Express News:
2025-11-03@17:56:15 GMT

روشن اور تاریک پہلو (پہلا حصہ)

اشاعت کی تاریخ: 25th, May 2025 GMT

ہر چیز کے دو پہلو ہوتے ہیں، ایک روشن دوسرا تاریک۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کن پہلوؤں سے کون کون لوگ فائدے اٹھاتے ہیں۔ اس کا سیدھا سا جواب یہ ہے کہ جس کی جیسی سوچ یا خیالات ہوں گے وہ اپنی ہی پسندیدہ چیزوں کا انتخاب کرے گا۔ مثبت اور منفی سوچ تعلیم و تربیت اورگھر کے ماحول سے ملتی ہے۔

والدین اورگھر کے بڑے بچوں کو جو بتائیں گے اور فوائد و نقصان سے آگاہ کریں، بچے وہی سیکھیں گے لیکن آج کے دور میں تربیت کا فقدان ہے اسی وجہ سے چھوٹے بڑے بچے، طلبا وطالبات برائیوں کی طرف راغب ہیں جھوٹ بولنا، نشہ کرنا، روپے پیسے میں بد دیانتی روزکا معمول بن چکا ہے۔

سوشل میڈیا گویا یہ ایک تربیت گاہ اور معلومات کا بیش بہا خزانہ ہے، اب یہ طالب پر منحصر ہے کہ وہ اپنے لیا کیا پسند کرتا ہے، برباد ہونا چاہتا ہے تو تباہ ہونے کے ذرایع اورگُر سکھائے جاتے ہیں اور اگر اپنے معاشرے بلکہ پوری دنیا میں نام اور دولت حاصل کرنے کا خواہش مند ہے تو یہ آرزو بھی محنت اور کوشش کے بل پر آسانی یا مشکل سے مل ہی جاتی ہے۔

آج کے نوجوان دن رات سوشل میڈیا پر فلمیں، ڈرامے اور موسیقی دیکھنے میں گزار دیتے ہیں، انھیں اپنے مستقبل کی فکر ہے اور نہ بوڑھے والدین کے دکھ بیماری کا احساس ہے، وہ دونوں جوانی کے دنوں سے آج تک محنت کرنے میں مصروف ہیں تب کہیں بچوں کی تعلیم، علاج معالجہ اورگھر کا خرچ چلاتے ہیں لیکن بے فکر اور بگڑی ہوئی اولاد تفریح کے مزے لوٹتی ہے اور بات بات پر اپنے والدین سے اونچی آواز میں بات کرتی ہے اور اپنی فرمائشیں پوری کرانے کے لیے ان کی جمع پونجی محض اکڑ اور دھونس کے ساتھ ہتھیا لیتی ہے۔

اس کاہل اور ناکردہ قوم کے پاس موبائل میں کارڈ لوڈ کرانے کے پیسے بھی نہیں ہوتے ہیں، نہ دوستوں کے ساتھ گھومنے پھرنے کے، لہٰذا بے چارے والدین اپنی نالائق اورگستاخ اولاد کو اپنی ضرورتوں کے پیسے دینے پر مجبور ہو جاتے ہیں، انکار کی صورت میں جوان اولاد اپنے بوڑھے باپ سے ہاتھا پائی کرنے کے لیے تیار ہو جاتی ہے اور بے شمار ماں باپ ایسے بھی ہیں جن کی اولادیں باقاعدہ ڈنڈوں اور جوتوں سے ان کے سر اور جسم کو نشانہ بناتے ہیں۔ 

ماں باپ اپنے بچاؤکی فریاد کرتے ہیں لیکن پڑوسی پرائی آگ میں نہیں کودتے ہیں اور اگر کسی کا ضمیر جاگ گیا تو وہ ضرور بیچ بچاؤ اور لعنت ملامت کرنے پہنچ جاتے ہیں اس قسم کے واقعات گاؤں، دیہات میں زیادہ رونما ہوتے ہیں اولاد کا ظلم، دھکم پیل، لڑائی جھگڑے پر ہی ختم نہیں ہوتا ہے بلکہ یہ ظالم اور بدنصیب بچے اپنے والدین کو قتل کرنے سے بھی باز نہیں آتے ہیں۔

