Daily Ausaf:
2025-09-18@20:43:13 GMT

’’پانی کی پکار: جنگ کا خدشہ‘‘

اشاعت کی تاریخ: 19th, May 2025 GMT

آج کی تحقیقی دستاویز میں بھارت اور پاکستان کے درمیان پانی کے مسئلے پرممکنہ جنگی صورتحال کاایک فکری،قانونی اورتہذیبی تجزیہ پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔اس میں تاریخی پس منظر،سیاسی بیانات،فوجی توازن،بین الاقوامی قانون، اورعالمی اداروں کے کردارکاجائزہ لیا ہے۔ تحریر میں ادبی شائستگی،فکری گہرائی اورلسانی وقارکاخاص خیال رکھاگیاہے تاکہ یہ محض ایک رپورٹ نہ ہو بلکہ ایک فکری وعلمی شہادت بن سکے۔
برصغیرکاخطہ،جس نے کبھی دریائے سندھ کی روانی میں تمدن کی کشتیاں بہائی تھیں، آج اسی پانی کی دھارپرشمشیرآبدار تھامے کھڑا ہے۔ دریائوں کی سرزمین،جوکسی زمانے میں زندگی کی علامت تھی،اب باہمی عدم اعتماد، جغرافیائی رقابت اورسیاسی ترجیحات کے ہاتھوں جنگ کی دہلیزپرکھڑی ہے۔بھارت کے حالیہ جارحانہ بیانات اورپاکستان کاردِعمل ایک ایسے المیے کی نویددے رہے ہیں جو صرف فوجی محاذپر نہیں،بلکہ تہذیبی،ماحولیاتی اورانسانی سطح پربھی خوفناک نتائج پیداکرسکتاہے۔
انڈیااورپاکستان کے درمیان پانی کاتنازعہ ایک طویل عرصے سے جاری ہے،جوبنیادی طورپر دریائے سندھ کے طاس سے منسلک ہے۔حالیہ ہفتوں میں انڈیاکے آبی وسائل کے وزیرسی آرپاٹیل کے بیان(پاکستان کوایک قطرہ پانی نہیں دیاجائے گا) اورجوابی ردعمل میں پاکستان کایہ کہناکہ پانی روکنا ’’اقدامِ جنگ‘‘ ہوگا،محض سیاسی بیان نہیں بلکہ ایک قومی سلامتی کااقرارہے۔آبی ذرائع پاکستان کی زراعت،معیشت،اورانسانی بقاسے جڑے ہیں۔ان کاروکناگویازندگی کی شہ رگ کو دبانا ہے۔(ایسااقدام جنگ کے مترادف ہوگا) نے اس مسئلے کوایک نئے تنائوکی طرف دھکیل دیاہے۔
برصغیرمیں پانی صرف ایک قدرتی وسیلہ نہیں بلکہ تہذیبوں کاخمیرہے۔سندھ،جہلم،چناب اور راوی کے کناروں پرانسانی تاریخ نے کئی تمدنوں کوجوانی بخشی۔1960ء کاسندھ طاس معاہدہ اس تاریخی حقیقت کااعتراف تھاکہ دریاکسی قوم کی جاگیرنہیں،بلکہ خداکی نعمت ہیں۔تاہم آج یہ معاہدہ بھارتی قیادت کے جارحانہ بیانات کی زدمیں ہے۔وزیرآبی وسائل سی آرپاٹیل کابیان کہ ’’پاکستان کوایک قطرہ بھی نہ ملے‘‘ ایک ایسا اشتعال انگیزجملہ ہے جوسیاست کوسفارت سے جداکرکے اسے خالص طاقت کے پیمانے پرلے آتا ہے۔ یہ پانی کوزندگی سے کاٹ کرہتھیارمیں تبدیل کرنے کی کوشش ہے گویانیل کوفرعون کی ملکیت قراردے دیناہے۔
پانی اب فقط زراعت کامسئلہ نہیں رہا‘یہ قومی سلامتی کا،وجودکا،اورعلاقائی سیاست میں بالادستی کامسئلہ بن چکاہے۔دریا وہ پرخروش وجود بن گئے ہیں جن کے کناروں پراب کھیتی کم اور توپوں کی گرج زیادہ سنائی دیتی ہے۔تاریخی اعتبارسے دریائے سندھ اوراس کے معاون دریائوں نے نہ صرف زراعت کوسہارادیابلکہ دونوں ملکوں کے عوام کے مابین قدرتی اشتراک کا کردار بھی اداکیا۔ 1960ء کاسندھ طاس معاہدہ، جو عالمی ثالثی اورعقلی سفارتکاری کاشاہکارتھا،آج شدید دبائو کی زدمیں ہے۔بھارت کے آبی وسائل کے وزیرکاحالیہ بیان ایک ایساسیاسی طبلِ جنگ ہے جس نے فضاکوبارودآلودکردیاہے۔
پاکستان کی90فیصدزراعت دریائی پانی پر منحصرہے۔پانی کی کمی قحط اورمعاشی تباہی کاسبب بن سکتی ہے۔متعصب ہندوقوم پرست مودی اپنے سیاسی اقتداراوراپنی سیاسی غلطیوں کوعوام سے چھپانے کیلئے بھی دریائوں کاکنٹرول مقامی ریاستوں (جموں وکشمیر، پنجاب) میں سیاسی استحکام کیلئے اہم سمجھتاہے تاکہ عوام کی توجہ داخلی مسائل سے ہٹاکران خطرات کی طرف مبذول کرائی جا سکے۔
