پانچویں مہینے میں پانی کہاں گیا؟
اشاعت کی تاریخ: 23rd, May 2025 GMT
صاحب مئی بھی پانچواں مہینہ ہے اور اسی میں چھڑی گرماگرمی دونوں ملکوں کے بیچ اور وہ بھی پانی کے مسئلے پہ .. مگر معاف کیجیے گا یہ وہ پانی نہیں جس کی داستان ہم آپ سے کہنے جا رہے ہیں۔
پانی زندگی ہے، ہم اور آپ تو جانتے ہی ہیں مگر یہ بات ماں کے پیٹ میں موجود بچے کو بھی پتہ چل جاتی ہے جس نے ابھی باہر کی دنیا کو دیکھا نہیں۔اور بچہ اسے اس قدر اہم جانتا ہے کہ اپنے گرد موجود پانی پیتا ہے، پیشاب کرتا ہے، پھر پیتا ہے اور پھر پیشاب کرتا ہے تاکہ پانی کی مقدار کم نہ ہونے پائے۔
حمل ٹھہرنے کے ساتھ ہی آنول اپنا کام شروع کرتی ہے اور ننھے سے بچے کے گرد موجود تھیلی میں پانی بنا کر جمع کرتی ہے جو نہ صرف بچے کے گرد حفاظتی بفر کا کام کرتا ہے بلکہ بچے کی صحت کا ایک اہم نشان بھی سمجھا جاتا ہے ۔
پانی کی مقدار الٹراساؤنڈ پہ جانچی جاتی ہے اور حمل کے آخری مہینوں میں اس کا جائزہ لینا ایک لازم امر ہے۔ اگر پانی کم ہو جائے تو بچے کی نشوونما اور صحت کے متعلق تشویش شروع ہو جاتی ہے اور بچے کی زندگی بھی خطرے میں پڑ سکتی ہے۔
ہم پہلے بھی لکھ چکے ہیں کہ پانی بنانے کا کام آنول کا ہے۔ اگر پانی کی مقدار ٹھیک نہ ہو تو اس کا مطلب ہے کہ آنول ٹھیک کام نہیں کر رہی۔ آنول کے ٹھیک کام نہ کرنے کے پیچھے بھی بہت سے عوامل شامل ہیں جن میں آنول کا کمزور ہونا، آنول کا بچے دانی سے کمزور تعلق، آنول کا ٹھیک سے نہ بننا، ماں کا ہائی بلڈ پریشر شامل ہیں۔
اب یہاں پہنچ کر ہم آپ سب سے ایک سوال کرنا چاہتے ہیں کہ اگر کسی نلکے کی ٹونٹی خراب ہو جائے تو کیا اس کا حل یہ ہو گا کہ پانی کے بھرے ہوئے ٹینک کو مزید بھرا جائے تاکہ پانی کے پریشر سے ٹونٹی ٹھیک ہو جائے؟
آپ سب کہیں گے ، کیسی باتیں کرتی ہو؟ ٹونٹی خراب ہے تو اس کو ٹھیک کروایا جانا چاہیے، بھرے ہوئے ٹینک میں مزید پانی کیوں انڈیلنا؟
یہی بات میڈیکل سائنس کہتی ہے۔ اگر آنول ٹھیک کام نہیں کر رہی اور بچے کے گرد پانی مقدار سے کم بن رہا ہے تو کیا ماں کے زیادہ پانی پینے سے یا ڈرپ لگوانے سے بچے کا پانی ٹھیک ہو جائے گا؟
اگر ماں کے معدے کا ڈائریکٹ تعلق بچے دانی سے ہوتا تو شاید کسی غریب کا بچہ پیدا ہی نہ ہوتا۔
خیر اب اگر ایک مریضہ، جس کا پانچواں مہینہ چل رہا ہو اور وہ بچے کے تمام اعضا کی جانچ کا الٹراساؤنڈ کروانے جائے اور اس پہ نظر آئے کہ بچے کے گرد پانی تو ہے ہی نہیں تو کیا سوچا جائے گا؟
دو ہی صورتیں ہو سکتی ہیں۔ پہلی کہ شاید بچے دانی سے پانی لیک ہو گیا ہے اور دوسرا کہ شاید آنول نے پانی بنایا ہی نہیں۔
اگر یہ سوچا جائے کہ پانی لیک ہو گیا ہے تو حاملہ عورت سے ہسٹری لی جائے گی جس میں ویجائنا سے پانی کے خروج کے متعلق پوچھا جائے گا۔ اور یاد رکھیے، چپچپا، دودھیا مائل پانی نما رطوبت نہیں، بلکہ پانی کی طرح کا پانی جس کا کوئی رنگ یا بو نہ ہو ۔
