ڈونلڈ ٹرمپ کے امریکی صدر بننے کے بعد یقینا پوری دنیا میں اس بات پر بحث ہو رہی ہے کہ ٹرمپ مختلف امور پر کیا پالیسی اپناتے ہیں لیکن پاکستان میں اس حوالے سے ایک ہی نکتے پر بات ہو رہی ہے کہ وہ عمران خان کے متعلق کیا ایگزیکٹو آرڈر جاری کریں گے ۔ اس پر بات کریں گے لیکن پہلے بانی پی ٹی آئی اور امریکن صدر ڈونلڈ ٹرمپ میں جن باتوں میں زبردست مماثلت پائی جاتی ہے ان پر چند گذارشات ۔ جس دن سے ٹرمپ نے عہدہ صدارت کا حلف اٹھایا ہے بلکہ جس دن سے ان کی جماعت ریبلکن نے انھیں صدارتی امیدوار نامزد کیا ہے اس دن سے وہ دنیا بھر کے میڈیا کی خبروں میں لیڈ سٹوری کی شکل آ رہے ہیں ۔ عمران خان کو بھی خبروں میں رہنا آتا ہے اور گرفتار ہونے سے پہلے تو میڈیا میں آنے کے شوق میں عمران خان یو ٹیوبر بن گئے تھے اور ہر روز وہ یو ٹیوب کے ذریعے قوم سے خطاب کر کے اپنے وزیر اعظم ہونے کا شوق پورا کرتے تھے ۔ ڈولڈ ٹرمپ کو بھی میڈیا میں رہنا اور بیانیہ بنانا آتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ جب وہ عہدہ صدارت پر نہیں رہے اس دوران بھی وہ خبروں میں رہے ۔ یہی حال بانی پی آئی کا ہے کہ انھیں اور ان کے حامی سوشل میڈیا کو بیانیہ بنانے کے فن میں کمال حاصل ہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ ٹرمپ میں ایک تیسرا وصف یہ بھی ہے کہ انھوں نے جو بائیڈن سے اپنی شکست کو کبھی تسلیم نہیں کیا اور جس دن سے وہ عہدہ صدارت سے فارغ ہوئے تو اس کے بعد وہ اکثر احتجاج کی حالت میں ہی رہے اور یہی بات ہم عمران خان کے حوالے سے کہہ بھی سکتے ہیں بلکہ وہ ان سے ایک قدم مزید آگے ہیں کہ انھوں نے تو جو بائیڈن سے اپنی شکست کو تسلیم نہیں کیا اور یہ کام عمران خان نے 2013اور2024دونوں انتخابات کے نتائج کے حوالے سے کیا اور ٹرمپ نے اگر احتجاج کے نام پر کیپٹل ہل پر حملہ کیا اور اس کے سینکڑوں حامیوں کو اس پر سزا ہوئی تو 2013کے الیکشن کے بعد 35پنکچرز کو لے کر عمران خان نے اسلام آباد میں 126دن کا دھرنا دیا اور اس دوران انھوں نے پارلیمنٹ ہائوس اور پی ٹی وی کی عمارات پر حملے کئے لیکن وہ کہتے ہیں کہ ’’ سیاں بھئے کوتوال اب ڈر کاہے کا ‘‘ اس وقت ایمپائر اپنا تھا اس لئے کچھ نہ ہو سکا ۔ اس کے بعد کیپٹل ہل کی طرح 9مئی کیا گیا اور جس طرح ٹرمپ کے ساتھیوں کو سزائیں ہوئیں اسی طرح تحریک انصاف کے کارکنوں کو بھی سزائیں ہوئیں لیکن عمران خان کو اس کیس میں ابھی سزا نہیں ہوئی ۔ ایک اور حیرت انگیز مماثلت یہ بھی ہے کہ ٹرمپ کی بھی تین شادیاں ہیں اور عمران خان نے بھی تین شادیاں کی ہیں ۔ اس کے علاوہ ٹرمپ اور عمران خان میں ایک اور زبردست مماثلت یہ بھی ہے کہ دونوں اپنے مخالفین کو ڈرا دھمکا کر خوف زدہ کر کے بات منوانے کی کوشش کرتے ہیں اور ان کا بھی اسٹبلشمنٹ کے ساتھ اسی طرح چھتیس کا آنکڑہ تھا کہ جس طرح عمران خان کا ہے لیکن وہ 78سال کی عمر میں تمام تر مخالفت کے باوجودبھی الیکشن جیت کر دوسری بار صدر بن چکے ہیں لیکن بانی پی ٹی آئی دوسری بار وزیر اعظم بنتے ہیں یا نہیں اس پر فی الحال ایک بڑا سوالیہ نشان ہے ۔
