Islam Times:
2025-07-07@11:00:10 GMT

کوئی کہیں بھی رہے، اسلام تو اسلام ہی رہے گا، جسٹس مسیح

اشاعت کی تاریخ: 22nd, May 2025 GMT

کوئی کہیں بھی رہے، اسلام تو اسلام ہی رہے گا، جسٹس مسیح

سماعت کے تیسرے دن سالیسٹر جنرل تشار مہتا نے حکومت کی جانب سے کہا کہ نئے قانون کے تحت درج فہرست قبائل کے زمرے سے تعلق رکھنے والے مسلمانوں کی زمینوں کو تحفظ فراہم کرنا درست ہے۔ اسلام ٹائمز۔ وقف ترمیمی ایکٹ 2025 کے خلاف دائر درخواستوں پر آج سماعت کے دوران سپریم کورٹ کے جسٹس آگسٹین جارج مسیح نے بہت اہم تبصرہ کیا۔ جسٹس مسیح نے کہا کہ کوئی جہاں بھی رہے اسلام اسلام ہی رہے گا۔ جج نے یہ بات حکومت کی اس دلیل کے جواب میں کہی ہے کہ قبائلی علاقوں میں رہنے والے درج فہرست قبائل کی مسلمانوں اس طرح اسلام کی پیروی نہیں کرتی ہے جس طرح ملک کے باقی حصوں میں کی جاتی ہے۔

بار اینڈ بنچ کی رپورٹ کے مطابق چیف جسٹس بھوشن رام کرشن گوائی اور جسٹس آگسٹین جارج مسیح کی بنچ وقف قانون کیس کی مسلسل تین دنوں سے سماعت کر رہی ہے۔ سماعت کے تیسرے دن سالیسٹر جنرل تشار مہتا نے حکومت کی جانب سے کہا کہ نئے قانون کے تحت درج فہرست قبائل کے زمرے سے تعلق رکھنے والے مسلمانوں کی زمینوں کو تحفظ فراہم کرنا درست ہے۔ انہوں نے کہا کہ قبائلی علاقوں میں رہنے والے درج فہرست ذاتوں کے لوگوں کو آئینی تحفظ حاصل ہے، جو انہیں جائز وجوہات کی بنا پر حاصل ہے۔

ایس جی تشار مہتا نے کہا کہ وقف کا مطلب خدا کے لئے مستقل وقف ہے۔ فرض کریں کہ میں نے اپنی زمین بیچ دی اور معلوم ہوا کہ درج فہرست قبیلے کے کسی فرد کو دھوکہ دیا گیا ہے تو اس صورت میں زمین واپس کی جا سکتی ہے لیکن وقف اٹل ہے۔ انہوں نے کہا کہ مشترکہ پارلیمانی کمیٹی (جے پی سی) کا کہنا ہے کہ ان قبائلی علاقوں میں رہنے والے مسلمان ملک کے باقی حصوں میں رہنے والے مسلمانوں کی طرح اسلام کی پیروی نہیں کرتے، ان کی اپنی ثقافتی شناخت ہے۔

ایس جی تشار مہتا کی اس دلیل پر جسٹس اے جی مسیح نے کہا کہ اسلام اسلام ہی رہے گا، انسان جہاں بھی رہتا ہے مذہب ایک ہی ہے۔ مختلف حصوں میں رہنے والے لوگوں کے ثقافتی طریقوں میں فرق ہو سکتا ہے۔ ایس جی مہتا نے کہا کہ میں صرف یہ پوچھ رہا ہوں کہ کیا یہ قانون پر روک لگانے کی بنیاد ہوسکتی ہے۔ سالیسٹر جنرل نے عدالت کو بتایا کہ قبائلی تنظیموں کا موقف ہے کہ انہیں ہراساں کیا جا رہا ہے اور وقف کے نام پر ان کی زمینوں پر قبضہ کیا جا رہا ہے، کیا یہ مکمل طور پر غیر آئینی نہیں ہے۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: میں رہنے والے تشار مہتا درج فہرست نے کہا کہ مہتا نے

پڑھیں:

کیا اسلام میں انقلاب، آزادی اور غلامی کا کوئی تصور نہیں؟

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

امیر جماعت اسلامی سید منور حسن نے ایک ملاقات میں ہمیں بتایا کہ جاوید احمد غامدی کسی زمانے میں مولانا مودودی کے ’’اسٹائل‘‘ کی نقل کرنے لگے تھے۔ وہ انہی کی طرح کا لباس پہنتے، انہی کی طرح کی شیروانی زیب تن کرتے، ان کی طرح چلتے پھرتے اور اُٹھتے بیٹھتے۔ یہاں تک کہ انہوں نے مولانا مودودی کی طرح پان کھانا بھی شروع کردیا تھا۔ ہم نے یہ سنا تو ہمیں کسی کا یہ شعر یاد آگیا۔