دوسری صورت کے لیے بچے کے گردوں اور آنول میں دوڑتے خون کا الٹراساؤنڈ کروایا جائے گا۔ اگر بچے کے گردے ٹھیک سے نہ بنے ہوں تو تب بھی بچے کے گرد پانی کی کمی ہو گی یا سرے سے ہوگا ہی نہیں۔ ظاہر ہے جب بچہ پانی پی کر پیشاب گردوں کے ذریعے خارج نہیں کر سکتا تو پانی کی مقدار آپ ہی آپ گھٹ جائے گی۔
اگر گردے ٹھیک ہیں تو پھر آنول کو خون پہنچانے والی شریان اور آنول نال کی شریانوں میں دوڑتے خون کو ڈوپلر سکین کے دیکھنا پڑے گا۔
یاد رکھیے یہاں تک پہنچتے پہنچتے ڈاکٹر کو کوئی نہ کوئی ایسا سراغ ضرور مل جائے گا جس کی بنیاد پہ تشخیص ہو سکے کہ پانی کہاں گیا؟ یا کم کیوں ہوا؟
تشخیص کے بعد اگلا مرحلہ ہے کہ اب کیا کیا جائے؟
انٹرنیشنل معیار کے مطابق ایسی صورت حال میں وہ بچہ بچایا جا سکتا ہے جو کم سے کم 24 ہفتے کا ہو اور اس کا وزن 500 گرام یعنی آدھے کلو سے زیادہ ہو۔ لیکن یاد رکھیں اس بین الاقوامی معیار کے لیے جو سہولیات چاہئیں وہ وطن عزیز میں میسر نہیں۔ اچھے اسپتالوں میں بھی ایک کلو کا بچہ زندگی کی بازی ہار جاتا ہے۔
سو بین الاقوامی معیار کو ایک طرف رکھتے ہوئے ڈاکٹرز کو اپنی صورت حال کے مطابق فیصلہ کرنا پڑتا ہے۔
ایک اور بات جو بہت اہم سمجھی جانی چاہیے، وہ بچے کی ماں ہے۔ بچے کی ماں کسی صورت میں بھی کمپرومائز نہیں کی جا سکتی۔ ایک ان دیکھی زندگی کے لیے ایک جیتی جاگتی زندگی کو داؤ پہ نہیں لگایا جا سکتا۔
لیکن ایک بڑا سوال اس وقت منہ پھاڑ کے کھڑا ہو جاتا ہے جب بچے دانی میں پانی نہ ہو اور بچے کی دل کی دھڑکن ٹھیک کام کر رہی ہو کہ اب کیا کیا جائے؟
اگر یہ پتا چل جائے کہ بچے کے گردے ٹھیک سے نہیں بنے، مگر بچے کا دل چل رہا ہے تو تب کیا کریں؟
اگر تشخیص یہ بتائے کہ پانی کی تھیلی لیک کر گئی ہے، بچے کے گرد پانی زیرو ہے، مگر بچے کے دل کی دھڑکن ابھی بھی باقی ہے، تب کیا کیا جائے ؟
یاد رہے کہ ہم ایک ایسے بچے کی بات کر رہے ہیں جس کا وزن 300 گرام ہے، حمل کا دورانیہ بیس، اکیس ہفتے ہے یعنی ابھی بچے کو بین الاقوامی معیار کے مطابق بھی بچایا نہیں جا سکتا۔
500 گرام یا آدھا کلو وزن والے بچے کو بچا کر زندگی دینے کا قطعی یہ مطلب نہیں کہ بچہ آئیندہ زندگی میں 100 فیصدی نارمل تندرست زندگی گزار سکے گا۔ بچے کی نشوونما اور ذہنی استعداد نارمل سے کم ہو سکتی ہے۔
چلیے آپ ان سوالوں کے جواب سوچیے، جو ہم آپ کو اگلی بار بتائیں گے ۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: بچے کے گرد پانی پانی کی مقدار بچے دانی ٹھیک کام جائے گا پانی کے کہ پانی آنول کا ہو جائے ہے اور بچے کی کے لیے
پڑھیں:
قومیں سڑکوں سے بنتی ہیں
دنیا کی تاریخ اور معیشت کا مطالعہ کیا جائے تو ایک حقیقت سامنے آتی ہے کہ ترقی ہمیشہ رسائی (Access) سے شروع ہوتی ہے اور رسائی کی پہلی شکل سڑک ہے یہی وجہ ہے کہ قدیم تہذیبوں سے لے کر جدید ریاستوں تک ہر دور میں سب سے پہلے سڑکوں کی تعمیر کو ترجیح دی گئی۔