ہمیں حیرت اس بات پر ہے کہ کل تک جو لوگ ’’ ہم کوئی غلام ہیں ‘‘ اور ’’ایبسلوٹلی ناٹ ‘‘ جیسے سلوگن کے ا سٹکر بنا کر اپنی گاڑیوں پر لگائے پھر رہے تھے اب اگر آپ ان کے وی لاگ دیکھیں اور ٹرمپ کا نام آتے ہی ان کے لہجہ میں شرینی شہد جیسی مٹھاس اور چہرے پر فخریہ جذبات کے ساتھ خوشی اور مسکراہٹ کا تال میل اور وہ ٹرمپ کے حالیہ اقدامات کو ایسے بیان کر رہے ہیں کہ جیسے ٹرمپ نے امریکا میں مقیم غیر قانونی تارکین وطن کو نکالنے کا اعلان نہیں کیا بلکہ پاکستان میں دہشت گردوں کے خاتمے کا اعلان کیا ہے ۔ کولمبین تارکین وطن کے جہاز کی واپسی اور پھر ٹرمپ کی دھمکی کے بعد کولمبین حکام کا ان تارکین وطن کے لئے دوبارہ جہاز بھجوانا ۔ اس بات کو بیان کرتے ہوئے یقین کریں کہ خوشی چھپائے نہیں چھپ رہی اور قارئین سوچ رہے ہوں گے کہ اگر وہ خوش ہو رہے ہیں تو انھیں خوش ہونے دیں ہم بلا وجہ ان سے کیوں ان کی خوشی سے جل بھن کر کوئلہ ہو رہے ہیں تو عرض ہے کہ وہ سب اس سے بھی زیادہ خوشی کا اظہار کریں لیکن پھر ’’ ہم کوئی غلام ہیں ‘‘ کا کیا بنے گا لیکن اصل بات یہ ہے کہ یہ سب کچھ بتاتے ہوئے جو طنزیہ مسکراہٹیںوہ در حقیقت میرے وطن پاکستان کے متعلق ہیں کہ پاکستانیوں تم جو مرضی کر لو لیکن دیکھنا جس دن ٹرمپ نے ٹیلیفون اٹھا کر ایک کال کر دی تو اس دن سب کچھ چھوڑ کر بانی پی ٹی آئی کو رہا کرنا پڑے گا ۔
اس طرح کی سوچ کا چورن بیچنے والوں کو اس بات کا علم نہیں کہ اول تو پاکستان افریقہ کی کوئی ریاست نہیں ہے اور دوسرا کافی عرصے سے پاکستان اب امریکا پر اتنا زیادہ انحصار نہیں کرتا جیسا کہ ماضی میں کیا کرتا تھا اور ٹرمپ ہو یا کوئی اور امریکی صدر وہ کبھی پاکستان پر اس حد تک دبائو نہیں ڈالے گا کہ وہ امریکا سے کٹ کر مکمل طور پر چین اور روس کے بلاک کا حصہ بن جائے ۔ اس کے علاوہ ٹرمپ اس وقت یورپ سمیت دنیا کے دیگر ممالک کو جو دھمکیاں دے رہے ہیں تو وہ بھی اس حد تک نہیں ہوں گی کہ وہ بھی امریکا سے ہٹ کر چین اور روس کی طرف دیکھنا شروع کر دیں اور پھر خود امریکا کے اندر ٹرمپ کے لئے مشکلات سر اٹھا رہی ہیں اور امریکا کے بیشتر سرمایہ دار اس بات کا ارادہ رکھتے ہیں کہ جب تک ٹرمپ صدر ہیں وہ اپنا سرمایہ امریکا کی بجائے بیرون امریکا کاروبار میں لگائیں گے اور اگر ایسا ہوا کہ جس کی اطلاعات ہیں تو یہ امریکن معیشت کے لئے کوئی اچھا شگون نہیں ہو گا ۔ اس سارے منظر نامہ میں ہمیں نہیں لگتا کہ بانی پی ٹی آئی کی رہائی کے لئے امریکن صدر اس حد تک دبائو ڈالیں گے کہ جو پاکستان کے لئے مشکلات کا باعث بن سکے ۔
ذریعہ: Nai Baat
کلیدی لفظ: بانی پی ٹی ا ئی رہے ہیں کے ساتھ کیا اور ٹرمپ کے کے بعد ہیں تو ہیں کہ اس بات ہے اور کے لئے
پڑھیں:
کییف پر حملوں کے بعد ٹرمپ کی پوٹن پر تنقید
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 25 اپریل 2025ء) امریکی صدر ٹرمپ نے روسی صدر ولادیمیر پوٹن پر تنقید کرتے ہوئے ٹروتھ سوشل پر اپنی ایک پوسٹ میں لکھا، "یہ ضروری نہیں تھا، اور بہت برے وقت ہوا۔ ولادیمیر، رک جاؤ۔" انہوں نے مزید کہا، "کییف پر ہونے والے روسی حملوں سے میں خوش نہیں ہوں۔"
انہوں نے روسی صدر پر جنگ بند کرنے اور معاہدہ کرنے کے لیے زور دیتے ہوئے کہا، "ایک ہفتے میں 5000 فوجی مر رہے ہیں۔
چلو امن کے لیے معاہدہ کرتے ہیں۔"ٹرمپ کا یہ بیان یوکرین کے خلاف ماسکو کی جارحیت کی مسلسل کارروائیوں کے درمیان امریکی صدر پوٹن کے لیے ایک نادر سرزنش کی نمائندگی کرتا ہے۔
