Express News:
2025-07-05@10:29:13 GMT

قومی قیمتی وسائل کا زیاں کب تک؟

اشاعت کی تاریخ: 20th, February 2025 GMT

وفاقی حکومت نے کہا ہے کہ عوام کے قیمتی وسائل کا نقصان کرنے والے اداروں میں مزید زیاں کی اجازت نہیں دے گی۔ نجکاری میں تعطل قبول نہیں ہے۔موجودہ صورتحال میں لگتا ہے کہ قیمتی وسائل کا زیاں اور بعض اداروں کی نجکاری میں تاخیر حکومت کی مرضی اور اجازت سے ہو رہی ہے جس کی اب مزید اجازت نہیں دی جائے گی اور اب تک جو نقصان ہو چکا ہے وہ برداشت کر لیا جائے گا جو حکومت کی اجازت سے ہی ہوا ہوگا جس کا زیاں روکنے کا اب حکومت نے فیصلہ کر لیا ہے اور جن کی وجہ سے یہ نقصان ہوا انھیں کچھ کہا جائے گا نہ قومی نقصان کے ذمے داروں کے خلاف کوئی کارروائی ہوگی۔

متعلقہ اداروں کے ذمے دار قومی وسائل کو نقصان پہنچا چکے اس کی سزا متعلقہ اداروں کے ذمے داروں کو نہیں بلکہ عوام کو ہی بھگتنا پڑے گی کیونکہ ملک کو پہنچنے والے نقصانات کا خمیازہ اب تک عوام ہی بھگت رہے ہیں اور ان نقصانات کا زیاں مزید بھی عوام ہی بھگتیں گے اور قومی اداروں کو نقصانات پہنچانے والے محفوظ رہیں گے۔

ملک میں تین غیر سول ادوار کے علاوہ جوسول حکومتیں قائم ہوئیں، ان میں 1988 کے بعد مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی نے تین تین بار اور پاکستان مسلم لیگ جونیجو، مسلم لیگ قائد اعظم اور پی ٹی آئی کو ایک ایک بار حکومت کا موقعہ ملا مگر مسلم لیگ قائد اعظم نے پہلی بار اپنی اقتداری مدت پوری کی تھی۔

مسلم لیگ جونیجو جنرل ضیا الحق کے دور میں بنوائی گئی تھی مگر جنرل ضیا نے اختلافات کے باعث وقت سے پہلے جونیجو حکومت ختم اور اسمبلی توڑ دی تھی مگر جنرل پرویز نے اپنے اقتدار میں مسلم لیگ قائد اعظم نہ صرف بنوائی تھی بلکہ اس کی اسمبلی کی 5 سالہ مدت پوری بھی کرائی تھی اور (ق) لیگ کے پہلے وزیر اعظم ظفر اللہ جمالی کی کارکردگی سے غیر مطمئن ہو کر قومی اسمبلی نہیں توڑی تھی بلکہ غیر سیاسی وزیر اعظم شوکت عزیز سے (ق) لیگی حکومت کی مدت پوری کرائی تھی ، درمیان میں ڈیڑھ دو ماہ کے لیے چوہدری شجاعت کو بھی نگران وزیر اعظم بنایا گیا تھا اور (ق) لیگ کی 5 سالہ حکومت پر کرپشن کے اتنے الزامات نہیں تھے جتنے پیپلز پارٹی اور (ن) لیگ کی حکومتوں پر سویلین صدر غلام اسحاق خان اور سردار فاروق نے لگا کر (ن) لیگ کی دو اور پیپلز پارٹی کی دو حکومتیں کرپشن کے الزامات میں برطرف کی تھیں جب کہ 1999 میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت جنرل پرویز نے برطرف کی تھی اور یہ دونوں پارٹیاں اپنی اقتداری مدت پوری نہیں کر سکی تھیں۔ جنرل پرویز تو گیارہ سالوں میں دو دو بار حکومتوں کے وزیر اعظم بے نظیر بھٹو اور نواز شریف پر کرپشن کے الزامات لگاتے تھے اور انھوں نے دونوں سابقہ وزرائے اعظم کو نہ صرف جلا وطن ہونے پر مجبور کیا بلکہ وہ دونوں کی سیاست ختم نہیں کر سکے اور 2008میں پیپلز پارٹی اور 2013 میں مسلم لیگ کو تیسری بار عوام نے منتخب کیا تھا۔

