاکستانی قوم پر امریکا اور جرنیلوں کی غلامی کے اثرات
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اکثر لوگ ’’غلامی‘‘ کو صرف ایک سیاسی مسئلہ سمجھتے ہیں۔ بلاشبہ غلامی ایک سیاسی مسئلہ بھی ہے لیکن جمالیاتی سطح پر دیکھا جائے تو غلامی ایک ’’بدصورتی‘‘ ہے۔ اسی لیے اقبال نے جمالیات کے پیمانے سے غلامی کا تجزیہ کرتے ہوئے کیا شاندار نکتے بیان کیے ہیں۔ اقبال نے کہا ہے۔
غلامی کیا ہے ذوقِ حُسن و زیبائی سے محرومی
جیسے زیبا کہیں آزاد بندے ہے وہی زیبا
غلاموں کی بصیرت پر بھروسا کر نہیں سکتے
کہ دنیا میں فقط مردانِ حُر کی آنکھ ہے بینا
اقبال کہہ رہے ہیں کہ ’’غلامی‘‘ اپنی اصل میں ’’ذوقِ حُسن‘‘ اور ’’زیبائی‘‘ سے محرومی کا نام ہے۔ چنانچہ خوبصورت چیز صرف وہی ہے جسے آزاد انسان خوبصورت قرار دے۔ رہے ’’غلام‘‘ تو ہم ان کی بصیرت پر بھروسا نہیں کرسکتے کیونکہ اس دنیا میں صرف آزاد انسان کی آنکھ ہی دیکھنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ رہے غلام تو وہ سب کے سب ’’نابینا‘‘ ہوتے ہیں۔
اقبال کی فکر ’’مجردّ‘‘ نہیں ہے۔ ان کی شاعرانہ فکر کی پشت پر پورا اسلام کھڑا ہے۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ قرآن پاک ’’جمال پسندی‘‘ سے بھرا ہوا ہے۔ فرق یہ ہے کہ کہیں خدا نے اپنی بات کہنے کے لیے ’’حُسن‘‘ اور اس کے اشتقاقات کو استعمال کیا ہے۔ کہیں ’’جمال‘‘ اور اس کے اشتقاقات سے کام لیا ہے اور کہیں لفظ ’’زینت‘‘ اور اس کے اشتقاقات سے استفادہ کیا ہے۔ ذرا قرآن پاک کی چند آیات کا ترجمہ تو ملاحظہ کیجیے۔
(1) ہم نے آسمان کو ستاروں کی زینت سے مزیّن کیا ہے۔ (6-37)
(2) اے فرزندانِ آدم ہر نماز کے وقت اپنی زینت اختیار کرلیا کرو۔
(3) چوپایوں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا ’’تمہارے لیے ان کے اندر شام کو لوٹاتے وقت اور صبح کو لے جاتے وقت ایک جمال ہوتا ہے‘‘۔ (6-16)
(4) بنی اسرائیل کو گائے ذبح کرنے کا حکم دیا تو گائے کی جمالیاتی خوبی بھی بیان کی۔ فرمایا: ’’ایسی گائے جو بھڑکدار زرد ہو اور دیکھنے والوں کو بھلی لگے‘‘۔ (69-2)
(5) خدا نے اپنی مخلوقات سے متعلق فرمایا: ’’جس نے اپنی پیدا کردہ ہر شے کو حُسن بخشا‘‘۔ (7-12)
(6) انسان کی صورت گری کے متعلق خدا نے فرمایا: ’’تمہاری صورت گری کی تو حسین صورتیں بخشیں‘‘۔ (3-64)
(7) انسان کے آخری ٹھکانے کے متعلق فرمایا: ’’اللہ کے یہاں جو ٹھکانہ ہے اس میں بھی حُسن ہے‘‘۔
رسول اکرمؐ کا ذوقِ جمال اس قدر نازک تھا کہ ذوقِ سلیم کے خلاف کوئی شے حضور کو گوارانہ تھی۔ وفات سے تھوڑی دیر پہلے بھی حضور نے مسواک فرمائی۔ اس وقت حضور اتنے کمزور تھے کہ خود مسواک نہ چبا سکتے تھے۔ چنانچہ سیدہ عائشہؓ نے چبا کر دی۔ رسول اکرمؐ جب کہیں کوئی ایسی چیز دیکھتے جو عمدگی، سلیقے، صفائی اور ذوق جمال کے خلاف ہوتی تو وہیں اس کی اصلاح فرمادیتے۔
