Express News:
2025-04-25@02:33:01 GMT

قومی قیمتی وسائل کا زیاں کب تک؟

اشاعت کی تاریخ: 20th, February 2025 GMT

وفاقی حکومت نے کہا ہے کہ عوام کے قیمتی وسائل کا نقصان کرنے والے اداروں میں مزید زیاں کی اجازت نہیں دے گی۔ نجکاری میں تعطل قبول نہیں ہے۔موجودہ صورتحال میں لگتا ہے کہ قیمتی وسائل کا زیاں اور بعض اداروں کی نجکاری میں تاخیر حکومت کی مرضی اور اجازت سے ہو رہی ہے جس کی اب مزید اجازت نہیں دی جائے گی اور اب تک جو نقصان ہو چکا ہے وہ برداشت کر لیا جائے گا جو حکومت کی اجازت سے ہی ہوا ہوگا جس کا زیاں روکنے کا اب حکومت نے فیصلہ کر لیا ہے اور جن کی وجہ سے یہ نقصان ہوا انھیں کچھ کہا جائے گا نہ قومی نقصان کے ذمے داروں کے خلاف کوئی کارروائی ہوگی۔

متعلقہ اداروں کے ذمے دار قومی وسائل کو نقصان پہنچا چکے اس کی سزا متعلقہ اداروں کے ذمے داروں کو نہیں بلکہ عوام کو ہی بھگتنا پڑے گی کیونکہ ملک کو پہنچنے والے نقصانات کا خمیازہ اب تک عوام ہی بھگت رہے ہیں اور ان نقصانات کا زیاں مزید بھی عوام ہی بھگتیں گے اور قومی اداروں کو نقصانات پہنچانے والے محفوظ رہیں گے۔

ملک میں تین غیر سول ادوار کے علاوہ جوسول حکومتیں قائم ہوئیں، ان میں 1988 کے بعد مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی نے تین تین بار اور پاکستان مسلم لیگ جونیجو، مسلم لیگ قائد اعظم اور پی ٹی آئی کو ایک ایک بار حکومت کا موقعہ ملا مگر مسلم لیگ قائد اعظم نے پہلی بار اپنی اقتداری مدت پوری کی تھی۔

مسلم لیگ جونیجو جنرل ضیا الحق کے دور میں بنوائی گئی تھی مگر جنرل ضیا نے اختلافات کے باعث وقت سے پہلے جونیجو حکومت ختم اور اسمبلی توڑ دی تھی مگر جنرل پرویز نے اپنے اقتدار میں مسلم لیگ قائد اعظم نہ صرف بنوائی تھی بلکہ اس کی اسمبلی کی 5 سالہ مدت پوری بھی کرائی تھی اور (ق) لیگ کے پہلے وزیر اعظم ظفر اللہ جمالی کی کارکردگی سے غیر مطمئن ہو کر قومی اسمبلی نہیں توڑی تھی بلکہ غیر سیاسی وزیر اعظم شوکت عزیز سے (ق) لیگی حکومت کی مدت پوری کرائی تھی ، درمیان میں ڈیڑھ دو ماہ کے لیے چوہدری شجاعت کو بھی نگران وزیر اعظم بنایا گیا تھا اور (ق) لیگ کی 5 سالہ حکومت پر کرپشن کے اتنے الزامات نہیں تھے جتنے پیپلز پارٹی اور (ن) لیگ کی حکومتوں پر سویلین صدر غلام اسحاق خان اور سردار فاروق نے لگا کر (ن) لیگ کی دو اور پیپلز پارٹی کی دو حکومتیں کرپشن کے الزامات میں برطرف کی تھیں جب کہ 1999 میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت جنرل پرویز نے برطرف کی تھی اور یہ دونوں پارٹیاں اپنی اقتداری مدت پوری نہیں کر سکی تھیں۔ جنرل پرویز تو گیارہ سالوں میں دو دو بار حکومتوں کے وزیر اعظم بے نظیر بھٹو اور نواز شریف پر کرپشن کے الزامات لگاتے تھے اور انھوں نے دونوں سابقہ وزرائے اعظم کو نہ صرف جلا وطن ہونے پر مجبور کیا بلکہ وہ دونوں کی سیاست ختم نہیں کر سکے اور 2008میں پیپلز پارٹی اور 2013 میں مسلم لیگ کو تیسری بار عوام نے منتخب کیا تھا۔

