Daily Ausaf:
2025-09-18@19:10:03 GMT

ایک پُرامن قوم، ایک زوردار انتباہ

اشاعت کی تاریخ: 23rd, May 2025 GMT

ایک وقت تھا جب ’’کشتی‘‘ کا فن نوجوانوں کے دلوں میں خاص مقام رکھتا تھا۔ یہ صرف ایک مشغلہ نہیں تھا، بلکہ ایک باوقار مشق تھی۔طاقت، ضبط نفس اور عزت کا نشان۔ جوان مرد پوری لگن اور فخر سے ورزش کرتے، تاکہ اکھاڑے میں اترنے کے قابل بن سکیں۔ گلیوں میں ان کے قدموں کی دھمک گونجتی، چھاتیاں تنائے، جوانی کے غرور اور بے آزمودہ طاقت کے اعتماد کے ساتھ وہ چہل قدمی کرتے۔ اکثر جب دو ایسے جوشیلے جوان آمنے سامنے آ جاتے، تو ان کی خاموش نظریں ہی بزرگوں کو خبردار کرنے کے لیے کافی ہوتیں، جو فوراً انہیں اکھاڑے کی طرف بھیج دیتے ،جہاں نہ باتوں سے، نہ دعوؤں سے، بلکہ عمل اور ہمت سے طاقت کا فیصلہ ہوتا۔
ان مقابلوں میں ماہر اور زور آور پہلوان، اپنے مدِ مقابل کو بھرپور اور صاف داؤ سے زمین پر پٹخ دیتا۔ فتح ملتی تو ڈھول بجتے، فتح کے گیت گائے جاتے، اور وہ مٹی کا سچا ہیرو کہلاتا۔ شکست خوردہ اگرچہ شرمندہ ہوتا، مگر شکست کو کھیل کا حصہ سمجھتے ہوئے قبول کر لیتا ۔ دل میں شاید اگلے مقابلے کا منصوبہ باندھ کر۔ لیکن کسی بھی کونے میں کی گئی سازش یا چپکے سے کی گئی چغل خوری، فتح یاب کی عزت پر داغ نہیں لگا سکتی تھی، کیونکہ اس نے اپنی فتح کھلے میدان میں، سب کی نظروں کے سامنے حاصل کی ہوتی۔
اور اب، جو کچھ کبھی اکھاڑے کی کہانی ہوا کرتی تھی، وہی مناظر بین الاقوامی سطح پر دوبارہ جنم لے چکے ہیں۔ حالیہ دنوں میں بھارت خود کو شکست خوردہ پہلوان کی حیثیت سے دیکھ رہا ہے، پاکستان نے اُسے ایک ایسے انداز میں پچھاڑا ہے جو نہ صرف واضح ہے بلکہ ناقابل تردید بھی۔ میدان جنگ میں بے عزت ہونے کے بعد، اس کے پاس کوئی باوقار راستہ نہیں بچتا۔ مگر شکست کو عزت سے قبول کرنے کی بجائے، اس نے چپکے سے سازشوں کا راستہ اختیار کیا ہے۔ جیسے وہ ہارا ہوا پہلوان جو شکست کی تپش نہیں سہہ سکتا، ویسے ہی بھارت نے کھلے میدان سے منہ موڑ لیا ہے اور اندھیروں کی آغوش میں پناہ لے لی ہے۔
پاکستان ہمیشہ تحمل اور وقار سے کام لیتا آیا ہے۔ یہ ایک پُرامن ملک ہے، جو صرف اپنے لیے نہیں بلکہ پورے خطے کے لیے امن اور ترقی چاہتا ہے۔ ہمارے ارادے تصادم پر نہیں بلکہ تعاون پر مبنی ہوتے ہیں۔ لیکن ہم اپنی حفاظت میں کبھی غافل نہیں رہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ ہم نے کبھی پہل نہیں کی، لیکن جب دشمن حد پار کرتا ہے اور ہماری برداشت کا امتحان لیتا ہے، تو ہم نے ہمیشہ بروقت اور بھرپور جواب دیا ہے۔ ہم اپنی مرضی سے تلوار نہیں اٹھاتے، لیکن اگر ہمارے خلاف اٹھے تو اسے چلانے میں کبھی ہچکچاہٹ نہیں دکھاتے۔
