راولپنڈی (نوائے وقت رپورٹ) پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر کے ڈائریکٹر جنرل لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے کہا ہے کہ کوئی پاکستان کا پانی روکنے کی جرات نہ کرے، بھارت نے پانی روکا تو پاکستان کے ردعمل کے نتائج سالوں اور دہائیوں تک محسوس کیے جائیں گے۔ عرب میڈیا کو دیے گئے انٹرویو میں ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ حکومت پاکستان پانی کے معاملے پر بھارت کو واضح کرچکی ہے، فوج کی طرف سے مزید کچھ کہنے کی ضرورت نہیں،24 کروڑ سے زائد لوگوں کا پانی روکنے کا کوئی پاگل آدمی ہی سوچ سکتا ہے۔ ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ  بھارت ایسا کرنے کی ہمت نہیں کرسکتا، امید کرتے ہیں ایسا وقت نہ آئے لیکن آیا تو دنیا ہمارے اقدامات دیکھے گی۔ بھارت نے پاکستان کا پانی روکا تو سالوں اور  دہائیوں تک اس کے نتائج محسوس کیے جائیں گے۔  ترجمان پاک فوج کا کہنا تھا کہ ہم اپنے کیے گئے وعدوں کی مکمل پاسداری کرتے ہیں۔ ہم سیاسی حکومت کی ہدایات کو مکمل طور پر مانتے ہیں اور ان کے عزم کا پاس رکھتے ہیں۔ پاکستانی فوج کی طرف سے یہ جنگ بندی برقرار رہے گی۔ فریقین کے درمیان رابطے میں اعتماد سازی کے اقدامات کیے گئے ہیں۔ اگر خلاف ورزی ہوتی ہے تو ہمارا جواب ہمیشہ ہوگا اور موقع پر ہوگا۔ جواب صرف ان ہی چوکیوں اور مقامات پر ہوگا جہاں سے جنگ بندی کی خلاف ورزی کی گئی ہو۔ ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ میں تصدیق کرسکتا ہوں کہ  بھارت کا چھٹا گرنے والا طیارہ میراج 2000 ہے۔ ہم نے صرف طیاروں کو نشانہ بنایا۔ مزید کارروائی کرسکتے تھے مگر ہم نے ضبط کا مظاہرہ کیا۔ حملوں کے باوجود ہمارے تمام فضائی اڈے مکمل طور پر فعال ہیں۔ پاک فضائیہ کے پاس ایسے وسائل ہیں جن کی مدد سے فوری طور پر اڈوں کو فعال کیا جاسکتا ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ بھارت کی کشمیر پالیسی، ظلم وجبر اور کشمیر کو اندرونی معاملہ بنانے کی کوشش ناکام ہو چکی ہے۔ جب تک بھارت بات چیت نہیں کرتا دونوں ممالک مسئلے کا حل نہیں نکالتے، تنازع کی آگ بھڑکنے کا خطرہ موجود رہے گا۔ ہمارے  فضائی  اڈے  حملوں  کے باوجود مکمل  بحال  ہیں۔ علاوہ ازیں لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے کہا ہے کہ ہم کبھی بھی بھارتی بالادستی کے آگے نہیں جھکیں گے۔ وہ یہ بات جتنی جلدی سمجھ لے، علاقائی امن اور دنیا کیلئے اتنا ہی بہتر ہوگا۔  ڈائریکٹر جنرل آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے ترکیہ کے سرکاری خبر رساں ادارے انادولو ایجنسی کو انٹرویو دیتے ہوئے مقبوضہ جموں و کشمیر کے علاقے پہلگام میں سیاحوں پر ہونے و الے حملے کا الزام پاکستان پر عائد کرنے اور ان دعووں کے حوالے سے کوئی ثبوت پیش نہ کرنے پر کہا کہ نئی دہلی حکومت دہشت گردی کے واقعات کو بہانہ بنارہی ہے اور اسے اس سے باز آنا چاہیے۔  دہشت گردی، انتہا پسندی اور نفرت بھارت کا اندرونی مسئلہ ہے۔ نئی دہلی حکومت ملک میں مسلمانوں اور سکھوں سمیت دیگر اقلیتوں پر دباؤ ڈال رہی ہے اور اس اقدام سے مزید غصہ، انتہا پسندی اور دہشت گردی جنم لے رہی ہے۔  پاکستان اس وقت دنیا میں دہشت گردی کا سب سے بڑا شکار ہے۔ جنوری 2024 سے اب تک پاکستان میں 3 ہزار 700 سے زائد دہشت گردی کے واقعات رونما ہوئے ہیں جن میں 1314 افراد جان کی بازی ہار چکے ہیں اور 2 ہزار 500 سے زائد زخمی ہوئے ہیں، جن میں سے بعض معذور ہو چکے ہیں۔ ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ پاکستان میں دہشت گردی بھارت کی حمایت اور حوصلہ افزائی سے ہو رہی ہے۔ انہوں نے بلوچستان میں جعفر ایکسپریس پر حملے کا حوالہ دیتے ہوئے، جس میں 20 سے زائد مسافر جاں بحق ہوئے تھے، کہا کہ اس حملے کی ذمہ داری قبول کرنے والی ’ بلوچستان لبریشن آرمی‘ (بی ایل اے) نے اپنے بیان میں واضح طور پر بھارت سے فوجی امداد کی درخواست کی تھی اور نئی دہلی کے بعض رہنماؤں، سیاسی شخصیات اور ریٹائرڈ جرنیلوں نے پاکستان میں اس تنظیم کی حمایت کرنے کے بیانات دیے تھے۔  ہمارے پاس اس بات کے بہت سے ثبوت موجود ہیں کہ بھارت کا پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات سے تعلق ہے۔ اور کہا کہ یہ ثبوت بین الاقوامی عدالت انصاف میں جمع کرائے چکے ہیں۔ لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے مزید کہا کہ بھارت اس خطے میں دہشت گردی کا ریاستی سرپرست ہے۔ اور بھارتی خفیہ ادارے پاکستان میں حملے کرنے کے لیے خوارج  اور دہشت گرد تنظیموں کو تربیت اور مالی امداد فراہم کر رہے ہیں۔ بھارت جموں و کشمیر کے لوگوں کے انسانی حقوق کو نظر انداز کرتے ہوئے کشمیر کے تنازعہ کو علاقے کے عوام کی خواہشات کے مطابق حل کرنے کے بجائے جبر کے ذریعے اور اس کی آبادیاتی ساخت کو تبدیل کر کے اسے اپنا حصہ بنانے کی کوشش کر رہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ بھارت پہلگام جیسے واقعات کو اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کر رہا ہے۔ نئی دہلی حکومت نے 2019 میں بھی پلوامہ حملے کے بعد جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت بھی ختم کر دی تھی۔ ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ پہلگام حملے کے بعد بھارت کے پاکستان کو نشانہ بنانے کی کئی وجوہات ہیں۔ پاکستان نے حالیہ برسوں میں دہشت گرد گروہوں کے خلاف کامیاب کارروائیاں کی ہیں جو بھارت کی پراکسیز ہیں۔ بھارت کے پاکستان پر حملے کا مقصد ملک کے مغربی حصے میں دہشت گرد گروہوں کو سانس لینے کا موقع فراہم کرنا ہے۔  پاکستان میں استحکام اور معاشی بہتری کی رفتار آہستہ لیکن یقینی طور پر درست سمت میں گامزن ہے اور بھارت حالیہ حملوں سے اسے روکنے کی کوشش کر رہا ہے۔  بھارت اپنے حملے میں معصوم بچوں اور خواتین کی شہادت کا منصفانہ انتقام لینے سے ہمیں روکنے کی کوشش کر رہا تھا، لیکن وہ یہ بھول گیا کہ ہم ایسی قوم اور ریاست نہیں ہیں جسے ڈرایا یا روکا جا سکے۔ ہم جارحیت اور غنڈہ گردی کے آگے کبھی نہیں جھکے اور نہ جھکیں گے۔  پاکستان امن کا خواہاں ہے لیکن اگر ہمیں اکسایا گیا، حملہ کیا گیا، جارحیت کی گئی تو ہمارا جواب تیز اور بے رحمانہ ہوگا، اور اس میں کوئی شک نہیں ہونا چاہیے۔ ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ پاکستانی فوج 10 مئی کو ہونے والی جنگ بندی پر عمل پیرا ہے اور رہے گی، تاہم بھارتی فوج کی طرف سے کی جانے والی کسی بھی اشتعال انگیزی کا جواب ضرور دیا جائے گا۔ ایٹمی ہتھیاروں کے حامل دو ممالک، پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ کو بے وقوفی قرار دیتے ہوئے لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے کہا کہ ایسی صورتحال دونوں ممالک کی باہمی تباہی کا نسخہ ہو گی۔ پاکستان کے ایک طیارے کو معمولی نقصان پہنچا ہے اور وہ جلد ہی دوبارہ آپریشنل ہو جائے گا۔ دنیا جانتی ہے کہ پاکستان نے بھارت کے طیارے گرائے ہیں لیکن نئی دہلی اسے تسلیم کرنے کو تیار نہیں۔ ہم ان (مار گرائے گئے طیاروں کے پائلٹوں) کے نام بتا سکتے ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ وہ اس وقت کہاں ہیں، ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ وہ کس (ہسپتال کے) بستر پر لیٹے ہیں۔ ڈی جی آئی ایس پی آر نے بھارت کے متکبرانہ رویے کو جنوبی ایشیا کے 1.

