Daily Ausaf:
2025-05-19@16:47:18 GMT

’’پانی کی پکار: جنگ کا خدشہ‘‘

اشاعت کی تاریخ: 19th, May 2025 GMT

آج کی تحقیقی دستاویز میں بھارت اور پاکستان کے درمیان پانی کے مسئلے پرممکنہ جنگی صورتحال کاایک فکری،قانونی اورتہذیبی تجزیہ پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔اس میں تاریخی پس منظر،سیاسی بیانات،فوجی توازن،بین الاقوامی قانون، اورعالمی اداروں کے کردارکاجائزہ لیا ہے۔ تحریر میں ادبی شائستگی،فکری گہرائی اورلسانی وقارکاخاص خیال رکھاگیاہے تاکہ یہ محض ایک رپورٹ نہ ہو بلکہ ایک فکری وعلمی شہادت بن سکے۔
برصغیرکاخطہ،جس نے کبھی دریائے سندھ کی روانی میں تمدن کی کشتیاں بہائی تھیں، آج اسی پانی کی دھارپرشمشیرآبدار تھامے کھڑا ہے۔ دریائوں کی سرزمین،جوکسی زمانے میں زندگی کی علامت تھی،اب باہمی عدم اعتماد، جغرافیائی رقابت اورسیاسی ترجیحات کے ہاتھوں جنگ کی دہلیزپرکھڑی ہے۔بھارت کے حالیہ جارحانہ بیانات اورپاکستان کاردِعمل ایک ایسے المیے کی نویددے رہے ہیں جو صرف فوجی محاذپر نہیں،بلکہ تہذیبی،ماحولیاتی اورانسانی سطح پربھی خوفناک نتائج پیداکرسکتاہے۔
انڈیااورپاکستان کے درمیان پانی کاتنازعہ ایک طویل عرصے سے جاری ہے،جوبنیادی طورپر دریائے سندھ کے طاس سے منسلک ہے۔حالیہ ہفتوں میں انڈیاکے آبی وسائل کے وزیرسی آرپاٹیل کے بیان(پاکستان کوایک قطرہ پانی نہیں دیاجائے گا) اورجوابی ردعمل میں پاکستان کایہ کہناکہ پانی روکنا ’’اقدامِ جنگ‘‘ ہوگا،محض سیاسی بیان نہیں بلکہ ایک قومی سلامتی کااقرارہے۔آبی ذرائع پاکستان کی زراعت،معیشت،اورانسانی بقاسے جڑے ہیں۔ان کاروکناگویازندگی کی شہ رگ کو دبانا ہے۔(ایسااقدام جنگ کے مترادف ہوگا) نے اس مسئلے کوایک نئے تنائوکی طرف دھکیل دیاہے۔
برصغیرمیں پانی صرف ایک قدرتی وسیلہ نہیں بلکہ تہذیبوں کاخمیرہے۔سندھ،جہلم،چناب اور راوی کے کناروں پرانسانی تاریخ نے کئی تمدنوں کوجوانی بخشی۔1960ء کاسندھ طاس معاہدہ اس تاریخی حقیقت کااعتراف تھاکہ دریاکسی قوم کی جاگیرنہیں،بلکہ خداکی نعمت ہیں۔تاہم آج یہ معاہدہ بھارتی قیادت کے جارحانہ بیانات کی زدمیں ہے۔وزیرآبی وسائل سی آرپاٹیل کابیان کہ ’’پاکستان کوایک قطرہ بھی نہ ملے‘‘ ایک ایسا اشتعال انگیزجملہ ہے جوسیاست کوسفارت سے جداکرکے اسے خالص طاقت کے پیمانے پرلے آتا ہے۔ یہ پانی کوزندگی سے کاٹ کرہتھیارمیں تبدیل کرنے کی کوشش ہے گویانیل کوفرعون کی ملکیت قراردے دیناہے۔
پانی اب فقط زراعت کامسئلہ نہیں رہا‘یہ قومی سلامتی کا،وجودکا،اورعلاقائی سیاست میں بالادستی کامسئلہ بن چکاہے۔دریا وہ پرخروش وجود بن گئے ہیں جن کے کناروں پراب کھیتی کم اور توپوں کی گرج زیادہ سنائی دیتی ہے۔تاریخی اعتبارسے دریائے سندھ اوراس کے معاون دریائوں نے نہ صرف زراعت کوسہارادیابلکہ دونوں ملکوں کے عوام کے مابین قدرتی اشتراک کا کردار بھی اداکیا۔ 1960ء کاسندھ طاس معاہدہ، جو عالمی ثالثی اورعقلی سفارتکاری کاشاہکارتھا،آج شدید دبائو کی زدمیں ہے۔بھارت کے آبی وسائل کے وزیرکاحالیہ بیان ایک ایساسیاسی طبلِ جنگ ہے جس نے فضاکوبارودآلودکردیاہے۔
پاکستان کی90فیصدزراعت دریائی پانی پر منحصرہے۔پانی کی کمی قحط اورمعاشی تباہی کاسبب بن سکتی ہے۔متعصب ہندوقوم پرست مودی اپنے سیاسی اقتداراوراپنی سیاسی غلطیوں کوعوام سے چھپانے کیلئے بھی دریائوں کاکنٹرول مقامی ریاستوں (جموں وکشمیر، پنجاب) میں سیاسی استحکام کیلئے اہم سمجھتاہے تاکہ عوام کی توجہ داخلی مسائل سے ہٹاکران خطرات کی طرف مبذول کرائی جا سکے۔