کچھ ساکنانِ شہر نے اہلِ کمال کا
چہرہ بنا لیا قد و قامت کہاں سے لائیں

غامدی صاحب کے پاس نہ مولانا جیسی ’’خدا مرکز‘‘ زندگی تھی، ان کی طرح کا علم تھا نہ حلم تھا، چنانچہ وہ مولانا کے زمانے سے اب تک اسلام کو مسخ کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ غامدی صاحب کا یہ حال ہے تو ان کے شاگردِ خاص خورشید ندیم کا کیا حال ہوگا؟ جو اپنے کالموں میں علم کے نام پر جہالت کے دریا بہاتے رہتے ہیں۔ حد یہ ہے کہ انہوں نے اپنے ایک حالیہ کالم میں یہ تک فرما دیا ہے کہ اسلام میں انقلاب، آزادی، غلامی اور استعمار کا کوئی تصور نہیں۔ ہم نے یہ سارے تصورات سوشلزم یا اشتراکیت سے اُدھار لیے ہوئے ہیں کہ انہوں نے اس سلسلے میں کیا کیا لکھا ہے انہی کے الفاظ میں ملاحظہ فرمایے۔ لکھتے ہیں۔

’’استعمار‘ غلامی‘ آزادی‘ انقلاب‘ امت ِ مسلمہ… اَن گنت اصطلاحیں ہیں‘ ہم جن کے حصار میں جیتے ہیں۔ یہ اصطلاحیں اشتراکی نظامِ فکر کی عطا ہیں جو کم وبیش ڈیڑھ سو سال پہلے وجود میں آیا اور ایک صدی پہلے‘ ہمارے فکری ڈھانچے کا حصہ بنا۔ یہ مستعار اصطلاحیں اْس دور کے فکری فیشن کے تحت مقبول ہو گئیں۔ آج یہ فیشن بدل چکا‘ ہم مگر ابھی تک اسے گلے لگائے ہوئے ہیں۔

چند دن پہلے میں نے کالم میں ایرانی مفکر علی شریعتی کا ذکر کیا۔ ایک ذی علم دوست نے توجہ دلائی کہ شریعتی کے ہاں چند ایسے فکری مسائل تھے جن کے سبب ایران کے اہل ِ علم میں ان کو پذیرائی مل سکی اور نہ انقلاب کے بعد وہ فکری منظر نامے کا حصہ بن سکے۔ شریعتی انقلابی تھے اور فطری طور پر انقلاب کے بعد ان کے افکار کی طرف رجوع کیا جانا چاہیے تھا۔ اگر ایسا نہیں ہوا تو کیوں؟ کیا اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ شریعتی کا بیانیہ بھی دراصل اسی اشتراکی فکر کے زیر ِ اثر پروان چڑھا جو اس عہد کا چلن تھا؟

اس نظامِ فکر کو اس دور میں مسلمانوں کے ایک پڑھے لکھے طبقے نے اختیار کیا اور خود کو اس عالمگیر اشترکی تحریک سے وابستہ کر لیا۔ ان کا خیال تھا کہ ایک تصورِ خدا کے اضافے سے اشتراکیت کو مشرف بہ اسلام کیا جا سکتا ہے۔ یہ طبقہ جدید افکار کا فہم رکھتا تھا مگر اسلامی روایت کا نہیں۔ ایک دوسرا طبقہ بھی اس سے متاثر ہوا جو مسلم تہذیبی فضا میں جیتا تھا اور اس میں رہتے ہوئے مسلمانوں کو دورِ زوال سے نکالنے کا خواہاں تھا۔ اسے یہ ادراک بھی تھا کہ اجتہاد اور تجدید ہی سے اس کا راستہ نکلے گا۔ اس گروہ نے ان اصطلاحوں کو اسلامی لبادہ پہنایا اور اپنی روایت سے امت ِ مسلمہ جیسی بعض اصطلاحوں کو لے کر ایک نیا بیانیہ تشکیل دے دیا۔ یہ طبقہ سرخ انقلاب کے بجائے سبز انقلاب کا داعی بن گیا۔ ان کے اخلاص کا مجھے اعتراف ہے لیکن یہ بے وقت کی راگنی ہے۔ میرا احساس ہے کہ یہ اصطلاحیں ہمارے فکری ارتقا میں رکاوٹ بن رہی ہیں۔ یہ ہمیں ایک ایسے خواب کا اسیر بناتی ہیں جس کی تعبیر دنیا دیکھ چکی۔ لوگوں نے اس کے بعد بھی خواب دیکھے ہیں اور ہمیں ان کے بارے میں غور کرنا چاہیے۔ جس طرح سو برس پہلے ہم نے انقلاب کا خواب ادھار لیا تھا‘ اب نیا خواب ادھار لیں یا خود کوئی خواب دیکھیں۔