6 ارب لوگوں کے لیے خطرناک قرار دیتے ہوئے مزید کہا کہ حقیقت یہ ہے کہ بھارت امریکہ نہیں ہے اور پاکستان افغانستان نہیں ہے۔ نہ تو بھارت اسرائیل ہے اور نہ ہی پاکستان فلسطین۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کو کبھی بھی مرعوب نہیں کیا جا سکتا۔ ہم کبھی بھی بھارتی بالادستی کے آگے نہیں جھکیں گے۔ اور وہ یہ بات جتنی جلدی سمجھ لے علاقائی امن اور دنیا کے لیے اتنا ہی بہتر ہوگا۔

ذریعہ: Nawaiwaqt

کلیدی لفظ: لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے ڈی جی آئی ایس پی آر نے کا کہنا تھا کہ پاکستان میں کہ پاکستان دیتے ہوئے نے کہا کہ نئی دہلی کہ بھارت بھارت کے گردی کے کی کوشش ہے اور اور اس کر رہا کے لیے

پڑھیں:

دہشت گردی کا ناسور

باجوڑ کی تحصیل خار میں بم دھماکے سے اسسٹنٹ کمشنر، تحصلیدار ناؤگئی اور دو پولیس اہلکاروں سمیت 5 افراد شہید جب کہ 16 افراد زخمی ہوگئے۔ سرکاری گاڑی کو اس وقت موٹر سائیکل پر نصب بم سے نشانہ بنایا گیا۔ دھماکا ریموٹ کنٹرول تھا، سات سے دس کلو بارودی مواد موٹر سائیکل کے ساتھ نصب کیا گیا تھا۔

 پاکستان میں موجودہ دہشت گردی کا تعلق بھی بالواسطہ یا بلاواسطہ طور پر افغانستان کی سرزمین سے جڑا ہوا ہے۔ خیبر پختون خوا کی صوبائی حکومت کے سامنے یہ سوال رکھا جائے گا کہ آخر وہ کیونکر صوبے کے اندر دہشت گردی پر قابو پانے میں ناکام ہے؟ ریاست کو چیلنج کرنے اور قدیم دور کے تصورات رائج کرنے پر کمر بستہ دہشت گرد تنظیموں پر ضرب ضرور لگی تھی اور دہشت گردوں نے سرحد پارکر کے افغانستان میں پناہ لے لی تھی، لیکن ایسے عناصر کی ایک بڑی تعداد کو دوبارہ آباد کر کے جو غلطی کی گئی اس کا خمیازہ ہم آج بھگت رہے ہیں۔

