Express News:
2025-06-13@10:40:32 GMT

دنیا سے مقابلہ!

اشاعت کی تاریخ: 19th, February 2025 GMT

چیف منسٹر پنجاب بلاشبہ دوسرے تمام وزرائے اعلیٰ سے زیادہ متحرّک ہیں۔ ان کے کئی نئے پروجیکٹ اچھے ہیں اور کئی بہت اچھے ہیں۔ ناجائز اور غیر قانونی تجاوزات ختم کرنا نہایت احسن اقدام ہے اور اس کی تعریف وتوصیف کی جانی چاہیے۔ چند روز پہلے وزیراعلیٰ نے وزیرِ تعلیم کو ہدایت کی ہے کہ اسکولوں میں طلبا وطالبات کے لیے انگریزی میں بات چیت (conversation) کی کلاسیں شروع کی جائیں۔

اسی تقریر میں انھوں نے اس کی افادیّت بتاتے ہوئے کہا کہ ’’دنیا سے مقابلہ کرنے کے لیے آپ کو انگریزی میں مہارت حاصل کرنا ہوگی‘‘۔ بے شک وہ دنیا بھر میں جاتی رہتی ہیں۔ انھوں نے باہر کے تعلیمی اداروں سے تعلیم بھی حاصل کی ہے، اس لیے وہ انگریزی بولنے کی اصل قدروقیمت سے بخوبی آگاہ ہیں۔ مگر ہمارے ہاں انگریزی بولنے کی جو اہمیّت سمجھی جاتی ہے، وہ حقیقت سے کہیں زیادہ ہے۔

 دنیا سے مقابلے کے لیے دو چیزوں کی ضرورت ہے۔ علم اور ہنر۔ یعنی knowledge and skills۔ اگر ہمارے نوجوانوں کے پاس اپنے خاص شعبے کا علم بھی ہو اور مہارت بھی، تو ان کی دنیا بھر میں پذیرائی ہوگی، پھر انگریزی میں عدمِ مہارت ان کا راستہ نہیں روک سکتی۔ ہمارے ڈاکٹروں نے امریکا اور یورپ میں اپنا لوہا منوایا ہے۔ انھوں نے اپنی انگریزی بول چال کی بنا پر نہیں بلکہ علم اور مہارت کی بنا پر قدرومنزلت حاصل کی ہے۔

میں کئی پاکستانی سرجن حضرات کو جانتا ہوں جو زیادہ روانی سے انگریزی نہیں بول سکتے مگر اپنے شعبے میں مہارت کی بنا پر انھیں وہاں ہاتھوں ہاتھ لیا جاتا ہے۔ اگر کوئی پاکستانی نوجوان فرفر انگریزی بولتا ہے مگر وہ اچھا مکینک نہیں ہے تو اسے اس کی کمپنی نوکری سے نکال دے گی۔ دوسری طرف ایک اچھا پلمبر اگر انگریزی میں زیادہ مہارت نہیں رکھتا مگر اپنے کام کا ماہر ہے تو اسے اچھی سے اچھی نوکری ملے گی اور اس کی کمزور انگریزی اس کے روشن مستقبل کے راستے کی رکاوٹ نہیں بن سکے گی۔

کچھ عرصہ پہلے تک میں خود بھی یہی سمجھتا تھا کہ ترقی کرنے کے لیے انگریزی میں مہارت ضروری ہے مگر یورپ گھوم پھر کر دیکھا تو آنکھیں کھل گئیں۔ انگریزوں کے ہمسایہ ملک فرانس نے انگریزی کے بغیر ترقّی کا ہر زینہ طے کیا اوربہت سے شعبوں میں برطانیہ سے آگے نکل گیا۔ پھر جرمنی گیا تو انگریزی کی پامالی اور بے توقیری دیکھ کر مزید حیران اور پریشان ہوا۔ جرمنی انگریزی زبان کے بغیر، سب کو پچھاڑتا ہوا آگے نکل گیا اور آج وہ پورے یورپ کا چوہدری ہے جب کہ آپ کو وہاں کوئی سائن بورڈ انگریزی میں نہیں ملے گا۔