دریائوں کی تقسیم اوراستعمال کے حوالے سے بین الاقوامی ادارے نے اخلاقی معیارات،آبی تنازعات کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک نظریاتی فریم ورک جاری کررکھاہے جوعالمی قانون تین اہم اصولوں’’معقول ومنصفانہ استعمال‘‘،’’نقصان سے بچاؤ‘‘اور’’اطلاع اور مشاورت‘‘پراستوارہے۔یہ اصول اقوام متحدہ کے آبی کورسزسے متعلق کنونشن1997 ء میں واضح طورپربیان کئے گئے ہیں جسے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے منظور کیا تھا۔ اگرچہ بھارت اس معاہدے کادستخط کنندہ نہیں، لیکن یہ اصول’’عالمی عرفی قانون‘‘ کے زمرے میں آتے ہیں، یعنی تمام اقوام ان کے اخلاقی طور پر پابندہیں۔بھارت اگردریائو ں کابہائو روکنے یارخ موڑنے کی کوشش کرتاہے،تووہ نہ صرف سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی کرے گابلکہ اقوامِ عالم کے متفقہ قانونی اصولوں کے خلاف بھی اقدام تصورکیاجائے گا۔یہ عمل ایک ایساقانونی جرم ہوگا جو بین الاقوامی دبائواورتعزیرات کاجوازبن سکتا ہے۔
1960ء میں عالمی بینک کی ثالثی سے طے پانے والاسندھ طاس معاہدہ،بین الاقوامی معاہدات میں ایک نمایاں مقام رکھتاہے۔یہ معاہدہ اس بنیاد پر قائم ہواتھاکہ تین مشرقی دریا (راوی، بیاس، ستلج) بھارت کو،اورتین مغربی دریا (سندھ، جہلم، چناب)اکستان کودیے گئے۔ورلڈ بینک اس معاہدے کا’’ضامن‘‘ہے،اوراس کی نگرانی، شکایات کے ازالے،اورثالثی میں اس کا کردار کلیدی ہے۔انڈیاکومغربی دریائوں پر محدود استعمال (مثلاًبجلی کی پیداوار)کی اجازت ہے،لیکن پانی کوروکناممنوع ہے۔اگربھارت دریا روکنے کی کوشش کرے توپاکستان عالمی بینک میںتنازع کی درخو است دائرکرسکتاہے۔اس کامطلب یہ ہے کہ یہ معاملہ محض دوممالک کے درمیان نہیں رہے گا، بلکہ بین الاقوامی مالیاتی اداروں اوردنیاکی نظروں میں ایک قانونی مقدمہ بن جائے گا گویا سندھ طاس معاہدہ ان بین الاقوامی قوانین کی روشنی میں امن یافناکی لکیربن چکاہے۔
پاکستان کی جانب سے یہ واضح عندیہ دیا گیا ہے کہ دریائوں کاپانی روکنااقدامِ جنگ کے مترادف ہوگا۔یہ اعلان کسی مہم جوئی کاغماز یا صرف سیاسی یاعسکری ردعمل نہیں بلکہ قومی بقاکا اعلان ہے۔پاکستان کی زراعت،صنعت اور روزمرہ زندگی ان دریاں سے منسلک ہے اور پاکستان کی زراعت کا90فیصد دارومدارانہی دریائوں پر ہے۔ان کارک جاناگویا پورے ملک کی نبض پرہاتھ رکھ کراسے دبادیناہے۔گویایہ جنگ ہتھیاروں سے پہلے پانی کے قطروں پرلڑی جارہی ہے۔جہاں بھارت ایک آبی قوت بننے کے خواب دیکھ رہا ہے،وہیں پاکستان اس خواب کو اپنے وجود کے خلاف اعلانِ جنگ سمجھ رہا ہے۔ اگر بھارت آبی جارحیت کو ہتھیار بنائے، تو پاکستان کیلئے خاموش رہناممکن نہ ہوگا۔ اگربھارت نے یہ’’آبی سرجیکل سٹرائیک‘‘ کی، تویہ ممکن ہے کہ میدانِ جنگ زمین پرہو،لیکن اس کے شعلے فضا،معیشت اورتہذیب کوجھلسادیں۔
پاک وہندمیں تنازعات کی تاریخ کئی دہائیوں پرمحیط ہے لیکن پہلگام کے فالس فلیگ آپریشن کے بعد تیزی کے ساتھ کشیدگی میں اضافہ ہوتاجارہاہے۔1965ء اور1971ء کی کشیدگی کے جواب میں جنگوں کوبھی ایک اہم وجہ سمجھا جاتا ہے لیکن2000ء کی دہائی میں پانی، کشمیر اور دہشت گردی پرجامع مذاکرات ہوئے لیکن 2019ء میں ایک اورفالس فلیگ پلوامہ آپریشن کے نتیجے میں انڈیانے پاکستان کودریاکے پانی کا’’ریاستی ہتھیار‘‘ بنانے کی دھمکی دی تھی۔ بعدازاں 2021ء میں دونوں ممالک نے کشمیرمیں فائربندی پر اتفاق کیاجو چندروز قبل تک کامیابی کے ساتھ چل رہاتھا۔
(جاری ہے)

