Jasarat News:
2025-10-25@07:03:13 GMT

تحریک لبیک پاکستان( ٹی ایل پی ) پر پابندی لگا دی گئی

اشاعت کی تاریخ: 23rd, October 2025 GMT

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

اسلام آباد:۔ وفاقی کابینہ نے تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) پر پابندی کی منظوری دے دی گئی۔

میڈیا رپورٹ کے مطابق وزیراعظم شہباز شریف کی زیرصدارت کابینہ کااجلاس ہوا۔ وزارت داخلہ نے پنجاب حکومت کی سفارش پر سمری کابینہ میں بھیجی تھی۔

ذرائع کے مطابق وفاقی کابینہ کے اجلاس میں مجموعی معاشی، داخلی اور سیاسی صورتحال کا جائزہ لیا گیا، اسی طرح پاک-افغان بارڈر کی صورتحال بھی زیر بحث آئی۔ ذرائع کے مطابق وفاقی کابینہ اجلاس میں اہم سمریاں منظوری کےلئے پیش گئیں۔

ویب ڈیسک.

ذریعہ: Jasarat News

پڑھیں:

تحریک لبیک پر پابندی

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251025-03-2

 

وزیر اعظم محمد شہباز شریف کی زیر صدارت منعقدہ وفاقی کابینہ کے اجلاس میں متفقہ طور پر تحریک لبیک پاکستان پر پابندی کی منظوری دے دی گئی ہے یہ پابندی پنجاب حکومت کی درخواست پر عائد کی گئی ہے اور بطور سیاسی جماعت تحریک لبیک کو تحلیل کرنے کا مروجہ طریقہ اختیار کرنے کے بجائے کابینہ نے تحریک لبیک کو دہشت گردی اور تشدد آمیز سرگرمیوں میں ملوث ہونے کے الزامات کے تحت انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت کالعدم قرار دیا گیا ہے۔ تحریک لبیک کے خلاف کارروائی کا آغاز چند روز قبل پنجاب حکومت کی جانب سے وفاقی حکومت کو تحریک پر پابندی کی سفارش سے ہوا تھا جس کا جائزہ لینے کے لیے جمعرات کے روز وفاقی کابینہ کا اجلاس منعقد کیا گیا جس میں وفاقی وزارت داخلہ کی جانب سے معاملہ کی سمری پیش کی گئی جب کہ پنجاب حکومت کے اعلیٰ افسران نے ویڈیو لنک کے ذریعے اجلاس میں شرکت کی اور تحریک لبیک کو کالعدم قرار دیے جانے سے متعلق بریفنگ دی اور وفاقی کابینہ کے ارکان کو بتایا کہ 2016ء میں قائم ہونے والی تحریک لبیک نامی تنظیم نے پورے ملک میں شرانگیزی کو ہوا دی، تنظیم کی وجہ سے ملک کے مختلف حصوں میں شرانگیزی کے واقعات ہوئے، 2021ء میں بھی اس وقت کی حکومت نے ٹی ایل پی پر پابندی لگائی جو 6 ماہ بعد اس شرط پر ہٹائی گئی کہ آئندہ ملک میں بد امنی اور پرتشدد کارروائیاں نہیں کی جائیں گی۔ تنظیم پر پابندی کی وجہ 2021ء میں دی گئی ضمانتوں سے روگردانی بھی ہے، ماضی میں بھی ٹی ایل پی کے پر تشدد احتجاجی جلسوں اور ریلیوں میں سیکورٹی اہلکار اور بے گناہ راہ گیر جاں بحق ہوئے۔ وفاقی کابینہ دی گئی بریفنگ اور حکومت پنجاب کی سفارش کے بعد متفقہ طور پر اس نتیجے پر پہنچی کہ ٹی ایل پی، دہشت گردی اور پرتشدد کارروائیوں میں ملوث ہے۔ فیصلے کے تحت کالعدم تنظیم کے دفاتر سیل ہوں گے، تمام لٹریچر، الیکٹرونک، ڈیجیٹل اور پرنٹڈ میٹریل ضبط ہو گا، پریس اسٹیٹمنٹ اور پریس کانفرنس پر پابندی ہو گی، تنظیم کے عہدیداروں کو پاکستانی پاسپورٹ پر غیرملکی سفر کرنے کی ممانعت ہو گی، بینک اکائونٹس سمیت مالیاتی اداروں سے سہولتیں نہیں لے سکیں گے، تمام اسلحہ لائسنس منسوخ کر دیے جائیں گے، کالعدم تنظیم سے تعلق رکھنے والا شخص مجرم تصور کیا جائے گا۔ حکومت نے انسداد دہشت گردی ایکٹ کے سیکشن 11 بی کے تحت ٹی ایل پی کو بحیثیت تنظیم کالعدم قرار دینے کی منظوری دی ہے۔ جس کے مطابق وفاقی حکومت گزٹ آف پاکستان میں نوٹیفکیشن کے ذریعے پابندی کا اعلان کرے گی اور تین روز کے اندر کالعدم تنظیم کو پابندی کی وجوہ سے آگاہ کرے گی۔ انسداد دہشت گردی ایکٹ کے سیکشن 11 سی کے تحت کالعدم تنظیم وفاقی حکومت کے فیصلے کے 30 روز کے اندر نظر ثانی درخواست دائر کر سکتی ہے جس پر وفاقی حکومت کو 90 روز کے اندر فیصلہ کرنا ہے۔ وفاقی حکومت نظر ثانی درخواست کو مسترد کر دے تو کالعدم تنظیم نظر ثانی فیصلے کے 30 روز کے اندر ہائی کورٹ میں اپیل دائر کر سکتی ہے۔ انسداد دہشت گردی ایکٹ کے سیکشن 11 بی کے تحت وفاقی حکومت اس تنظیم کو کالعدم قرار دے سکتی ہے جس پر حکومت کے پاس یہ یقین کرنے کے مناسب دلائل ہوں کہ تنظیم دہشت گردی میں ملوث ہے، بالواسطہ یا بلاواسطہ کسی کالعدم تنظیم یا شخصیت کے ذریعے کنٹرول ہو رہی ہو یا کسی کالعدم تنظیم یا شخصیت کے احکامات پرعمل کر رہی ہو۔ خیال رہے ٹی ایل پی الیکشن کمیشن کی فہرست میں 102 نمبر پر موجود ہے، جب کہ بحیثیت سیاسی جماعت آئین کے آرٹیکل 17 یا الیکشن ایکٹ 2017ء کے سیکشن 212 کے تحت ابھی پابندی عائد نہیںکی گئی جس کے مطابق وفاقی حکومت ملکی سالمیت کے خلاف کام کرنے والی جماعت کے خلاف ڈیکلیریشن جاری کرتی ہے جس کے بعد 15 روز کے اندر معاملہ عدالت عظمیٰ میں جاتا ہے اور عدالت عظمیٰ کا فیصلہ حتمی ہوتا ہے، اس کے بعد الیکشن کمیشن آف پاکستان اس کے تحلیل کیے جانے کا نوٹیفکیشن جاری کرتا ہے۔ وطن عزیز میں کسی سیاسی جماعت کو خلاف قانون یا کالعدم قرار دیے جانے کا یہ پہلا موقع نہیں بلکہ قبل ازیں بھی حکومت کی جانب سے بارہا یہ حربہ آزمایا جا چکا ہے۔ خود تحریک لبیک کے خلاف بھی عمران خاں کی وزارت عظمیٰ کے دور میں پابندی عائد کی گئی تھی مگر بعد ازاں مختلف دینی و سیاسی شخصیات اور جماعتوں کی طرف سے دبائو کے سبب حکومت نے اس معاملہ میں بعض ضمانتوں کے حصول کے بعد پابندی واپس لینے کا اعلان کر دیا تھا اور ایک معاہدے کے تحت تحریک لبیک کے گرفتار کارکنوں اور قائدین کی رہائی بھی عمل میں آگئی تھی۔ قبل ازیں قیام پاکستان کے صرف سات برس بعد جولائی 1954ء میں کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان پر ملک کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان کی حکومت کا تختہ اُلٹنے کے الزام میں پابندی عائدکی گئی تھی۔ جماعت اسلامی بھی ماضی میں پابندی کی زد میں آچکی ہے۔ پاکستان کے پہلے فوجی صدر ایوب خان کے دور میں جماعت اسلامی کو بھی پابندی کا سامنا کرنا پڑا جب 1964ء میں حکومت نے ریاست مخالف سرگرمیوں اور غیر ملکی فنڈنگ کے الزام میں جماعت اسلامی کو کالعدم قرار دے کر اس کے اہم رہنمائوں کو گرفتار کیا۔ جماعت اسلامی کی جانب سے اس پابندی کے خلاف عدالت عظمیٰ سے رجوع کیا گیا اور عدالت عظمیٰ نے یہ پابندی ختم کر دی تھی۔ اس کے علاوہ 1971ء میں صدر جنرل یحییٰ خان نے شیخ مجیب الرحمن کی عوامی لیگ اور نیشنل عوامی پارٹی پر بھی پابندی عائد کی تھی۔ نیشنل عوامی پارٹی کا قیام 1967ء میں عمل میں آیا تھا اور قیام کے ابتدائی آٹھ برس میں ہی اسے دو مرتبہ پابندی کا سامنا کرنا پڑا۔ جنرل یحییٰ کے بعد ذوالفقار علی بھٹو نے بھی 1975ء میں نیشنل عوامی پارٹی پر پابندی عائد کی تھی۔ ماضی قریب میں جن جماعتوں کو پابندی کا سامنا کرنا پڑا ان میںسندھی قوم پرست جماعت جسقم بھی شامل ہے جس پر مئی 2020ء میں وزارت داخلہ نے پابندی لگائی تھی۔ موجودہ حکومت کے وزیر اطلاعات عطاء اللہ تارڑ نے چند ماہ قبل تحریک انصاف پر پابندی لگانے کا بھی اعلان کیا تھا تاہم بعد میںکسی عقل مند کے مشورے پر حکومت نے خاموشی اختیار کر لی۔ اب تک کی تاریخ گواہ ہے کہ اس طرح کی پابندیوں کو عدالت عظمیٰ میں جواز فراہم کرنا مشکل ہو جاتا ہے یہ عدالت کے ذریعہ ختم ہو جاتی ہیں تاہم اگر کسی جماعت یا تنظیم پر پابندی برقرار رہ بھی جائے تو تجربات یہی بتاتے ہیں کہ ان کی سرگرمیاں ختم نہیں ہوتیں اور وہ کسی دوسرے نام سے اپنا کام شروع کر دیتی ہیں یا بغیر نئے نام کے بھی ایسی تنظیمیں اپنا کام جاری رکھتی ہیں۔ اس ضمن میں ہمارے مقتدر اداروں اور فیصلہ سازوں کو بھی سنجیدگی سے سوچنا چاہیے کہ وہ تحقیق و جستجو اور حقائق کی تہہ تک پہنچنے کے تمام تر ذرائع اور وسائل رکھنے کے باوجود بار بار ایسے فیصلے کیوں کرتے ہیں جن سے بعد ازاں رجوع ضروری اور مجبوری ہو جاتا ہے؟؟