مسلم لیگ (ن) کے برعکس پی پی کی دو بار کی حکومت میں مشہور تھا کہ پی پی کی حکومتوں میں پیسہ بھی ہوتا تھا اور روزگار بھی۔ 2007 میں پی پی کا نعرہ تھا کہ بے نظیر آئے گی روزگار لائے گی مگر مسلم لیگ (ن) کے دور میں ایسا نہیں تھا۔ پی پی کی حکومت لوگوں کو ملازمتیں دینے میں مشہور تھیں اور ہر سرکاری ادارے میں جگہ نہ ہونے کے باوجود اندھا دھند سرکاری بھرتیاں ہوتی تھیں۔ بے نظیر بھٹو کے بعد مسلم لیگ ن کے دور میں نئی ملازمتیں اپنوں کو کم ملیں اور پی پی حکومتوں میں بھرتی بے دریغ ملازمین بڑی تعداد میں نکالے جاتے جو پی پی اقتدار میں آ کر انھیں پھر بحال کر دیتی تھی۔

غیر سول حکومتوں کے برعکس سیاسی حکومت میں ہر سیاسی پارٹی نے اپنے جیالوں، متوالوں کو سرکاری ملازمتیں دیں۔ (ق) لیگی سندھ سے تعلق رکھنے والے وزیر ریلوے نے حد کردی تھی اور بڑوں کے علاوہ نچلی سطح پر اپنے حلقے کے ساٹھ ہزار افراد ریلوے میں بھر دیے تھے جس کا بیان ان کے بعد آنے والے پنجاب کے وزیر ریلوے نے دیا تھا کہ کہیں جگہ ہی نہیں تو میں اپنے لوگوں کو کہاں سے ملازمتیں دوں جو ان کا بھی حق ہے۔

(ن) لیگ سے کہیں زیادہ جیالے پی پی حکومتوں میں بھرتی کیے گئے، پی آئی اے، اسٹیل ملز و دیگر سرکاری اداروں کی تباہی بھی سیاسی حکومتوں میں ہوئی، پی آئی اے مسلسل خسارے میں، اسٹیل ملز سالوں سے بند اور یہی حال نقصان میں جانے والے سرکاری اداروں کا ہے جن کی فروخت یا نجکاری میں پیپلز پارٹی بڑی رکاوٹ ہے جس کا منشور ملازمتیں دینا اور (ن) لیگ کا منشور سرکاری اداروں سے فاضل ملازموں کو نکالنا۔ کہیں اپنے بھرنے کے لیے ڈاؤن سائزنگ ہے اور گولڈن شیک ہینڈ کے ذریعے ہزاروں افراد (ن) لیگ حکومت میں فارغ ہوئے کیونکہ ادارے مسلسل نقصان میں تھے۔

2018 میں آنے والی پی ٹی آئی حکومت نے ملازمتیں دے کر باقی حد پوری کردی تھی جس کے وزیر اعظم نے دنیا بھر سے اپنے دوستوں کو بڑے سرکاری عہدے دے کر نوازا تھا۔ انھوں نے اپنی وفاقی اور دو صوبائی حکومتوں میں سوشل میڈیا کو سب سے زیادہ ترجیح دی اور اپنی سوشل میڈیا ٹیموں میں ہزاروں افراد بھرتی کرائے جن کا کام اب بھی اپنے بانی کی تعریفیں، حکومت اور اداروں کو بدنام کرنا ہے جن پر کروڑوں روپے ہر ماہ خرچ کیے جاتے تھے اور یہ کام کے پی میں 11 سالوں سے جاری ہے۔ پی ٹی آئی کے وزیر ہوا بازی نے پی آئی اے تباہ ہی نہیں بلکہ اسے دنیا میں بدنام کرایا اور خود مزے میں ہیں۔

ہر ادارے میں لاکھوں افراد فالتو اور اضافی ہیں مگر پیپلز پارٹی کسی کو بے روزگار کرنے کی مخالف ہے اور اتحادی حکومت پی پی کے باعث مجبور ہے اور عوام کے قیمتی وسائل ضایع ہو رہے ہیں اور سیاست کے باعث مزید ہوتے رہیں گے اوراتحادی حکومت محض بیان بازی کے کچھ نہیں کر سکے گی۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: پیپلز پارٹی حکومتوں میں قیمتی وسائل مدت پوری مسلم لیگ کی حکومت کا زیاں کے وزیر میں پی ہے اور کی تھی اور پی