مسلم اصلاحی پیراڈائم سماجی ہے نہ کہ سیاسی۔ اس کی فطری مناسبت اس نظامِ فکر کے ساتھ ہے جو سماجی تعمیر کو اساس بناتا ہے۔ اگر ہم یہ بات شعوری سطح پر قبول کر لیں تو پھر ریاست کے بجائے‘ ہماری اصلاحی کاوشوں کا مرکز معاشرہ اور سماجی اقدار بن جائیں۔‘‘ (روزنامہ دنیا، 30 جون 2025)

خورشید ندیم کا اصرار ہے کہ انقلاب کا تصور اسلام پرستوں نے سوشلسٹوں سے اُدھار لے لیا ہے ورنہ اسلام میں انقلاب کا کوئی تصور موجود نہیں۔ دیکھا جائے تو خورشید ندیم کا یہ دعویٰ نری جہالت ہے۔ اس لیے کہ پورا اسلام انقلاب کے تصور سے بھرا ہوا ہے۔ اسلام کا پہلا کلمہ طیب ہے اور اس کلمے سے بڑا انقلابی کلمہ پوری انسانی تاریخ میں موجود نہیں۔ یہ کلمے کا ترجمہ ہے۔ نہیں ہے کوئی الہ سوائے اللہ کے۔ اس فقرے کی انقلابیت یہ ہے کہ اس کا آغاز تمام جھوٹے خدائوں کے انکار سے ہوتا ہے۔ ان میں وہ خدا شامل ہیں جنہیں انسانوں نے خدا کا شریک بنالیا ہے۔ یہ کلمہ اس طرح بھی ہوسکتا تھا۔ اللہ کے سوا کوئی خدا نہیں ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے ایک ایسا کلمہ تخلیق کیا جو پہلے تمام جھوٹے خدائوں کا انکار کرتا ہے۔ ان کے خلاف بغاوت منظم کرتا ہے۔ ایسا اس لیے ہے کہ اس کے بغیر اللہ ربّ العالمین کی خدائی کی اصل شان کا اظہار نہیں ہوسکتا۔ مگر غامدی اور ان کے شاگرد رشید کو اسلام کی یہ انقلابیت آج تک نظر نہیں آئی۔ اسلام میں نماز کو دین کا ستون کہا گیا ہے اور نماز ان معنوں میں ایک انقلابی عبادت ہے کہ وہ غائب خدا کو حاضر و ناظر بنا دیتی ہے۔ رسول اکرمؐ نے فرمایا ہے کہ تم اس طرح نماز پڑھو گویا تم خدا کو دیکھ رہے ہو اور اگر اس طرح نماز نہیں پڑھ سکتے تو کم از کم اس طرح ضرور نماز پڑھو گویا خدا تمہیں دیکھ رہا ہے۔ نماز کی دوسری انقلابیت یہ ہے کہ وہ انسان کے گناہوں کو دھو کر انسان کو پاک صاف کردیتی ہے۔ جہاں تک اسلام کی سیاسی انقلابیت کا تعلق ہے تو اسلام کی سب سے بری سیاسی انقلابیت یہ ہے کہ اس نے ’’بادشاہ مرکز‘‘ سیاست کو ایک سطح پر ’’خدا مرکز‘‘ دوسری سطح پر ’’رسول مرکز‘‘ تیسری سطح پر ’’قرآن مرکز‘‘ چوتھی سطح پر ’’سنت مرکز‘‘ پانچویں سطح پر ’’خلافت مرکز‘‘ اور چھٹی سطح پر ’’تقویٰ مرکز اور علم مرکز‘‘ بنادیا۔ اسلام کی اس ’’انقلابیت‘‘ پر اقبال نے جھوم کر کہا ہے۔