سوال یہ ہے کہ کیا ان دہشت گرد گروہوں پر دباؤ میں کمی ہوئی ہے؟ کیا انھیں سانس لینے کا موقع فراہم کیا گیا ہے؟ ہمارے اداروں کو سب سے پہلے تو دہشت گردوں کے سہولت کاروں کا خاتمہ کرنا ہوگا، کیوں کہ سہولت کاری اور اندرونی مدد کے بغیر ایسی کارروائیاں ممکن نہیں۔ دراصل پاکستان کے خلاف دہشت گردانہ کارروائیوں میں وہ عناصر پیش پیش ہیں جو پاکستان کے وسائل کو مال غنیمت سمجھ کر استعمال کرنے کے متمنی ہیں ، اور ایک مخصوص انداز میں ریاست پاکستان کے خلاف ’’ منظم ‘‘ پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے تاکہ پاکستان کے اداروں کو مفلوج کرکے اقتدار پر قبضہ کیا جا سکے۔

ملک میں دہشت گردی کے فروغ کے دیگر اسباب میں مخصوص مائنڈ سیٹ کی حامل طاقتور قوتوں کا منفی کردار ہے لیکن دیکھنا یہ ہے کہ وہ کون لوگ ہیں جو رہتے ہیں تو پاکستان میں ہیں، یہاں کے وسائل استعمال کرکے طاقتور ہوئے ہیں لیکن وہ پاکستان کے عوام کے اجتماعی مفادات کے برعکس کام کررہے ہیں۔

وہ ہمارے ہی معاشرے کے افراد ہیں، ہم میں سے ہیں، ہمارے درمیان اٹھتے بیٹھتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ بھی ہوا کہ ہم نے اپنے معاشرے کی تربیت اس طور پر نہیں کی کہ وہ دوسروں کے مفادات کے لیے استعمال نہ ہوں اور اپنے ملک کی تباہی کا سامان نہ کریں مثلاً اگر ملک میں کہیں بم بلاسٹ ہو یا خود کش دھماکا ہو تو اس کام کی انجام دہی کے لیے کوئی غیر ملکی تو نہیں آتا ہمارے یہاں کے لوگ ہی ان کے دست و بازو بنتے اور ان کے مذموم ارادوں کی تکمیل کے لیے خود کو پیش کرتے ہیں۔ پاکستان کی تاریخ کا ایک انتہائی المناک پہلو یہ ہے کہ اپنوں کے بھیس میں ایک مخصوص طبقہ ملک کے سسٹم کو اپنی مرضی اور مفادات کے مطابق چلاتا چلا آ رہا ہے۔

پاکستان کے تعلیم یافتہ اور باشعور طبقات اس حقیقت کا ادراک رکھتے ہیں کہ وہ کون سے عناصر ہیں جو بیرونی اشاروں اور سہاروں کے ذریعے پاکستان کے اندر افراتفری پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ جو عناصر پاکستان میں سیاسی عدم استحکام سے بھرپور فائدہ اٹھاکر ریاست پاکستان کے خلاف مذموم کارروائیاں کررہے ہیں، ان کی اب ہر سطح پر بیخ کنی ہورہی ہے۔

دوسری طرف اگر پاکستان کے سیاستدان آپس کے تنازعات کو بات چیت کے ذریعے ختم کرلیں تو پاکستان میں نہ صرف سیاسی، استحکام پیدا ہوسکتا ہے جو بعد میں سماجی استحکام کی صورت میں عوام میں خوشگوار اقتصادی ترقی کا باعث بن سکتا ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ ’’ بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے‘‘ دراصل پاکستانی سیاستدانوں کو اس بات کا ادراک ہی نہیں ہے کہ ان کی طرز سیاست کے ساتھ ساتھ ان کے سیاسی لب و لہجہ سے ملک میں استحکام نہیں پیدا ہو رہا ہے۔ ہرچند کہ پاکستان کو اللہ تعالیٰ نے بے پناہ قدرتی وسائل سے مالا مال کیا ہوا ہے۔