پڑھیں:

قومی حکومت کے سوا بات نہیں ہو سکتی، محمود اچکزئی: معاملات ڈائیلاگ سے حل ہوتے، ڈیڈ لاک سے نہیں، رانا ثنا

اسلام آباد (نوائے وقت رپورٹ) محمود خان اچکزئی نے قومی حکومت کے قیام کیلئے وزیراعظم کو مذاکرات کی پیشکش کر دی۔ ان کا کہنا ہے کہ قومی حکومت بنانے کے معاملے کے سوا اس حکومت سے مذاکرات نہیں ہو سکتے۔ ایک دوسرے کو گالیاں دینے کا نہیں اس وقت متحد ہونے کی ضرورت ہے۔ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے اپوزیشن اتحاد تحریک تحفظ آئین پاکستان کے سربراہ محمود خان اچکزئی نے کہا ہماری باتوں کو اہمیت نہیں دی گئی، اب یہ حکومت آئین کی دھجیاں بکھیر رہی ہے۔ الیکشن کمشن نے جانبداری سے کام لیا۔ سپریم کورٹ نے تحریک انصاف سے انتخابی نشان چھینا، یہ حکومت بندوق کی نوک پر آئی ہے۔ شہباز شریف میرے دوست ہیں میری سخت باتوں پر ناراض ہو جاتے ہیں۔ لوگوں کو پیسوں اور بندوق کے زور پر قابو کر کے حکومت بنائی گئی۔ سپیکر قومی اسمبلی جانبدار ہیں، پارلیمنٹ کے اندر سے لوگوں کو گرفتار کیا گیا، سپیکر کہتے ہیں جاسوس اداروں کو ہر کسی کی کال ٹیپ کرنے کا حق حاصل ہے۔ موجودہ حالات میں چپ بیٹھنا مجرمانہ غفلت ہے۔ میں شہباز شریف سے مذاکرات کیلئے تیار ہوں، علاوہ ازیں مشیر سیاسی امور رانا ثناء اللہ نے نجی ٹی وی سے انٹرویو میں کہا ہے کہ وزیراعظم نے گزشتہ ڈیڑھ ماہ میں تین مرتبہ اپوزیشن  کو مذاکرات کی دعوت دی ہے، جمہوریت میں مذاکرات سے معاملات حل ہوتے ہیں ڈیڈ لاک سے نہیں۔ بجٹ والے دن بھی وزیراعظم نے مذاکرات کی بات کی، نوازشریف بھی مذاکرات کے حق میں ہیں۔ وزیراعظم ہر معاملے میں نواز شریف اور کابینہ میں مشاورت کرتے ہیں، ملک کو اس وقت اتحاد کی ضرورت ہے، تمام سیاسی جماعتیں چارٹر آف اکانومی پر مطمئن ہو جائیں، بانی کیخلاف 190 ملین پاؤنڈ کیس میں کوئی ابہام نہیں، نوازشریف نے مینار پاکستان جلسے میں کہا مل کر ملک کو بحرانوں سے نکالنا ہو گا۔

متعلقہ مضامین

  • کے پی حکومت کی بلدیاتی اداروں سے عدم دلچسپی
  • قومی حکومت کے سوا بات نہیں ہو سکتی، محمود اچکزئی: معاملات ڈائیلاگ سے حل ہوتے، ڈیڈ لاک سے نہیں، رانا ثنا
  • کورم کا مسئلہ کیوں نہیں ہوگا؟
  • محمود اچکزئی کی قومی حکومت کے قیام کیلئے وزیراعظم کو مذاکرات کی پیشکش
  • قومی اسمبلی میں حکومتی اتحاد کو 2تہائی اکثریت مل گئی
  • قومی اسمبلی سیکریٹریٹ نےایوان میں نئی پارٹی پوزیشن جاری کردی
  •  قومی اسمبلی سیکرٹریٹ نے ایوان میں نئی پارٹی پوزیشن جاری کردی
  • مسلم لیگ (ن) حکومت اپنے ہی کارکنوں کی تنقید کی زد میں،وجہ کیابنی؟
  • خواتین کی خالی نشستوں پر ن لیگ کی نئی انٹری، جے یو آئی عدالت کی منتظر
  • علمی، ادبی، تاریخی اور ثقافتی اداروں کیلئے وزیراعظم کا اعلان قوم کیلئے خوشخبری ہے: سینیٹر عرفان صدیقی