یہ بات پاکستانیوں کے لیے انتہائی حیران کن ہوگی اور وہ پوچھیں گے کہ جرمن انگریزی نہیں بول سکتے تو پھر ترقّی یافتہ کیسے ہو گئے؟ دراصل ہمارا ترقّی اور قابلیّت کا معیار وہی ہے جو ایک غلام قوم کا ہوتا ہے، ہم روانی سے انگریزی بولنے والے کو اسکالر سمجھ بیٹھتے ہیں اور انگریزی نہ بولنے والے جینوئن اسکالر کو کم پڑھا لکھّا سمجھتے ہیں۔

جاپان کو دیکھ لیجیے، وہ بھی مکمّل بربادی کے بعد انگریزی کی سیڑھی استعمال کیے بغیر دنیا کی معاشی سپر پاور بن گیا اور اب ہماری آنکھوں کے سامنے چین پورے یورپ بلکہ پوری دنیا کو روندتا ہوا آگے نکل گیا ہے۔ کیا انھوں نے اسکولوں میں انگریزی پڑھا کر ترقّی حاصل کی ہے؟ جواب ہے بالکل نہیں۔ انگریزی کی اہمیّت سے انکار نہیں، مگر چونکہ انگریزی اور انگریزوں سے مرعوبیّت ہمارے رگ وپے میں رچ بس گئی ہے اس لیے ہمارے ذہنوں میں انگریزی کی اہمیّت اس کی اصل قدروقیمت سے کئی گنا بڑھ کر ہے۔

 قومی زبان کی جو توہین ہمارے ملک میں ہورہی ہے وہ دنیا کے کسی اور ملک میں نہیں ہوتی۔ یہ بھی ہمارا شدید قسم کا احساسِ کمتری ہے کہ ہم آج بھی اپنی قومی زبان کوکمتر اور قابض ملک کی زبان کو برتر سمجھتے ہیں۔ پنجابی ہو یا سندھی، پشتو ہو یا سرائیکی یا بلوچی کسی علاقائی زبان کی اہمیّت، قومی زبان جیسی نہیں ہوسکتی کیونکہ ان میں کوئی بھی تمام صوبوں اور علاقوں کے لیے رابطے کی زبان نہیں ہے۔ رابطے کی زبان یا تمام صوبوں کی زنجیر صرف اور صرف اردو ہے۔ اپنی زبان کی تحقیر کرنے والے اور غیروں کی زبان اور کلچر سے مرعوب ہونے والے دنیا کا کبھی مقابلہ نہیں کرسکتے۔

دنیا کا مقابلہ اپنی زبان اور اپنے کلچر پر فخر کرنے والے ہی کرسکتے ہیں۔ اور دنیا میں عزّت بھی غیروں سے مرعوب نہ ہونے والوں ہی کی ہوتی ہے۔ وزیراعظم میاں شہباز شریف ،سابق وزیراعظم، نواز شریف، سابق وزیراعظم بینظیر بھٹو اور عمران خان بھی یو این او کی جنرل اسمبلی میں انگریزی میں تقریریں کرتے رہے ہیں مگر ترکی کے خوددار لیڈر طیّب اردوان جنرل اسمبلی سے ہمیشہ ترکی زبان میں خطاب کرتے ہیں، پاکستانی سفیروں سے معلوم کرلیا جائے کہ عالمی سطح کے لیڈر اور ترقی یافتہ ممالک میں انگریزی بولنے والے پاکستانی لیڈروں کی زیادہ عزت کی جاتی ہے یا انگریزی کو مسترد کرکے اپنی قومی زبان میں تقریر کرنے والے طیّب اردوان کا زیادہ احترام کیا جاتا ہے۔

دنیا میں اپنی زبانوں میں تقریریں کرنے والے خوددار افریقی اور لاطینی امریکا کے راہنماؤں کی قدر ہم سے کہیں زیادہ ہے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ احساسِ کمتری کا شکار ہونے والوں کو صرف استعمال کیا جاتا ہے ان کی عزّت نہیں کی جاتی۔ اِس وقت بھی ہمارے اسکولوں اور کالجوں میں جس قدر انگریزی پڑھائی جارہی ہے اس سے ہمارے لوگ بیرونِ ملک جا کر اپنا مافی الضمیر بہت اچھی طرح بیان کرسکتے ہیں۔