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: سندھ طاس معاہدہ بین الاقوامی پاکستان کی نہیں بلکہ کی کوشش

پڑھیں:

موقع پرست اور سیلاب کی تباہی

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

250919-03-4

 

غزالہ عزیز

پاکستان وہ خوش نصیب ملک ہے جو ہر طرح کی معدنیات کے علاوہ ہر طرح کے خطہ زمین کی دولت سے مالا مال ہے۔ دریائوں کے پانچ بڑے سلسلے جو ملک کے پہاڑی سلسلوں سے ہنستے گنگناتے اُترتے ہیں اور پورے ملک سے گزرتے ہوئے سیراب کرتے سمندر کا رُخ کرتے ہیں لیکن مون سون کے موسم میں جب یہ دریا بپھرتے ہیں اور بھارت اپنا سیلابی پانی مزید ان دریائوں میں ڈال دیتا ہے تو خطرناک سیلاب آجاتا ہے۔ یہ سیلابی پانی گھروں اور بستیوں کو بہا کر لے جاتا ہے، کھڑی فصلوں کو تباہ کرتا ہے، مویشیوں کو دیتا ہے۔ اس وقت ملک عزیز میں جو سیلاب آیا اس نے 33 لاکھ سے زیادہ افراد کو متاثر کیا، سیکڑوں بستیاں ڈھے گئیں، باقی میں چھتوں تک پانی کھڑا ہے، سڑکیں پانی میں ڈوبی ہیں، کھیت کھلیان تالاب بن گئے ہیں، لوگ باگ گھروں سے کشتیوں کے ذریعے جان بچا کر نکلے ہیں اور خیموں میں پناہ لی ہے، ان کے مویشی اور گھروں کا سامان تباہ ہوگیا ہے۔ اگرچہ رضا کار لوگوں کی جانیں اور ان کا مال مویشی بچانے کے لیے کشتیوں کے ذریعے پہنچے ہیں لیکن ان کی نگاہیں حسرت سے اپنی برباد فصلوں کو دیکھ رہی ہیں۔