ترمذی کی ایک حدیث کے مطابق رسول اکرمؐ نے فرمایا اللہ تعالیٰ خود پاکیزہ ہے اور پاکیزگی کو پسند فرماتا ہے۔ ستھرا ہے اور ستھرائی کو عزیز رکھتا ہے۔ لہٰذا تم اپنے گھروں کے صحن کو صاف ستھرا رکھو اور یہود کی مشابہت سے بچو۔
امام مالک عطا بن طیار سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریمؐ مسجد میں جلوہ افروز تھے کہ ایک شخص داخل ہوا۔ اس کے بال پریشان اور ڈاڑھی الجھی ہوئی تھی۔ حضورؐ نے اشارے سے حکم دیا کہ اپنے بال اور ڈاڑھی ٹھیک کرو۔ اس نے حکم کی تعمیل کی اور واپس چلا گیا۔ حضورؐ نے فرمایا بکھرے بال لے کر آنا؟ جیسے شیطان چلا آرہا ہو۔
ابو دائود اور ترمذی سیدہ عائشہؓ سے روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرمؐ نے گھروں یا محلّوں میں مسجد تعمیر کرنے، اس میں صفائی رکھنے اور انہیں خوشبو میں بسائے رکھنے کا حکم دیا۔
سیدنا انس کی ایک مشہور روایت کے مطابق رسول اکرمؐ نے فرمایا اس دنیا میں مجھے بیویوں اور خوشبو سے بڑی محبت ہے۔
ان حقائق کا اسلامی جمہوریۂ پاکستان سے گہرا تعلق ہے۔ پاکستان اسلام کے نام پر بنا تھا اور اسلام جمالِ الٰہی کا سب سے بڑا مظہر ہے۔ چنانچہ پاکستان کو بھی جمالِ الٰہی کے مظہر سے ہم آہنگ ہونا چاہیے تھا۔ لیکن ہمارے جرنیلوں
اور ان کے پیدا کردہ سیاست دانوں نے پاکستان کو امریکا کی غلامی میں دے دیا اور اور جیسا کہ قرآن و حدیث اور فکر اقبال سے ثابت ہے ہر غلامی ایک بدصورتی ہے۔ اس کے معنی یہ ہوئے کے پاکستان کے جرنیلوں اور ان کے پیدا کردہ سیاست دانوں نے پاکستان کو شعوری طور پر بدصورت بنایا۔ جنرل ایوب خان نے مارشل لا تو 1958ء میں لگایا مگر وہ 1954ء سے امریکا کے ساتھ خفیہ خط و کتابت کررہے تھے۔ وہ امریکا سے کہہ رہے تھے کہ پاکستان کے سیاستدان نااہل ہیں وہ پاکستان کو تباہ کردیں گے اور فوج ہرگز ایسا نہیں ہونے دے گی۔ یہ اپنے گھر کے پوتڑے امریکا کے سامنے دھونے کا عمل غلامی کی نفسیات کا حاصل تھا۔ یعنی جنرل ایوب خود ایک ’’بدباطن‘‘ اور ’’بدصورت‘‘ شخص تھے۔ جنرل ایوب نے 1958ء میں پہلا مارشل لا قوم پر مسلط کیا۔ مارشل لا کے لیے قرآن و حدیث یا سیرت طیبہ سے کوئی سند نہیں لائی جاسکتی۔ مارشل لا خلافت راشدہ کے تجربے سے بھی ہم آہنگ نہیں ہے۔ یہاں تک بادشاہت کا ادارہ بھی اس لیے مارشل لا لگانے والے جرنیلوں سے برتر ہے کہ بادشاہ اسی ریاست پر حکومت کرتے تھے جو انہوں سے جنگ لڑ کر دشمنوں سے حاصل کی ہوتی تھی۔ یا جو ریاست بادشاہ کو ’’وراثت‘‘ میں ملی ہوتی تھی مگر پاکستان کے جرنیلوں نے پاکستان جنگ کرکے انگریزوں یا ہندوئوں سے حاصل نہیں کیا تھا، نہ جرنیلوں کے باپ نے پاکستان ورثے کے طور پر چھوڑا تھا، نہ ہی جرنیلوں کی بیویوں کو پاکستان جہیز میں ملا تھا کہ جرنیل اسے شیرمادر کی طرح ہڑپ کرکے بیٹھ جائیں۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو وہ جنرل ایوب، جنرل یحییٰ، جنرل ضیا الحق اور جنرل پرویز مشرف کا ’’اعلانیہ مارشل لا‘‘ ہو یا جنرل اسلم بیگ، جنرل عبدالوحید کاکڑ، جنرل باجوہ اور جنرل عاصم منیر کا ’’غیر اعلانیہ‘‘ مارشل لا یہ سب مارشل لا ’’بدصورت‘‘ ہیں۔ یہ مارشل لا حسن، جمال اور زینت کی ضد ہیں۔