نئی نسل اپنی قومی زبان سے ناآشنا ہورہی ہے، وہ نہ اردو پڑھ سکتی ہے اور نہ لکھ سکتی ہے۔ اپنی قومی زبان سے ناآشنا نسل کیا پاکستانی قوم بن کر رہے گی؟ اس میں پاکستانیت کس قدر ہوگی؟ اس کی اپنی مسلم تہذیب، اپنی اقدار اور اپنے ملک سے کس قدر وابستگی ہوگی؟ اپنے عظیم ہیروز اور ان کے کارناموں سے ناواقفیّت کی بناء پر ان میں کیا چیز احساسِ تفاخر پیدا کرے گی؟ موجودہ حکومت سے تو یہ توقّع تھی کہ اردوکو دفتری اور عدالتی زبان بنانے کا اعلان کرے گی ، انگلش میڈیم اسکولوں میں اعلیٰ معیار کی اردو پڑھانے اور مقابلے کے امتحانوں میں اردو کے پرچے لازمی قرار دے گی کیونکہ نئی نسل کا اردو سے رشتہ ٹوٹ گیا تو ملک سے رشتہ بھی کمزور ہوجائے گا۔ ڈکٹیٹر مشرّف نے تعلیمی نصاب سے کس قدر قیمتی مواد نکلوادیا تھا۔ اس میں مفکّرِ پاکستان علامہ اقبالؒ کا کلام بھی تھا۔ ہمارے عظیم شہیدوں کے حالاتِ زندگی بھی تھے اور ہمارے عظیم ملّی اور قومی راہنماؤں کے بارے میں لکھے گئے مضامین بھی تھے، فوری طور پر وہ نصاب میں شامل کروائے جائیں۔

حکمران یقیناً جانتے ہوں گے کہ اردو ہمارے لیے کتنی اہم ہے۔ ہمارا تمام تر دینی، ملّی،تاریخی ادبی اور ثقافتی ورثہ اردو زبان میں ہے۔ اگر نوجوان اردو سے نابلد ہوگئے تو وہ میرؔ اور غالبؔ کی شاعری کی نزاکتوں اور لطافتوں سے ناآشنا رہیں گے، وہ فیضؔ اور فرازؔ کی غزلوں میںجھلکنے والی محبّت کی حدّت اور حلاوت سے نابلد رہیں گے۔

وہ احمد ندیم قاسمی، افتخار عارف، انور مسعود، مشتاق یوسفی، ضمیر جعفری، عطاء الحق قاسمی امجد اسلام اور اظہارالحق جیسے شاعروں اور ادیبوں سے ناواقف رہیں گے۔ اردو نہ پڑھ سکنے والے نہ نسیم حجازی کا کوئی ناول پڑھ سکیں گے نہ عبداللہ حسین کے ناول ’اداس نسلیں‘ سے اور نہ قراۃالعین کی لازوال تخلیق ’آگ کا دریا‘ سے اور نہ مختار مسعود کی "آوازِ دوست" سے واقف ہوں گے۔

وہ اشفاق احمد اور بانو قدسیہ کو جانتے ہی نہیں ہوں گے اور پھر وہ جدید مسلم تاریخ کے سب سے بڑے شاعر، مفکّر اور تصوّرِ پاکستان کے خالق حضرت علامہ اقبالؒ کی حیات آفرین شاعری سے بھی بالکل ناواقف ہوں گے۔ تو پھر ان کا پاکستان کے ساتھ کس طرح کا تعلق ہوگا کہ اقبالؒ، قائداعظمؒ اور پاکستان تو ایسی مثلّث ہے جس کے معنی ایک ہی ہیں۔ اور پھر سب سے بڑھ کر یہ کہ کلامِ الٰہی کو سمجھنے کے لیے اردو سے ناآشنا نسل نہ مولانا مودودیؒ کی تفسیر سے راہنمائی لے سکے گی نہ ڈاکٹر اسرار احمدؒ سے۔ وہ نہ ہی مولانا امین احسن اصلاحیؒ، جاوید غامدی اور بیسیوں دوسرے جیّد اسکالرز کی تحریریں پڑھ کر کتابِ حق کا اصل پیغام سمجھ سکے گی۔ ادب، شعر، فلسفہ، تاریخ اور مذہب پر اردو میں لکھی گئی ہزارہا کتابوں سے وہ لاعلم رہے گی لہٰذا لارڈ میکالے کے بقول "ایسی نسل شکل سے تو ہندوستانی (یا پاکستانی) ہوگی مگر اس کی سوچ پاکستانی قطعاً نہیں رہے گی" کیا قومیں اس طرح ترقی کرتی ہیں؟ ترقّی تو دور کی بات ہے اس طرح تو قومیں بنتی ہی نہیں ہیں!! دنیا کا مقابلہ کس طرح کرنا ہے اور اس کے لیے کس چیز سے مسلّح ہونے کی ضرورت ہے یہ جاننے کے لیے دانائے راز اقبالؒ سے راہنمائی حاصل کریں۔