سوشل میڈیا پر ’’پب جی‘‘ جیسے گیم بھی لڑکے لڑکیوں کو گمراہ کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں ایک اور کھیل بلیو وہیل گیم بھی پاکستان میں نوجوان خصوصاً ٹین ایجر کے لیے نہایت خطرناک ہے، اس کھیل میں ٹاسک دیے جاتے ہیں، مثلاً رات کو چھت پر جانا مقررہ وقت پر ایڈمنسٹریٹر کو بتانا ہوتا ہے۔

آج تک ڈھائی سو لوگوں کی اموات ہو چکی ہیں۔سوشل میڈیا پر پسند کی شادیوں کا بھی رواج بہت تیزی سے بڑھ رہا ہے باہر کے ملکوں سے دلہنیں آ رہی ہیں اور پھر پاکستانی دولہا سے شادی ہوتی ہے اور پھر دلہنیں یا تو یہاں کی ہی ہو جاتی ہیں یا پھر اپنے دولہا کو اپنے ساتھ لے جاتی ہیں اس طرح دولہے میاں کی قسمت کھل جاتی ہے۔

شہریت بھی مل جاتی ہے اور دولت، پیسہ، گھر مکان غرض اس ملک کی جو بھی سہولیات اپنے شہریوں کو حاصل ہوتی ہیں ان سب سے نیا نویلا جوڑا استفادہ کرتا ہے لیکن بات یہ ہے نیت میں کھوٹ نہیں ہونا چاہیے اگر بددیانتی ہے تب لٹیا ڈوب جاتی ہے مع دولہا کے۔ابھی حال ہی میں ایک ماں سمان جیسی دلہن بھی دیار غیر سے تشریف لائی تھیں، دولہا نے انھیں دیکھ کر نہ صرف یہ کہ شادی کرنے سے انکار کیا بلکہ گھر سے ہی بھاگ گیا، تو اس طرح خوشی و غم، کامیابی و ناکامی کے قصے جنم لیتے ہیں ان حالات میں زندگیاں برباد بھی ہوتی ہیں اور آباد بھی۔

بس ذرا سی عقل، سمجھ داری اور شرافت کی ضرورت ہوتی ہے، جو انسان بوتا ہے وہی اسے کاٹنا پڑتا ہے۔اب آتے ہیں نجی چینلز کی طرف۔ ان چینلز پر جو ڈرامے اور ٹاک شوز دکھائے جاتے ہیں انھیں کسی بھی صورت میں معاشرے کے افراد کے لیے سود مند نہیں کہہ سکتے، زیادہ تر ان ڈراموں میں ساس بہو کی لڑائی، جھگڑا اور دشمنی کو پروان چڑھتا ہوا دیکھنا ڈرامے کے ناظرین کی مجبوری بن جاتا ہے کہ انھیں ایک دو قسط دیکھ کر چسکا لگ چکا ہوتا ہے اور پھر فارغ اوقات کا استعمال، ظاہر ہے پاکستان ایک خوشحال ملک ہے، تمام قرضوں سے پاک کسی شخص پر معاشی ذمے داریاں نہ ہونے کے برابر ہیں تو یہ بے چارے کریں تو کیا کریں؟ لہٰذا ہر طرح کے ڈرامے دیکھنا تفریح طبع کے لیے بہترین ثابت ہوتے ہیں۔

یہ فارغ حضرات بھی اپنے ملک کے حکمرانوں کی طرح اپنی زندگیاں قرض کے بل بوتے پر گزارتے ہیں، لیکن اس کے ساتھ سوشل میڈیا اور ٹی وی کے پروگرام دیکھنے کے بھی شوقین ہوتے ہیں۔ حال ہی میں ہم نے بھی کئی ڈراموں کی چند قسطیں بے دلی سے دیکھ ڈالیں، مکار ساسیں جو اپنی بہوؤں اور اپنے گھر کی خوشیوں اور جان کی دشمن بہو تو گویا ان کا تازہ تازہ شکار ہوتی ہے، معصوم اور گونگی بہوئیں مار کھاتی ہیں، بھوکی رہتی ہیں، آنے جانے حتیٰ کہ والدین سے ملنے پر بھی پابندی مگر مجال ہے زبان پر اف بھی آجائے۔

کہاں ملتی ہیں ایسی بہوئیں؟ حقیقی زندگی میں بھی کچھ بے چاری شامت ماری ایسے گھرانوں میں بدنصیبی سے پھنس جاتی ہیں اور اپنی بے وقوفی و کم عقلی کے باعث درد ناک موت کا شکار ہو جاتی ہیں، ساس، بہوؤں، شوہر بیوی اور ساس نندوں کے ظلم و ستم کے قصے طشت ازبام میڈیا کے توسط سے بہت جلد ہو جاتے ہیں۔

ٹی وی چینلز ان قصوں، کہانیوں پر نمک مرچ لگا کر خوب پبلک کے سامنے پیش کرتے ہیں- ہر دفعہ ایک نئی کہانی، ساس، نندیں، سوکن قتل کرنے میں بڑی مہارت اور شوق رکھتی ہیں، معمولی سی بات پر جان لینے کے منصوبے بن جاتے ہیں، قانون کا خوف نہ جیل جانے اور بدنامی کا ڈر۔ اپنی موت اور اللہ کے حضور حاضر ہونے کا خیال تو دور دور تک نہیں جاتا ہے، بالکل جانوروں بلکہ درندوں جیسے کرداروں کا انتخاب، خطا کرداروں کی نہیں بلکہ کہانی نویس اور ہدایت کار کی ہے جو عقل سے پیدل ہیں، انسانی فطرت اور جبلت سے ناواقف، اپنے انجام سے بے خبر۔

ساس نندوں کے ظلم و ستم ایک طرف تو دوسری طرف اپنے بہنوئی پر ڈورے ڈالنے کا عمل، ان حالات میں اپنی اور والدین کی عزت و سکون کی ذرہ برابر پرواہ نہیں، اپنی سگی بہن کا گھر اجاڑنے کا یہی مطلب ہے ناں کہ پوری دنیا میں کوئی دوسرا شخص میسر نہیں، دونوں طرف سے شدید محبت اور بڑھتی ہوئی پینگیں دکھائی جاتی ہیں۔کبھی ان ڈرامہ سازوں نے یہ بھی سوچا کہ ان کے اس طرز سے معاشرے پر کیا اثر پڑے گا؟

بہت سے گھرانوں کی کنواری لڑکیاں اپنے بہنوئی کو دل دینے اور بہن کی خوشیوں بھری زندگی میں آگ لگانے کی ذرہ برابر پرواہ نہیں کریں گی چونکہ وہ اس قسم کے ڈرامے دیکھ کر ٹرینڈ ہو چکی ہیں، نیکی، سچائی، شرافت جیسی دولت سے محروم ہو گئی ہیں، جہاں یہ لڑکیاں قصور وار ہیں وہاں یہ ہرجائی مرد بھی جو اپنی نیک اور باوفا بیوی کو دھوکا اس حد تک دے رہے ہیں کہ نوبت طلاق تک بھی آ سکتی ہے اور اکثر یہ بھی دیکھا گیا ہے یہ بدچلن مرد عورت اس نکتے سے بے خبر ہو کر کہ ایک مرد کی دو سگی بہنوں سے شادی ناممکن اور حرام ہے۔   (جاری ہے)

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: سوشل میڈیا ہیں اور ا جاتی ہیں جاتے ہیں ہوتے ہیں جاتی ہے ہے اور کے لیے

پڑھیں:

طالبان دہشت گردوں کی سہولت کاری کر رہے ہیں، پاکستان اپنی سیکیورٹی خود یقینی بنائے گا،  ڈی جی آئی ایس پی آر

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

راولپنڈی: ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے کہا ہے کہ پاکستان کی سلامتی و استحکام کی ذمہ داری اور ضمانت مسلح افواج ہیں اور یہ ضمانت کسی بیرونی دارالحکومت یا کابل کو نہیں دی جا سکتی، دہشت گردی، منشیات کی کشتکاری اور غیر ریاستی عناصر کے ساتھ مل کر کام کرنے والے گروپس کے خلاف کارروائیاں جاری رہیں گی۔

سینئر صحافیوں کو بریفنگ  دیتے ہوئے  جنرل احمد شریف نے  کہا کہ پاکستان نے کبھی طالبان کی آمد پر جشن نہیں منایا  اور واضح کیا کہ ریاستی اداروں کا رویہ واضح ہے،  ٹی ٹی پی، بی ایل اے اور دیگر دہشت گرد تنظیموں کے خلاف آپریشنز جاری ہیں، ملک کی سکیورٹی کا نظم و نسق فوج کے کنٹرول اور ذمہ داری میں ہے اور اس ضمانت کا تقاضا کابل سے نہیں کیا جا سکتا۔

ڈرونز کے حوالے سے سوال کے جواب میں ڈی جی آئی ایس پی آر نے دعویٰ کیا کہ پاکستان کا امریکا کے ساتھ کوئی معاہدہ موجود نہیں ہے جس کے تحت ڈرونز پاکستان سے افغانستان جا رہے ہوں، اور وزارت اطلاعات نے بھی اس بارے میں وضاحتیں جاری کی ہیں،  طالبان رجیم کی جانب سے ڈرون آپریشن کے حوالے سے کوئی باقاعدہ شکایت موصول نہیں ہوئی۔

جنرل نے استنبول میں طالبان کو واضح ہدایات دینے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ دہشت گردی کو قابو میں رکھنا اور ان کے خلاف کارروائی کرنا افغان فریق کی ذمہ داری ہے،جو عناصر ہمارے خلاف آپریشنوں کے دوران بھاگ کر افغانستان چلے گئے، انہیں واپس کر کے آئین و قانون کے مطابق نمٹایا جائے تو بہتر ہے۔

ڈی جی آئی ایس پی آر نے علاقائی مسائل پر بھی تفصیل بتاتے ہوئے کہا کہ اصل مسئلہ دہشت گردی اور جرائم پیشہ عناصر کا مشترکہ گٹھ جوڑ ہے۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ منشیات کی کاشت اور اسمگلنگ سے حاصل ہونے والی آمدنی جنگجوؤں، وار لارڈز اور بعض افغان گروہوں کو منتقل ہوتی ہے، جس نے خطے میں بدامنی کو تقویت دی ہے۔

سرحدی امور پر انہوں نے بتایا کہ پاکستان افغانستان سرحد تقریباً 2,600 کلومیٹر طویل ہے اور ہر 25 تا 40 کلو میٹر پر چوکیوں کی موجودگی کے باوجود پہاڑی اور دریا ئی علاقوں کی وجہ سے ہر جگہ چوکی قائم کرنا ممکن نہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ افغان سرحدی گارڈز بعض اوقات دہشت گردوں کو سرحد پار کروانے کے لیے فائرنگ میں معاونت کرتے ہیں، جس کا پاکستان جواب دیتا ہے۔

فوجی عہدوں کے قیام یا دیگر انتظامی امور کے بارے میں انہوں نے واضح کیا کہ اس نوعیت کے فیصلے حکومت کا اختیار ہیں، فوج نے وادی تیرہ میں براہِ راست آپریشن کا دعویٰ نہیں کیا اور اگر کوئی آپریشن ہوا تو اسے شفاف انداز میں بتایا جائے گا؛ تاہم انٹلی جنس بیسڈ کارروائیوں میں کافی جانیں ضائع ہوئی ہیں۔

وہاج فاروقی

متعلقہ مضامین

  • طالبان دہشت گردوں کی سہولت کاری کر رہے ہیں، پاکستان اپنی سیکیورٹی خود یقینی بنائے گا،  ڈی جی آئی ایس پی آر
  • یومِ اقبال پر عام تعطیل؟ اہم خبر آگئی
  • نئی ٹی وی سیریز ’رابن ہڈ‘ : تاریخی حقیقت اور ذاتی پہلو کے امتزاج کے ساتھ پیش
  • میری دعا ہے کہ کراچی اپنی پرانی عظمت کو بحال کر سکے: احسن اقبال
  • مالدیپ نئی نسل کیلئے تمباکو نوشی پر مکمل پابندی لگانے والا دنیا کا پہلا ملک بن گیا
  • ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کیلیے پاکستانی امیدوں کا چراغ پھر روشن ہونے لگا
  • روشن معیشت رعایتی بجلی پیکج کا اعلان قابل تحسین ہے،حیدرآباد چیمبر
  • ایشوریا رائے ایسا کیا کرتی ہیں کہ 52سال کی عمر میں بھی ان کے حسن کا چرچا برقرار ہے؟
  • سندھ جاب پورٹل پر جونیئر کلرکس کی آسامیوں کا پہلا اشتہار جاری
  • ڈیم ڈیم ڈیماکریسی (پہلا حصہ)