آغا سراج درانی کی بیٹی کی پاکستان واپسی کی درخواست منظور، عدالت میں پیش ہونے کا حکم
اشاعت کی تاریخ: 28th, November 2025 GMT
سندھ ہائیکورٹ کے آئینی بینچ نے سابق اسپیکر سندھ اسمبلی آغا سراج درانی مرحوم کی صاحبزادی کی پاکستان واپسی کی درخواست پر ان کی 20 روزہ حفاظتی ضمانت منظور کرتے ہوئے متعلقہ عدالت میں پیش ہونے کی ہدایت کردی۔
سماعت جسٹس یوسف علی سعید اور جسٹس عبد المبین لاکھو پر مشتمل آئینی بینچ کے روبرو ہوئی۔ نیب اور سرکاری وکلاء نے درخواست کی مخالفت کی، تاہم عدالت نے استفسار کیا کہ کیا کوئی نہیں چاہتا کہ درخواست گزار پاکستان واپس آئے۔ جسٹس یوسف علی سعید نے کہا کہ پاکستان آنے پر انہیں احتساب عدالت میں پیش ہونا ہوگا، اور عدالت قانون کے مطابق کارروائی کرے گی۔
درخواست گزار کے وکیل عامر رضا نقوی نے بتایا کہ ہائیکورٹس ضابطہ فوجداری کی دفعہ 561 کے تحت آئین کے آرٹیکل 199 کے اختیارات استعمال کرتی ہیں، جس سے آئینی بینچ کو بنیادی حقوق کے ساتھ ساتھ ریگولر بینچ کے اختیارات بھی حاصل ہیں۔
جسٹس عبد المبین لاکھو نے ریمارکس دیے کہ درخواست گزار کے ٹکٹ کی تفصیلات پیش نہیں کی گئیں، جس پر وکیل نے کہا کہ درخواست گزار امریکہ میں ہیں اور متعلقہ عدالت میں پیش ہونے کے لیے 8 سے 10 ہفتوں کی مہلت چاہیے۔ عدالت نے کہا کہ اتنی طویل مہلت نہیں دی جا سکتی، اور درخواست گزار کو کچھ تیاری کے بعد آنا ہوگا۔
آخرکار، آئینی بینچ نے صنم درانی کے لیے 20 یوم کی حفاظتی ضمانت منظور کی اور ہدایت دی کہ وہ متعلقہ عدالت میں پیش ہوں۔
ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: عدالت میں پیش درخواست گزار
پڑھیں:
انکم ٹیکس کیسز: سندھ ہائیکورٹ کا حکم کالعدم قرار
—فائل فوٹووفاقی آئینی عدالت نے انکم ٹیکس کیسز میں نجی بینک کی درخواست منظور کرتے ہوئے سندھ ہائی کورٹ کا حکم کالعدم قرار دے دیا۔
انکم ٹیکس کیسز میں سندھ ہائی کورٹ کے آئینی بینچ کے اسٹے آرڈر کے خلاف درخواست پر سماعت جسٹس عامر فاروق کی سربراہی میں 2 رکنی بینچ نے کی۔
دوران سماعت نجی بینک کے وکیل فیصل صدیقی نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ میرے کیس میں ہائی کورٹ کے آئینی بینچ کے پاس کسی آرڈر کا دائرہ اختیار نہیں تھا، پہلے سپریم کورٹ کے پاس آئینی مقدمات آتے تو کوئی الگ طریقہ کار نہیں تھا۔
وفاقی آئینی عدالت کی جانب سے چاروں صوبوں میں رجسٹریاں قائم کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
جسٹس عامر فاروق نے وکیل سے استفسار کیا کہ آپ کا کیس آئینی بینچ کے پاس تھا، جب یہ آرڈر پاس ہوا تب 26ویں آئینی ترمیم نافذ العمل تھی، آئینی بینچ ریگولر مقدمات بھی سنتا تھا، جب قانون بنا تو واضح ہوگیا کہ آئینی مقدمات آئینی بینچ میں جائیں گے، دوسرے کیسز ریگولر بینچ میں جانے چاہیے تھے۔
جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ جب ایک الگ نظام بن گیا تو اس کا کوئی نہ کوئی مقصد تو ہوگا، دائرہ اختیار سے باہر فیصلہ غیر قانونی ہوتا ہے۔