پاک بھارت حالیہ جنگ میں اسرائیل تو کھل کر بھارت کی حمایت کر رہا تھا مگر حیرت کی بات یہ ہے کہ افغانستان بھی بھارت کی خفیہ حمایت کر رہا تھا۔ یہ بڑی عجیب بات ہے کہ طالبان بھارت سے دوستی کے خواہاں نظر آتے ہیں۔ انھوں نے اپنے ایک سرکردہ رہنما ملا ابراہیم صدرکو بھارت کے دورے پر بھیج دیا ہے جو بھارتی حکومت سے طالبان کے تعلقات کو استوار کرنے کے لیے مذاکرات کر رہے ہیں مگر ان کے دورے اور بھارتی حکمرانوں سے ان کی گفتگو کو طالبان حکومت صیغہ راز میں رکھ رہی ہے۔
تاہم آج کل کوئی خبر مخفی نہیں رہ سکتی، وہ کسی نہ کسی طرح اجاگر ہو جاتی ہے۔ اس رہنما کے بھارت روانگی سے قبل بھارتی سیکریٹری خارجہ وکرم مسری نے طالبان کے وزیر خارجہ ملا متقی سے دبئی میں ملاقات کی تھی۔ اس وقت بھارت کا طالبان سے دوستی کرنے کے لیے پہل کرنا بالکل سمجھ میں آنے والی بات ہے کہ وہ پاکستان کو نقصان پہنچانے کے لیے طالبان کو استعمال کرنا چاہتا ہے۔
لگتا ہے طالبان بھارت کی پاکستان کے خلاف درخواست کو شرف قبولیت عطا کر دیں گے کیونکہ وہ پاکستان سے بہت ناراض لگتے ہیں مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر افغانستان کا مستقبل کیا ہے؟ کیا وہ اسی طرح اپنی زمین کو غیروں کے حوالے کرکے اپنے سر بدنامی لیتے رہیں گے اور اپنے ملک کو داؤ پر لگاتے رہیں گے۔
دنیا ترقی کرکے کہاں سے کہاں پہنچ گئی ہے مگر افغانستان اب بھی اٹھارہویں صدی والا ملک بنا ہوا ہے۔ کیا طالبان پاکستان کے احسانات کو اتنی جلدی بھول گئے کہ صرف پاکستان ہی ان کو افغانستان میں اقتدار دلانے کے لیے اکیلا ان کے ساتھ کھڑا تھا۔ طالبان کو خود پتا ہے کہ پاکستان کو ان کی حمایت کرنے کا کیا خمیازہ بھگتنا پڑا ہے۔
اس جنگ میں جوکہ اس کی اپنی نہیں تھی، ناقابل تلافی مالی اور جانی نقصان اٹھانا پڑا تھا۔ پاکستان چاہتا تو اس تمام آلام سے بچ بھی سکتا تھا وہ طالبان کی حمایت کنارہ کشی بھی اختیار کرسکتا تھا کیونکہ امریکا ہی نہیں تمام اتحادی ممالک کا اس پر دباؤ تھا مگر پاکستان نے کسی مرحلے پر بھی طالبان سے بے زاری یا دوری اختیار نہیں کی۔
حتیٰ کہ آخر وقت تک طالبان کا ساتھ دیا اور انھیں اقتدارکی منزل تک پہنچا کر دم لیا۔ کیا اب اس احسان کا صلہ یہ دیا جا رہا ہے کہ وہی بھارت جو نہ صرف ہمارا بلکہ ان کا بھی دشمن تھا وہ اسی کی گود میں بیٹھنے کے لیے بے چین و بے قرار ہو رہے ہیں۔ یہ کیسی وفاداری اور دوستی ہے کہ پاکستان نے طالبان کو منزل تک پہنچانے کے بعد بھی قربانیاں دیں، امریکا سخت ناراض ہو گیا۔
پاکستان کی مالی امداد بند کر دی گئی اور پاکستان کو اپنے دوستوں کی فہرست سے نکال دیا گیا۔ اس کے باوجود پاکستان نے طالبان کے لیے حالات سازگار بنانے کے لیے اپنے دوست ممالک جن میں سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور چین شامل ہیں سے انھیں امداد دلوائی جس سے افغانستان میں طالبان حکومت کی مالی پریشانیاں دور ہوئیں اور ترقیاتی و تعمیراتی کاموں کا آغاز ہوا۔
