ٹی ایل پی کو فنانس کرنے والے 3 ہزار 8 سو افراد کا سراغ لگا لیا، عظمیٰ بخاری
اشاعت کی تاریخ: 21st, October 2025 GMT
صوبائی وزیرِ اطلاعات پنجاب عظمیٰ بخاری نے دعویٰ کیا ہے کہ تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کو فنانس کرنے والے نیشنل اور انٹرنیشنل سطح کے 3 ہزار 8 سو افراد کا سراغ لگا لیا گیا ہے، جن میں بڑے بڑے نام، پڑھے لکھے اور مہذب لوگ شامل ہیں۔
لاہور میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے عظمیٰ بخاری نے بتایا کہ فنانسرز کے اکاؤنٹس منجمد کر دیے گئے ہیں اور ان کے خلاف دہشتگردی کے مقدمات درج کیے جائیں گے۔
انہوں نے کہا کہ ٹی ایل پی کے سربراہ سعد رضوی کے گھر سے سونا، چاندی، برانڈیڈ گھڑیاں، کنگن، ہار، انگوٹھیاں اور دیگر قیمتی اشیاء برآمد ہوئی ہیں۔ ان کے مطابق اسلام کے نام پر لاکھوں روپے چندے کی صورت میں اکٹھے کیے گئے۔
صوبائی وزیر نے واضح کیا کہ خادم حسین رضوی کی قبر کو منتقل کرنے کا کوئی ارادہ نہیں، تاہم قبر کے نام پر چندہ اکٹھا نہیں کرنے دیا جائے گا۔ انہوں نے بتایا کہ حکومت نے ٹی ایل پی کے زیر انتظام 130 مساجد اپنے کنٹرول میں لے لی ہیں، مگر کوئی مسجد مسمار نہیں کی گئی۔
عظمیٰ بخاری نے مزید کہا کہ تحریک لبیک نے ایک علیحدہ سیل قائم کر رکھا تھا جو مخالفین کو دھمکیاں دیتا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمارا مذہب امن کا پیغام دیتا ہے، لیکن انہوں نے اسلام، فلسطین اور غزہ کے نام پر تشدد کو فروغ دیا۔
انہوں نے والدین اور نوجوانوں سے اپیل کی کہ جو لوگ مقدس ہستیوں کے نام پر اپنے مالی یا سیاسی مقاصد حاصل کرنا چاہتے ہیں، ان کے دھوکے میں نہ آئیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: کے نام پر ٹی ایل پی انہوں نے
پڑھیں:
افغانستان میں قتل کے مجرم کو اسٹیڈیم میں 80 ہزار سے زائد لوگوں کے سامنے سزائے موت دیدی گئی
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
افغانستان میں قتل کے ایک سنگین مقدمے میں مجرم کو اسٹیڈیم میں 80 ہزار سے زائد افراد کے سامنے سزائے موت دے دی گئی۔
برطانوی میڈیا کے مطابق صوبہ خوست کے اسٹیڈیم میں جمع ہجوم کے سامنے یہ سزا اس وقت دی گئی جب یہ ثابت ہوا کہ مجرم نے خواتین اور بچوں سمیت ایک ہی خاندان کے 13 افراد کو قتل کیا تھا۔ طالبان انتظامیہ نے مقتولین کے 13 سالہ رشتہ دار سے فائرنگ کروا کر مجرم کو سرعام انجام تک پہنچایا۔
طالبان سپریم کورٹ کا کہنا ہے کہ مقتولین کے ورثا نے معافی دینے سے انکار کردیا تھا، جس کے بعد اسلامی قانون کے مطابق سزا پر عمل کیا گیا۔
اقوام متحدہ نے اس نوعیت کی سرعام سزاؤں کو غیر انسانی، ظالمانہ اور عالمی قوانین کے خلاف قرار دیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق 2021 کے بعد سے افغانستان میں 11 افراد کو عوام کے سامنے سزائے موت دی جا چکی ہے۔