UrduPoint:
2025-04-25@10:29:04 GMT

پاکستان میں سرکاری ملازمتوں پر خواتین کی تعداد کم کیوں؟

اشاعت کی تاریخ: 8th, March 2025 GMT

پاکستان میں سرکاری ملازمتوں پر خواتین کی تعداد کم کیوں؟

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 08 مارچ 2025ء) تفصیلات کے مطابق قومی اسمبلی کی جینڈر مین اسٹریمنگ کمیٹی کا پارلیمنٹ ہاؤس میں اجلاس منعقد ہوا، جہاں وفاقی ملازمتوں میں خواتین کی شمولیت سے متعلق جو اعداد و شمار سامنے آئے ان کے مطابق وفاقی حکومت کے کل عملے میں خواتین کا تناسب صرف پانچ اشاریہ تین فیصد ہے۔ باوجود اس کے کہ حکومت نے خواتین کے لیے ملازمتوں میں دس فیصد کوٹہ مختص کر رکھا ہے، جو کہ میرٹ پر منتخب ہونے والی خواتین کے علاوہ ہے، خواتین کی شمولیت مطلوبہ سطح سے کافی کم ہے۔

قومی اسمبلی کی کمیٹی کے اس اجلاس کی صدارت ڈاکٹر نفیسہ شاہ نے کی۔ اس اجلاس میں خواتین کے کوٹے پر عمل درآمد نہ ہونے پر شدید تشویش کا اظہار کیا گیا۔ یہ کوٹا حکومت میں خواتین کو فیصلہ سازی کے عہدوں پر باآختیار بنانے اور صنفی مساوات کو فروغ دینے کے لیے متعین کیا گیا تھا۔

(جاری ہے)

ان نتائج کے پیش نظر کمیٹی نے متفقہ طور پر سفارش کی کہ اسٹیبلیشمنٹ متعلقہ دس فیصد کوٹے کے نفاذ کو یقینی بنانے کے لیے ایک واضح پالیسی اور عملی منصوبہ تیار کرے۔

خواتین کی شمولیت مقررہ ہدف سے کم کیوں؟

یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ خواتین کے لیے مخصوص دس فیصد کوٹے کی دستیابی کے باوجود ان کی شمولیت مقررہ ہدف سے کہیں کم کیوں ہے اور کیا خواتین حکومتی اداروں میں صرف کوٹے کی بنیاد پر ہی ملازمتیں حاصل کر سکتی ہیں یا دوسری ایسی ملازمتوں کے لیے بھی اپلائی کر سکتی ہیں جو خواتین کے لیے خاص طور پر مختص نہیں ہیں۔

ڈاکٹر نفیسہ شاہ نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ کوٹہ سسٹم کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ کسی بھی وفاقی سرکاری محکمے میں ہر دس دستیاب آسامیوں میں سے ایک کو خواتین کے لیے مخصوص کیا جائے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ خواتین دیگر آسامیوں کے لیے درخواست نہیں دے سکتیں، بلکہ وہ میرٹ سسٹم کے تحت بھی ملازمت حاصل کر سکتی ہیں۔

کوٹہ سسٹم، میرٹ کی نفی؟

جب ان سے پوچھا گیا کہ آیا کوٹہ سسٹم میرٹ کی خلاف ورزی کرتا ہے اور کیا خواتین کو بغیر کسی میرٹ اور معیار کے ملازمت حاصل کرنے کا حق دیا جانا چاہیے، تو انہوں نے وضاحت کی کہ کوٹہ سسٹم میرٹ کی خلاف ورزی نہیں کرتا بلکہ صرف محکمے کو اس بات کا پابند بناتا ہے کہ وہ کسی بھی آسامی کے اشتہار میں واضح کرے کہ مخصوص اسامی پر صرف خواتین درخواست دے سکتی ہیں۔

تاہم، اس کے باوجود ملازمت کے لیے مقررہ معیار پر پورا اترنا لازمی ہوتا ہے۔ البتہ ان مخصوص آسامیوں پر مقابلہ صرف خواتین کے درمیان ہوگا۔

ملازمتوں پر خواتین کی تعداد کم ہونے کی دیگر وجوہات

ایک عام خیال یہ بھی ہے کہ خواتین خود بھی ملازمت کرنے میں زیادہ دلچسپی نہیں رکھتی اور اس کی وجہ سوشل پریشر کے علاوہ کام کی جگہوں پر نامناسب ماحول بھی ہے۔