اب یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ملک میں دہشت گردی کا بیج کیسے بویا گیا اور اس کی آبیاری کس طرح سے ہوئی جس کی وجہ سے پاکستان مسلسل عدم استحکام کا شکار ہے، پاکستان میں جس طرز کی دہشت گردی جاری ہے اس سے ظاہر یہی ہوتا ہے کہ یہ اُن پالیسیوں کا نتیجہ ہے جو پاکستان کی تمام حکومتوں نے اختیار کی اور اپنا اپنا حصہ ڈال کر رخصت ہوگئیں۔ اگر یہ کہا جائے کہ آج پاکستان دہشت گردی کی صورت میں جو خمیازہ بھگت رہا ہے، اس کا بیج انتہاپسند نظریات کی شکل میں بویا گیا جس کا آغاز قیام پاکستان کے فوراً بعد ہوگیا تھا۔

المیہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں اس مخصوص سوچ سے نمٹنے کی سعی نہیں کی گئی، اس سوچ کے مقابل کاؤنٹر نیرٹو (counter narrative) پیش نہیں کی گئی اور جس نے بھی اس نوع کی کاوش کی اسے راستے سے ہٹا دیا گیا کیونکہ ان کے نظریے کو عوام و خواص میں قبولیت کی نگاہ سے دیکھا گیااوریوں طالبان کو ان سے خطرہ لگا کہ ان کی وجہ سے لوگوں کے سامنے ان کا چہرہ بے نقاب ہوا، اور حکومت کا المیہ یہ رہا کہ وہ اس طرح کے جرات مندانہ اقدام کرنے والوں کی حفاظت نہ کرسکی۔ اس پس منظر میں ریاست کو اپنی ذمے داریوں سے واقفیت رکھنا اور ان سے عہدہ برآ ہونا بہت ضروری ہے اگر ریاست اپنی ذمے داریاں صحیح معنوں میں انجام دے تو بہتری یقینی ہے، البتہ اگر حکومت اپنے فرائض میں کوتاہی کا شکار ہے تو یہ کہنا درست نہیں کہ ہماری ریاست ہی سرے سے غیر اسلامی ہے۔

بدقسمتی سے پاکستان کو دوبارہ سر اٹھاتی دہشت گردی کا بھی سامنا ہے۔ملک میں دہشت گرد عناصر دوبارہ سے منظم ہو کر کارروائیاں کر رہے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ تمام طالبان دھڑے چاہے وہ پاکستانی ہوں یا افغان ، ایک دوسرے کی کاربن کاپی ہے اور جب ضرورت پڑے ایک دوسرے کے کام آتے ہیں۔

پاکستانی طالبان اور افغان طالبان ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔ ہمیں اچھے طالبان اور برے طالبان کا فرق ختم کرنا ہوگا اور اس بات پر یقین رکھنا ہو گا کہ جو عناصر بھی دہشت پھیلا کر کسی انسانی جان کے خاتمے یا انسانی حقوق کی پامالی میں ملوث ہوں وہ دہشت گرد ہیں۔ ٹی ٹی پی کا بڑھتا ہوا اثر و رسوخ اور دہشت گردی یقیناً بیرونی امداد سے ہی ممکن ہے۔ اب چاہے یہ مدد افغان طالبان کی شکل میں ہو یا پھر کسی پاکستان مخالف ملک کے وسائل کی شکل میں، پاکستان کے لیے ناقابل برداشت ہے۔

 پاکستان میں دہشت گردی افغانستان پر طالبان کے برسر اقتدار آنے کے بعد زیادہ بڑھی ہے۔ امریکا کے انخلا کے بعد امید تھی کہ افغانستان پاکستان کے لیے پرامن ملک بن جائے گا لیکن یہ امید پوری نہیں ہوئی بلکہ مسائل پہلے سے زیادہ بڑھ گئے ہیں۔ پاکستان دہشت گردی سے متاثرہ ممالک کی عالمی درجہ بندی میں دوسرے نمبر پر آگیا ہے۔ پاکستان میں دہشت گردی کے سب سے زیادہ حملوں اور ان میں ہلاکتوں کی ذمے دار کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) ہے۔