جب کہ ابتدائی دنوں میں بھارت مسلسل طالبان حکومت کو ناکام بنانے کے لیے اپنی کوششیں کرتا رہا۔ پاکستان نے بھارت کی افغان مخالف جارحیت کا بھی مقابلہ کیا اور طالبان کو امن کا ماحول بہم پہنچانے کی حتیٰ المقدور کوششیں کیں۔ اب جب کہ طالبان پاکستان مخالفت پر آمادہ ہیں اور بھارت سے پینگیں بڑھا رہے ہیں تب بھی پاکستانی حکومت ان کی مخالفت پر آمادہ نہیں ہے نہ ہی او آئی سی ممالک سے طالبان کی شکایت کر رہی ہے بلکہ ان کی بھلائی چاہتی ہے۔
طالبان خود بھی اپنے گریبان میں جھانکیں کہ دنیا کے کسی بھی ملک نے اب تک ان کی حکومت کو تسلیم نہیں کیا ہے آخر کیوں؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ اب بھی نئے زمانے کے حالات میں خود کو نہیں ڈھال رہے ہیں۔
اسلام خواتین کو تعلیم حاصل کرنے سے نہیں روکتا مگر خواتین کی تعلیم پر وہاں پابندی کیوں؟ اکثر مسلم ممالک بھیان کے دقیانوسی رویے کی وجہ سے اب تک ان سے دور ہیں ۔ اسے بدقسمتی ہی سمجھیے کہ ماضی کی تمام افغان حکومتیں پاکستان کو اپنا دشمن سمجھتی رہیں پھر بھارت افغانستان کا دوست اور پاکستان دشمن گردانا جاتا تھا۔
افغانستان نے تو پاکستان کے قیام کو بھی تسلیم نہیں کیا تھا اس کے باوجود پاکستان نے افغانستان کو اپنا دشمن نہیں سمجھا۔ جب روس نے افغانستان پر قبضہ کیا وہاں سے لاکھوں مہاجرین پاکستان میں پناہ گزیں ہوئے جن کا حکومت پاکستان نے پورا پورا خیال رکھا۔ پاکستان میں اب بھی لاکھوں مہاجرین آباد ہیں البتہ اب طالبان حکومت کے قیام کے بعد حکومت پاکستان نے کئی لاکھ مہاجرین کو ان کے وطن واپس روانہ کر دیا ہے تاکہ وہ وہاں اپنے ملک کی ترقی میں حصہ لے سکیں۔
اگر طالبان اس بات پر ناراض ہیں کہ افغان مہاجرین کو کیوں واپس بھیجا جا رہا ہے تو یہ ان کی حکومت کی پائیداری اور استحکام کو ظاہر کرنے کے لیے کیا جا رہا ہے۔ اس سے دنیا میں ان کا امیج بڑھے گا کہ وہ افغانستان میں پیر جما چکے ہیں اور اب بہتر پوزیشن میں آگئے ہیں اور اسی لیے دوسرے ممالک میں اپنے پناہ گزین افغانوں کو ملک میں واپس آنے کی دعوت دے رہے ہیں۔
بہرحال پاکستان کبھی بھی افغان بھائیوں کے خلاف نہیں تھا، البتہ افغانستان کی ہر حکومت نے بھارت کا ساتھ ہی نہیں دیا بلکہ اسے پاکستان میں دہشت گردی کرنے کی کھلی چھوٹ دی تاہم طالبان سے یہ امید نہیں تھی۔ اب اگر طالبان کا یہی موقف ہے تو پھر پاکستان کیسے دہشت گردی سے پاک ہوگا۔
ٹی ٹی پی کی دہشت گردی نے دراصل بلوچستان میں موجود بھارتی ایجنٹوں کی ہمت بڑھائی ہے اور اب وہ ٹرینوں کے مسافروں تک کو یرغمال بنانے لگے ہیں اور اسکول کی بسوں میں بچوں کا قتل عام کرنے لگے ہیں۔ پاکستان کی بار بار درخواست پر بھی طالبان ٹی ٹی پی کا ساتھ چھوڑنے کے لیے تیار نہیں ہیں اور اب تو انھوں نے بھارت سے ہاتھ ملا کر ثابت کر دیا ہے کہ وہ کسی احسان کو نہیں مانتے اور پاکستان کو اپنی سلامتی کے لیے خود ہی اقدامات کرنا ہوں گے۔
اس وقت چین وہ واحد ملک ہے جو افغانستان کے بگڑے ہوئے انفرا اسٹرکچر کو سدھارنے میں لگا ہوا ہے۔ چین نے طالبان وزیر خارجہ کو پیکنگ طلب کرکے بات کی ہے شاید چین کی بات طالبان کی سمجھ میں آجائے اور وہ اپنا قبلہ درست کرلیں۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: طالبان حکومت پاکستان کو پاکستان نے نے طالبان طالبان کو بھارت کی ہے کہ وہ ہیں اور رہے ہیں کے لیے
پڑھیں:
ایک فاشسٹ خواب کا جنازہ
کہتے ہیں زمین پر ظلم کا چراغ جتنا بھی روشن ہو وقت کی آندھی اسے بجھا کر رہتی ہے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ جو قومیں تکبر کی چھت پر چڑھ کر دوسروں کی قبریں کھودتی ہیں وہ بالآخر خود انہی قبروں میں دفن کر دی جاتی ہیں۔ وقت کا پہیہ آہستہ ہی سہی مگر ضرور گھومتا ہے اور اس کے نیچے آنے والا پھر کبھی اٹھ نہیں پاتا۔ اور آج وہی پہیہ نریندر مودی کی چھاتی پر چکر کاٹ رہا ہے جو کل تک پاکستان کو تنہا کرنے کے خواب دیکھا کرتا تھا۔نریندر مودی وہ شخص جو سفارت کاری کو گجراتی بازاروں کی دکان داری سمجھتا تھا وہی آج عالمی سیاست کے میدان میں تنہا، بیبس اور ذلت زدہ کھڑا ہے۔ جو کل تک پاکستان کو منگتا کہہ کر اپنی انا کی تسکین کرتا تھا آج خود دروازے کھٹکھٹا رہا ہے مگر جواب میں خاموشی ہے، بینیازی ہے۔مودی حکومت کی خارجہ پالیسی کا اگر کوئی خلاصہ نکالا جائے تو وہ یہی ہو گا جس کی خارجہ پالیسی محض ریلیوں، جلوسوں اور سوشل میڈیا مہمات پر قائم ہو، وہ دنیا کے منجھے ہوئے سفارتی کھیل میں کب تک ٹک سکتا ہے؟ مودی کی خارجہ حکمت عملی دراصل ہندوتوا کے تعصبات، اکڑ اور داخلی انتہا پسندی کی ایک خارجی شاخ تھی۔ یہی وجہ ہے کہ جب آپریشن سندور کا آغاز کیا گیا تو دنیا نے اس پر کوئی توجہ نہ دی۔ امریکہ خاموش رہا، یورپ غیر جانب دار رہا اور مشرق وسطی نے نظریں پھیر لیں۔یہی تو لمحہِ فکریہ ہے!
کل تک جو مودی اب کی بار، ٹرمپ سرکار کے نعرے لگوا رہا تھا، وہی ٹرمپ اس جنگی ماحول میں ثالثی کی بات کر کے پاکستان کو برابری کا فریق تسلیم کر رہا تھا۔ بھارتی سفارتی دائرہ محض شور و غوغا تک محدود ہو چکا تھا اور اس شور میں بھارت کی اصل کمزوری چیخ چیخ کر بول رہی تھی۔آپریشن سندور نہ صرف عسکری لحاظ سے بھارت کی ایک حماقت تھی بلکہ سفارتی لحاظ سے بھی ایک کھلا انکشاف تھا کہ بھارت اب وہ عالمی وزن نہیں رکھتا جو وہ ظاہر کرتا رہا۔جیسے ہی یہ آپریشن شروع ہوا مودی سرکار کو امید تھی کہ امریکہ، فرانس، جاپان، اسرائیل، آسٹریلیا اور دیگر اتحادی اس کی حمایت کریں گے، مگر دنیا نے صرف خاموشی اختیار کی۔بھارتی پارلیمان میں جب کانگریس رہنما پرمود تیواری نے یہ حقیقت برملا کہی کہ آپریشن سندور کے دوران ایک بھی ملک ایسا نہیں تھا جس نے بھارت کی کھل کر حمایت کی ہو تو اس کا مطلب یہ تھا کہ بھارت کی سفارتی مشینری مکمل طور پر ناکام ہو چکی ہے۔پاکستان کے خلاف پھیلایا جانے والا پراپیگنڈہ، وہ عالمی میڈیا جسے خریدا گیا اور وہ تجزیہ نگار جو بھارتی بیانیے کو رٹتے تھے سب خاموش ہو گئے۔ کیونکہ جب زمینی حقیقتیں بدلتی ہیں تو جھوٹے بیانیے خودبخود دفن ہو جاتے ہیں۔یہ وہی پاکستان ہے جسے مودی اکیلا، کمزور اور دہشت گردوں کا پشت پناہ کہتا تھا۔ لیکن اسی پاکستان نے آپریشن سندور کے مقابلے میں آپریشن بنیان المرصوص کے دوران جو سفارتی چالیں چلیں وہ نہایت شاندار اور سلیقے سے بھری ہوئی تھیں۔ کوئی شور نہیں، کوئی شوریدہ سری نہیں صرف حقیقت، توازن اور وقار۔چین اور ترکی نے پاکستان کے موقف کی بھرپور تائید کی۔
ایران، سعودی عرب اور قطر جیسے ممالک نے درمیانی زبان اپنائی مگر بھارت کے بیانیے کی طرف نہیں جھکے۔اقوامِ متحدہ، او آئی سی اور دیگر ادارے پاکستان کے موقف کو سنجیدگی سے سننے پر مجبور ہوئے۔ یہ سب مودی کے لیے ناقابلِ برداشت تھا۔ مودی کو یقین تھا کہ اس کے ہنگامے دنیا کو متاثر کریں گے لیکن دنیا اب نعرے نہیں سنتی وہ کارکردگی دیکھتی ہے اور کارکردگی صرف پاکستان کے پاس تھی۔نریندر مودی اب تک درجنوں ممالک کے دورے کر چکا ہے۔ ان دوروں میں لاکھوں روپے خرچ کیے گئے، ریڈ کارپٹ بچھائے گئے، ہار پہنائے گئے مگر حاصل کچھ بھی نہیں۔پرمود تیواری کا جملہ ایک تاریخی نوحہ ہے۔مودی صرف غیرملکی دوروں میں مصروف رہے، لیکن ان سے بھارت کو کوئی ٹھوس سفارتی فائدہ نہیں ہوا۔یہ وہ سچ ہے جو بھارتی عوام کو روزِ روشن کی طرح نظر آ رہا ہے۔ خالی جھاڑو، بیکار سلوگنز اور کھوکھلی تقریریں بھارت کے عوام اب سوال پوچھ رہے ہیں۔دنیا خاموش ہے مگر دیکھ رہی ہے۔ کشمیر میں بربریت، دلی کے مسلمانوں پر ظلم گا کشی کے نام پر ہجومی تشدد، دلتوں کے ساتھ ظلم اور عیسائی مشنریوں کے خلاف حملے یہ سب بھارت کی اصل تصویر ہیں۔آج کوئی ملک بھارت کو سیکولر ریاست نہیں سمجھتا۔ آج بھارت جمہوریت کا نہیں، انتہا پسندی کا استعارہ بن چکا ہے۔اور دنیا ہندوتوا کے اس جنون سے خوفزدہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کوئی بھارت کے ساتھ کھل کر نہیں کھڑا ہوتا۔تاریخ گواہ ہے کہ پاکستان کو کبھی تنہا نہیں کیا جا سکا۔
1965ء ہو یا 1971ء کارگل ہو یا موجودہ دور پاکستان نے ہمیشہ عالمی برادری کے ضمیر کو جھنجھوڑا ہے۔ ہاں کبھی دیر ہوئی مگر حق سر اٹھا کر سامنے آیا۔مودی اگر تاریخ سے سبق لیتا تو وہ جان لیتا کہ پاکستان صرف زمین کا ٹکڑا نہیں یہ ایک نظریہ ہے، ایک بیدار قوم کا نام ہے جو صبر بھی جانتی ہے اور وار بھی۔قدرت کے فیصلے جب ہوتے ہیں تو قومیں پلک جھپکنے میں بے نقاب ہو جاتی ہیں۔ مودی جس نے پاکستان کے لئے گڑھا کھودا تھا آج اسی میں پھنسا ہوا تڑپ رہا ہے۔اسے نہ امریکہ بچا سکا، نہ اسرائیل، نہ اس کے یار عرب۔ پاکستان جسے کمزور سمجھا گیا آج وقار، تدبر اور اخلاص کے ساتھ دنیا کے سامنے کھڑا ہے۔یہ محض ایک سیاسی کامیابی نہیں،بلکہ اخلاقی اور سفارتی برتری ہے جو صرف اسی قوم کو ملتی ہے جو اپنی خودی، اپنی قربانی اور اپنے اصولوں پر یقین رکھتی ہو۔