معروف صحافی اور انسانی حقوق کی سرگرم کارکن امبر شمسی نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ سرکاری ملازمتیں خواتین کے لیے مشکل نہیں بلکہ آسان ہونی چاہئیں۔ ان کے مطابق، یہ زیادہ تر وفاقی حکومت کی جانب سے مربوط کوششوں کی کمی کا مسئلہ ہے۔ تاہم انہوں نے یہ بھی نشاندہی کی کہ سماجی پابندیاں بھی ایک بڑی رکاوٹ ہوسکتی ہیں۔

امبر کہتی ہیں، "ہم خواتین کو معاشرے میں ایک نمایاں کردار ادا کرتے ہوئے نہیں دیکھتے۔

ساتھ ہی کام کی جگہ پر ایسے ماحول کا فقدان جو ہراسمنٹ کی حوصلہ شکنی کرے اس کی ایک بڑی وجہ ہے۔ انہوں نے کہا، "بنیادی سہولیات جیسے ٹرانسپورٹ، نسبتاً آرام دہ اوقاتِ کار، اور ڈے کیئر سینٹرز کی عدم دستیابی بھی خواتین کو ملازمت سے دور رکھنے کی نمایاں وجوہات ہیں۔".

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے خواتین کے لیے میں خواتین خواتین کی کی شمولیت خواتین کو کوٹہ سسٹم سکتی ہیں

پڑھیں:

شکی مزاج شریکِ حیات کے ساتھ زندگی عذاب

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 24 اپریل 2025ء) دوسری جانب شکی مزاج خواتین اپنے شوہر پر کڑی نگاہ کسی باڈی گارڈ کی مانند رکھتی ہیں اور خوامخواہ یہ تصور کرتی ہیں کہ ان کا افیئر کسی کے ساتھ چل رہا ہے۔ شک کی بیماری ہمارے معاشرے میں بہت سارے لوگوں میں پائی جاتی ہے۔اگر اس شک کو زوجین تقویت دیں تو زندگی اجیرن ہو جاتی ہے۔ یہ معاملہ ایسا ہے کہ جس کا رفع دفع ہونا بہت مشکل ہوتا ہے۔

یعنی ایک ایسا روگ ہے کہ اگر بروقت ختم نہ ہو یا اس کا مناسب حل نہ ڈھونڈا جائے تو باہمی چپقلش سے اچھا خاصا گھر پاتال بن جاتا ہے۔

شکی انسان اپنے آپ کو مریض نہیں گردانتا بلکہ شک کا سب سے گھمبیر مسئلہ یہ ہے کہ شکی مزاج اسے تسلیم بھی نہیں کرتا۔ ظاہر ہے جب تسلیم نہیں کرتے تو اس سے چھٹکارے کے لیے کچھ کرتے بھی نہیں ہیں۔

(جاری ہے)

بلا تردد شک ہی یقین کی دیمک ہے۔

یہ لاعلاج مرض کی صورت تب اختیار کرتی ہے جب بیویاں شوہروں پر کڑی نگاہ رکھتی ہیں حتیٰ کہ نامدار شوہر کے فلاح وبہبود کے کام کو بھی منفی پیرائے میں پرکھتی ہیں۔ انہیں خدشہ لاحق ہو جاتا ہے کہ ان کے شوہر دوسری خواتین میں دلچسپی لیتے ہیں یا بیوی کا اس خبط میں مبتلا رہنا کہ ان کے شوہر کا افئیر ضرور کسی سے چل رہا ہوگا جبھی تو لیٹ گھر آتے ہیں۔

پھر ہر چیز میں نقص نکالنا، بات کا بتنگڑ بنانا ان کا شیوہ بن جاتا ہے۔ شوہر کے دفتر سے واپسی پر کپڑوں کا بغور جائزہ لینا، شوہر کے بناؤ سنگھار پر نظر رکھنا اور ہمیشہ اس تاک میں رہنا کہ شوہر کے موبائل کا پاس ورڈ معلوم ہو جائے۔

شوہروں کے حوالے سے بیگمات کی حساسیت اپنی جگہ مگر بعض شکی مزاج خواتین اس معاملے میں اس قدر حاسد و محتاط ہوتی ہیں کہ وہ چند گھڑیوں کے لیے بھی اپنے شوہر نامدار کی کسی دوسری خاتون کے ساتھ ضروری گفت و شنید کو بھی گوارا نہیں کرتیں۔

مضحکہ خیز بات کہ بعض سیاسی شخصیات کی بیویاں اہم سرکاری اجلاسوں میں بھی اپنے شوہر کو تنہا نہیں چھوڑتی بلکہ ان کے ہمراہ باڈی گارڈ کی مانند رہتی ہیں۔