 

اداریہ

متعلقہ مضامین

  • اسلام آباد:وفاقی وزیر خزانہ سینیٹر محمد اورنگزیب کی زیر صدارت کابینہ کمیٹی برائے سرکاری ادارہ جات کا اجلاس ہورہاہے
  • قومی اسمبلی کا اجلاس پیر کی شام طلب کیے جانے کا امکان، اہم قانون سازی متوقع
  • تحریک لبیک پر پابندی
  • وفاقی وزارت داخلہ نے تحریک لبیک پاکستان پر پابندی کا نوٹیفیکیشن جاری کردیا 
  • وزارتِ داخلہ نے تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) پر پابندی کا باضابطہ نوٹیفکیشن جاری کردیا
  • وزارت داخلہ نے تحریک لبیک پاکستان پر پابندی لگانے کا نوٹیفکیشن جاری کردیا
  • وفاقی کابینہ کے اجلاس میں تحریک لبیک پاکستان پرباقاعدہ پابندی کی منظوری دیدی گئی
  • وفاقی کابینہ نے تحریک لبیک پاکستان پر پابندی عائد کردی
  • وفاقی کابینہ کا اجلاس آج ہوگا، ٹی ایل پی پر پابندی سے متعلق فیصلہ زیر غور آنے کا امکان