دریائوں کی تقسیم اوراستعمال کے حوالے سے بین الاقوامی ادارے نے اخلاقی معیارات،آبی تنازعات کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک نظریاتی فریم ورک جاری کررکھاہے جوعالمی قانون تین اہم اصولوں’’معقول ومنصفانہ استعمال‘‘،’’نقصان سے بچاؤ‘‘اور’’اطلاع اور مشاورت‘‘پراستوارہے۔یہ اصول اقوام متحدہ کے آبی کورسزسے متعلق کنونشن1997 ء میں واضح طورپربیان کئے گئے ہیں جسے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے منظور کیا تھا۔ اگرچہ بھارت اس معاہدے کادستخط کنندہ نہیں، لیکن یہ اصول’’عالمی عرفی قانون‘‘ کے زمرے میں آتے ہیں، یعنی تمام اقوام ان کے اخلاقی طور پر پابندہیں۔بھارت اگردریائو ں کابہائو روکنے یارخ موڑنے کی کوشش کرتاہے،تووہ نہ صرف سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی کرے گابلکہ اقوامِ عالم کے متفقہ قانونی اصولوں کے خلاف بھی اقدام تصورکیاجائے گا۔یہ عمل ایک ایساقانونی جرم ہوگا جو بین الاقوامی دبائواورتعزیرات کاجوازبن سکتا ہے۔
1960ء میں عالمی بینک کی ثالثی سے طے پانے والاسندھ طاس معاہدہ،بین الاقوامی معاہدات میں ایک نمایاں مقام رکھتاہے۔یہ معاہدہ اس بنیاد پر قائم ہواتھاکہ تین مشرقی دریا (راوی، بیاس، ستلج) بھارت کو،اورتین مغربی دریا (سندھ، جہلم، چناب)اکستان کودیے گئے۔ورلڈ بینک اس معاہدے کا’’ضامن‘‘ہے،اوراس کی نگرانی، شکایات کے ازالے،اورثالثی میں اس کا کردار کلیدی ہے۔انڈیاکومغربی دریائوں پر محدود استعمال (مثلاًبجلی کی پیداوار)کی اجازت ہے،لیکن پانی کوروکناممنوع ہے۔اگربھارت دریا روکنے کی کوشش کرے توپاکستان عالمی بینک میںتنازع کی درخو است دائرکرسکتاہے۔اس کامطلب یہ ہے کہ یہ معاملہ محض دوممالک کے درمیان نہیں رہے گا، بلکہ بین الاقوامی مالیاتی اداروں اوردنیاکی نظروں میں ایک قانونی مقدمہ بن جائے گا گویا سندھ طاس معاہدہ ان بین الاقوامی قوانین کی روشنی میں امن یافناکی لکیربن چکاہے۔
پاکستان کی جانب سے یہ واضح عندیہ دیا گیا ہے کہ دریائوں کاپانی روکنااقدامِ جنگ کے مترادف ہوگا۔یہ اعلان کسی مہم جوئی کاغماز یا صرف سیاسی یاعسکری ردعمل نہیں بلکہ قومی بقاکا اعلان ہے۔پاکستان کی زراعت،صنعت اور روزمرہ زندگی ان دریاں سے منسلک ہے اور پاکستان کی زراعت کا90فیصد دارومدارانہی دریائوں پر ہے۔ان کارک جاناگویا پورے ملک کی نبض پرہاتھ رکھ کراسے دبادیناہے۔گویایہ جنگ ہتھیاروں سے پہلے پانی کے قطروں پرلڑی جارہی ہے۔جہاں بھارت ایک آبی قوت بننے کے خواب دیکھ رہا ہے،وہیں پاکستان اس خواب کو اپنے وجود کے خلاف اعلانِ جنگ سمجھ رہا ہے۔ اگر بھارت آبی جارحیت کو ہتھیار بنائے، تو پاکستان کیلئے خاموش رہناممکن نہ ہوگا۔ اگربھارت نے یہ’’آبی سرجیکل سٹرائیک‘‘ کی، تویہ ممکن ہے کہ میدانِ جنگ زمین پرہو،لیکن اس کے شعلے فضا،معیشت اورتہذیب کوجھلسادیں۔
پاک وہندمیں تنازعات کی تاریخ کئی دہائیوں پرمحیط ہے لیکن پہلگام کے فالس فلیگ آپریشن کے بعد تیزی کے ساتھ کشیدگی میں اضافہ ہوتاجارہاہے۔1965ء اور1971ء کی کشیدگی کے جواب میں جنگوں کوبھی ایک اہم وجہ سمجھا جاتا ہے لیکن2000ء کی دہائی میں پانی، کشمیر اور دہشت گردی پرجامع مذاکرات ہوئے لیکن 2019ء میں ایک اورفالس فلیگ پلوامہ آپریشن کے نتیجے میں انڈیانے پاکستان کودریاکے پانی کا’’ریاستی ہتھیار‘‘ بنانے کی دھمکی دی تھی۔ بعدازاں 2021ء میں دونوں ممالک نے کشمیرمیں فائربندی پر اتفاق کیاجو چندروز قبل تک کامیابی کے ساتھ چل رہاتھا۔
(جاری ہے)