ان کا یہ بیان کییف پر روسی میزائلوں کے حملے کے بعد آیا ہے، جس میں کم از کم 12 افراد ہلاک اور 70 سے زائد زخمی ہوئے۔
(جاری ہے)
گزشتہ برس جولائی کے بعد سے یہ دارالحکومت کییف پر سب سے مہلک حملہ تھا۔
یوکرین جنگ: زیلنسکی امن معاہدے میں رخنہ ڈال رہے ہیں، ٹرمپ
ٹرمپ نے ماسکو کی 'بڑی رعایت' پر روس کی تعریف کیامریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ یوکرین پر مکمل طور پر قبضہ نہ کرنے کے لیے روس کی رضامندی ماسکو کی طرف سے "بہت بڑی رعایت" کی نمائندگی کرتی ہے۔
ٹرمپ نے یہ تبصرہ ناروے کے وزیر اعظم جوناس گہر سٹور سے ملاقات کے دوران اس وقت کیا جب ان سے ایک رپورٹرنے سوال کیا کہ روس نے امن معاہدے تک پہنچنے کی پیشکش کے لیے کیا مراعات پیش کی ہیں۔
'ایسٹر جنگ بندی' ختم، یوکرین امن کوششوں کا اب کیا ہو گا؟
امریکی صدر نے کہا، "پورے ملک کو لینے سے رک جانا ہی بہت بڑی رعایت ہے۔" ٹرمپ نے مزید کہا کہ وہ امن معاہدے کے امکان کے بارے میں پراعتماد ہیں۔ انہوں نے کہا کہ "ہم روس پر بہت زیادہ دباؤ ڈال رہے ہیں اور روس یہ جانتا ہے۔"
روس امن معاہدہ چاہتا ہے یہ جنگ کو جاری رکھنا؟یوکرین کے وزیر خارجہ اندری سیبیہا کا کہنا ہے کہ روس کے مسلسل حملے یہ ظاہر کرتے ہیں کہ کریملن امریکی قیادت میں امن کی کوششوں کے باوجود اپنے حملے کو جاری رکھنا چاہتا ہے۔
تاہم روس کے وزیر خارجہ سرگئی لاوروف نے کہا ہے کہ یوکرین میں جنگ کے خاتمے کے لیے امریکہ اور روس کے درمیان بات چیت "صحیح سمت میں آگے بڑھ رہی ہے۔"
یوکرین اور روس میں رواں ہفتے ہی معاہدے کی امید، ٹرمپ
جمعرات کے روز امریکی نشریاتی ادارے سی بی ایس نیوز کے ساتھ ایک انٹرویو کے دوران بات کرتے ہوئے لاوروف نے کہا کہ ماسکو معاہدہ کرنے کے لیے تیار ہے۔
روس کے اعلیٰ سفارت کار نے انٹرویو کے دوران کہا، "لیکن ابھی بھی کچھ مخصوص نکات ہیں، اس معاہدے کے عناصر جن کو ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے۔" اسے اتوار کو مکمل طور پر نشر کیے جانے کی توقع ہے۔
لاوروف نے کہا کہ ماسکو اس بات سے مطمئن ہے کہ بات چیت کس طرح آگے بڑھ رہی ہے کیونکہ "صدر ٹرمپ شاید زمین پر واحد رہنما ہیں، جنہوں نے اس صورتحال کی بنیادی وجوہات کو حل کرنے کی ضرورت کو تسلیم کیا ہے۔
"روس عارضی جنگ بندی کا جھوٹا تاثر پیش کر رہا ہے، زیلنسکی
کییف پر روسی حملہ زمینی کارروائی کے لیےیوکرین کے صدر وولودیمیر زیلنسکی نے کہا ہے کہ روس نے زمینی دراندازی میں اضافے کے لیے راتوں رات بڑے پیمانے پر فضائی حملے کرنے کی کوشش کی ہے۔
یوکرین کے اعلیٰ فوجی کمانڈر اولیکسینڈر سیرسکی کی ایک رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے زیلنسکی نے کہا کہ البتہ زمینی حملوں کو کامیابی سے پسپا کر دیا گیا ہے۔
زیلنسکی نے ٹیلی گرام پر کہا، "روسیوں نے اپنے زبردست فضائی حملے کی آڑ میں زمینی حملے کی کارروائیوں کو تیار کرنے کی کوشش کی۔"
ان کا مزید کہنا تھا، "جب ہماری افواج کی زیادہ سے زیادہ توجہ میزائلوں اور ڈرونز کے خلاف دفاع پر مرکوز تھی، تو روسیوں نے اپنے زمینی حملوں کو نمایاں طور پر تیز کر دیا۔ تاہم روسیوں کو اس کا مناسب جواب ملا۔"
اس دوران ملک کے دوسرے بڑے شہر خارکیف سمیت پورے یوکرین میں میزائل اور ڈرون حملوں کی بھی اطلاعات ہیں۔
ص ز/ ج ا (نیوز ایجنسیاں)