UrduPoint:
2025-05-19@16:08:14 GMT

ایزدی لڑکیوں کے ساتھ زیادتی، جرمنی میں مقدمہ شروع

اشاعت کی تاریخ: 19th, May 2025 GMT

ایزدی لڑکیوں کے ساتھ زیادتی، جرمنی میں مقدمہ شروع

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 19 مئی 2025ء) جرمنی کے شہر میونخ میں پیر کے روز ایک عراقی جوڑے کے خلاف مقدمے کی سماعت شروع ہو رہی ہے۔ اس شادی شدہ جوڑے پر الزامات ہیں کہ اس نے داعش کی رکنیت حاصل کی اور ایزدی مذہبی اقلیت کی دو کم سن بچیوں کے اغوا، جنسی استحصال، جبری مشقت، تشدد اور مذہب تبدیلی جیسے سنگین جرائم کا ارتکاب ہے۔

تینتالیس سالہ مرد اور اس کی انتیس سالہ بیوی پر نسل کشی، انسانوں کی اسمگلنگ اور انسانیت کے خلاف جرائم کے الزامات عائد کیے گئے ہیں۔

استغاثہ کے مطابق سن دو ہزار پندرہ میں اس شخص نے اپنی بیوی کے کہنے پر ایک پانچ سالہ ایزدی بچی کو خریدا۔ اطلاعات ہیں کہ ان دونوں نے اس معصوم بچی کو عراق اور شام میں دو سال تک قید رکھا گیا، جہاں اسے جنسی استحصال، جبری مشقت اور اذیت کا سامنا کرنا پڑا۔

(جاری ہے)

بعد ازاں سن 2017 میں ایک اور بارہ سالہ ایزدی لڑکی کو بھی خرید کر اسی طرح اذیتیں دی گئیں۔

نومبر سن دو ہزار سترہ میں دونوں لڑکیوں کو داعش کے دیگر ارکان کے حوالے کر دیا گیا۔ بڑی عمر کی لڑکی کو بعد میں اس کا خاندان تاوان دے کر واپس لے آیا مگر کم عمر بچی کا آج تک کچھ پتا نہیں چل سکا۔ استغاثہ کا کیا کہنا ہے؟

یہ جوڑا اپریل سن 2024 میں جرمنی کی ریاست باویریا میں گرفتار کیا گیا اور تب سے حراست میں ہے۔

استغاثہ نے عدالت کو بتایا کہ اس مرد نے ان دونوں لڑکیوں کو ریپ کا نشانہ بنایا جبکہ اس کی اہلیہ نے اس میں معاونت فراہم کی۔

یہ بھی بتایا گیا ہے کہ اس جوڑے نے ان بچیوں کو مختلف انداز میں جسمانی و ذہنی تشدد کا نشانہ بھی بنایا۔

داعش نے سن دو ہزار چار میں عراق کے سنجار نامی پہاڑی علاقے پر حملہ کر کے ایزدی اقلیت کے خلاف منظم نسل کشی، اجتماعی اغوا، جبری تبدیلی مذہب اور خواتین و بچیوں کو غلام بنانے کی مہم شروع کی تھی۔

ایزدی مذہب کے مطابق کسی غیر ایزدی سے جنسی تعلق رکھنے والے فرد کو کمیونٹی سے نکال دیا جاتا ہے اور اسی بنیاد پر داعش نے ایزدی خواتین اور لڑکیوں کے ساتھ جنسی زیادتی کو ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا تاکہ اس مذہبی اقلیت کی شناخت اور نسل کو ختم کیا جا سکے۔

جرمن استغاثہ نے مؤقف اختیار کیا ہے کہ یہ جوڑا بھی اسی منظم منصوبے کا حصہ تھا اور انہوں نے ذاتی سطح پر ان جرائم میں شرکت کی۔

ادارت: عاطف توقیر

.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے

پڑھیں:

مختلف جنسی رحجان رکھنے والوں کے حقوق پر قدغنیں تشویشناک

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 16 مئی 2025ء) اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرش نے کہا ہے کہ تشدد اور تفریق دنیا بھر کے لاکھوں ایل جی بی ٹی کیو آئی + افراد کی روزمرہ زندگی کے تلخ حقائق ہیں جبکہ طبی خدمات اور سول سوسائٹی کی تنظیموں کے لیے امدادی وسائل میں کمی سے ان کے لیے حالات مزید گمبھیر ہو گئے ہیں۔

ہم جنس پرست، دو جنسی رجحانات کے حامل اور ٹرانسجینڈر افراد سے نفرت کے خلاف عالمی دن 17 مئی کی مناسبت سے اپنے پیغام میں سیکرٹری جنرل نے کہا ہے کہ ایل جی بی ٹی کیو آئی + لوگوں کو اظہار نفرت، حملوں اور اپنے حقوق پر قدغن کا سامنا ہے۔

تاہم، ایسے لوگوں اور ان کے حقوق کا تحفظ کرنے والوں نے بارہا ثابت کیا ہے کہ مدد کی فراہمی اور تبدیلی لانے کے لیے اجتماعی اقدامات نتیجہ خیز ثابت ہوتے ہیں۔

(جاری ہے)

Tweet URL

ان کا کہنا ہے کہ ایل جی بی ٹی کیو آئی + افراد اور ان کے حقوق کے لیے کام کرنے والوں کی مثال سے تحریک لیتے ہوئے سبھی کو متحد ہو کر ایسی دنیا تعمیر کرنا ہو گی جہاں تمام انسان ایک خاندان کی طرح آزادی، مساوات اور وقار کے ساتھ جی سکیں۔