اس سے بڑھ کر اور کیا فکر و عمل کا انقلاب
بادشاہوں کی نہیں اللہ کی ہے یہ زمیں

بیچارے خورشید ندیم صرف یہ دیکھ رہے ہیں کہ عربی میں انقلاب کی اصطلاح موجود نہیں اور وہ یہ نہیں دیکھ رہے کہ مسئلہ اصطلاح کا نہیں ’’تصور‘‘ کا ہے اور بلاشبہ اسلام سراپا انقلاب ہے۔ یہی وجہ اقبال جیسے عظیم شاعر نے اپنی شاعری میں انقلاب کے ترانے گائے ہیں۔ مثلاً ان کا ایک شعر ہے۔

جس میں نہ ہو انقلاب موت ہے وہ زندگی
روحِ امم کی حیات کشمکشِ انقلاب

لیجیے اقبال اپنے اس شعر میں صرف امت مسلمہ کے لیے نہیں تمام امتوں کے لیے انقلاب کو اہم بتا رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ جس قوم کی زندگی میں انقلاب موجود نہیں اس کی زندگی موت کے برابر ہے۔ اس لیے کہ قوموں کی زندگی کشمکش انقلاب سے عبارت ہے۔ اقبال کے لیے انقلاب کا تصور اتنا اہم ہے کہ انہیں موسموں تک میں انقلاب کا عنصر نظر آتا ہے۔ چنانچہ انہوں نے فرمایا ہے۔

کس نے بھر دی موتیوں سے خوشۂ گندم کی جیب
موسموں کو کس نے سکھلائی ہے خوئے انقلاب

لیکن سوال یہ ہے کہ اقبال کے نزدیک انقلاب کے تصور کی اصل کیا ہے؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ اقبال کے نزدیک ’’ندرتِ فکر و عمل‘‘ انقلاب کی روح ہے چنانچہ اقبال نے فرمایا ہے۔

ندرتِ فکر و عمل کیا شے ہے؟ ذوقِ انقلاب
ندرتِ فکر و عمل کیا شے ہے؟ ملّت کا شباب

تاہم اقبال کا ’’انقلاب‘‘ پہلے فرد کے باطن میں پیدا ہوتا ہے پھر وہ ظاہر میں آشکار ہوتا ہے۔ چنانچہ اقبال نے کہا ہے۔

تری خودی میں اگر انقلاب ہو پیدا
عجب نہیں ہے ترے چار سُو بدل جائیں

لیکن جس طرح خورشید ندیم کے استاد غامدی صاحب نے قرآن و سنت اور اقبال سے کچھ نہیں سیکھا اسی طرح خورشید ندیم نے بھی قرآن و سنت اور خود اقبال سے کچھ نہیں سیکھا، حالانکہ اقبال تو خورشید ندیم کے گھر کی چیز ہیں۔

جہاں تک انفرادی دائرے میں اسلام کی انقلابیت کا تعلق ہے تو اس کا اندازہ اسلام میں موجود نفس کے سات درجوں سے کیا جاسکتا ہے۔ انسانی نفس کا پہلا درجہ نفسِ امارہ ہے، یہ نفس تاریکی میں گھرا ہوا ہے اور ہر مسلمان کا فرض ہے کہ وہ نفسِ امارہ کی مزاحمت کرے تا کہ نفس کا ارتقا ہوسکے اس میں انقلاب برپا ہوسکے، مسلمان جب نفسِ امارہ کی مزاحمت کرتا ہے تو اسے دوسرے مرحلے میں ’’نفسِ لوامہ‘‘ حاصل ہوتا ہے۔ یہ نفس وہ ہے جس کو تھوڑی سی روشنی فراہم ہوجاتی ہے اور وہ نیکی اور بدی کو پہچاننے لگتا ہے اور وہ نیکی پر خوش ہوتا ہے اور بدی پر انسان کو ملامت میں مبتلا کرتا ہے۔ انسان نفس کی مزید مزاحمت کرتا ہے تو اسے نفسِ مطمئنہ حاصل ہوتا ہے۔ نفسِ مطمئنہ کا ارتقا ہوتا ہے تو وہ نفسِ ملہمہ میں تبدیل ہوجاتا ہے۔ یہ ایک ایسا نفس ہوتا ہے جس پر خدا اچھے خیالات الہام کرنے لگتا ہے۔ نفسِ ملہمہ کا ارتقا ہوتا تو وہ نفسِ راضیہ میں ڈھل جاتا ہے۔ یہ وہ نفس ہے جو خدا کی رضا میں راضی رہنا سیکھ جاتا ہے۔ نفسِ راضیہ کا ارتقا ہوتا ہے یا اس میں مزید انقلاب برپا ہوتا ہے تو وہ نفسِ مرضیہ کی صورت اختیار کرلیتا ہے۔ یہ وہ نفس ہے جس سے اس کا ربّ راضی ہو جاتا ہے۔ نفس کا آخری مرتبہ نفسِ مطلقہ ہے جو صرف پیغمبروں کو حاصل ہوتا ہے۔ اس لیے اس کے وظیفے، مرتبے یا Status کو ہم نہیں جان سکتے۔ انسانی نفس میں ایسا انقلاب برپا کرنے والے اسلام کے بارے میں خورشید ندیم فرما رہے ہیں کہ اس کے پاس انقلاب کا تصور موجود نہیں۔