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: سندھ طاس معاہدہ بین الاقوامی پاکستان کی نہیں بلکہ کی کوشش

پڑھیں:

بھارت نے پانی روکا تو ہمارے ردعمل کے نتائج دہائیوں تک محسوس کیے جائیں گے ، ترجمان پاک فوج

راولپنڈی: پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر کے ڈائریکٹر جنرل لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے کہا ہےکہ کوئی پاکستان کا پانی روکنےکی جرات نہ کرے، بھارت نے پانی روکا تو پاکستان کے ردعمل کے نتائج سالوں اور دہائیوں تک محسوس کیے جائیں گے۔
برطانوی میڈیا کو دیے گئے انٹرویو میں ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ حکومت پاکستان پانی کے معاملے پربھارت کو واضح کرچکی ہے، فوج کی طرف سے مزید کچھ کہنےکی ضرورت نہیں،24 کروڑ سے زائد لوگوں کا پانی روکنےکا کوئی پاگل آدمی ہی سوچ سکتا ہے۔
ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ بھارت ایسا کرنےکی ہمت نہیں کرسکتا، امید کرتے ہیں ایسا وقت نہ آئے لیکن آیا تو دنیا ہمارے اقدامات دیکھےگی، بھارت نےپاکستان کا پانی روکا تو سالوں اور دہائیوں تک اس کے نتائج محسوس کیے جائیں گے۔
ترجمان پاک فوج کا کہنا تھا کہ ہم اپنے کیےگئے وعدوں کی مکمل پاسداری کرتے ہیں، ہم سیاسی حکومت کی ہدایات کو مکمل طور پر مانتے ہیں اور ان کے عزم کا پاس رکھتے ہیں، پاکستانی فوج کی طرف سے یہ جنگ بندی برقرار رہےگی، فریقین کے درمیان رابطے میں اعتماد سازی کے اقدامات کیےگئے ہیں، اگر خلاف ورزی ہوتی ہے تو ہمارا جواب ہمیشہ ہوگا اور موقع پر ہوگا، جواب صرف ان ہی چوکیوں اور مقامات پر ہوگا جہاں سے جنگ بندی کی خلاف ورزی کی گئی ہو۔
ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ میں تصدیق کرسکتا ہوں کہ بھارت کا چھٹا گرنے والا طیارہ میراج 2000 ہے، ہم نے صرف طیاروں کو نشانہ بنایا، مزید کارروائی کرسکتے تھے مگر ہم نے ضبط کا مظاہرہ کیا، حملوں کے باوجود ہمارے تمام فضائی اڈے مکمل طور پر فعال ہیں، پاک فضائیہ کے پاس ایسے وسائل ہیں جن کی مدد سے فوری طور پر اڈوں کو فعال کیا جاسکتا ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ بھارت کی کشمیرپالیسی، ظلم وجبر اور کشمیر کو اندرونی معاملہ بنانےکی کوشش ناکام ہو چکی ہے، جب تک بھارت بات چیت نہیں کرتا دونوں ممالک مسئلےکا حل نہیں نکالتے، تنازع کی آگ بھڑکنے کا خطرہ موجود رہےگا۔

Post Views: 6

متعلقہ مضامین

  • پاکستان کیساتھ کشیدگی ، بھارت ایشیا کپ سے دستبردار ، رواں سال شیڈول ٹورنامنٹ نہ ہونیکا خدشہ
  • پاکستانی ردعمل کے نتائج دہائیوں تک محسوس کئے جائینگے، بھارت نے پانی روکا تو اقدامات دنیا دیکھے گی: ڈی جی آئی ایس پی آر
  • کوئی پاکستان کا پانی روکنے کی جرأت نہیں کر سکتا؛ ڈی جی آئی ایس پی آر
  • بھارت پانی روکنے کی ہمت نہیں کرسکتا، اگر ایسا ہوا تو دہائیوں تک نتائج محسوس ہوں گے، ترجمان پاک فوج
  • بھارت نے پانی روکا تو ہمارے ردعمل کے نتائج دہائیوں تک محسوس کیے جائیں گے ، ترجمان پاک فوج
  • بھارتی ایئرلائنز کیلئےفضائی حدود بند،اربوں کا نقصان،کارگو سروس بھی ٹھپ
  • کیا جنوبی ایشیا میں پہلی ایٹمی جنگ پانی پر ہوگی؟
  • پاکستان کا مستقبل نہ صرف محفوظ ہے بلکہ روشن اور تابناک بھی ہے، ڈی جی آئی ایس پی آر
  • اصل امتحان اب شروع ہوا ہے