پاکستان نے بے پناہ قربانیاں دی ہیں، لیکن ستم ظریفی یہ ہے کہ خطے کے کچھ ممالک جنھوں نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں معمولی یا کوئی کردار ادا نہیں کیا، انھوں نے اقتصادی اور اسٹرٹیجک فوائد حاصل کیے ہیں۔ کچھ ممالک نے منافع بخش تجارتی اور دفاعی معاہدے کیے، جب کہ عالمی برادری سے حمایت اور سرمایہ کاری حاصل کی، حالانکہ ان کی دہشت گردی کے خلاف کوششیں نہ ہونے کے برابر تھیں۔ ان دہرے معیارات کا اعتراف کئی عالمی رہنما کر چکے ہیں، جس سے بین الاقوامی سیاست میں موجود تضادات نمایاں ہوتے ہیں۔ پاکستان، اپنی بے پناہ قربانیوں کے باوجود، معاشی اور سفارتی سطح پر مسلسل مشکلات کا شکار رہا ہے، جب کہ خطے کے دیگر ممالک کو ترجیحی سلوک اور اقتصادی مواقع ملتے رہے۔

 اس وقت سب سے بڑھ کر اہم ترین ذمے داری حکومت کے کندھوں پر آتی ہے کہ وہ اپنے کردار کونہ صرف محسوس کرے بلکہ بلاتاخیر اسے بھرپور طریقے سے انجام دے۔ پاکستان کی تاریخ میں فتنہ و انتشار کوئی ایک دہائی سے زوروں پر ہے لیکن اہل وطن کو تاحال حکومتی کردار پر بہت سے تحفظات ہیں اور دہشت گردی کے ناسور میں نمٹنے کے لیے کسی جماعت یا کسی مخصوص طبقے کی رعایت کسی طور پر نہ کی جائے اور اس راہ میں جب قوم دہشت گردی کی جنگ میں اپنے فوجی جوانوں کی پشت پناہی پر آمادہ ہے تو اب جو بھی اس قومی اتحاد کے باوجود تذبذب کا شکار نظر آئے اس کے بارے میں سنجیدہ لائحہ عمل مرتب کرے اور ان سے آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے تاکہ آنے والا وقت پاکستان اور ہماری آیندہ نسلوں کے لیے امن و سلامتی کی کرنیں لے کر طلوع ہو۔

متعلقہ مضامین

  • دہشت گردی کا ناسور
  • سرنڈر کرنا پاکستان کی ڈکشنری میں نہیں، بھارت مذاکرات کرے(بلاول بھٹو)
  • پاکستان دہشتگردی کیخلاف جنگ دنیا میں امن کیلئے لڑ رہا ہے، سرنڈر کرنا ہماری ڈکشنری میں نہیں: بلاول
  • پاکستانی حملے سے قبل امریکی نائب صدر نے بھارت کو کیا پیغام دیا؟
  • کواڈ گروپ کی پہلگام حملے کی مذمت‘ ذمہ داروں کو بلا تاخیر انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے. اعلامیہ
  • کتے کی دم
  •  طالبان حکومت کی وعدہ خلافی عدم استحکام کا باعث ہے، سرنڈر کرنا پاکستانی ڈکشنری میں شامل نہیں، بلاول
  • سرنڈر کرنا پاکستان کی ڈکشنری میں نہیں، بھارت امن کیلئے مذاکرات کرے: بلاول بھٹو
  • دہشتگردی پوری دنیا کے امن کیلئے خطرہ ہے، ایس جئے شنکر
  • پاکستان میں دہشت گردی بھارتی سرپرستی کا نتیجہ: پراکیسنرکا گٹھ جوڑ پھر بے نقاب