پاکستان کے جرنیل ہوں یا ان کے پیدا کردہ سیاست دان سب مغرب کے دیوانے ہیں۔ ان کا بس نہیں چلتا کہ وہ خود کو مغرب کی قربان گاہ پر قربان کردیں۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو ’’جمہوریت‘‘ مغربی تہذیب کا ’’حُسن‘‘ ہے۔ اس کا ’’جمال‘‘ ہے اس کی ’’زینت‘‘ ہے۔ چنانچہ ہمارے جرنیلوں اور ان کے پیدا کردہ سیاست دانوں کو جمہوریت سے عشق ہونا چاہیے تھا لیکن بدقسمتی سے ہمارے جرنیلوں اور ان کے پیدا کردہ سیاست دانوں نے پورے جمہوری نظام کو پاکستان کی ایک بہت ہی بڑی ’’بدصورتی‘‘ بنادیا ہے۔ جرنیل جب چاہتے ہیں جمہوریت پر شب خون مار کر اس کی عزت پامال کردیتے ہیں۔ جرنیل مارشل لا نہ بھی لگائیں تو بھی وہ جمہوری نظام کی طرح طرح سے بے حرمتی کرتے رہتے ہیں۔ جنرل ایوب نے صدارتی انتخابات دھاندلی سے جیتا، جنرل ضیا الحق نے ریفرنڈم کرایا جس میں پانچ فی صد سے بھی کم ووٹ پڑے مگر جنرل ضیا الحق ’’بھاری اکثریت‘‘ سے فاتح قرار پا گئے۔ جنرل پرویز مشرف نے بھی ریفرنڈم کرایا اس میں دو فی صد لوگوں نے ووٹ ڈالے مگر جنرل پرویز بھی ’’بھاری اکثریت‘‘ سے کامیاب ہوگئے۔ جنرل عاصم منیر نے 2024ء کے انتخابات کرائے ان انتخابات میں تحریک انصاف سے اس کا انتخابی نشان چھین لیا گیا۔ اس کے باوجود بھی تحریک انصاف نے انتخابات میں دو تہائی اکثریت حاصل کرلی لیکن فارم 47 کے ذریعے تحریک انصاف کو ہرا دیا گیا اور پنجاب میں نواز لیگ کو جتا دیا گیا۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو جرنیلوں اور ان کے پیدا کردہ سیاست دانوں کی جمہوریت پاکستان کی ایک بہت ہی بڑی ’’بدصورتی‘‘ ہے۔ کیونکہ یہ جمہوریت جرنیلوں کی ’’غلامی‘‘ کی پیداوار ہے۔
آزاد قوموں کی معیشت بھی آزاد ہوتی ہے مگر ہمارے جرنیلوں اور ان کے پیدا کردہ سیاست دانوں نے ہماری معیشت کو آئی ایم ایف کا ’’غلام‘‘ بنایا ہوا ہے۔ آئی ایم ایف بتاتا ہے کہ بجٹ کیا ہوگا؟ کس طبقے پر کتنا ٹیکس لگے گا؟ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ ہوگا یا نہیں ہوگا تو کتنا؟ اس صورت حال نے ہماری معیشت کو قوم کی ایک اور بڑی ’’بدصورتی‘‘ بنا دیا ہے۔ اس لیے کہ یہ معیشت امریکا اور آئی ایم ایف کی مکمل غلامی پر کھڑی ہوئی ہے۔ آئیے اقبال کے اشعار ایک بار پھر پڑھتے ہیں۔
غلامی کیا ہے ذوقِ حُسن و زیبائی سے محرومی
جسے زیبا کہیں آزاد بندے ہے وہی زیبا
غلاموں کی بصیرت پر بھروسا کر نہیں سکتے
کہ دنیا میں فقط مردانِ حُر کی آنکھ ہے بینا