انھوں نے کہا تھا یقیں محکم، عمل پیہم، محبت فاتحِ عالم۔ اپنے نظرئیے اور عقیدے پر غیر متزلزل ایمان اور اس کے بعد جہدِ مسلسل۔ ایسی محنتِ پیہم جس میں رات کے چراغ کے ساتھ خونِ جگر بھی جلایا جاتا ہے کیونکہ اس کے بغیر نغمے خام اور نقش ناتمام رہتے ہیں۔ آپ نے اسکولوں میں کیریکٹر بلڈنگ کی بات کی ہے جو قابلِ ستائش ہے۔ نوجوانوں کو بتایا جائے کہ کیریکٹر میں سب سے اہم خوبی ایمانداری ہے اور خودداری ہے۔ انھیں رزقِ حلال پر قناعت کرنے، ہر حال میں سچ بولنے، قانون کا احترام کرنے، منشیات اور جرائم سے نفرت کرنے اور سادہ طرزِ زندگی اپنانے کی تربیّت دینے کی ضرورت ہے، تقریر اور لیکچر اپنی جگہ مگر نوجوان متاثر اپنے لیڈروں کا عمل دیکھ کر ہی ہوں گے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: اپنی قومی زبان انگریزی بولنے اسکولوں میں انگریزی کی سے ناا شنا کرنے والے انھوں نے کے لیے ا کی زبان جاتا ہے اور اس ہے اور اہمی ت ہوں گے

پڑھیں:

کوششوں کے باوجود دنیا سے بچہ مزدوری کا مکمل خاتمہ نہیں ہوسکا، رپورٹ

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 11 جون 2025ء) بارہ سالہ ٹیناساؤ مشرقی مڈغاسکر کی ایک کان میں دن بھر رینگ کر دو کلو گرام چمک دار معدن مائیکا جمع کرتی ہیں۔ وہ ٹانگوں سے معذور ہونے کے باعث چل پھر نہیں سکتیں۔ مائیکا سے انہیں جو اجرت ملتی ہے اس سے ان کا گھرانہ روزانہ کھانے کا بندوبست کرتا ہے۔

مڈغاسکر میں ٹیناساؤ جیسے 10 ہزار بچے مائیکا کی بے قاعدہ صنعت میں کام کرتے ہیں۔

یہ معدن رنگ و روغن، کاروں کے پرزوں اور جسمانی آرائش کے کام میں استعمال ہوتی ہے۔ Tweet URL

ان میں بہت سے بچے اپنے والدین اور دادا دادیوں کے ساتھ خطرناک حالات میں کام کرتے ہیں۔

(جاری ہے)

مائیکا جمع کرتے ہوئے گرد کے نقصان دہ ذرات سانس کے ذریعے ان کے منہ میں چلے جاتے ہیں جس سے صحت کو خطرہ لاحق ہوتا ہے۔ ان میں کئی بچے ایسے ہیں جو پہلے تعلیم حاصل کرتے تھے لیکن جب انہیں اس کام پر مجبور ہونا پڑا تو ان کی پڑھائی چھوٹ گئی۔

ٹیناساؤ کے دادا بھی اسی کان میں کام کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ کام اب ان کے لیے آسان نہیں ہے لیکن اگر وہ اسے ترک کر دیں تو کھانا نہیں کھا پائیں گے۔

یہاں بقا کے لیے مردوخواتین اور بچوں سمیت سبھی کو کام کرنا پڑتا ہے۔

2015 میں اقوام متحدہ نے 2025 تک دنیا بھر سے بچہ مزدوری ختم کرنے کا ہدف مقرر کیا تھا لیکن عالمی ادارہ محنت (آئی ایل او) اور عالمی ادارہ برائے اطفال (یونیسف) کے مطابق، اس ہدف کے حصول کی جانب پیش رفت بہت سست ہے۔