سبھی کو متحد ہو کر امتیازی قوانین کے خلاف مزاحمت کرنا ہو گی، تشدد اور نقصان دہ طرزعمل کو روکنا ہو گا اور پسماندہ لوگوں کو ناجائز طور پر مسائل کا ذمہ دار قرار دینے کا خاتمہ کرنا ہو گا۔

انہوں نے کہا ہے کہ اقوام متحدہ ان کوششوں میں فخریہ شراکت دار ہے اور تمام لوگوں کے حقوق یقینی بنانے کے لیے کوشاں رہے گا خواہ وہ کوئی بھی ہوں اور کسی سے بھی محبت کیوں نہ کرتے ہوں۔

برادری کا احساس

اس دن پر اپنے پیغام میں اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق وولکر ترک نے کہا ہے کہ ایل جی بی ٹی کیو آئی + افراد کے تحرک اور تخلیقی صلاحیت نے دنیا بھر میں معاشروں کو غیرمعمولی فائدہ پہنچایا ہے۔ تاہم، ہر جگہ ان کے حقوق اور آزادیوں کو کئی طرح کے خطرات لاحق ہیں۔

بہت سے ممالک میں ان لوگوں کے حقوق کے تحفظ میں برادری کے احساس نے اہم کردار ادا کیا ہے۔

ہم جنس تعلقات کو جرائم کی فہرست سے نکالنا ہو، ان لوگوں سے روا رکھے جانے والے امتیازی سلوک کے خلاف قانون سازی ہو یا صںفی شناخت اور ازدواجی مساوات کو تسلیم کرنا ہو، ایسے ہر معاملے میں معاشرتی سطح پر متحدہ اقدامات کی بدولت ہی کامیابی ملی۔

ان کا کہنا ہے کہ متعدد ممالک میں اب بین جنسی بچوں کو دوسروں کے نقصان دہ طرزعمل سے کہیں بہتر تحفظ حاصل ہے۔

اسی طرح، ایل جی بی ٹی کیو آئی + افراد کے حقوق کے حوالے سے عام آگاہی میں بھی اضافہ ہوا ہے۔سیاسی و ٹیک قیادت کی ذمہ داری

ہائی کمشنر نے کہا ہے کہ کسی فرد کا کسی بھی دوسرے فرد سے محبت کرنا عین انسانی جذبہ ہے تاہم اسی جذبے کے اظہار پر دنیا بھر میں ایل جی بی ٹی کیو آئی + افراد کے خلاف تشدد اور تفریق عام ہے۔ بعض سیاست دان اور رہنما ان کے خلاف نفرت کا اظہار کرتے ہیں اور لوگوں کو تقسیم اور گمراہ کرنے کے لیے انہیں ایک دوسرے سے لڑاتے ہیں۔

سوشل میڈیا کے پلیٹ فارم خاطرخواہ ضوابط کی عدم موجودگی میں ان کے خلاف تعصب اور نفرت پھیلانے کا بڑا ذریعہ بن چکے ہیں۔ ایل جی بی ٹی کیو آئی + افراد کی اظہار، پرامن اجتماع اور میل جول کی آزادیوں پر قدغن عائد کرنے کے لیے نئے امتیازی قوانین بھی متعارف کرائے جا رہے ہیں جن میں پرائیڈ جلوسوں پر پابندیاں اور تعلیمی مواد کو سنسر کرنے جیسے اقدامات بھی شامل ہیں۔

اپنے پیغام میں ہائی کمشنر نے کہا ہے کہ سبھی کو ان رجحانات کے خلاف آواز اٹھانا ہو گی اور معاشرے کے تمام شعبوں میں ان لوگوں کو تشدد اور تفریق سے بچانا ہو گا۔ اس حوالے سے ریاستوں اور ٹیکنالوجی کمپنیوں پر خاص ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ ایل جی بی ٹی کیو آئی + برادری کو وقار اور مساوات کے لیے کام کرنے والے دیگر لوگوں کے ساتھ مل کر چلنا ہو گا۔ اقوام متحدہ ہر جگہ تمام لوگوں کے انسانی حقوق اور وقار کے لیے اپنی کوششوں پر کبھی سمجھوتہ نہیں کرے گا۔

متعلقہ مضامین

  • آئی ایم ایف سے بجٹ مذاکرات کا دوسرا دور شروع، تنخواہ داروں پر انکم ٹیکس کم کرنے کیلئے بات ہوگی
  • ملک کی پندرہویں  پانچ سالہ منصوبہ بندی ، اعلیٰ معیار کے ساتھ تشکیل  دی جائے، چینی صدر
  • سیکڑوں فلسطینیوں کی شہادت کے بعد اسرائیل نے زمینی حملے شروع کردیے
  • یورپ سے ملک بدر کیے گئے عراقی تارکین وطن کی تلخ واپسی
  • مدرسے جانیوالی طالبہ کو 5 درندوں نے اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنا ڈالا
  • پی ٹی آئی کا ایک بار پھر احتجاجی سیاسی تحریک شروع کرنے کا اعلان
  • عدالت نے 20 سالہ لڑکی کو زیادتی کا نشانہ بنانے والے شخص کو انتہائی سخت سزا سنا دی 
  •    کرکٹر لڑکیوں کا یوم تشکر پر شہدا کیلئے خراجِ عقیدت
  • مختلف جنسی رحجان رکھنے والوں کے حقوق پر قدغنیں تشویشناک