خورشید ندیم کا دعویٰ ہے کہ مسلمانوں نے آزادی کا تصور بھی اشتراکیوں سے ادھار لیا ہے اس بات کی تردید کے لیے اقبال کا ایک شعر ہی کافی ہے۔ اقبال نے کہا ہے۔

بندگی میں گھٹ کے رہ جاتی ہے اک جوئے کم آب
اور آزادی میں بحرِ بیکراں ہے زندگی

اہلِ عرب جب تک کفر اور شرک کے غلام تھے حقیر تھے اور جب انہیں اسلام کی آزادی حاصل ہوئی تو انہوں نے وقت کی سپر پاورز قیصر و کسریٰ کو منہ کے بل گرا دیا۔ خورشید ندیم کا اصرار ہے کہ مسلمانوں نے غلامی کا تصور بھی غیروں سے ادھار لیا ہے۔ اس سلسلے میں اقبال کے دو اشعار عرض ہیں۔

غلامی کیا ہے ذوقِ حُسن و زیبائی سے محرومی
جسے زیبا کہیں آزاد بندے ہے وہی زیبا
بھروسہ کر نہیں سکتے غلاموں کی بصیرت پر
کہ دنیا میں فقط مردانِ حُر کی آنکھ ہے بینا

خورشید ندیم کا کیا خیال ہے غلامی کا یہ تصور اقبال نے اسلام سے سیکھایا سوشلزم سے؟

خورشید ندیم کا خیال ہے کہ مسلمانوں کا فکری پیرا ڈائم یا تناظر سیاسی نہیں سماجی ہے۔ یہ بھی خورشید ندیم کی جہالت ہے۔ اس لیے کہ اسلام کا فکری کینوس ہمہ جہت ہے۔ وہ ایک سطح پر مابعد الطبیعیاتی ہے، دوسری سطح پر اخلاقی ہے، تیسری سطح پر علمی ہے، چوتھی سطح پر سیاسی ہے، پانچویں سطح پر نفسیاتی اور جذباتی ہے۔ اسلام انسان کی پوری انفرادیت اور پوری اجتماعیت میں انقلاب برپا کرنے کا داعی تھا ہے اور رہے گا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اسلام ایک مکمل ضابطہ ٔ حیات ہے۔

متعلقہ مضامین

  • 200 یونٹ والی بدمعاشی ختم کریں، نعمان اعجاز بجلی کی قیمتوں پر برہم
  • جسٹس سردار سرفراز ڈوگر 8 جولائی کو بطور چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ عہدے کا حلف اٹھائیں گے
  • جسٹس سردار سرفراز ڈوگر 8 جولائی کو بطور چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ عہدے کا حلف اٹھائیں گے
  • کیا اسلام میں انقلاب، آزادی اور غلامی کا کوئی تصور نہیں؟
  • حکومت مضبوط، کوئی رکن کہیں نہیں جا رہا، گورنر کچھ نہیں بگاڑ سکتے، علی امین گنڈاپور
  • اسلام آباد ہائیکورٹ میں نیا محاذ کھل گیا
  • 190 ملین پاؤنڈ کیس سننے والے بینچ میں شامل جج کی چھٹیوں کا شیڈول جاری
  • ہمارا کوئی رکن کہیں نہیں جارہا، بجٹ پاس نہ کرتے تو ہماری حکومت ختم ہوجاتی، علی امین
  •  حکومت مضبوط ہے، کوئی رکن کہیں نہیں جارہا، علی امین گنڈاپور
  • ہمارا کوئی رکن کہیں نہیں جارہا، بجٹ پاس نہ کرتے تو ہماری حکومت ختم ہوجاتی، علی امین گنڈا پور