دونوں اداروں کی ایک مشترکہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ تقریباً 138 ملین بچے اب بھی محنت مزدوری کرتے ہیں۔

تاہم، یہ تعداد 2020 کے مقابلے میں 12 ملین کم ہے۔

'آئی ایل او' کے ڈائریکٹر جنرل گلبرٹ ہونگ بو نے کہا ہے کہ اس رپورٹ کے نتائج امید افزا ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ پیش رفت ممکن ہے لیکن اس کے لیے یہ حقیقت یاد رکھنا ہو گی کہ ابھی بہت سا کام باقی ہے۔

مزدور بچوں کا خطرناک کام

یونیسف کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر کیتھرین رسل نے کہا ہے کہ 2000 کے بعد مزدور بچوں کی تعداد میں 100 ملین سے زیادہ کمی واقع ہوئی ہے۔

اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ دنیا کے پاس اس مسئلے پر قابو پانے کا خاکہ موجود ہے تاہم اس پر مزید کام ہونا چاہیے۔ بہت سے بچے کارخانوں، کھیتوں اور کانوں میں مشقت کرتے ہیں اور ان میں بیشتر کو اپنی بقا کے لیے خطرناک کام کرنا پڑتا ہے۔

'آئی ایل او' میں بچہ مزدوری کے مسئلے پر کام کرنے والے ماہر بنجمن سمتھ نے یو این نیوز کو بتایا کہ بچوں کا ہر کام بچہ مزدوری نہیں ہوتا بلکہ وہی کام اس ذیل میں آتا ہے جو بچوں کو ان کے بچپن سے محروم کر دے اور جس سے ان کی صحت و ترقی کو خطرہ ہو۔

دنیا بھر میں 54 ملین بچوں کو کان کنی سمیت خطرناک کام کرنا پڑتے ہیں۔ افریقی ملک بینن سے تعلق رکھنے والی 13 سالہ ہونورائن بھی انہی میں سے ایک ہیں۔ وہ تعمیراتی مقصد کے لیے کھودے گئے ایک وسیع گڑھے سے بجری نکالنے کا کام کرتی ہیں اور انہیں فی ٹوکری کے حساب سے اجرت ملتی ہے۔ وہ ہیئر ڈریسر بننا چاہتی ہیں اور اس مقصد کو لے کر رقم جمع کرتی رہتی ہیں۔

Shoaib Tariq بہت سے بچے اپنے والدین اور دادا دادیوں کے ساتھ خطرناک حالات میں کام کرتے ہیں۔

نسل در نسل مزدوری

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بچہ مزدوری نسل در نسل چلتی ہے۔ ایسے بچوں کو عام طور پر تعلیم تک رسائی میں مشکلات کا سامنا رہتا ہے جس کے باعث وہ مستقبل کے مواقع سے محروم ہو جاتے ہیں اور اس طرح غربت کے دائمی چکر میں پھنسے رہتے ہیں۔

'آئی ایل او' کے ماہر اور رپورٹ کے مرکزی مصںف فیڈریکو بلانکو نے کہا ہے کہ اس مسئلے کو محض شماریاتی طور پر دیکھنا درست نہیں ہو گا۔

اس سے متعلقہ ہر ہندسے کے پیچھے ایک بچہ ہے جوتعلیم، تحفظ اور باوقار مستقبل کا حق رکھتا ہے۔

بنگلہ دیش میں روہنگیا پناہ گزین کیمپ میں رہنے والی 13 سالہ نور کو ان کے والدین نے سکول سے اٹھا لیا تھا تاکہ وہ کوئی کام کر کے گھر چلانے میں مدد دیں۔ کیمپ کے قریب یونیسف کے ایک مرکز پر تعینات اہلکار نے انہیں کام کرتے دیکھا تو ان کے والدین سے بات کر کے انہیں دوبارہ سکول میں داخل کروایا۔

نور کا کہنا ہے کہ کبھی وہ استاد بننے کا خواب دیکھتی تھیں۔ تاہم جب انہیں سکول سے اٹھایا گیا تو انہوں نے سوچا کہ شاید اب وہ کبھی اپنا یہ خواب پورا نہیں کر سکیں گی۔ لیکن اب انہیں محسوس ہوتا ہے کہ ان کے لیے پڑھ لکھ کر استاد بننا ممکن ہے۔