یہ سیلاب کی صورت حال کوئی نئی نہیں پہلے بھی آتے رہے ہیں لیکن انتہائی غفلت کی بات ہے کہ ایک طرف پاکستان دنیا کے ان ممالک میں شامل ہے جہاں خطرناک حد تک پانی کی قلت ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ 2040ء تک پاکستان خطے کا پانی کی قلت سے دوچار سب سے زیادہ متاثر ملک بن سکتا ہے۔ ابھی حال ہی میں حکومت کے کرتا دھرتا کہہ رہے تھے کہ بھارت پاکستان جانے والے دریائوں کا پانی روک کر آبی جارحیت کررہا ہے۔ لیجیے اب اس نے دریائوں میں پانی چھوڑ دیا اور ہم واویلا کرنے لگے کہ اب وہ پانی چھوڑ کر پاکستان کو سیلاب کی صورت حال سے دوچار کررہا ہے۔بھارت پانی کو اپنی مرضی سے روک اور چھوڑ سکتا ہے تو کیوں؟ اس سوال پر پاکستانی کرتا دھرتا غور کریں۔ ظاہر ہے اس نے اپنے ڈیم بنائے ہیں، اپنی زراعت کے لیے پانی کو استعمال کرنے کے لیے، لیکن ہم نے اپنی اسمبلیوں میں ڈیم نہ بنانے کے لیے قراردادیں منظور کی ہیں، کیوں کہ ہمیں اپنے بینک بیلنس بڑھانے ہیں، غریب عوام جائیں سیلاب میں ڈوبیں، اپنی جمع پونجی کو روئیں ہمیں پروا نہیں ہے۔ دنیا ڈیم بنا کر میٹھے پانی کو استعمال کررہی ہے اور ہم میٹھے پانی کو سمندر برد کرتے ہیں بلکہ دعائیں کرتے ہیں کہ یہ پانی جلد از جلد سمندر تک پہنچے۔ بھارت ڈیم بنانے والے ملکوں میں امریکا، جاپان، برازیل کے ساتھ سب سے آگے کی صف میں ہے۔ عالمی کمیشن بتاتا ہے کہ بڑا ڈیم وہ ہوتا ہے جو 15 میٹر سے زیادہ بلند ہو یعنی چار منزلہ عمارت کے برابر اونچا ہو، ایسے بڑے ڈیم بھارت میں 5100 ہیں۔ جبکہ پاکستان میں مشکل سے 164 ہیں۔