شوہر پر شک کی ممکنہ وجوہات میں سے شوہر کا اوپن مائنڈڈ ہونا یا ڈبل اسٹینڈرڈ ہوتا ہے۔ شوہر کا دیگر خواتین سے خندہ پیشانی سے گفتگو کرنا، ان کے ساتھ ہنسنا بولنا، بیوی کو بہت کھٹکتا ہے۔

یہاں سے بھی بدگمانی پیدا ہوتی ہے۔ عورت خود کو کمتر سمجھتی اور شوہر پر مختلف طریقوں سے شک کرتی ہے۔

زبان زد عام ہے کہ شک و وہم کا علاج تو حکیم لقمان کے پاس بھی نہیں تھا۔ اسی طرح اگر شوہر شکی مزاج ہو تو پھر بھی سکون غارت ہو جاتا ہے۔ بعض ذہنی مریض شوہر بلا وجہ کے شک کو پال پال کر ایک بلا بنا دیتے ہیں جو اس کے اعصاب پر سوار ہو جاتی ہے۔

مثلاً دفتر سے واپسی پر گھر میں آہستہ آہستہ اینٹری مارنا اور یہ تجسس رکھنا کہ گھر میں اس کی غیر موجودگی میں کیا ہو رہا ہے؟ فون پر کس سے باتیں ہو رہی ہیں؟ نیز تہذیب کے پیرائے میں کسی مرد کا بیوی کو سلام کرنا اور احوال دریافت کرنا اس پر شوہر کا سوالیہ نشان اٹھانا، اگر بیوی کسی شخص کے کام کی تعریف کردے تو یہ سمجھنا کہ وہ اس پر فریفتہ ہے۔

ایسے شوہروں کی کافی تعداد پائی جاتی ہے جنہوں نے اپنی بے گناہ بیویوں کو بےجا شک کے باعث قتل کردیا یاخودکشی کرلی۔

کتنا عجیب رویہ ہے کہ اگر بیوی بے تکلف ہو تو اسے برا لگتا ہے۔ اس طرز کے سارے اعمال اسکی غیرت برداشت نہیں کرتی لیکن وہ خود اپنے لیے دیگر خواتین کے ساتھ ہنسنا بولنا جائز قرار دیتا ہے، بزنس ڈنر کے نام پہ ہائی ٹی سلاٹ بک کرتا ہے، کاروباری مجبوری کے نام پہ ہاتھ ملاتا ہے ان سے جس حد تک ممکن ہو بے تکلفی اپنا حق سمجھتا ہے۔

ایسی خواتین جو ان سے خوش گپیاں کریں وہ خوش اخلاق ہیں مگر اپنے گھر کی خواتین سے کچھ کوتاہی ہوجائے تو وہ بدکردار ہیں۔

زوجین کا باہمی شک کرنے کی وجہ سےکوئی واقعہ، قصہ، ڈرامہ یا کہانی ہوتی ہے۔ کبھی کسی فلم سے متاثر ہو کر میاں اپنی بیوی کو اسی روپ میں دیکھنے لگ جاتا ہے یا بیوی سوچتی ہے کہ فلاں ہیروئن جو اپنے شوہر پر نگاہ رکھتی ہے اس کا کرادر مجھے نبھانا چاہیے وغیرہ۔ مسائل کو زیر بحث نہ لانا بھی شک کی بنیادی وجوہات میں سے ایک وجہ ہے۔ لہذا مسائل تب جنم لیتے ہیں جب غلط فہمی دل میں بٹھائی جائے اور کھل کر بات نہ ہو۔

متعلقہ مضامین

  • دین کی دعوت مرد و زن کی مشترکہ ذمہ داری ہے، ڈاکٹر حسن قادری
  • پاکستانی فضائیہ بمقابلہ بھارتی فضائیہ: صلاحیت، ٹیکنالوجی اور حکمت عملی کا موازنہ
  • اب تک شادی کیوں نہیں کی؟ فیصل رحمان نے دلچسپ وجہ بتادی
  • شکی مزاج شریکِ حیات کے ساتھ زندگی عذاب
  • طورخم بارڈر سے مزید 2258 افراد واپس افغانستان چلے گئے
  • پاکستان صحیح سمت میں چل پڑا، سب کو ملکر ترقی میں کردار ادا کرنا ہوگا: نوازشریف
  • مولانا نے اتحاد کیوں نہیں بنایا
  • پاکستان صحیح سمت میں چل پڑا ہے ; نواز شریف
  • ہم نے پاکستان کو اوپر لے جانے کی کوشش کی تو ہمارا راستہ روکا گیا، نواز شریف کا پھر شکوہ
  • لاہور: بڑی تعداد میں بھکاریوں کو ہٹانے کا دعویٰ