کلی طریقہ کار کی ضرورت

یونیسف اور 'آئی ایل او'نے اس مسئلے کو تعلیمی، معاشی اور سماجی تناظر میں حل کرنے کے لیے حکومتوں کے تمام شعبوں کی جانب سے مربوط پالیسی اپنانے پر زور دیا ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بچہ مزدوری کا خاتمہ کرنے کی کوششوں میں ان حالات کو مدنظر رکھنا ضروری ہے جن کی وجہ سے والدین اپنے بچوں کو پڑھنے لکھنے کے بجائے کام پر بھیجتے ہیں۔

اس معاملے میں والدین کے لیے اجتماعی سودے بازی اور محفوظ کام کے حقوق بھی بہت اہم ہیں۔ سمتھ کا کہنا ہےکہ اگر بڑوں کو کام کے اچھے حالات میسر ہوں گے تو غربت میں کمی آئے گی جو لامحالہ بچہ مزدوری میں کمی پر منتج ہو گی۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ دنیا بھر کے خطوں میں مزدور بچوں کی تعداد میں کسی نہ کسی حد تک کمی ضرور آئی ہے۔ اس وقت ذیلی صحارا افریقہ کے ممالک میں اس مسئلے کی شدت دیگر جگہوں کے مقابلے میں زیادہ ہے جہاں دنیا کے دو تہائی بچہ مزدور پائے جاتے ہیں۔

© UNICEF/Shehzad Noorani دنیا بھر میں 54 ملین بچوں کو کان کنی سمیت خطرناک کام کرنا پڑتے ہیں۔

مشقت نہیں، تعلیم

کیتھریل رسل نے کہا ہے کہ امدادی وسائل کی قلت کے باعث بچہ مزدوری کے خاتمے کے لیے کڑی محنت سے حاصل ہونے والی کامیابیاں ضائع ہونےکا خدشہ ہے۔ سبھی کو یقینی بنانا ہو گا کہ بچے کام کی جگہوں کے بجائے کمرہ ہائے جماعت اور کھیل کے میدانوں میں ہوں۔

ایتھوپیا سے تعلق رکھنے والے 10 سالہ ایڈوارا تعلیم حاصل کرنے کا خواب دیکھتے ہیں لیکن انہیں مزدوری کرنا پڑتی ہے۔

چند سال قبل وہ پڑھائی بھی کرتے تھے لیکن مزدوری کی وجہ سے انہیں سکول سے چھٹیاں کرنا پڑتی تھیں۔ ایک روز ان کے استاد نے انہیں سکول سے نکال دیا۔ اب وہ سونے کی ایک کان میں کام کرتے ہیں جہاں انہیں روزانہ 35 ڈالر تک آمدنی ہوتی ہے۔ تاہم حصول تعلیم کے لیے ان کا عزم ماند نہیں پڑا۔ ان کا کہنا ہے کہ ایک روز وہ سکول جائیں گے اور کچھ بن کر دکھائیں گے۔

متعلقہ مضامین

  • ’’یادوں کا سفر‘‘ (پہلا حصہ)
  • مسلم دنیا کے حکمران اور مغرب کا خوف
  • لاہور: مبینہ پولیس مقابلہ، اپنے ساتھیوں کی فائرنگ سے 2 ملزمان ہلاک
  • امریکہ بھارت کو کان سے پکڑ کر بات چیت کیلئے لائے، دنیا کے مفاد میں ہو گا: بلاول
  • ہالانی اور بھریاسٹی میں پولیس مقابلہ ،2 ڈاکو زخمی حالت میں گرفتار
  • کوششوں کے باوجود دنیا سے بچہ مزدوری کا مکمل خاتمہ نہیں ہوسکا، رپورٹ
  • امریکا کو بھارت کو کان سے پکڑ کر بھی بات چیت تک لانا پڑے تو یہ دنیا کے مفاد میں ہوگا: بلاول
  • امریکہ کو بھارت کو کان سے پکڑ کر بھی بات چیت تک لانا پڑے تو یہ دنیا کے مفاد میں ہوگا، بلاول
  • سکردو، تحریک بیداری کے زیر اہتمام امام خمینی کی برسی کی تقریب
  • ابوظبی کے اسکولوں میں عربی زبان کی تعلیم لازمی قرار