بدقسمتی سے، بھارت کے حکمران ایک عرصے سے ایک خطرناک روایت پر چل رہے ہیں: جب بھی انتخابات کا وقت آتا ہے، وہ پاکستان کو اپنی سیاسی اسٹیج کا مرکزی کردار بنا لیتے ہیں — جھوٹے ڈرامے، من گھڑت کہانیاں، اور جذبات بھڑکانے والے بیانیے گڑھ کر ووٹ حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ پرانا حربہ نہ صرف پورے خطے کے ماحول کو زہرآلود کر چکا ہے، بلکہ سنجیدہ قیادت کے تصور کا مذاق بھی اڑاتا ہے۔ اب وقت آ گیا ہے کہ وہ اس غیر ذمہ دارانہ روش کو ترک کریں اور اچھے ہمسایوں کی طرح برتاؤ کریں، نہ کہ مسلسل اشتعال انگیزی کا ذریعہ بنیں۔ انہیں یہ سمجھنا ہوگا کہ اب پاکستان کے ہاتھ بندھے نہیں رہے — اور اگر انہوں نے دوبارہ اشتعال انگیزی کی، تو جواب پہلے سے کہیں زیادہ فیصلہ کن ہوگا۔ بزرگوں نے کہا ہے کہ ’’عاقل کے لیے اشارہ ہی کافی ہوتا ہے‘‘ مگر لگتا ہے کہ بھارتی قیادت کی مجلس سے دانائی کب کی رخصت ہو چکی ہے۔
براہِ راست مقابلے میں شکست کے بعد، بھارت اب پس پردہ وار کرنا چاہتا ہے ، پاکستان دشمن عناصر سے پرانے تعلقات پھر سے جوڑ کر، بلوچستان میں فتنہ گری پھیلا کر، اور دہشت گردی کے زہر کو ہمارے جسم کی رگوں میں انجیکٹ کر کے۔ یہ کسی شریف مخالف کے اعمال نہیں، بلکہ اُس شکست خوردہ کی چالیں ہیں جس میں نہ ہمت باقی بچی ہے اور نہ سچائی کا سامنا کرنے کی جرات۔
پاکستان کو اس فتح کے لمحے میں بھی اپنی ہوشیاری کو کم نہیں ہونے دینا چاہیے۔ درحقیقت، اب اور بھی زیادہ چوکنا ہونے کی ضرورت ہے۔ ہمیں سمجھنا ہوگا کہ شکست خوردہ دشمن سب سے زیادہ خطرناک ہو سکتا ہے، کیونکہ وہ اپنی ہار کی کڑواہٹ دل میں لے کر جیتنے والے کی کمزوری کے لمحے کا منتظر رہتا ہے۔ بھارت، جو زخم خوردہ اور شرمندہ ہے، اپنی تذلیل کو جلد نہیں بھولے گا۔ اس کا غرور مجروح ہو چکا ہے، اور اب وہ زخمی درندے کی طرح خطے میں گھومے گا، چھوٹے اور بزدلانہ حملے کرنے کے موقع کی تلاش میں۔
ہمیں اسے یہ موقع نہیں دینا چاہیے۔
ہماری عزم کو فولاد جیسا ہونا چاہیے، ہماری ترقیاتی منصوبہ بندی محفوظ رہنی چاہیے، اور ہماری قومی یکجہتی برقرار رہنی چاہیے۔ آئندہ مرحلے میں ہمیں غافل نہیں ہونا چاہیے، کیونکہ اگرچہ جنگ ایک صورت میں ختم ہو چکی ہے، مگر یہ دوسری صورت میں جاری ہے، کم نمایاں، مگر اتنی ہی خطرناک۔ ہمیں فتح کی خوشی سے آگے دیکھنا ہوگا، اور یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ ابھی ایک طویل سفر باقی ہے، جو آزمائشوں سے بھرپور ہے ، ہمارے حوصلے، ہماری قوت برداشت اور ہماری دانائی کا مسلسل امتحان لیتا ہوا۔
اکھاڑے کی کہانی ہمیں آج بھی ایک لازوال سبق دیتی ہے: فتح کے بعد ہوشیاری ضروری ہے، اور طاقت کو دور اندیشی سے متوازن رکھنا لازم ہے۔ جب تک ہم ہوشیار اور متحد رہیں گے، شکست خوردہ سازشیں کریں گے، مگر کامیاب نہ ہو سکیں گے۔ فتح کے ڈھول صرف میدان کی جیت کے لیے نہ بجیں، بلکہ ان طوفانوں کا سامنا کرنے والی ثابت قدمی کے لیے بھی بجیں جو اس کے بعد آتے ہیں۔

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: کے لیے فتح کے کے بعد

پڑھیں:

مجھے کرینہ کپور سے ملایا جاتا ہے: سارہ عمیر

کراچی(شوبز ڈیسک)پاکستانی ٹیلی ویژن کی خوبصورت اور باصلاحیت اداکارہ سارہ عمیر نے حال ہی میں اپنی کرینہ کپور سے مشابہت سے متعلق گفتگو کی۔

سارہ عمیر نے کم عمری میں شوبز کی دنیا میں قدم رکھا، ان کا پہلا ڈرامہ 2008ء میں پی ٹی وی پر نشر ہوا تھا، اس کے بعد انہوں نے متعدد ڈراموں میں اپنی اداکاری کے جوہر دکھائے، سارہ عمیر نجی ٹی وی کے مشہور ریئلٹی شو دیسی کڑیاں کی فاتح بھی رہ چکی ہیں، حال ہی میں سارہ عمیر نجی ٹی وی کے ایک ریئلٹی شو کے پانچویں ہفتے میں ایلیمنیٹ ہوگئیں ہیں۔

انہوں نے ایک شو میں گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ لوگ مجھے کرینہ کپور جیسا سمجھتے ہیں۔

View this post on Instagram

A post shared by DIVA Magazine Pakistan (@divamagazinepakistan)

سارہ عمیر نے کہا کہ مجھے کرینہ کپور سے مشابہت کی باتیں اس وقت سے سننے کو مل رہی ہیں جب میں اس فیلڈ میں بھی نہیں تھی، کہتے ہیں دنیا میں 6 لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کے چہرے ملتے جلتے ہیں، میں سمجھتی ہوں کہ میں وہ دوسری انسان ہوں جو کرینہ کی ہم شکل ہے۔

تاہم سوشل میڈیا صارفین کی رائے اس بارے میں مختلف رہی، زیادہ تر صارفین نے کہا کہ سارہ عمیر کرینہ کپور سے نہیں ملتیں لیکن وہ اپنی جگہ نہایت حسین ہیں، ایک صارف نے لکھا کہ آپ بالکل کرینہ کپور جیسی نہیں لگتیں لیکن بہت خوبصورت ہیں، ایک اور نے کہا کہ آپ کے چہرے کی بناوٹ کرینہ سے ملتی ہے، مگر آپ زیادہ خوبصورت لگتی ہیں۔

Post Views: 6

متعلقہ مضامین

  • غزہ؛ زوردار دھماکے میں 4 اسرائیلی فوجی ہلاک اور 3 زخمی
  • متنازع شو پر عائشہ عمر کی وضاحت سامنے آگئی
  • اسٹریٹیجک دفاعی معاہدہ: پاک سعودی رفاقت کا اگلا اور نیا باب
  • جمہوریت کو درپیش چیلنجز
  • پاکستان میں گلیشیئرز تیزی سے ختم ہو رہے ہیں: چیئرمین این ڈی ایم اے کا انتباہ
  • اسرائیل امریکا کا نہیں بلکہ امریکا اسرائیل کا پراڈکٹ ہے: خواجہ آصف
  • مئی 2025: وہ زخم جو اب بھی بھارت کو پریشان کرتے ہیں
  • پی ٹی آئی قیادت جانتی ہے کہ عمران خان کے بیان عاصم منیر کے نہیں بلکہ ریاست کے کیخلاف ہیں: کوثر کاظمی 
  • انقلاب – مشن نور
  • مجھے کرینہ کپور سے ملایا جاتا ہے: سارہ عمیر