پاکستان میں پانی کی قلت کا یہ حال ہے کہ 44 فی صد سے زیادہ لوگ پینے کے صاف پانی سے محروم ہیں، دیہی علاقوں میں یہ تعداد 90 فی صد تک پہنچ جاتی ہے جس کے باعث بڑے اور بچے بیماریوں کا شکار ہوتے ہیں۔ صرف اسہال سے پاکستان میں ہر سال 2 لاکھ بچے انتقال کرجاتے ہیں اور ہمارے ہاں حکومت پولیو کے علاوہ دوسری بیماریوں کو اہمیت دینے کے لیے ہی تیار نہیں۔ پانی زندگی ہے آنے والے وقت میں پانی پر ہونے والی جنگوں کا ہی سوچ کر ہمیں اپنے لوگوں کے لیے سیلابی پانی کو ذخیرہ کرنے کے لیے سوچنا چاہیے۔ موجودہ سیلاب نے صورت حال کو اچانک انتہائی تیزی سے بدلا، پانی چند گھنٹوں میں اس قدر بڑھا کہ لوگوں کو صرف اپنی جانیں بچا کر نکلنے کا موقع ملا، بہت سے ایسے تھے کہ جنہوں نے گھر چھوڑ کر نکلنے سے انکار کردیا وہ اس امید پر وہاں ٹھیرنا چاہتے تھے کہ شاید پانی جلد ہی اُتر جائے گا۔ لیکن پانی بڑھ گیا اور اتنا بڑھا کہ رضا کاروں کے لیے بھی ان تک پہنچنا مشکل ہوگیا۔ وہ بتارہے ہیں کہ پانی کے نیچے کہیں پلیاں بنی ہوئی ہیں جو نظر نہیں آتیں اور کشتیوں کے اُلٹنے کا خطرہ ہے پھر کیونکہ پانی کے نیچے کھڑی فصلیں موجود ہیں جو کشتیوں کے پنکھوں میں پھنس جاتی ہیں  اور کشتیوں کے لیے حرکت کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔ دوسری طرف بھارت کی طرف سے ایک کے بعد ایک بڑا پانی کا ریلہ چھوڑا جارہا ہے جس سے پانی کی سطح اور بہائو میں تیزی آرہی ہے، ایسے میں ابھی کچھ لوگ ڈگمگاتے گھروں کی چھتوں پر موجود ہیں، بہت سے مقامات پر پانی کی سطح آٹھ اور دس فٹ بلند بتائی جارہی ہے جہاں کشتیاں ایسے چل رہی ہیں جیسے دریائوں میں چلتی ہیں۔ لوگ بتارہے ہیں کہ پچھلے سیلابوں میں بھی دریا نے جب بہنا شروع کیا تو گھروں کو گرا کر اس جگہ کو نگل گیا جو اصل میں اس کی ہی تھی۔ خواجہ آصف بھی خوب ہیں، وزیر دفاع کے ساتھ وزیر اطلاعات کی ذمے داری اٹھالیتے ہیں، حکومتوں میں رہتے ہوئے بیان ایسے دیتے ہیں جیسے اپوزیشن میں ہی زندگی گزاری ہے۔ وہ اطلاع دے رہے ہیں کہ سیالکوٹ میں نالوں کی زمین لوگوں کو بیچی گئی، دریا کے راستے میں آبادیاں ہیں، گزرگاہوں پر قبضہ ہوچکا ہے، ہم دریا کے راستوں پر گھر اور ہوٹل بنا لیتے ہیں، دریا ردعمل تو دیتے ہیں، لہٰذا سیلاب کی تباہی ہمارے اپنے کرتوتوں سے ہے۔ تو جناب حکومت میں تو آپ رہے ہیں اور ہیں یہ سب ہورہا تھا تو آپ کیا کررہے تھے؟ عوام سے کہہ رہے ہیں کہ موقع پرستوں کو سسٹم میں لائیں گے تو نقصان ہوگا، جناب جو دو پارٹیاں حکومت میں پچھلے ستر سال سے ہیں وہ ن لیگ اور پی پی ہی ہے اور ٹھیک کہا کہ سب کے سب موقع پرست ہیں جن میں آپ بھی شامل ہیں۔ یہ لاکھوں کیوسک پانی جو ملک کے مختلف صوبوں میں تباہی مچاتا سمندر میں گرے گا کیا اس پانی کو سنبھالنے کے لیے کوئی نظام نہیں بنایا جاسکتا؟ یقینا بنایا جاسکتا ہے لیکن اس کے لیے دیانت دار حکمران ہونے چاہئیں، موقع پرست نہیں۔ افسوس ہماری ترجیحات ہی کچھ اور ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • موقع پرست اور سیلاب کی تباہی
  • متنازع شو پر عائشہ عمر کی وضاحت سامنے آگئی
  • اسٹریٹیجک دفاعی معاہدہ: پاک سعودی رفاقت کا اگلا اور نیا باب
  • اسرائیل امریکا کا نہیں بلکہ امریکا اسرائیل کا پراڈکٹ ہے: خواجہ آصف
  • پی ٹی آئی قیادت جانتی ہے کہ عمران خان کے بیان عاصم منیر کے نہیں بلکہ ریاست کے کیخلاف ہیں: کوثر کاظمی 
  • سیلاب سے  ایم 5 موٹروے 5 مقامات پر متاثر ،ٹریفک بند
  • انقلاب – مشن نور
  • پاکستان کی معاشی ترقی کی شرح صفر ہو جانے کا خدشہ
  • بھارت کی انتہا پسندی کرکٹ میدان میں بھی
  •  اوزون کی تہہ کے تحفظ کا عالمی دن آج منایا جا رہا ہے