رومی سلطنت کے روڈ نیٹ ورک کو آج بھی انجینئرنگ کا شاہکار کہا جاتا ہے۔ برصغیر میں شیر شاہ سوری کی بنائی ہوئی گرینڈ ٹرنک روڈ نے صدیوں تک تجارت اور سفر کو آسان بنایا۔ جدید دور میں امریکہ کا انٹر اسٹیٹ ہائی وے سسٹم اور یورپ کی موٹرویز نے معیشتوں کی ترقی کو تیز رفتار بنایا۔ جبکہ چین نے اپنے ترقیاتی سفر کا آغاز سب سے پہلے سڑکوں سے کیا اور دیکھتے ہی دیکھتے دنیا کی دوسری بڑی معیشت بن گیا۔
دنیا نے ترقی کی رفتار بڑھانے کے لیے 2 ماڈلز اپنائے:
پہلا، شہروں کے درمیان محفوظ اور تیز رفتار رسائی کے لیے موٹرویز اور ایکسپریس ویز بنائے گئے، تاکہ تجارت اور سفر سہولت کے ساتھ ہو سکے۔
دوسرا، شہروں کے اندر سفر کے لیے جدید، صاف ستھری، وقت پر چلنے والی اور آرام دہ بسیں اور میٹرو سسٹمز متعارف کرائے گئے، اس سے نہ صرف عوام کا وقت بچا بلکہ آلودگی اور ٹریفک کے مسائل بھی کم ہوئے۔
پاکستان میں بھی تیز رفتار ترقی کا یہی ماڈل اپنایا گیا۔ گزشتہ صدی کے آخری عشرے میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے اسلام آباد–لاہور موٹروے سے اس سفر کا آغاز کیا، اس کے بعد لاہور میں میٹرو بس سسٹم بنایا گیا، تاکہ شہریوں کو اندرونِ شہر آرام دہ اور وقت پر چلنے والی ٹرانسپورٹ میسر ہو۔
یہ دونوں منصوبے دنیا کے تسلیم شدہ ترقیاتی ماڈل کے عین مطابق ہیں۔ لیکن سیاسی مخالفت میں عمران خان نے یہ بیانیہ بنایا کہ ’قومیں سڑکوں سے نہیں بنتیں‘، حالانکہ حقائق اس کے برعکس ہیں — قومیں واقعی سڑکوں سے ہی بنتی ہیں۔
ترقی کی کہانی صرف ٹرانسپورٹ تک محدود نہیں، اگر کہیں کان کنی شروع کرنی ہو تو سب سے پہلا کام وہاں تک سڑک کی تعمیر ہی ہوتا ہے، تاکہ بھاری مشینری اور نکالی گئی معدنیات آسانی سے منتقل ہو سکیں۔ اسی طرح ڈیم، صنعتی زون یا کوئی بھی بڑا منصوبہ ہو — سب کی پہلی ضرورت رسائی ہے جس کے لئے سڑک تعمیر کی جاتی ہے۔
یہی اصول معاشرتی شعبوں پر بھی لاگو ہوتا ہے، اگر بہترین یونیورسٹی بنا دی جائے، لیکن وہاں جانے کے لیے سڑک نہیں ہو تو طلبہ اور اساتذہ نہیں پہنچ پائیں گے اور ادارہ بیکار ہو جائے گا۔
اگر جدید ہسپتال بنا دیا جائے، لیکن وہاں جانے کے لئے سڑک نا ہو تو ساری سہولت بے معنی ہو جاتی ہے۔ اگر شاندار صنعتی زون کھڑا کر دیا جائے لیکن وہاں ٹرک اور کنٹینر جانے کے لئے سڑک نہیں ہو تو صنعت بند ہو جائے گی۔ گویا، سڑک کے بغیر کوئی منصوبہ اپنی افادیت برقرار نہیں رکھ سکتا۔
چین نے اپنی ترقی کی بنیاد اسی فلسفے پر رکھی، انہوں نے دور دراز پہاڑی اور کم آبادی والے علاقوں تک بھی سڑکیں پہنچائیں، تاکہ ریاستی نظم، تعلیم، صحت اور تجارت ہر جگہ یکساں انداز میں دستیاب ہو۔
نتیجہ یہ نکلا کہ پسماندہ علاقے ترقی کی دوڑ میں شامل ہو گئے اور پورا ملک ایک مربوط معیشت میں ڈھل گیا۔
یہ تمام مثالیں ایک ہی نکتہ واضح کرتی ہیں:
قومیں سڑکوں سے بنتی ہیں، کیونکہ سڑک صرف ایک راستہ نہیں، بلکہ زندگی، معیشت، تعلیم، صحت، صنعت اور ریاستی نظم و نسق کا پہلا قدم ہے جہاں سڑک ہے وہاں ترقی ہے اور جہاں سڑک نہیں ہو وہاں ترقی اور سہولیات مفقود ہو جاتی ہیں۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں