Daily Ausaf:
2025-07-09@10:54:41 GMT

ایک پُرامن قوم، ایک زوردار انتباہ

اشاعت کی تاریخ: 23rd, May 2025 GMT

ایک وقت تھا جب ’’کشتی‘‘ کا فن نوجوانوں کے دلوں میں خاص مقام رکھتا تھا۔ یہ صرف ایک مشغلہ نہیں تھا، بلکہ ایک باوقار مشق تھی۔طاقت، ضبط نفس اور عزت کا نشان۔ جوان مرد پوری لگن اور فخر سے ورزش کرتے، تاکہ اکھاڑے میں اترنے کے قابل بن سکیں۔ گلیوں میں ان کے قدموں کی دھمک گونجتی، چھاتیاں تنائے، جوانی کے غرور اور بے آزمودہ طاقت کے اعتماد کے ساتھ وہ چہل قدمی کرتے۔ اکثر جب دو ایسے جوشیلے جوان آمنے سامنے آ جاتے، تو ان کی خاموش نظریں ہی بزرگوں کو خبردار کرنے کے لیے کافی ہوتیں، جو فوراً انہیں اکھاڑے کی طرف بھیج دیتے ،جہاں نہ باتوں سے، نہ دعوؤں سے، بلکہ عمل اور ہمت سے طاقت کا فیصلہ ہوتا۔
ان مقابلوں میں ماہر اور زور آور پہلوان، اپنے مدِ مقابل کو بھرپور اور صاف داؤ سے زمین پر پٹخ دیتا۔ فتح ملتی تو ڈھول بجتے، فتح کے گیت گائے جاتے، اور وہ مٹی کا سچا ہیرو کہلاتا۔ شکست خوردہ اگرچہ شرمندہ ہوتا، مگر شکست کو کھیل کا حصہ سمجھتے ہوئے قبول کر لیتا ۔ دل میں شاید اگلے مقابلے کا منصوبہ باندھ کر۔ لیکن کسی بھی کونے میں کی گئی سازش یا چپکے سے کی گئی چغل خوری، فتح یاب کی عزت پر داغ نہیں لگا سکتی تھی، کیونکہ اس نے اپنی فتح کھلے میدان میں، سب کی نظروں کے سامنے حاصل کی ہوتی۔
اور اب، جو کچھ کبھی اکھاڑے کی کہانی ہوا کرتی تھی، وہی مناظر بین الاقوامی سطح پر دوبارہ جنم لے چکے ہیں۔ حالیہ دنوں میں بھارت خود کو شکست خوردہ پہلوان کی حیثیت سے دیکھ رہا ہے، پاکستان نے اُسے ایک ایسے انداز میں پچھاڑا ہے جو نہ صرف واضح ہے بلکہ ناقابل تردید بھی۔ میدان جنگ میں بے عزت ہونے کے بعد، اس کے پاس کوئی باوقار راستہ نہیں بچتا۔ مگر شکست کو عزت سے قبول کرنے کی بجائے، اس نے چپکے سے سازشوں کا راستہ اختیار کیا ہے۔ جیسے وہ ہارا ہوا پہلوان جو شکست کی تپش نہیں سہہ سکتا، ویسے ہی بھارت نے کھلے میدان سے منہ موڑ لیا ہے اور اندھیروں کی آغوش میں پناہ لے لی ہے۔
پاکستان ہمیشہ تحمل اور وقار سے کام لیتا آیا ہے۔ یہ ایک پُرامن ملک ہے، جو صرف اپنے لیے نہیں بلکہ پورے خطے کے لیے امن اور ترقی چاہتا ہے۔ ہمارے ارادے تصادم پر نہیں بلکہ تعاون پر مبنی ہوتے ہیں۔ لیکن ہم اپنی حفاظت میں کبھی غافل نہیں رہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ ہم نے کبھی پہل نہیں کی، لیکن جب دشمن حد پار کرتا ہے اور ہماری برداشت کا امتحان لیتا ہے، تو ہم نے ہمیشہ بروقت اور بھرپور جواب دیا ہے۔ ہم اپنی مرضی سے تلوار نہیں اٹھاتے، لیکن اگر ہمارے خلاف اٹھے تو اسے چلانے میں کبھی ہچکچاہٹ نہیں دکھاتے۔
بدقسمتی سے، بھارت کے حکمران ایک عرصے سے ایک خطرناک روایت پر چل رہے ہیں: جب بھی انتخابات کا وقت آتا ہے، وہ پاکستان کو اپنی سیاسی اسٹیج کا مرکزی کردار بنا لیتے ہیں — جھوٹے ڈرامے، من گھڑت کہانیاں، اور جذبات بھڑکانے والے بیانیے گڑھ کر ووٹ حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ پرانا حربہ نہ صرف پورے خطے کے ماحول کو زہرآلود کر چکا ہے، بلکہ سنجیدہ قیادت کے تصور کا مذاق بھی اڑاتا ہے۔ اب وقت آ گیا ہے کہ وہ اس غیر ذمہ دارانہ روش کو ترک کریں اور اچھے ہمسایوں کی طرح برتاؤ کریں، نہ کہ مسلسل اشتعال انگیزی کا ذریعہ بنیں۔ انہیں یہ سمجھنا ہوگا کہ اب پاکستان کے ہاتھ بندھے نہیں رہے — اور اگر انہوں نے دوبارہ اشتعال انگیزی کی، تو جواب پہلے سے کہیں زیادہ فیصلہ کن ہوگا۔ بزرگوں نے کہا ہے کہ ’’عاقل کے لیے اشارہ ہی کافی ہوتا ہے‘‘ مگر لگتا ہے کہ بھارتی قیادت کی مجلس سے دانائی کب کی رخصت ہو چکی ہے۔
براہِ راست مقابلے میں شکست کے بعد، بھارت اب پس پردہ وار کرنا چاہتا ہے ، پاکستان دشمن عناصر سے پرانے تعلقات پھر سے جوڑ کر، بلوچستان میں فتنہ گری پھیلا کر، اور دہشت گردی کے زہر کو ہمارے جسم کی رگوں میں انجیکٹ کر کے۔ یہ کسی شریف مخالف کے اعمال نہیں، بلکہ اُس شکست خوردہ کی چالیں ہیں جس میں نہ ہمت باقی بچی ہے اور نہ سچائی کا سامنا کرنے کی جرات۔
پاکستان کو اس فتح کے لمحے میں بھی اپنی ہوشیاری کو کم نہیں ہونے دینا چاہیے۔ درحقیقت، اب اور بھی زیادہ چوکنا ہونے کی ضرورت ہے۔ ہمیں سمجھنا ہوگا کہ شکست خوردہ دشمن سب سے زیادہ خطرناک ہو سکتا ہے، کیونکہ وہ اپنی ہار کی کڑواہٹ دل میں لے کر جیتنے والے کی کمزوری کے لمحے کا منتظر رہتا ہے۔ بھارت، جو زخم خوردہ اور شرمندہ ہے، اپنی تذلیل کو جلد نہیں بھولے گا۔ اس کا غرور مجروح ہو چکا ہے، اور اب وہ زخمی درندے کی طرح خطے میں گھومے گا، چھوٹے اور بزدلانہ حملے کرنے کے موقع کی تلاش میں۔
ہمیں اسے یہ موقع نہیں دینا چاہیے۔
ہماری عزم کو فولاد جیسا ہونا چاہیے، ہماری ترقیاتی منصوبہ بندی محفوظ رہنی چاہیے، اور ہماری قومی یکجہتی برقرار رہنی چاہیے۔ آئندہ مرحلے میں ہمیں غافل نہیں ہونا چاہیے، کیونکہ اگرچہ جنگ ایک صورت میں ختم ہو چکی ہے، مگر یہ دوسری صورت میں جاری ہے، کم نمایاں، مگر اتنی ہی خطرناک۔ ہمیں فتح کی خوشی سے آگے دیکھنا ہوگا، اور یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ ابھی ایک طویل سفر باقی ہے، جو آزمائشوں سے بھرپور ہے ، ہمارے حوصلے، ہماری قوت برداشت اور ہماری دانائی کا مسلسل امتحان لیتا ہوا۔
اکھاڑے کی کہانی ہمیں آج بھی ایک لازوال سبق دیتی ہے: فتح کے بعد ہوشیاری ضروری ہے، اور طاقت کو دور اندیشی سے متوازن رکھنا لازم ہے۔ جب تک ہم ہوشیار اور متحد رہیں گے، شکست خوردہ سازشیں کریں گے، مگر کامیاب نہ ہو سکیں گے۔ فتح کے ڈھول صرف میدان کی جیت کے لیے نہ بجیں، بلکہ ان طوفانوں کا سامنا کرنے والی ثابت قدمی کے لیے بھی بجیں جو اس کے بعد آتے ہیں۔

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: کے لیے فتح کے کے بعد

پڑھیں:

شکست خوردہ نیتن یاہو  کی ٹرمپ سے ملاقات اور خطے کا مستقبل

اسلام ٹائمز: ٹرمپ کا ایک چہرہ یہ بھی ہے کہ وہ بار بار ایران سے مذاکرات کی بات کرتا ہے اور کل ہی بیان دیا کہ وہ کسی مناسب وقت پر ایران سے پابندیاں ہٹانا چاہتا ہے۔ ٹرمپ تو امریکہ میں بھی قابل اعتبار نہیں ہے، اس کی جنگ کی بات پر پریشان نہیں ہونا چاہیئے اور امن کی پیشکش پر خوش نہیں ہونا چاہیے۔ ویسے امریکہ جیسے بظاہر بڑے ملک کے لیے کتنی شرمناک بات ہے کہ دنیا میں اس کے صدر کے بارے میں یہ تاثر ہے۔ دوسری جانب اسرائیلی فوج نے اعلان کیا ہے کہ منگل کو شمالی غزہ میں لڑائی کے دوران اس کے پانچ فوجی ہلاک ہوگئے۔ جی اور ایک اسرائیلی فوجیوں کو قید کرنے کی بڑی کارروائی بظاہر ناکام بھی ہوئی ہے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ وہ اصل کام جاری ہے جس کی زبان اسرائیل اور امریکہ کو سمجھ آتی ہے۔ تحریر: ڈاکٹر ندیم عباس

مشرق وسطیٰ میں بڑی تیزی سے حالات تبدیل ہو رہے ہیں۔ جنگ کے بارے میں تو ویسے ہی کہا جاتا ہے کہ ایک جھولے کی طرح ہے، جس میں کبھی ایک پلڑا اوپر چلا جاتا ہے اور کبھی دوسرا پلڑا بلند ہو جاتا ہے۔ امریکی اور اسرائیلی ہمیشہ اس وقت جنگ شروع کرتے ہیں، جب انہیں یقین ہوتا ہے کہ ان کا نقصان برائے نام ہوگا اور وہ جنگ جیت جائیں گے۔ پہلی بار ایسا ہوا کہ اسرائیلی پلاننگ بری طرح ناکام ہوئی اور پورا اسرائیل حملوں کی زد پر تھا۔ اسلامی جمہوریہ ایران نے پہلے بار جنگ کی گرمی کو اسرائیلیوں کے گھروں تک پہنچایا۔ اس سے پہلے تو اسرائیلی شہری دوربینیں لے کر غزہ پر ہوتی بمباری کو بلند مقامات سے انجوائے کرتے تھے۔ انہیں معصوموں کی آہ و بکا سے سکون ملتا تھا، یہ لاشوں کو دیکھ کر انجوائے کرتے تھے اور بھوک و قحط مسلط کرکے اسے اپنے دفاع کا نام دیتے تھے۔ سکول، عبادتگاہیں، ہسپتال اور امدادی مراکز پر حملے کیے جاتے تھے اور اس پر شرمندہ بھی نہیں ہوا جاتا تھا۔

امریکی اسلحہ نے عصر حاضر کا سب سے بڑا قتل عام  ممکن بنایا۔ جب ایرانی میزائل اسرائیل کی ملٹری عمارات کو نشانہ بنانے لگے تو آہ بکا شروع کر دی کہ سویلین پر حملے ہو رہے ہیں۔ ظلم، دہرا معیار اور مغربی میڈیا کی انسانیت دیشمنی دیکھیے کہ اسرائیل کے فوجی اہداف کے ساتھ موجود کچھ سول عمارتوں کے شیشے ٹوٹ جانے پر واویلا کیا جا رہا ہے، مگر یہی میڈیا ہسپتالوں میں سینکڑوں بچوں کی شہادت پر ٹس سے مس نہیں ہوتا۔ اسرائیلی حملوں میں ایک ہزار کے قریب ایرانی شہید ہوئے، جس میں بڑی تعداد میں بچے اور خواتین شامل تھیں۔ ان حملوں پر کوئی سوال نہیں اٹھایا جاتا، مگر اسرائیل کے ان کے بقول تیس چالیس لوگ مرے، ان کو اتنا ہائی لائیٹ کیا جاتا ہے کہ جیسے بہت بڑا قتل عام ہو۔ یہ دہرا معیار اور یہ منافقت مغرب کے اصل چہرے سے نقاب ہٹا رہی ہے۔

اسرائیلی وزیراعظم تمام تر قتل عام کے باوجود نہ غزہ سے قیدی چھڑا سکا اور نہ ہی مزاحمت کو ختم کرسکا ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران کے میزائلوں نے اس کی رہی سہی کسر نکال دی ہے۔ دونوں محاذوں پر شکست کے بعد اب اسرائیلی وزیراعظم نے ٹرمپ سے کھانے پر اور اس کے بعد بھی ملاقات کی ہے۔ ان ملاقاتوں میں ماہرین کے مطابق تین بڑے مسئلے  زیر غور آئے ہوں گے۔ پہلا، غزہ میں جنگ کا خاتمہ دوسرا، ایران کا معاملہ اور تیسرا، نام نہاد ابراہیم اکارڈ کا مسئلہ۔ اگرچہ یہ تینوں موضوعات الگ الگ ہیں، لیکن آپس میں کسی نہ کسی طرح جڑے ہوئے ہیں۔ ٹرمپ اور اسرائیلی وزیراعظم کی اعلانیہ پالیسی ہے کہ غزہ سے فلسطینیوں کو نکال دیا جائے اور یہ علاقہ پہلے امریکہ اور پھر بذریعہ امریکہ اسرائیل کے حوالے کر دیا جائے۔ غزہ کی مزاحمت نے ان کے منصوبوں پر پانی پھیر دیا ہے۔

دو سال ہونے کو ہیں، مگر یہ اپنے انسانیت دشمن منصوبوں میں کامیاب نہیں ہوئے۔ ان کی سب سے بڑی کامیابی شام میں اسرائیل و امریکہ نواز حکومت کا قیام ہے۔ کل ملا کر انہیں یہی بچا ہے، یہ کب تک ایسا ہی رہتا ہے، یہ وقت بتائے گا۔ ابھی تک جولانی حکومت امریکہ اور اسرائیل کی توقع سے زیادہ ان کی خدمت گزار واقع ہوئی ہے۔ اس وقت سب سے بڑا خطرہ یہ ہے کہ فلسطینیوں کو غزہ سے بے دخل کرنے کے منصوبے سے ہے، جس  کا آغاز کیا جائے گا۔ اس منصوبے کو بڑے خوشنما نعرے کا لباس پہنایا جائے گا اور اصل مقصد یہ ہوگا کہ کسی نا کسی طرح فلسطینیوں کو غزہ سے نکالا جائے۔ اس کے کچھ خدوخال نظر آنے لگے ہیں۔ اسرائیلی وزیر دفاع کا کہنا ہے کہ انھوں نے اپنی فوج کو ہدایت کی ہے کہ وہ غزہ سے تمام فلسطینیوں کو علاقے کے جنوب میں واقع ایک کیمپ میں منتقل کرنے کا منصوبہ تیار کریں۔ اس کیمپ سے ان کی مراد رفع کراسنگ کے پاس مصر کی سرحد پر سارے اہل غزہ کو جمع کرنا ہے۔

ابھی دنیا کو یہ دکھایا جائے گا کہ ہم پورے علاقے سے دہشتگروں کو ختم کریں گے پھر تعمیر نو کر کے لوگوں کو گھروں میں بسائیں گے۔یہ سب ڈرامہ اور فراڈ ہو گا۔ یہ اسرائیل کی تاریخ ہے کہ اس نے جب بھی کسی گاوں یا شہر سے فلسطینیوں کو نکالا ہے پھر کبھی ان کی واپسی کے حق کو تسلیم نہیں کیا۔ آپ اردن، شام، لبنان اور دنیا بھر میں موجود فلسطینی مہاجرین کو دیکھ لیں۔ آج اسرائیل کسی بھی صورت میں ان کے گھر واپسی کے حق کو تسلیم نہیں کرتا۔ انسانی حقوق کے کچھ انسانیت پسند اس پر احتجاج کر رہے ہیں۔ مائیکل سفرڈ کے مطابق یہ غزہ کی پٹی کے جنوبی سرے پر آبادی کی منتقلی کے بارے میں ہے، تاکہ پٹی سے باہر جلاوطنی کے لیے حالات سازگار کیے جا سکیں۔ انہوں نے اس اسرائیلی اعلان کی مذمت کرتے ہوئے اسے انسانیت کے خلاف ایک جرم قرار دیا ہے۔

اس سے قبل اقوام متحدہ نے بھی متنبہ کیا تھا کہ مقبوضہ علاقے کی شہری آبادی کی ملک بدری یا جبری منتقلی بین الاقوامی انسانی قوانین کے تحت سختی سے ممنوع ہے اور نسل کُشی کے مترادف ہے۔ نیتن یاہو اور ٹرمپ کی ملاقاتیں دراصل خطے میں تبدیل ہوتی دفاعی صورتحال میں اسرائیل کے کردار کو بچانا ہے۔ اس کو سمجھنا مشکل نہیں اگر امریکہ اسرائیل کی مدد کو نہ آتا تو اسرائیل کتنے دن سروائیو کرسکتا تھا؟ جس طرح سے اسرائیلی ملک چھوڑ کر بھاگ رہے تھے، یوں لگتا تھا کہ اسرائیل ویسے ہی خالی ہو جانا ہے۔ اسرائیل کو خطے کے ایجنٹ ممالک سے تمام تر مدد کے باوجود اسرائیل کی ساخت برباد ہو گئی ہے۔اب کوئی بڑی منصوبہ بندی کی جا رہی ہے۔ پہلے کے تمام دفاعی نظام تو ناکام ہوچکے ہیں اور اس سے بڑھ کر امریکہ کے پاس بھی کچھ موجود نہیں، جس سے وہ اسرائیل کی مدد کرے۔

ٹرمپ کا ایک چہرہ یہ بھی ہے کہ وہ بار بار ایران سے مذاکرات کی بات کرتا ہے اور کل ہی بیان دیا کہ وہ کسی مناسب وقت پر ایران سے پابندیاں ہٹانا چاہتا ہے۔ ٹرمپ تو امریکہ میں بھی قابل اعتبار نہیں ہے، اس کی جنگ کی بات پر پریشان نہیں ہونا چاہیئے اور امن کی پیشکش پر خوش نہیں ہونا چاہیے۔ ویسے امریکہ جیسے بظاہر بڑے ملک کے لیے کتنی شرمناک بات ہے کہ دنیا میں اس کے صدر کے بارے میں یہ تاثر ہے۔ دوسری جانب اسرائیلی فوج نے اعلان کیا ہے کہ منگل کو شمالی غزہ میں لڑائی کے دوران اس کے پانچ فوجی ہلاک ہوگئے۔ جی اور ایک اسرائیلی فوجیوں کو قید کرنے کی بڑی کارروائی بظاہر ناکام بھی ہوئی ہے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ وہ اصل کام جاری ہے جس کی زبان اسرائیل اور امریکہ کو سمجھ آتی ہے۔

متعلقہ مضامین

  • مولانا مسعود ازہر ‘حافظ سعید اور بلاول زرداری
  • شکست خوردہ نیتن یاہو  کی ٹرمپ سے ملاقات اور خطے کا مستقبل
  • پاک بھارت جنگ بندی میں امریکی کردار سے انکار  پر بھارت جھوٹا قرار
  • یمن کو شکست دینا آسان نہیں
  • برہان وانی ایک سوچ اور تحریک ہے، آزادی کی اذان جلد بلند ہوگی، مشعال ملک کا ویڈیو پیغام
  • ماحولیاتی تباہ کاریوں کو اب قدرتی نہیں، بلکہ انسان ساختہ جرائم کہیں گے، شیری رحمان
  • پاکستان میں ہائبرڈ ماڈل مکمل فعال، طاقتور حلقے پس پردہ نہیں رہے
  • خبر دینے والے کی ذمے داری ہے اپنی خبر کی، عامر الیاس رانا
  • بہن کینسر سے لڑ رہی ہے، میرے لیے یہ صرف میچ نہیں تھا۔۔۔۔ بھارتی بولر کی کہانی نے سب کو رلادیا
  • پہلی بار انتظامات کے لحاظ سے بہترین ہی نہیں بلکہ پُرامن ترین محرم منعقد ہوا: مریم نواز