مسلم لیگ (ن) کے برعکس پی پی کی دو بار کی حکومت میں مشہور تھا کہ پی پی کی حکومتوں میں پیسہ بھی ہوتا تھا اور روزگار بھی۔ 2007 میں پی پی کا نعرہ تھا کہ بے نظیر آئے گی روزگار لائے گی مگر مسلم لیگ (ن) کے دور میں ایسا نہیں تھا۔ پی پی کی حکومت لوگوں کو ملازمتیں دینے میں مشہور تھیں اور ہر سرکاری ادارے میں جگہ نہ ہونے کے باوجود اندھا دھند سرکاری بھرتیاں ہوتی تھیں۔ بے نظیر بھٹو کے بعد مسلم لیگ ن کے دور میں نئی ملازمتیں اپنوں کو کم ملیں اور پی پی حکومتوں میں بھرتی بے دریغ ملازمین بڑی تعداد میں نکالے جاتے جو پی پی اقتدار میں آ کر انھیں پھر بحال کر دیتی تھی۔

غیر سول حکومتوں کے برعکس سیاسی حکومت میں ہر سیاسی پارٹی نے اپنے جیالوں، متوالوں کو سرکاری ملازمتیں دیں۔ (ق) لیگی سندھ سے تعلق رکھنے والے وزیر ریلوے نے حد کردی تھی اور بڑوں کے علاوہ نچلی سطح پر اپنے حلقے کے ساٹھ ہزار افراد ریلوے میں بھر دیے تھے جس کا بیان ان کے بعد آنے والے پنجاب کے وزیر ریلوے نے دیا تھا کہ کہیں جگہ ہی نہیں تو میں اپنے لوگوں کو کہاں سے ملازمتیں دوں جو ان کا بھی حق ہے۔

(ن) لیگ سے کہیں زیادہ جیالے پی پی حکومتوں میں بھرتی کیے گئے، پی آئی اے، اسٹیل ملز و دیگر سرکاری اداروں کی تباہی بھی سیاسی حکومتوں میں ہوئی، پی آئی اے مسلسل خسارے میں، اسٹیل ملز سالوں سے بند اور یہی حال نقصان میں جانے والے سرکاری اداروں کا ہے جن کی فروخت یا نجکاری میں پیپلز پارٹی بڑی رکاوٹ ہے جس کا منشور ملازمتیں دینا اور (ن) لیگ کا منشور سرکاری اداروں سے فاضل ملازموں کو نکالنا۔ کہیں اپنے بھرنے کے لیے ڈاؤن سائزنگ ہے اور گولڈن شیک ہینڈ کے ذریعے ہزاروں افراد (ن) لیگ حکومت میں فارغ ہوئے کیونکہ ادارے مسلسل نقصان میں تھے۔

2018 میں آنے والی پی ٹی آئی حکومت نے ملازمتیں دے کر باقی حد پوری کردی تھی جس کے وزیر اعظم نے دنیا بھر سے اپنے دوستوں کو بڑے سرکاری عہدے دے کر نوازا تھا۔ انھوں نے اپنی وفاقی اور دو صوبائی حکومتوں میں سوشل میڈیا کو سب سے زیادہ ترجیح دی اور اپنی سوشل میڈیا ٹیموں میں ہزاروں افراد بھرتی کرائے جن کا کام اب بھی اپنے بانی کی تعریفیں، حکومت اور اداروں کو بدنام کرنا ہے جن پر کروڑوں روپے ہر ماہ خرچ کیے جاتے تھے اور یہ کام کے پی میں 11 سالوں سے جاری ہے۔ پی ٹی آئی کے وزیر ہوا بازی نے پی آئی اے تباہ ہی نہیں بلکہ اسے دنیا میں بدنام کرایا اور خود مزے میں ہیں۔

ہر ادارے میں لاکھوں افراد فالتو اور اضافی ہیں مگر پیپلز پارٹی کسی کو بے روزگار کرنے کی مخالف ہے اور اتحادی حکومت پی پی کے باعث مجبور ہے اور عوام کے قیمتی وسائل ضایع ہو رہے ہیں اور سیاست کے باعث مزید ہوتے رہیں گے اوراتحادی حکومت محض بیان بازی کے کچھ نہیں کر سکے گی۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: پیپلز پارٹی حکومتوں میں قیمتی وسائل مدت پوری مسلم لیگ کی حکومت کا زیاں کے وزیر میں پی ہے اور کی تھی اور پی

پڑھیں:

ٹرمپ کو ایک اور جھٹکا، امریکی عدالت کا وائس آف امریکا کو بحال کرنے کا حکم

صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو ایک بار خفگی کا سامنا کرنا پڑا ہے جب امریکی عدالت نے ان کے ایک اور حکم نامے کو معطل کردیا۔

عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق ایک وفاقی جج نے وائس آف امریکا (VOA) کو بند کرنے کے ڈونلڈ ٹرمپ کے صدارتی حکم نامے کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے عمل درآمد سے روک دیا۔

فیصلے میں کہا گیا کہ حکومت کی جانب سے فنڈنگ میں کٹوتیوں کے باعث وائس آف امریکا اپنی 80 سالہ تاریخ میں پہلی بار خبر رسانی سے قاصر رہا۔

جج رائس لیمبرتھ نے کہا کہ حکومت نے وائس آف امریکا کو بند کرنے کا اقدام ملازمین، صحافیوں اور دنیا بھر کے میڈیا صارفین پر پڑنے والے اثرات کو نظر انداز کرتے ہوئے اُٹھایا۔

عدالت نے حکم دیا کہ وائس آف امریکا، ریڈیو فری ایشیا، اور مڈل ایسٹ براڈ کاسٹنگ نیٹ ورکس کے تمام ملازمین اور کنٹریکٹرز کو ان کے پرانے عہدوں پر بحال کیا جائے۔

جج نے یہ بھی کہا کہ حکومت نے ان اقدامات کے ذریعے انٹرنیشنل براڈکاسٹنگ ایکٹ اور کانگریس کے فنڈز مختص کرنے کے اختیار کی خلاف ورزی کی۔

وائس آف امریکا VOA کی وائٹ ہاؤس بیورو چیف اور مقدمے میں مرکزی مدعی پیٹسی وداکوسوارا نے انصاف پر مبنی فیصلے پر عدالت کا شکریہ ادا کرتے ہوئے اس خدشے کا اظہار بھی کیا کہ حکومت عدالتی فیصلے کے خلاف اپیل کرے گی۔

انہوں نے مزید کہا ہم وائس آف امریکا کو غیر قانونی طور پر خاموش کرنے کے خلاف اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے، جب تک کہ ہم اپنے اصل مشن کی جانب واپس نہ آ جائیں۔

امریکی عدالت نے ٹرمپ حکومت کو حکم دیا ہے کہ ان اداروں کے تمام ملازمین کی نوکریوں اور فنڈنگ کو فوری طور پر بحال کرے۔

یاد رہے کہ صدر ٹرمپ کے حکم پر وائس آف امریکا سمیت دیگر اداروں کے 1,300 سے زائد ملازمین جن میں تقریباً 1,000 صحافی شامل تھے کو جبری چھٹی پر بھیج دیا گیا تھا۔

وائٹ ہاؤس نے ان اداروں پر " ٹرمپ مخالف" اور "انتہا پسند" ہونے کا الزام لگایا تھا۔

وائس آف امریکا نے ریڈیو نشریات سے دوسری جنگ عظیم کے دوران نازی پروپیگنڈے کا مقابلہ کرنے کے لیے آغاز کیا تھا اور آج یہ دنیا بھر میں ایک اہم میڈیا ادارہ بن چکا ہے۔

یاد رہے کہ صدر ٹرمپ طویل عرصے سے VOA اور دیگر میڈیا اداروں پر جانبداری کا الزام عائد کرتے ہوئے کڑی تنقید کا نشانہ بناتے آئے ہیں۔

اپنے دوسرے دورِ صدارت کے آغاز میں ٹرمپ نے اپنی سیاسی اتحادی کاری لیک کو VOA کا سربراہ مقرر کیا تھا جو ماضی میں 2020 کے انتخابات میں ٹرمپ کے دھاندلی کے دعووں کی حمایت کر چکی ہیں۔

 

 

متعلقہ مضامین

  • 10سال میں 23 سرکاری اداروں سے قومی خزانے کو 55 کھرب کے نقصان کا انکشاف
  • وزیرِ اعظم کی زیرِ صدارت قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس جاری
  • 10سال میں 23 سرکاری اداروں سے قومی خزانے کو 55 کھرب روپے کے نقصان کا انکشاف
  • ٹرمپ کو ایک اور جھٹکا، امریکی عدالت کا وائس آف امریکا کو بحال کرنے کا حکم
  • شدید گرمی سے ہونے والی اموات، سندھ حکومت اور نجی اداروں کے اعدادوشمار میں بڑا تضاد
  • سکھر دھرنا: کراچی چیمبر آف کامرس کا حکومت سے مذاکرات کے ذریعے قومی شاہراہ بحال کرنے کا مطالبہ
  • سکھر دھرنا، کراچی چیمبر کا حکومت سے قومی شاہراہ بحال کرنے کا مطالبہ
  • کراچی میں تھانے بھی غیر محفوظ، شہری کی قیمتی 125 موٹر سائیکل چوری
  • موسمیاتی تبدیلی کے مسائل پر بین الاقومی مالیاتی اداروں کی معاونت درکار ہے: شہباز شریف
  • وزیرِ اعظم شہباز شریف سے آزاد جموں و کشمیر کی قیادت کے اعلی سطح وفد کی ملاقات